اشرف علی تھانوی

اشرف علی تھانوی (ولادت 19 اگست 1863ء مطابق 05 ربیع الثانی 1280 ہجری، وفات 4 جولائی 1943ء مطابق 17 رجب 1362 ہجری) بھارت کی ریاست اتر پردیش کے ایک عالم، صوفی، مترجم قران و مفسر اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان کا تعلق دیوبندی مکتب فکر سے تھا۔ انہیں عوام اور خواص حکیم الامت کے لقب سے جانتے تھے۔ دار العلوم دیوبند سے فراغت کے بعد انہوں نے کئی برس کانپور میں تدریسی خدمت انجام دی اور بعد میں اپنے شیخ کی خانقاہ امدادیہ کے پاس اپنی خانقاہ قائم کی اور بیعت کا سلسلہ شروع کیا۔

اشرف علی تھانوی
 

معلومات شخصیت
پیدائش 19 اگست 1863 [1] 
تھانہ بھون ، شاملی ضلع ، اتر پردیش ، برطانوی ہند  
وفات 4 جولا‎ئی 1943 (80 سال)[1] اور 20 جولا‎ئی 1943 (80 سال) 
تھانہ بھون ، شاملی ضلع ، اتر پردیش ، برطانوی ہند  
شہریت برطانوی ہند  
عملی زندگی
مادر علمی دار العلوم دیوبند  
پیشہ مفسر قرآن ، الٰہیات دان  
شعبۂ عمل قرآن ، فقہ ، صوفی ازم  
مؤثر ابو حنیفہ  
باب اسلام

ولادت

آپ کے والد شیخ عبد الحق ایک مقتدر رئیس صاحب نقد وجائیداد اور ایک کشادہ دست انسان تھے۔ فارسی میں اعلیٰ استعداد کے مالک اور بہت اچھے انشاء پرداز تھے۔ اس طرح یہ ایک عالی خاندان تھا جہاں دولت وحشمت اور زہد وتقوی بغل گیر ہوتے تھے۔[2]

5 ربیع الثانی 1280ھ بمطابق 9 ستمبر، 1863ء تاریخ ولادت ہے۔[2]

  والد نے آپ کی تربیت بڑے ہی پیار ومحبت سے کی۔ تربیت میں اس بات کو خاص اہمیت دی کہ برے دوستوں اور غلط مجالس سے آپ دور رہے۔ آپ کی طبیعت خود بھی ایسی واقع ہوئی تھی کہ کبھی بازاری لڑکوں کے ساتھ نہیں کھیلے بچپن سے مزاج دینی تھا۔[2]

12 سال کی عمر میں پابندی سے نماز تہجد پڑھنے لگ گئے تھے۔[2]

تعلیم وتربیت

 ابتدائی تعلیم میرٹھ میں ہوئی فارسی کی ابتدائی کتابیں یہیں پڑھیں اور حافظ حسین مرحوم دہلوی سے کلام پاک حفظ کیا پھر تھانہ بھون آکر حضرت مولانا فتح محمد صاحب سے عربی کی ابتدائی اور فارسی کی اکثر کتابیں پڑھیں ذوالقعدہ 1295ھ میں آپ بغرض تحصیل وتکمیل علوم دینیہ دارالعلوم دیوبند تشریف لے گئے اور پانچ سال تک یہاں مشغول تعلیم رہ کر 1301ھ میں فراغت حاصل کی اس وقت آپ کی عمر تقریباً19سال تھی زمانہ طالب علمی میں حضرت میل جول سے الگ تھلگ رہتے اگر کتابوں سے کچھ فرصت ملتی تو اپنے استاد خاص حضرت مولانا محمد یعقوب کی خدمت میں جابیٹھتے۔[2]

درس وتدریس

تکمیل تعلیم کے بعد والد اور اساتذہ کرام کی اجازت سے آپ کانپور تشریف لے گئے اور مدرسہ فیض عام میں پڑھانا شروع کر دیا چودہ سال تک وہاں پرفیض کو عام کرتے رہے، 1315ھ میں کانپور چھوڑکر آپ آبائی وطن تھانہ بھون تشریف لائے اور یہاں حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کی خانقاہ کو نئے سرے سے آباد کیا اور مدرسہ اشرفیہ کے نام سے ایک درسگاہ کی بنیاد رکھی جہاں آخر دم تک تدریس،تزکیہ نفوس اور اصلاح معاشرہ جیسی خدمات سر انجام دیتے رہے۔[2]

