ابو حنیفہ

نعمان ابن ثابت بن زوطا بن مرزبان (پیدائش: 5 ستمبر 699ء– وفات: 14 جون 767ء) (فارسی: ابوحنیفه،عربی: نعمان بن ثابت بن زوطا بن مرزبان)، عام طور پر آپکو امام ابو حنیفہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ آپ سنی حنفی فقہ (اسلامی فقہ) کے بانی تھے۔ آپ ایک تابعی، مسلمان عالم دین، مجتہد، فقیہ اور اسلامی قانون کے اولین تدوین کرنے والوں میں شامل تھے۔ آپ کے ماننے والوں کو حنفی کہا جاتا ہے۔ زیدی شیعہ مسلمانوں کی طرف سے بھی آ پ کو ایک معروف اسلامی عالم دین اور شخصیت تصور کیا جا تا ہے۔ انہیں عام طور پر "امام اعظم" کہا جاتا ہے۔

ابو حنیفہ
(عربی میں: ابو حنيفة النعمان) 
ابو حنیفہ

معلومات شخصیت
پیدائش 5 ستمبر 699  
کوفہ [1] 
وفات 18 جون 767 (68 سال) 
بغداد  
وجۂ وفات زہر  
مدفن مسجد ابو حنیفہ  
شہریت سلطنت امویہ
دولت عباسیہ  
عملی زندگی
استاد حماد بن ابی سلیمان ، عطاء بن ابی رباح ، زید بن علی ، جعفر الصادق  
نمایاں شاگرد ابو یوسف ، محمد بن حسن شیبانی ، زفر بن ہذیل ، عبد اللہ ابن مبارک  
پیشہ فقیہ ، تاجر  
پیشہ ورانہ زبان عربی [2] 
شعبۂ عمل فقہ ، علم حدیث  
کارہائے نمایاں مسند ابوحنیفہ  
مؤثر زید بن علی
جعفر الصادق
حماد بن ابی سلیمان
متاثر امام مالک بن انس
محمد بن حسن شیبانی
ابو یوسف
ابو جعفرطحاوی
مجدد الف ثانی
ضیاء الدین مدنی
شاہ ولی اللہ
عبیداللہ ابن موسیٰ


بسلسلہ شرعی علوم
علم فقہ

ابو حنیفہ سے متعلق بشارات

امام ابو حنیفہ کے فضائل و مناقب میں شیخ جلال الدین سیوطی (شافعی- مقلد) (849-911ھ) اپنی کتاب "التبييض الصحيفه في مناقب الإمام أبي حنيفه" میں تسلیم کیا ہے کہ اس پیشین گوئی کے بڑے مصداق امام اعظم ابو حنیفہ النعمان ہیں۔

القرآن:

اور اگر تم منہ پھیرو گے تو وہ تمہاری جگہ اور لوگوں کو لے آئے گا اور وہ تمہاری طرح کے نہیں ہوں گے

[سوره محمّد:38]

حدیث میں ہے صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! وہ دوسری قوم کون ہے جس کی طرف اشارہ ہوا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سلمان فارسی پر ہاتھ رکھ کر فرمایا: اس کی قوم اور فرمایا: خدا کی قسم اگر ایمان ثریا پر جا پہنچے تو فارس کے لوگ وہاں سے بھی اس کو اتار لائیں گے۔[3]

اور (اس رسول کی بعثت) دوسرے لوگوں کے لیے بھی ہے جو ابھی ان (مسلمانوں) سے نہیں ملے...

