کتاب الکافی

الکافی یا اصول کافی ایک شیعہ مجموعۂ احادیث ہے جو ابوجعفر محمد بن یعقوب بن اسحاق کلینی رازی المتوفى 328ھ / 329ھ، نے مرتب کیا۔[1] کلینی نے اس کتاب کو اہل بیت کے شاگردوں اور شیعہ و اہل سنت کے اہم اور معتبر راویوں کی روایات کی بنیاد پر مرتب کیا۔ اس کتاب کو تالیف کرنے میں تقریبًا بیس سال لگے ہیں۔ مجموعہ میں کل 16,199 روایات ہیں۔[2]

الکافی سے مغالطہ نہ کھائیں۔
کتاب الکافی
کتاب الکافی

مصنف محمد بن یعقوب الکلیانی  

کلینی نے اس کتاب کو لکھنے کے لیے اپنے زمانہ کے تقریبًا تمام علمی اور حدیثی مراکز جیسے ایران، شام، عراق اور سعودی عرب کا سفر کیا یہاں تک کہ بزرگوں سے حدیث کو سننے اور حاصل کرنے میں قریہ اور دیہات کا سفر کیا اس لحاظ سے اسلامی تعلیمات اوراحکام خصوصا مکتب تشیع کی تعلیمات کو استنباط اوراستخراج کرنے کے لیے سب سے پہلا اور اہم منبع سمجھا جاتاہے ۔
[حوالہ درکار]

یہ کتاب تین حصوں اصول الکافی اصول دین کے بارے میں ، فروع الکافی فروع دین یا (فقہی احکام) کے بارے میں اور روضۃ الکافی یا روضہ کافی متفرقات مسائل کے بارے میں، پر مشتمل ہے،[3] مجموعی طور پر اس میں چونتیس کتابیں، تین سو چھبیس باب اور سولہ ہزار سے زیادہ حدیثیں ہیں۔

الکافی بنیادی طور پر تین حصوں پر مشتمل ہے۔

اصول دین

تین حصوں میں سے پہلے حصے کا عنوان اصول کافی ہے جو چار جلدوں پر مشتمل ہے۔

اس حصے میں شیعہ عقائد اور ائمہ(ع) کی زندگی نیز ایک مسلمان فرد کی راہ و روش کے تعین کے سلسلے میں منقولہ احادیث درج کی گئی ہیں۔

کتاب "اصول کافی" شیعہ عقائد کی شناخت کا اہم ترین ماخذ ہے جو با رہا الکافی کے دیگر حصوں سے علاحدہ، مستقل طور پر شائع کی جاچکی ہے اور اس کے متعدد تراجم کیے گئی نیز اس پر متعدد شرحیں لکھی گئی ہیں۔

اصول کافی کے ابواب

اصول کافی کو آٹھ کلی حصوں میں مرتب کیا گیا اور شیخ کلینی نے ہر حصے کو مستقل کتاب کے طور پر متعارف کرایا ہے۔ یہ آٹھ ابواب کچھ یوں ہیں:

کتاب العقل و الجہل۔
کتاب فضل العلم، جو 22 ابواب پر مشتمل ہے۔
کتاب التوحید، جو 35 ابواب سے تشکیل پائی ہے۔
کتاب الحجۃ، یہ کتاب 130 ابواب پر مشتمل ہے؛ یہ کتاب امامت کی ضرورت، ائمۂ شیعہ کے اسماء گرامی، صفات ائمہ(ع)، ان کے حالات زندگی اور ان کی امامت کے اثبات کے دلائل پر مشتمل احادیث کا مجموعہ ہے۔
کتاب الایمان والکفر، جو 209 ابواب پر مشتمل ہے۔
کتاب الدعاء، ساٹھ ابواب کا مجموعہ ہے؛
کتاب فضل القرآن، یہ کتاب 14 ابواب پر مشتمل ہے؛
کتاب العشرة، جس کے ابواب کی تعداد 29 ہے۔

شروح، تعلیقات، حواشی، تلخیصات و تراجم

گوکہ اصول کافی پر متعدد شرحیں لکھی گئی ہیں اور ان کے متعدد تراجم شائع ہوچکے ہیں لیکن ہم یہاں صرف دستیاب شروح، تراجم، معاجم اور حواشی کا ذکر کرتے ہیں۔

شرحیں

شرح مراۃ العقول، محدث کبیر علامہ مجلسی (رح)
شرح اصول الکافی، صدرالدین شیرازی (ملا صدرا) (متوفی 1050ھ) اور تین مجلدات میں۔ یہ شرح اصول کافی کی کتاب الحجہ کے آخر تک اور عربی میں ہے جو مؤسسۂ مطالعات وتحقیقات فرہنگی نے، محمد خواجوی کی تصحیح کے ساتھ تین مجلدات میں، شائع کی ہے۔
الذریعۃ الی حافظ الشریعۃ، بقلم: محمد بن محمد مؤمن گیلانی، جو عربی میں ہے۔
شرح الکافی، الاصول والروضۃ، محمد صالح مازندرانی،(متوفی 1110ھ) تعلیق میرزا ابوالحسن شعرانی۔
الشافی فی شرح اصول کافی، 3 مجلدات، عبد الحسین المظفر۔

