بارہ امام

ائمہ اثنا عشریہ یا بارہ امام شیعہ فرقوں بارہ امامی، علوی اور اہل تشیع کے نزدیک پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سیاسی اور روحانی جانشین ہیں ۔[1] شیعی نظریئے کے مطابق یہ بارہ حضرات بنی نوع انسان کے لیے ناصرف مثالی، عدل و انصاف کے ساتھ حکومت کرنے کا حق و اہلیت رکھتے ہیں بلکہ وہ شریعت اور قرآن کی بھی اکمل تاویل کرسکتے ہیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ان ائمہ کے سنت کی پیروی ان کے مریدوں کو ضرور کرنی چاہیے تاکہ وہ غلطیوں اور گناہوں سے بچ سکیں، امام ہونے کے لیے ضروری ہے کے وہ گناہ سے معصوم اور غلطیوں سے پاک ہوں اور ان کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جانشینی گذشتہ امام کی نص (وصیت) سے ثابت ہو۔[2][3]

نظریہ امامت

بارہ امامی شیعوں کے نزدیک بارہ امام، انبیا کرام کے روحانی اور سیاسی وارثین ہیں جنھوں نے انھیں عقل، علم و حکمت سکھائی ہے نیز ان کی پیروی میں مصائب برداشت کرنا ان کے پیروکاروں کے نزدیک ایک اہم خوش نصیبی ہے جو خدا کی جانب سے بخشی جاتی ہے۔[4][5]

اگرچہ اماموں پر خدائی وحی نازل نہیں ہوتی لیکن ان کا خدا سے ایک خاص رشتہ ہوتا ہے، جس کے ذریعے خدا امام کی اور امام لوگوں کی ہدایت کرتا ہے۔ نیز اماموں کی ہدایت ایک خاص کتاب الجفر اور الجامعہ کے ذریعے سے ہوتی ہے۔ امامت پر یقین رکھنا شیعہ اعتقاد کا ایک اہم جزو ہے جس کی بنیاد اس نظریے پر ہے کہ خدا ہمیشہ اپنے بندوں کی مسلسل رہنمائی کے لیے کوئی نا کوئی رہنما ضرور رکھتا ہے۔[6] شیعوں کے نزدیک ہر وقت مسلمانوں میں ایک امام زمانہ موجود ہوتا ہے، جسے تمام عقائد و قانون پر اختیار حاصل ہے۔ علی پہلے امام تھے اور شیعوں کے نزدیک یہی ائمہ پیغمبر اسلام کے حقیقی وارثین و جانشین ہیں نیز ان کی نسل فاطمہ کی نسل کے ذریعے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ملنی چاہیے اور ان کا مرد ہونا لازمی ہے۔ تمام ائمہ اپنے سے گذشتہ امام کے بیٹے تھے ماسوائے حسین ابن علی کے جو اپنے سے گزشتہ امام حسنؑ کے بھائی تھے۔ بارہویں امام کا نام مہدی ہے جو شیعوں کے نزدیک زندہ اور غیبت کبریٰ میں ہیں اور قیامت کے قریب وہ بحکم خدا ظہور فرما کر دنیا میں انصاف لائیں گے .[6]۔ بارہ امامی اور علوی شیعوں کا ماننا ہے کہ پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بارہ جانشیںوں والی حدیث میں ان بارہ اماموں کا ذکر موجود ہے۔ تمام ائمہ کو شیعوں کے نزدیک غیر طبعی موت ہوئی سوائے امام مہدی کہ جو ان کے نزدیک غیبت کبریٰ میں زندہ ہیں۔
ان بارہ اماموں کے سلاسل بہت سے صوفی سلسلوں میں بھی موجود نظر آتی ہیں جن میں ان حضرات کو اسلام کے روحانی سربراہ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