[الجمعہ:3]

حدیث میں ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم سے (وَّاٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ ۭ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ) 63۔ الجمعہ:3) کی نسبت سوال کیا گیا تو سلمان فارسی کے شانہ پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ اگر علم یا (فرمایا) دین ثریا پر جا پہنچے گا تو اس کی قوم فارس کا مرد وہاں سے بھی لے آئے گا۔[4][5]

ابتدائی زندگی

آپ کا نام نعمان بن ثابت بن زوطا اور کنیت ابوحنیفہ تھی۔ بالعموم امام اعظم کے لقب سے یاد کیے جاتے ہیں۔ آپ تمام ائمہ کے مقابلے میں سب سے بڑے مقام و مرتبے پر فائز ہیں۔ اسلامی فقہ میں امام اعظم ابو حنیفہ کا پایہ بہت بلند ہے۔ آپ نسلاً عجمی تھے۔ آپ کی پیدائش کوفہ میں 80 ھ بمطابق 699ء میں ہوئی سنہ وفات 150ھ ہے۔ ابتدائی ذوق والد ماجد کے تتبع میں تجارت تھا۔ لیکن اللہ نے ان سے دین کی خدمت کا کام لینا تھا، لٰہذا تجارت کا شغل اختیار کرنے سے پہلے آپ اپنی تعلیم کی طرف متوجہ ہوئے۔ آپ نے بیس سال کی عمر میں اعلٰی علوم کی تحصیل کی ابتدا کی۔

آپ نہایت ذہین اور قوی حافظہ کے مالک تھے۔ آپ کا زہد و تقویٰ فہم و فراست اور حکمت و دانائی بہت مشہور تھی۔ آپ نے اپنی عمر مبارک میں 7 ہزار مرتبہ ختم قرآن کیا۔ 45 سال تک ایک وضو سے پانچوں نمازیں پڑھیں، رات کے دو نفلوں میں پورا قرآن حکیم ختم کرنے والے امام اعظم ابو حنیفہ دن کو علم پھیلاتے اور رات کو عبادت کرتے، ان کی حیات مبارکہ کے لاتعداد گوشے ہیں۔ ائمہ حدیث آپ کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک طرف آپ علم کے سمندر ہیں اور دوسری طرف زہد و تقویٰ اور طہارت کے پہاڑ ہیں۔ ابو حنیفہ میانہ قد، خوش رو اور موزوں جسم کے مالک تھے۔ گفتگو نہایت شیریں کرتے آواز بلند اور صاف تھی اور فصاحت سے ادا کر تے تھے۔ اکثر خوش لباس رہتے تھے۔ سرکاری وظیفہ خواری سے دور رہے۔ حریت فکر، بے نیازی اور حق گوئی ان کا طرہء امتیاز تھا۔

ابو حنیفہ کی تابعیت

امام صاحب تابعی تھے :

حافظ المزی نے بیان فرمایا ہے کہ

امام ابو حنیفہ کی ملاقات بہتر (٧٢) صحابہ کرام سے ہوئی ہے.

[6]

حافظ ذہبی لکھتے ہیں :

مولدہ سنۃ ثمانین رای انس بن مالک غیر مرۃ لما قدم علیہم الکوفۃ

۔

ترجمہ: حضرت امام کی پیدائش سنہ 80ھ میں ہوئی، آپ نے حضرت انس بن مالک (93ھ) کو جب وہ کوفہ گئے تو کئی دفعہ دیکھا۔[7]

امام اعظم کے سفر

امام اعظم نے علم حدیث کے حصول کے لیے تین مقامات کا بطورِ خاص سفر کیا۔ آپ نے علم حدیث سب سے پہلے کوفہ میں حاصل کیا کیونکہ آپ کوفہ کے رہنے والے تھے اور کوفہ علم حدیث کا بہت بڑا مرکز تھا۔ گویا آپ علم حدیث کے گھر میں پیدا ہوئے، وہیں پڑھا، کوفہ کے سب سے بڑے علم کے وارث امام اعظم خود بنے۔ دوسرا مقام حرمین شریفین کا تھا۔ جہاں سے آپ نے احادیث اخذ کیں اور تیسرا مقام بصرہ تھا۔ امام ابو حنیفہ نے تقریبًا 4 ہزار اساتذہ سے علم حاصل کیا۔