اس مراجعت پر حضرت حاجی صاحب نے آپ کو ایک خط بھیجا جس میں لکھا تھا" بہتر ہوا کہ آپ تھانہ بھون تشریف لے گئے امید ہے کہ خلائق کثیر کو آپ سے فائدہ ظاہری وباطنی ہوگا،اور آپ ہمارے مدرسہ ومسجد کو ازسرنو آباد کریں گے،میں ہر وقت آپ کے حال میں دعا کرتا ہوں "[2]

سلوک ومعرفت

ظاہری علوم کی تکمیل کے بعددل میں تزکیہ باطن کا داعیہ پیدا ہوا، چنانچہ شوال 1201ھ میں جب کہ آپ طالب علمی کی زندگی ختم فرماکر کانپور میں اشاعت علوم میں مصروف تھے۔ سفر حج کی تو فیق ہوئی،حضرت والا اپنے والد ماجد کی معیت میں زیارت حرمین شریفین کے لیے روانہ ہوئے مکہ معظمہ پہنچ کر حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کی خدمت میں حاضر ہوئے حاجی صاحب مجدد الملۃ کے آنے سے بہت خوش ہوئے اور دست بدست بیعت کی نعمت سے سرفراز کیا اور فرمایا تم میرے پاس چھ مہینے رہ جاؤلیکن والد ماجد نے مفارقت کو گوارا نہ کیا۔ اس پر حاجی صاحب نے فرمایا کہ والد کی اطاعت مقدم ہے اس وقت چلے جاؤپھر دیکھا جائے گا،1310ھ میں آپ دوبارہ مکہ مکرمہ تشریف لے گئے اور چھ ماہ حاجی صاحب کی خدمت میں رہے۔[2]

اس دوران میں حاجی صاحب نے آپ کو شرف خلافت سے نوازا اور ساتھ یہ فرمایا میاں اشرف،توکل بخدا تھانہ بھون جاکر بیٹھ جانا اگر سخت حالات پیش آئیں تو عجلت مت کرنا،ان وصیتوں اور باطنی دولت کو لے کر آپ 1311ھ میں وطن واپس لوٹ آئے اور حاجی صاحب کی وصیت کے مطابق تھانہ بھون میں رشد واصلاح باطنی کاکام شروع کر دیا۔ ہندوستان کے طول وعرض سے لوگ پروانہ وار آتے رہے اور دین اسلام کا کام کرتے رہے۔[2]

تصانیف

آپ کی تصانیف اور رسائل کی تعداد 800 تک ہے۔ ان میں سے چند ایک کے نام پیش خدمت ہیں۔[3][2]

تفسیر بیان القرآن ،سلیس بامحاورہ ترجمہ، تفسیر میں روایات صحیحہ اور اکابر کے اقوال کا التزام کیا گیا ہے۔

اعمال قرآنی ،قرآن مجید کی بعض آیتوں کے خواص

حقیقۃ الطریقۃ ،سلوک وتصوف کے مسائل وروایات پر مشتمل ایک بے نظیر کتاب

احیاء السنن،فقہی ترتیب پر جمع کیے گئے احادیث کا مجموعہ

امداد الفتاوی،فقہی مسائل اور مباحث کا ایک نادر مجموعہ

الانتباہات المفیدہ ،جدیدتعلیم یافتہ لوگوں کے مذہبی اعتراضات کے جوابات

اعلاء السنن ،مذہب حنفی کی موید احادیث ،محدثین اور اہل فن کی تحقیقات کا مجموعہ

بہشتی زیور،اسلامی معلومات کا مکمل ذخیرہ

المصالح العقلیہ،اسلامی احکام ومسائل کے مصالح وحکم کا بیان

جمال القرآن ،اصطلاحات تجوید پر مشتمل ایک عام فہم رسالہ

نشر الطیب ،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر مشتمل جامع مانع کتاب http://www.elmedeen.com/author-34-حکیم-الامت-حضرت-مولانا-اشرف-علی-تھانوی-صاحب

وفات

اشرف علی تھانوی 83 سال 3 ماہ 11 دن کی زندگی گزارنے کے بعد 16 رجب1362ھ بمطابق 20 جولائی، 1943ء کی انتقال کر گئے۔[2]

آپ کی نماز جنازہ ظفر احمد عثمانی نے پڑھائی،تھانہ بھون کے قبرستان میں آپ مدفون ہیں۔[2]

حوالہ جات

  1. اجازت نامہ: CC0
  2. حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ؛ سوانح و خدمات سنی آن لائن، امریکا، اخذ کردہ بتاریخ 19 جولائی 2017ء
This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.