بارہ ائمہ کی فہرست

ذیل میں ان ائمہ کرام کی فہرست دی گئی ہے جو اہل تشیع کے فرقہ امامیہ کے نزدیک بارہ امام مانے جاتے ہیں۔ اہل تشیع کے کچھ فرقے ان میں سے کچھ ائمہ کی امامت سے اختلاف بھی کرتے ہیں البتہ ان میں زیادہ تر پر متفق ہیں خصوصاً امام جعفر صادق تک کسی کا ابھی اختلاف نہیں ہے۔

نمبر شمارخطاطی میںاسم
(مکمل/کنیت)
لقب
(عربی/ترکی)[7]
تاریخ
پیدائش
وفات
(ع/ھ)[8]
اہمیت جائے پیدائش وجہ وفات اور جائے وفات
اور مقام مدفن[9]
1 امام علی ابن ابی طالب
علي بن أبي طالب

أبو الحسن
امیرالمومنین
(مومنوں کے سردار)[10]


المرتضیٰ

(پسند کیا جانے والا)


علی بن ابی طالب[11]
17 مارچ 599ء27 جنوری 661ء [10]
23 (قبلھجری)– 21 رمضان المبارک 40ھ [12]
[13] تمام شیعہ فرقوں کے نزدیک وہ پہلے امام[14] اور پیغمبر اسلام کے حقیقی وارث اورجانشین ہیں جبکہ اہلسنت حضرات بھی ان کی تقلید میں انہیں خلیفہ چہارم کا رتبہ دیتے ہیں۔ اہل تصوف کے اکثر سلاسل حضرت علی کے ذریعے ہی پیغمبر اسلام ﷺ سے ملتے ہیں۔ تینوں وں سنی، شیعہ اور صوفی ذرائع علی کی علمی بلندگی، سخاوت، شجاعت، عدالت، پیغمبر ﷺ سے قربت اور تقوٰی پر متفق ہیں۔[10] مکہ[10] انھیں ابن ملجم، ایک خارجی، نے کوفہ، میں ان پر زہر آلود تلوار سے وار کیا اوروہ اس زخم سے جانبر نہ ہو سکے۔[10][15]
وہ امام علی مسجد نجف، عراق میں آسودہ خاک ہیں۔
2 امام حسن بن علی
حسن بن علي

أبو محمد
المجتبیٰ


(چنا ہوا)


اکنسی علی[11]
4 مارچ 625ء9 مارچ 670ء[16]
15 رمضان المبارک — 28 صفر 50ھ[17]
وہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بیٹی فاطمہ زہرا کے بیٹے اور آنحضرت کے سب سے بڑے نواسے تھے۔ حسن اپنے والد کے جانشینی سنبھالتے ہوئے کوفہ میں مسند خلافت پر متمکن ہوئے انھوں نے معاویہ بن ابو سفیانٰ سے امن معاہدہ کیا، وہ سات ماہ تک اس عہدے پر فائز رہے پھر انہوں نے یہ خلافت اس معاہدے کے تحت امیر معاویہ کے سپرد کردی۔[16] مدینہ[16] شیعوں کے نزدیک انھیں ان کی بیوی نے مدینہ منورہ، سعودی عرب میں امیر معاویہ کی ایماء پر زہر دیا[18]
جائے مدفن جنت البقیع، مدینہ منورہ، سعودی عربِ۔
3 امام حسین بن علی
حسین بن علي

أبو عبد الله
سید الشہداء


(شہیدوں کے سردار)


اکنکو علی[11]
8 جنوری 626ء10 اکتوبر 680ء[19]
3 شعبان — 10 محرم 61ھ[20]
وہ پیغمبر اسلام ﷺ کے نواسے اور امام حسن کے بھائی تھے یزید اول کے خلافت کی اہلیت کے خلاف کھڑے ہونے پر انھیں واقعہ کربلا میں یزیدی فوجوں نے قتل کر دیا۔ ان کی شہادت کے بعد ان کی یاد میں ماتم کرنا شیعوں کا ایک اہم مذہبی دستور بنا[19] مدینہ منورہ[19] انھیں واقعہ کربلا میں قتل اور سر بریدہ کیا گیا .
ان کا مدفن روضۂ امام حسين کربلا، عراق ہے .[19]
4 امام زین العابدین
علي بن الحسین