علاوہ ازیں، کئی دوسری شرحیں بھی اصول کافی پر لکھی گئی ہیں جو نامکمل رہ گئی ہیں۔ ان تمام کتب کا مجموعہ کلینی سافٹ ویئر میں موجود ہے اور دستیاب ہے۔

حواشی

الحاشیۃ علی اصول الکافی، ملا محمد امین استرآبادی۔
الحاشیۃ علی اصول الکافی، سید احمد بن زین العابدین العلوی العاملی۔
الحاشیۃ علی اصول الکافی، سيد بدرالدین بن احمد الحسینی العاملی۔
الحاشیۃ علی اصول الکافی، رفیع الدین محمد بن حیدرالنائینی، تحقیق محمد حسین درایتی۔
الحاشیۃ علی اصول الکافی، سید بدرالدین بن احمد الحسین العاملی تحقیق علی فاصلی۔
الدرالمنظوم من کلام المعصوم، علی بن محمد بن حسی نبی زین الدین عاملی، تحقیق :محمد حسین درایتی۔

تراجم

؛فارسی تراجم

ترجمہ محمد باقر کوہ کمرہ ای۔
ترجمہ سید جواد مصطفوی۔
اصول کافی، ترجمہ وشرح فارسی، سید جواد مصطفوی۔
اُصول کافی ،ترجمہ وشرح فارسی، آیت اللہ شیخ محمد باقر کمرہ ای۔

؛اردو تراجم

الشافی ترجمہ اُصول کافی، سید ظفر حسن نقوی۔

خلاصۂ اصول کافی

فارسی ترجمہ ،علی اصغر خسروی شبستری۔
درخشان پرتوی از اصول کافی،سید محمد حسین ہمدانی۔

معاجم

المعجم المفھرس الفاظ اصول کافی الیاس کلانتری۔
المعجم الفھرس لالفاظ الاصول من الکافیح، علی رضا برازنش۔
الہادی الی الفاظ اصول کافی سید جواد مصطفوی،فہرست احادیث اصول کافی۔

کیا الکافی کی تمام روایات صحیح ہیں؟

اکثر ناصبی حضرات اپنی کتب میں یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ الکافی کی تمام روایات صحیح ہیں ،حالانکہ ہم الکافی کی ہر حدیث کو صحیح نہیں مانتے بلکہ اس میں بعض ضعیف اور مرسل حدیثیں بھی موجود ہیں۔ چنانچہ اہل تشیع کے محدث اعظم سید ابو القاسم خوئی (رح ) علم رجال کے موضوع پر اپنی شہرہ آفاق کتاب معجم رجال الحدیث میں روایات الکافی کے متعلق لکھتے ہیں۔

اور ہم نے جو کہا ہے کہ الکافی کی تمام روایات صحیح نہیں ہیں۔اس کی یہ امر بھی تاکید کرتا ہے کہ شیخ صدوق (رح) اور ان کے شیخ محمد بن حسن (رح ) بھی الکافی کی تمام روایات کو صحیح نہیں سمجھتے تھے کیونکہ کافی میں بعض روایات ضعیف بھی ہیں[4]

صحیح اور ضعیف احادیث کی تعداد

شیعہ اثناعشریہ امامیہ سب کا مشترک ایمان ہے کہ اول سے آخر تک صحیح صرف قرآن مجید ہے اور اس کے علاوہ کوئی کتاب اس کی شریک صحت نہیں ہے۔

محدث کبیر علامہ مجلسی (رح) کی اصول کافی کی شرح مراۃ العقول کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی شرح کافی میں ہر حدیث کی سندی حیثیت کا بھی تعین کر دیا ہے اور ضعیف، صحیح، موثق یا قوی کی وضاحت کردی ہے۔

آقائے بزرگ تہرانی (رہ) نے تحریر فرمایا ہے کہ اصول کافی میں 34 کتابیں، 323 باب ہیں اور کل احادیث 16 ہزار کے قریب ہیں جن میں سے ، صحیح 5072، حسن 144، موثق 178، قوی 302 اور ضعیف 9485 احادیث ہیں۔ جو صحاح ستہ سے 199 احادیث زائد ہیں۔[5]

مزید دیکھیے

حوالہ جات

  1. Meri, Josef W.۔ Medieval Islamic Civilization: An Encyclopedia۔ USA: Routledge۔ آئی ایس بی این 978-0-415-96690-0۔
  2. http://www.al-islam.org/al-tawhid/kafi/1.htm Hadith al-Kafi
  3. I. K. A. Howard، "'Al-Kafi' by Al-Kulayni"، Al-Serat: A Journal of Islamic Studies (1)
  4. معجم رجال حدیث ،ج 1، ص 92
  5. الذریعہ الی تصانیف الشیعہ آقا بزرگ تہرانی ج17 ص160 طبع بیروت
This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.