اساتذہ

علم الادب، علم الانساب اور علم الکلام کی تحصیل کے بعد علم فقہ کے لیے امام حماد کے حلقہ درس سے فیض یاب ہوئے۔ آپ علم فقه كے عالم ہیں۔آپ کے شیوخ و اساتذہ کی تعداد چار ہزار بتائی جاتی ہے۔ جن سے وہ وقتاً فوقتاً اکتساب علم کرتے رہے۔ امام محمد باقر اور امام جعفر صادق کی شاگردی کا فخر بھی انہیں حاصل ہے۔

امام ابوحنیفہ نے تقریباً چار ہزار مشائخ سے علم حاصل کیا، خود امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ

میں نے کوفہ وبصرہ کا کوئی ایسا محدث نہیں چھوڑا جس سے میں نے علمی استفادہ نہ کیا ہو

[8]

درس و تدریس

آپ نے تحصیل علم کے بعد جب درس و تدریس کے سلسلہ کا آغاز کیا تو آپ کے حلقہ درس میں زبردست اژدھام ہوتا اور حاضرین میں اکثریت اد دور کے جید صاحبان علم کی ہوتی۔ علامہ کروری نے آپ کے خاص تلامذہ میں آٹھ سو فقہا محدثین اور صوفیا و مشائخ شمار کیا ہے۔ یہ ان ہزار ہا انسانوں کے علاوہ تھے۔ جو ان کے حلقہ درس میں شریک ہوتے رہتے تھے۔ آپ نے فقہ حنفیہ کی صورت میں اسلام کی قانونی و دستوری جامعیت کی لاجواب شہادت مہیا کی اور اس مدت میں جو مسائل مدون کیے ان کی تعداد بارہ لاکھ ستر ہزار سے زائد ہے۔ آپ کی تالیف پر اجماع ہے۔ اور صحابہ سے نقل روایت بھی ثابت ہے۔ آپ شریعت کے ستون تھے۔

مورخ خطیب بغدادی نے امام کے پوتے اسماعیل سے روایت کیا ہے کہ ’’میں اسماعیل بن حماد بن نعمان بن ثابت بن مرزبان ہوں ہم لوگ نسلاً فارس سے ہیں۔ ‘‘ امام صاحب کے دادا ثابت بچپن میں حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے انہوں نے ان کے خاندان کے حق میں دعائے خیر کی تھی۔ ’’ہمیں امید ہے۔ وہ دعا بے اثر نہیں رہی۔ ‘‘ تجارت ان کا ذریعہ معاش تھا۔ تجارت سے ہی رزق حلال کماتے دولت کی کمی نہ تھی۔ لیکن ان کی دولت و ثروت کا فائدہ طلبہ اور حاجت مندوں ہی کو پہنچتا۔ فروخت کیے جانے والے کپڑے کے محاسن اور عیوب آپ برابر بیان کرتے اور خرابی کو کبھی نہ چھپاتے اپنے شاگردوں کی اکثر مالی امداد کرتے ۔

تلامذہ

حضرت امام ابو حنیفہ کے ایک ہزار کے قریب شاگرد تھے جن میں چالیس افراد بہت ہی جلیل المرتبت تھے اور وہ درجۂ اجتہاد کو پہنچے ہوئے تھے۔ وہ آپ کے مشیرِ خاص بھی تھے۔ ان میں سے چند کے نام یہ ہیں :

اہم تصانیف

آپ کی چند مشہور کتب درج ذیل ہیں :

  • الفقه الأکبر
  • الفقه الأبسط
  • العالم والمتعلم
  • رسالة الإمام أبي حنيفة إلی عثمان البتي
  • وصية الامام أبي حنيفة
  • المقصود في علم التصريف
  • کتاب الوصية لجميع الامة
  • الوصية لعثمان السبتي
  • کتاب الوصية لابي یوسف
  • الوصية لاصحابه الکبار
  • الرسالة الی نوح بن مریم

اور ان کی احادیث میں تصانیف کی تعداد 27 کے قریب ہیں

فقہ حنفی

امام اعظم اپنا طریق اجتہاد و استنباط یوں بیان کرتے ہیں :