أبو محمد
السجاد، زین العابدین


(عابدوں کے سردار)[21]


دردنکو علی[11]
4 جنوری 659ء20 اکتوبر 713ء[21] [22]
5 شعبان 38ھ— 25 محرم 95ھ[21][22]
وہ صحیفہ سجادیہ، کے مصنف تھے جو اہلبیت کے دعاوں کا مجموعہ ہے۔ .[22] مدینہ منورہ[21] زیادہ تر شیعہ علما کے نزدیک انھیں بادشاہ ولید نے زہر دیا مدینہ منورہ، سعودی عرب.[22]
وہ جنت البقیع، مدینہ منورہ، میں دفن ہیں سعودی عرب۔
5 امام محمد باقر
محمد بن علي

أبو جعفر
باقر العلوم


(علوم کو منکشف کرنے والے)[23]


بسنسی علی[11]
8 مئی 677ء26 جنوری 733ء[23]
یکم رجب 57ھ— 7 ذوالحجہ 114ھ[23]
دونوں شیعہ و سنی حضرات کے نزدیک وہ ایک بڑے اور اولین فقیہ تھے .[23][24] مدینہ منورہ[23] کچھ شیعہ علما کے نزدیک انھیں ابراہیم بن ولید بن عبد اللہ نے مدینہ منورہ، سعودی عرب میں ہشام بن عبدالملک کے کہنے پر زہر دیا۔[22]
جائے مدفن جنت البقیع، مدینہ منورہ، سعودی عرب۔
6 امام جعفر صادق
جعفر بن محمد
Abu Abdillah[25]
أبو عبد الله
الصادق[26]


(ایماندار)


الٹنسی علی[11]
20 اپریل 702ء3 دسمبر 765ء[26]
17 ربیع الاول 83ھ— 25 شوال 148ھ[26]
وہ ایک بڑے فقیہ تھے وہ اس شعبے میں امام ابو حنیفہ اور امام مالک کے استاد بھی رہے ہیں اور وہ مشہور مسلم کیمیادان،جابر بن حیان کے بھی استاد تھے۔ شیعہ حضرات فقہ جعفری کو ان سے منسوب کرتے ہیں۔ نیز علم کلام میں ان کے شاگردوں میں واصل ابن عطا اورہشام ابن حکم شامل تھے .[26] مدینہ منورہ[26] شیعہ ذرائع کے مطابق آپ مدینہ منورہ، سعودی عرب میں خلیفہ ابو جعفر المنصور کے حکم پر زہر دے کر قتل کیے گئے۔[26] جائے مدفن جنت البقیع، مدینہ منورہ، سعودی عرب۔
7 امام موسیٰ کاظم
موسی بن جعفر

أبو الحسن الاول[27]
الکاظم[28]


(حلیم طبع)


یدنسی علی[11]
8 نومبر 745ء4 ستمبر 799ء[28]
7 صفر 128ھ— 25 رجب 183ھ[28]
یہ امام جعفر الصادق کی وفات کے بعد اسماعیلی فرقے کے وجود میں آنے کے دور میں شیعہ اور دوسرے ذیلی فرقوں کے لوگوں کے امام تھے۔[29] انھوں نے اپنے دور میں اپنے مریدوں کا ایک باقاعدہ نظام بنایا جو مشرق وسطی اور خراسان میں شیعوں سے خمس وصول کرتے تھے۔ وہ مہدویہ فرقے میں ایک اہم مقام رکھتے ہیں جو ان کے ذریعے اپنے سلسلے کو نبی ﷺ سے جوڑتے ہیں۔ .[30] مدینہ منورہ[28] شیعہ عقائد کے مطابق انھیں خلیفہ ہارون الرشید نے بغداد عراق میں پابند سلاسل کیا اورا سی قید میں انھیں زہر دیا گیا۔
جائے مدفن کاظمین بغداد عراق۔[28]
8

