سید محمد عابد دیوبندی
دار العلوم دیوبند کے بانیوں میں سے تھے، دار العلوم دیوبند کا منصب اہتمام اولاً آپ ہی کے سپرد ہوا تھا۔
![]() |
مضامین بسلسلہ |
دیوبندی تحریک |
---|
![]() دار العلوم دیوبند، بھارت |
دار العلوم اور مدارس
|
|
|
قرآن شریف اور فارسی پڑھ کر علوم دینیہ کی تعلیم لے کیے دہلی گئے، اسی زمانہ تعلیم میں تصوف کا ایسا شوق ہوا کہ علوم کی تکمیل نہ ہو سکی، کئی بزرگوں سے بیعت و خلافت حاصل کی، آپ نے سلسلہ قادریہ میں بھی بیعت حاصل کی، میاں جی کریم بخش رام پوری اور امداد اللہ مہاجر مکی سے بھی بیعت حاصل کی تھی۔
آپ کا 60 برس تک چھتہ والی مسجد میں قیام رہا، اس دوران مشہور یہ ہے کہ آپ کی تکبیر اولیٰ فوت نہیں ہوئی، تہجد کی نماز کی اتنی پابندی تھی کہ ساٹھ سال تک آپ کی تکبیر اولیٰ فوت نہ ہوئی۔ صاحب کشف و کرامت والے تھے، وقت کی پابندی کا بہت لحاظ تھا اور اتباع سنت کا بہت اہتمام تھا۔ ان کا مشہور معقولہ ہے کہ:
” | بے عمل درویش ایسا ہے جیسا سپاہی بے ہتھیار | “ |
ایک دفعہ معلوم ہوا کہ حاجی محمد انور دیوبندی نے نفس کشی کے طور پر کھانا پینا بالکل ترک کر دیا ہے، آپ نے تاکیداً ان کو لکھا کہ یہ امر خلاف سنت ہے بطریق کھانا پینا ضرور ہے خواہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہے۔
ولادت اور حیات
حاجی سید محمد عابد کو لوگ حاجی سید عابد حسین کے نام سے بھی جانتے تھے۔ آپ کی پیدائش دیوبند کے ایک سادات گھرانے میں 1834ء (1250ھ) میں ہوئی۔ قرآن شریف کے بعد آپ نے فارسی پڑھی اور پھر علوم دینیہ کی تعلیم کے لیے دہلی چلے گئے، زمانہء تعلیم میں تصوف کا شوق ایسا دامن گیر ہوا کہ علوم کی تکمیل نہ کرسکے، میاں جی کریم بخش رامپوریؒ اور حضرت حاجی امداداللہ مکیؒ سے شرفِ خلافت حاصل کیا۔
حاجی محمد عابد صاحب نے دار العلوم دیوبند کے قیام کی تحریک میں حضرت امام قاسم النانوتویؒ کی مدد کی۔ امام نانوتویؒ کا خواب تھا کہ ایک ایسا اعلی درجہ کا مدرسہ قائم کیا جائے جس میں علوم دینیہ کی تعلیم جامع اور منظم طریقہ پر فراہم کی جائے۔ گرچہ حاجی سید محمد عابدؒ شروع میں اس تحریک کی حمایت میں نہیں تھے، لیکن جب امام قاسم النانوتویؒ کا اصرار بڑھا اورعلوم دینیہ کے لیے ایک بڑے مدرسے کے قیام کے تئیں ان کے جوش و خروش کو دیکھا تو حاجی محمد عابد صاحب ان کی تحریک کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہو گئے اور بانیین میں آپ کا نام بھی شامل ہو گیا۔
روحانیت اور دینداری حاجی محمد عابدصاحب دیوبند کے نہایت متقی، پرہیزگار اور صاحبِ اثر بزرگ تھے، تعویذات اور عملیات کے فن میں دُور دُور تک شہرت تھی، چونکہ آپ بھی بانیین دار العلوم دیوبند میں سے تھے اس لیے دار العلوم کا سب سے پہلا نظام بھی آپ کی نیک اور ماہر قیادت کی زیرِ نگرانی وجود میں آیا۔