’’میں سب سے پہلے کسی مسئلے کا حکم کتاب اللہ سے اخذ کرتا ہوں، پھر اگر وہاں وہ مسئلہ نہ پاؤں تو سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لے لیتا ہوں، جب وہاں بھی نہ پاؤں تو صحابہ کرام کے اقوال میں سے کسی کا قول مان لیتا ہوں اور ان کا قول چھوڑ کر دوسروں کا قول نہیں لیتا اور جب معاملہ ابراہیم شعبی، ابن سیرین اور عطاء پر آجائے تو یہ لوگ بھی مجتہد تھے اور اس وقت میں بھی ان لوگوں کی طرح اجتہاد کرتا ہوں۔ ‘‘

آپ کے اجتہادی مسائل تقریبًا بارہ سو سال سے تمام اسلامی ملکوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اس لیے بڑی بڑی عظیم اسلامی سلطنتوں میں آپ ہی کے مسائل، قانون سلطنت تھے اور آج بھی اسلامی دنیا کا بیشتر حصہ آپ ہی کے فقہی مذہب کا پیرو کار ہے۔

فقہ حنفی کی اشاعت و خدمت سب سے زیادہ ان کے شاگردوں قاضی ابویوسف اور امام محمد بن حسن شیبانی نے کی۔ قاضی ابو یوسف کو ہارون نے مملکت کا قاضی القضاۃ بنا دیا تھا۔ اس لیے ان کی وجہ سے فقہ حنفی کے پیروکاروں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔

فقہی ائمہ کرام بلحاظ ترتیب زمانی ولادت
ترتیبنام اماممکتبہ فکرسال و جائے پیدائشسال و جائے وفاتتبصرہ
1 ابو حنیفہ اہل سنت 80ھ ( 699ء ) کوفہ 150ھ ( 767ء ) بغداد فقہ حنفی
2 جعفر صادق اہل تشیع 83ھ ( 702ء ) مدینہ 148ھ ( 765ء ) مدینہ فقہ جعفریہ، کتب اربعہ
3 مالک بن انس اہل سنت 93ھ ( 712ء ) مدینہ 179ھ ( 795ء ) مدینہ فقہ مالکی، موطا امام مالک
4 محمد بن ادریس شافعی اہل سنت 150ھ ( 767ء ) غزہ 204ھ ( 819ء ) فسطاط فقہ شافعی، کتاب الام
5 احمد بن حنبل اہل سنت 164ھ ( 781ء ) مرو 241ھ ( 855ء ) بغداد فقہ حنبلی، مسند احمد بن حنبل
6 داود ظاہری اہل سنت 201ھ ( 817ء ) کوفہ 270ھ ( 883ء ) بغداد فقہ ظاہری،

مقام فقہ حنفی

حضرت ضرار بن صرد نے کہا، مجھ سے حضرت یزید بن ہارون نے پوچھا کہ سب سے زیادہ فقہ (سمجھ) والا امام ثوری ہیں یا امام ابو حنیفہ؟ تو انہوں نے کہا کہ:

ابو حنیفہ (حدیث میں) افقه (سب سے زیادہ فقیہ) ہیں اور سفیان (ثوری) تو سب سے زیادہ حافظ ہیں حدیث میں .

حضرت عبد اللہ بن مبارک نے فرمایا: امام ابو حنیفہ لوگوں میں سب سے زیادہ فقہ (سمجھ) رکھنے والے تھے۔

حضرت امام شافعی فرماتے ہیں : ”جو شخص فقہ حاصل کرنا چاہتا ہے وہ امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کو لازم پکڑے کیونکہ تمام لوگ فقہ میں امام ابو حنیفہ کے خوشہ چین (محتاج) ہیں۔ “ (مناقب الامام ابی حنیفہ ص27 )

محدثین کے ذکر میں اسی کتاب میں آگے امام ابوداؤد فرماتے ہیں : "ان ابا حنیفۃ کان اماما"۔ ترجمہ: بے شک ابوحنیفہ (حديث میں) امام تھے۔

تذكرة الحفاظ، دار الكتب العلمية: صفحة # ١٦٨، جلد # ١، طبقه # ٥، بيان: أبو حنيفة الامام اعظم