امام علی رضا
علي بن موسی

أبو الحسن الثانی[27]
الرضا، رضا[31]



(جس سے راضی ہوا)


سکیزنسی علی[11]
یکم جنوری 766ء5 ستمبر 818ء[31]
11 ذوالقعدہ 148ھ— 30 صفر 203ھ[31]
انھیں مامون الرشید نے بظاہر اپنا جانشین شہزادہ قرار دیا وہ مسلموں اور غیر مسلموں سے مباحثوں کے لیے شہرت رکھتے تھے۔[31] مدینہ منورہ[31] شیعوں کے مطابق انھیں مامون الرشید نے زہر دیا .
جائے مدفن مزار امام علی رضا مشہد، ایران.[31]
9 امام محمد تقی
محمد بن علي

أبو جعفر
التقی، الجواد[32]


(خدا سے ڈرنے والا، سخی)


ڈوکوزنسو علی[11]
12 اپریل 811ء27 نومبر 835ء[32]
10 رجب 195ھ— 30 ذوالقعدہ 220ھ[32]
وہ اپنی سخاوت اور عباسی خلفاء کی کوتاہیوں پر کھل کر نکتہ چینی کے لیے شہرت رکھتے تھے۔ مدینہ منورہ[32] شیعہ ذرائع میں انھیں ان کی بیوی جو مامون کی بیٹی تھی نے خلیفہ المعتصم کے حکم پر زہر دیا۔
جائے مدفن کاظمین بغداد .[32]
10 امام علی نقی
علي بن محمد

أبو الحسن الثالث[33]
الہادی، النقی[33]


(رہنما،پاک)


اوننسو علی[11]
8 ستمبر 829ءیکم جولائی 868ء[33]
15 ذوالحجہ 212ھ— 3 رجب 254ھ[33]
انھوں نے خمس وصول کرنے اور اپنے مریدوں کو ہدایات دینے کے نظام کو فعال اور بہتر کیا۔[33] سریا جو مدینہ سے قریب ایک گاؤں ہے[33] شیعوں کے نزدیک، انہیں المعتعز کے حکم پر زہر دیا گیا .[34]
جائے مدفن العسکری مسجد سامرا عراق۔
11 امام حسن عسکری
الحسن بن علي

أبو محمد
العسکری[35]


(ایک فوجی قصبے کا شہری)


انبرنسی علی[11]
3 دسمبر 846ءیکم جنوری 874ء[35]
10 ربیع الثانی 232ھ— 8 ربیع الاول 260ھ[35]
ان کی زندگی کا بڑا حصہ ان کے والد کی وفات کے بعد عباسی خلیفہ المعتمد کی جانب سے لگائی گئی پابندیوں میں گزرا۔ شیعوں کی بڑھتی تعداد اور قوت کی وجہ سے بھی ان پر اس دور میں سختیاں کی گئی .[36] مدینہ منورہ[35] شیعوں کے نزدیک انھیں، خلیفہ المعتمد کے حکم پر سامرا، عراق میں زہر دیا گیا۔
جائے مدفن العسکری مسجد سامرا عراق۔[37]
12 امام مہدی
محمد بن الحسن

أبو القاسم
مہدی،[38]
امام غائب،[39]
الحجہ[40]


(ہدایت یافتہ، ثبوت)


اونکسنسی علی[11]
29 جولائی 869ءیکم جنوری 874ء[41]
15 شعبان 255ھ8 ربیع الاول 260ھ (غیبت صغریٰ)[41]
شیعوں کے نزدیک وہ ایک تاریخی اور اہم معجزاتی شخصیت ہیں اور وہ قیامت کے قریب میں مسیح کے ساتھ ظہور ہوں گے اور دنیا پر اسلامی حکومت قائم کر کے اسے عدل وانصاف سے بھر دیں گے۔[42] سامرا، عراق[41] شیعوں کے نزدیک وہ زندہ ہیں اور 872ء سے حالت غیبت میں موجود ہیں اور ایک دن خدا کی مرضی سے ظہورکریں گے۔[41]

