شیخ صدوق

ابو جعفر محمد بن علی بن حسین بن موسیٰ بن بابویہ صدوقی قمی رحمۃ اللہ علیہ بارھویں شیعہ امام زمانہ حضرت مہدی علیہ السلام کی دعا کی برکت سے قم شہر میں 306 ہجری میں پید اہوئے۔ بنی بابویہ قم کے خاندانوں میں سے ایک ایسا خاندان ہے جس کی علمی شہرت دور دور تک پھیلی ہوئی ہے، جس کسی نے بھی تیسری اور چوتھی صدی کی علمی تاریخ کا مطالعہ کیاہے اسے معلوم ہے کہ ایران کا شہر قم علم کا گہوارہ رہاہے۔ اس سرزمین نے ایسے محدثین و مصلحین پیداکئے ہیں اور اس کی فضاؤں سے رشد و ہدائت کے ایسے ایسے ستارے اور چاند سورج طلوع ہوئے ہیں کہ جن سے قم کی تاریخ اور اسلامی تہذیب ہمیشہ ہمیشہ درخشاں و تابندہ رہے گی۔

شیخ صدوق
معلومات شخصیت
پیدائشی نام (فارسی میں: ابوجعفر محمد بن علی بن حسین بن موسی بن بابویه قمی) 
پیدائش سنہ 918  
قم ، دولت عباسیہ  
وفات سنہ 992 (7374 سال) 
رے ، بنی بویہ  
شہریت دولت عباسیہ
بنی بویہ  
عملی زندگی
استاذ ابو الفتوح الرازی  
تلمیذ خاص شیخ مفید  
پیشہ الٰہیات دان ، محدث  
پیشہ ورانہ زبان عربی ، فارسی  
شعبۂ عمل شیعہ اثنا عشریہ  
کارہائے نمایاں من لا يحضره الفقيہ ، کتاب الکافی ، الاستبصار ، تہزیب احکام  
باب اسلام

سنہ ولادت

ان کی ولادت قم میں 305 ہجری کے بعد ہوئی جو حسین ابن روح کی سفارت کا پہلا سال تھا ،جیساکہ الکامل فی التاریخ سے ظاہر ہوتاہے چنانچہ انہوں نے سال 305ہجری کے حادثات کے حوالے سے تحریر کیاہے کہ اس سال ماہ جمادی الاول میں ابو جعفر عثمان بن عسکری کی وفات ہوئی ،یہ شیعہ کے رئیس اور سردار تھے اور امام منتظر علیہ الاسلام تک رسائی کا ذریعہ تھے انہوں نے اپنی رحلت کے وقت ابوالقاسم حسین بن روح کو اپنا وصی بنایا۔

نشو و نما اور اساتذہ

شیخ صدوق کی پرورس علم ودانش کی آغوش میں وہوئی، ان کے پدربزرگوار انہیں علوم و معارف کی غذا کھلاتے رہے اور اپنے علوم و آداب کی ان پر بارشیں برساتے رہے۔ اپنی صفات و زہد و تقویٰ و ورع کی روشنیوں سے ان کے وجود کو جگمگاتے رہے۔ ان کے والد قمیین کے شیخ اور فقیہہ تھے۔ شیخ صدوق نے اپنے والد کی قربت قریب قریب بیس سال حاصل کی اور ان کے علوم و معارف سے فیضیاب ہوتے رہے۔ بہت زیادہ عرصہ نہیں گزراتھا کہ شیخ صدوق جوان ہو گئے اور حفظ و ذکاوت کی مثالی شخصیت بن کر ابھرے۔ شیوخ کی مجالس میں حاضری دیتے ان سے احادیث سنتے اور روایت کرتے اور بہت جلد لوگوں کی ان کی طرف توجہ ہونے لگے۔ آپ نے شیوخ قم جیساکہ محمد بن حسن بن احمد بن ولید اور حمزہ بن احمد بن جعفر بن محمد بن زید بن علی علیہ السلام سے بہت کچھ سنا اور کسب فیض کیا۔ شیخ صدوق نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ و ہ رجب 339ہجری میں وطن سے نکلے اور مختلف شہروں کے شیوخ و علما سے استماع حدیث کرتے رہے۔ اس زمانے میں ایران پر آل زیاد اور آل بابویہ کی حکومت تھی اور یہ دونوں خاندان علم پرور تھے۔ اس لیے ان کے گرد بہت سے شعرا و علما جمع ہو گئے جن میں سے صاحب ابن عباد کا نام لیاجاسکتاہے جبکہ اسی دور میں ایران کے دیگر شہروں خراسان، اصفہان اور نیشاپور میں علمی مراکز قائم ہو گئے جو علما و فضلاء سے پر تھے، طلبہ وہاں حصول علم کے لیے جاتے جبکہ حکمران اساتذہ و طلبہ کے لیے وظائف وغیرہ مقرر کرتے۔ جن اساتذہ سے شیخ صدوق نے کسب فیض کیا ان میں سے چند ایک کے نام درج ذیل ہیں:

  1. شیخ صدوق کے والد ماجد علی بن بابویہ قمی
  2. محمد بن حسن ولید قمی
  3. احمد بن علی بن ابراهیم قمی
  4. علی بن محمد قزوینی
  5. جعفر بن محمد بن شاذان
  6. جعفر بن محمد بن قولویہ قمی
  7. علی بن احمد بن مہریار
  8. ابوالحسن خیوطی
  9. ابوجعفر محمد بن علی بن اسود
  10. ابوجعفر محمد بن یعقوب کلینی
  11. احمد بن زیاد بن جعفر ہمدانی

تصانیف

شیخ صدوق نے مختلف علوم و فنون پر تین سو سے زائد کتب تصنیف کیں۔ آپ کے زمانے میں ہی لوگ آپکی کتب کی نقول تیار کروانے لگے تھے چنانچہ شریف نعمت نے آپکی دوسوپنتالیس کتب نقل کروالیں مگر صد افسوس کہ اس علمی خزانے میں سے اب صرف چند کتب ہمارے پاس موجود ہیں، ان تصانیف سے شیخ صدوق کی عظمت و سچائی کی دلیل مہیاہوتی ہےنجاشی و شیخ طوسی نے اپنی کتاب رجال میں، علامہ حلی نے خلاصۃالاقوال میں ابن شہر آشوب نے معالم العلماء میں شیخ صدوق کی 199 کتب کا تذکرہ کیاہے۔

آپ کے شاگرد

اگر ہم ان تمام لوگوں کے نام تلاش کرنا چاہیں جنہوں نے شیخ صدوق سے کسب علم کیا ہے تو بحث بہت طویل ہو جائے گی۔ ان کے مشہور تلامذہ کے سوا جن کے نام زبان زد عام و خلائق ہیں ان کی تعداد بیس کے قریب ہے۔

  1. شیخ مفید
  2. حسین بن عبید الله غضائری
  3. برادرش حسین بن علی بن بابویه قمی
  4. ابوالحسن جعفر بن حسین حسکه قمی (استاد شیخ طوسی)
  5. ابوجعفر محمد بن احمد بن عباس بن فاخر دوریستی (معاصر شیخ طوسی)
  6. برادر زاده اش شیخ ثقة الدین حسن بن حسین بن علی بن موسی بن بابویه
  7. حسن بن محمد قمی (مؤلف تاریخ قم)
  8. علی بن احمد بن عباس نجاشی (پدر نجاشی)
  9. سید ابوالبرکات علی بن حسن خوزی حسینی حلی
  10. ابو القاسم علی بن محمد بن علی خزاز
  11. ابو زکریا محمد بن سلیمان حمرانی
  12. احمد بن زیاد بن جعفر همدانی
  13. هارون بن موسی تلعکبری
  14. علم‌الهدی، سید مرتضی

شیخ صدوق کے خاندان کے علما

آپکے خاندان کو علما مشائخ کے ہاں بہت مقام و مرتبہ حاصل ہے ا سلئے کہ اس خاندان میں بہت سے علما و محدثین اور فقیہان پیداہوئے جنہوں نے اپنی تالیفات اور مرویات سے دین اسلام کی خدمت کی اور علوم و آثار اہل بیت کی حفاظت کی۔ اس خاندان کے علما اعلام شیعہ کے لیے باعث افتخار اور آسمان علم کے درخشاں ستارے ہیں۔

وفات و مزار

شیخ صدوق کی وفات شہر رے میں 381 ہجری کوہوئی۔ ان کی قبر شہر رے میں سیدعبدالعظیم حسنی کی قبر کے قریب ایک قطعہ زمین پر واقع ہے،جو آپکی قبر مبارک کی وجہ سے زیارت گاہ بن گئی ہےسلطان فتح علی قاچار نے 1238ہجری میں ان کی قبر پر تعمیر جدید کروادی۔ شیخ صدوق کی قبر چندمزارات میں سے ایک ہے جہاں شیعہ حصول برکت کے لیے تمام اقطار و امصار سے پہنچتے ہیں۔

حوالہ جات

    بیرونی ربط

    کتاب اعتقادات از شیخ صدوق اردو ترجمہ صفحہ 7

    This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.