حق گوئی

جہاں تک ملکی سیاست کا تعلق ہے انہوں نے کبھی بھی کسی خلیفہ کی خوشامد یا ملازمت نہ کی۔ ہمیشہ حق اور اہل حق کا ساتھ دیا۔ یزید نے ان کو مشیر بنانا چاہا تو آپ نے صاف انکار کر دیا۔ اور کہا کہ ’’اگر یزید کہے کہ مسجدوں کے دروازے گن دو تو یہ بھی مجھے گوارا نہیں۔ ‘‘ امام محمد نفس الزکیہ اور ابراہیم کے خروج کے موقع پر انہوں نے ابراہیم کی تائید کی تھی۔ منصور نے انہیں بلا کر عہدہ قضا پر فائز کرنا چاہا لیکن آپ کے مسلسل انکار پر اول بغداد کی تعمیر کے موقع پر انہیں اینٹیں شمار کرنے کے کام پر لگایا اور بعد میں قید خانہ میں ڈال دیا۔

عظمت ابوحنیفہ

ایک دفعہ حضرت امام اعظم اور امام شافعی کے شاگردوں کے مابین جھگڑا پیدا ہو گیا۔ ہر گروہ اپنے امام کی فضیلت کا دعویدار تھا۔ حضرت امام ابو عبد ﷲ نے دونوں کے درمیان فیصلہ کیا اور اصحاب شافعی سے فرمایا: پہلے تم اپنے امام کے اساتذہ گنو۔ جب گنے گئے تو 80 تھے۔ پھر انہوں نے احناف سے فرمایا: اب تم اپنے امام کے اساتذہ گنو جب انہوں نے شمار کیے تو معلوم ہوا وہ چار ہزار تھے۔ اس طرح اساتذہ کے عدد نے اس جھگڑے کا فیصلہ کر دیا۔ آپ فقہ اور حدیث دونوں میدانوں میں امام الائمہ تھے۔

وفات

150ہجری میں بغداد میں ان کا انتقال ہوا۔ پہلی بار نماز جنازہ پڑھی گئی تو پچاس ہزار آدمی جمع ہوئے جب آنے والوں کا سلسلہ جاری رہا تو چھ بار نماز جنازہ پڑھائی گئی آپ ملکہ خیزراں کے مقبرہ کے مشرق کی جانب دفن ہوئے۔

اس دور کے ائمہ اور فضلا نے آپ کی وفات پر بڑے رنج کا اظہار کیا۔

  • ابن جریح مکہ میں تھے۔ سن کر فرمایا ’’بہت بڑا عالم جاتا رہا‘‘
  • شعبہ بن الحجاج نے کہا ’’کوفہ میں اندھیرا ہو گیا‘‘
  • عبد اللہ بن مبارک بغداد آئے تو امام کی قبر پر گئے اور رو کر کہا ’’افسوس تم نے دنیا میں کسی کو جانشین نہ چھوڑا‘‘
  • الپ ارسلان نے ان کی قبر پر قبہ بنوایا۔

حوالہ جات

  1. عنوان : Абу-Ханифа — شائع شدہ از: Entsiklopedicheskiy Leksikon. Tom 1, 1835
  2. http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb16251130t — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  3. "قرآن کی تفسیر کا بیان"۔ جامع ترمذی۔ Unknown parameter |separator= ignored (معاونت)
  4. "تفاسیر کا بیان"۔ صحیح بخاری۔ Unknown parameter |separator= ignored (معاونت)
  5. "فضائل کا بیان"۔ صحیح مسلم۔ Unknown parameter |separator= ignored (معاونت)
  6. معجم المصنفین۔ صفحہ 23۔ Unknown parameter |separator= ignored (معاونت)
  7. "أبو حنيفة الامام اعظم"۔ طبقات الحفاظ۔ دار الكتب العلمية۔ صفحہ 168۔ Unknown parameter |localtion= ignored (معاونت); Unknown parameter |separator= ignored (معاونت)
  8. امام ابوحنفہت نعمان بن ثابت

بیرونی روابط

This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.