امامت کا خط الوقت

حسن بن علی عسکریعلی نقیمحمد تقیعلی بن موسی الرضاموسی کاظمجعفر صادقمحمد باقرزین العابدینحسین بن علیحسن بن علیعلی بن ابی طالب

2015ءامام مہدی

اسی متعلق

حواشی

    حوالہ جات

    1. Olsson 2005، صفحہ۔ 65
    2. Tabataba'i 1977، صفحہ۔ 10
    3. Momen 1985، صفحہ۔ 174
    4. Tabataba'i 1977، صفحہ۔ 15
    5. Corbin 2014، صفحات۔ 45–51
    6. Robert Gleave۔ "Imamate"۔ Encyclopaedia of Islam and the Muslim world; vol.1۔ MacMillan۔ آئی ایس بی این 0-02-865604-0۔
    7. الامام عربی القابات بارہ امامی شیعوں کی اکثریت استعمال کرتی ہے عربی زبان بطور عبادتی زبان، جن میں اصولی، اخباری (اہل تشیع)، شیخی اور کسی حد تک علوی. ترک القاب زیادہ تر علوی لوگ استعمال کرتے ہیں، جو ایک بارہ امامی شیعہ گروہ جو مجموعی شیعہ آبادی کا 10 فیصد ہے۔ ہر امام کے القاب کا ترجمہ کچھ یوں کیا جاتا ہے "اول علی"، "علی دوم"، so forth. Encyclopedia of the Modern Middle East and North Africa۔ Gale Group۔ آئی ایس بی این 978-0-02-865769-1۔ Unknown parameter |سال= ignored (معاونت)
    8. ع سے مراد عام زمانہ شمسی تقویم،ھ سے مراد اسلامی ہجری قمری تقویم.
    9. ماسوائے بارہویں امام
    10. Seyyed Hossein Nasr۔ "Ali"۔ Encyclopædia Britannica Online۔ اخذ شدہ بتاریخ 2007-10-12۔
    11. Encyclopedia of the Modern Middle East and North Africa۔ Gale Group۔ آئی ایس بی این 978-0-02-865769-1۔
    12. طباطبائی (1979)، pp.190–192
    13. E. Kohlberg؛ I. K. Poonawala۔ "ʿALI B. ABI ṬĀLEB"۔ Encyclopaedia Iranica۔ اخذ شدہ بتاریخ 2014-07-07۔
    14. Mohammad Ali Amir-Moezzi۔ "SHIʿITE DOCTRINE"۔ Encyclopaedia Iranica۔ اخذ شدہ بتاریخ 2014-07-07۔
    15. طباطبائی (1979)، p.192
    16. Wilferd Madelung۔ "ḤASAN B. ʿALI B. ABI ṬĀLEB"۔ Encyclopaedia Iranica۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-07-06۔
    17. طباطبائی (1979)، pp.194–195
    18. طباطبائی (1979)، p.195
    19. Wilferd Madelung۔ "ḤOSAYN B. ʿALI"۔ Encyclopaedia Iranica۔ اخذ شدہ بتاریخ 2008-03-23۔
    20. طباطبائی (1979)، pp.196–199
    21. Wilferd Madelung۔ "ʿALĪ B. ḤOSAYN B. ʿALĪ B. ABĪ ṬĀLEB، ZAYN-AL-ʿĀBEDĪN"۔ Encyclopaedia Iranica۔ اخذ شدہ بتاریخ 2007-11-08۔
    22. طباطبائی (1979)، p.202
    23. Wilferd Madelung۔ "BĀQER، ABŪ JAʿFAR MOḤAMMAD"۔ Encyclopaedia Iranica۔ اخذ شدہ بتاریخ 2007-11-08۔
    24. طباطبائی (1979)، p.203
    25. "JAʿFAR AL-ṢĀDEQ، ABU ʿABD-ALLĀH"۔ Encyclopaedia Iranica۔ اخذ شدہ بتاریخ 2014-07-07۔
    26. طباطبائی (1979)، p.203–204
    27. Wilferd Madelung۔ "ʿALĪ AL-REŻĀ"۔ Encyclopaedia Iranica۔ اخذ شدہ بتاریخ 2007-11-09۔
    28. طباطبائی (1979)، p.205
    29. طباطبائی (1979) p. 78
    30. Sachedina 1988، صفحات۔ 53–54
    31. طباطبائی (1979)، pp.205–207
    32. طباطبائی (1979)، p. 207
    33. Wilferd Madelung۔ "ʿALĪ AL-HĀDĪ"۔ Encyclopaedia Iranica۔ اخذ شدہ بتاریخ 2007-11-08۔
    34. طباطبائی (1979)، pp.208–209
    35. H Halm۔ "ʿASKARĪ"۔ Encyclopaedia Iranica۔ اخذ شدہ بتاریخ 2007-11-08۔
    36. طباطبائی (1979) pp. 209–210
    37. طباطبائی (1979)، pp.209–210
    38. "THE CONCEPT OF MAHDI IN TWELVER SHIʿISM"۔ Encyclopaedia Iranica۔ اخذ شدہ بتاریخ 2014-07-07۔
    39. "ḠAYBA"۔ Encyclopaedia Iranica۔ اخذ شدہ بتاریخ 2014-07-07۔
    40. "Muhammad al-Mahdi al-Hujjah"۔ Encyclopædia Britannica Online۔ اخذ شدہ بتاریخ 2007-11-08۔
    41. طباطبائی (1979)، pp.210–211
    42. طباطبائی (1979)، pp. 211–214

    مصادر و مراجع

    • محمد تقی موسوی اصفہانی؛ Haeri Qazvini (2006)۔ مکیال المکارم۔ قم: انتشارات مسجد مقدس جمکران۔
    • Encyclopædia Britannica Online۔ Encyclopædia Britannica، Inc.۔
    • دائرۃ المعارف ایرانیکا۔ Center for Iranian Studies، Columbia University۔ آئی ایس بی این 1-56859-050-4۔
    • Richard C. Martin۔ انسائکلوپیڈیاء آف اسلام اینڈ مسلم ورلڈ vol.1۔ MacMillan۔ آئی ایس بی این 0-02-865604-0۔
    • انسائکلوپیڈیاء آف موڈرن مڈل ایسٹ اینڈ نارتھ آفریقہ۔ Gale Group۔ آئی ایس بی این 978-0-02-865769-1۔
    • Henry Corbin۔ ہسٹری آف اسلامک فلاسفی ، Translated by Liadain Sherrard، Philip Sherrard۔ Routledge۔ آئی ایس بی این 9781135198893۔
    • Moojan Momen۔ این انٹروڈکشن ٹو شیعہ اسلام: دی ہسٹری اینڈ ڈاکٹرائن آف ٹولف۔ Yale University Press۔ آئی ایس بی این 0-300-03531-4۔
    • Tord Olsson۔ علوی آئیڈنٹیٹی: کلچرل، ریلیجیوس ایڈ سوشلPerspectives۔ Routledge۔ آئی ایس بی این 9781135797256۔ Unknown parameter |coauthors= ignored (|author= suggested) (معاونت)
    • Abdulaziz Abdulhussein Sachedina۔ The Just Ruler (al-sultān Al-ʻādil) in شیعہ اسلام: دی کمپریہنسیو آف جیورست ان امامت جیورسپروڈینس۔ Oxford University Press US۔ آئی ایس بی این 0-19-511915-0۔
    • سید محمد حسین Tabataba'i۔ شیعہ اسلام۔ SUNY press۔ آئی ایس بی این 9780873953900۔ Unknown parameter |coauthors= ignored (|author= suggested) (معاونت)

    بیرونی ذرائع

    This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.