حاجی صاحب کاچھتہ کی مسجد(دار العلوم کی پہلی درسگاہ) میں 60/ سال تک قیام رہا، مشہور ہے کہ تیس سال تک آپ کی تکبیر اولیٰ فوت نہیں ہوئی، نمازِ تہجد کا ایسا التزام تھا کہ 60/سال تک قضاء کی نوبت نہیں آئی، صاحبِ کشف و کرامت بزرگ تھے، رشدوہدایت اور تذکیر و تزکیۂ قلوب کے علاوہ آپ کو 'فن عملیات' میں زبردست ملکہ حاصل تھا، لوگ دوردورسے تعویذات و عملیات کے لیے حاضر ہوتے اور دامنِ امید گوہرِ مراد سے بھرکر لوٹتے تھے، مختلف کاموں کی کثرت کے باوجود ضبطِ اوقات کا بے حد التزام تھا اور ہر کام ٹھیک اپنے وقت پر انجام پاتا تھا۔
تعویذات کے ضرورت مند بعض اوقات حد سے زیادہ پریشان کرتے مگر اخلاق و تواضع کا یہ عالم تھا کہ کبھی تُرش رو ہوتے نہیں دیکھا گیا، اتباعِ سنت کا غائت اہتمام تھا، ان کا مقولہ ہے کہ 'بے عمل درویش ایسا ہے جیسے سپاہی بے ہتھیار، درویش کو چاہیے کہ اپنے آپ کو چُھپانے کے لیے عامل ظاہر کر دے'۔ وہ طریقۂ چشتیہ صابریہ کے بزرگ اور زُہد و ریاضت کا مجسمہ تھے۔
ایک مرتبہ آپ کومعلوم ہوا کہ مریدین میں حاجی محمد انور دیوبندی ؒ نے نفس کُشی کے طور پر کھانا پینا قطعاً ترک کر دیا ہے، آپ نے بتاکید ان کو لکھاکہ 'یہ امر سنت کے خلاف ہے، بطریقِ مسنون کھانا پینا ضرور چاہیے، خواہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو'۔
سوانح قاسمی میں سوانح مخطوطہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ 'اہلِ دیوبند کو آپ سے کمال درجہ کی عقیدت ہے، آپ کی ذات فیض آیات سے خلائق کو بہت طرح کا نفع حاصل ہے '،
'غیر مذہب والے بھی آپ کے تعویذوں کے معتقد ہیں، گھر بار، زمین، باغ جس قدر آپ کی ملک میں تھا سب کا سب راہِ خدا میں دے کر محض خدا پر تکیہ کیا ہوا ہے'۔
اوقات ومعمولات کے ضبط و نظم کا بڑا اہتمام رکھتے تھے، مولانا محمد یعقوب نانوتویؒ فرمایا کرتے تھے کہ "جاننے والا ہر وقت یہ بتاسکتا ہے کہ اِس وقت حاجی صاحب فلاں کام میں مشغول ہوں گے، اگر کوئی جاکر دیکھے تو اُسی کام میں ان کو مشغول پائے گا"۔
اشرف السوانح میں حکیم الامت اشرف علی تھانویؒ کا ایک ملفوظ نقل کیا گیا ہے کہ" میں حاجی صاحب کو بزرگ تو سمجھتا تھا مگر یہ خیال نہ تھا کہ وہ شیخ اور مربّی بھی ہیں، لیکن اپنے ایک باطنی اشکال کے دوران ان کے جوابِ شافی سے مجھے معلوم ہوا کہ وہ کامل درجہ کے شیخ اور مُربّی تھے"۔
تحریکِ دیوبند دار العلوم دیوبند کے لیے عوامی چندے کی تحریک کا آغازآپ ہی نے فرمایا تھا، حاجی فضلِ حقؒ نے حضرت نانوتویؒ کی سوانح مخطوطہ میں لکھا ہے کہ 'ایک دن بوقتِ اشراق حضرت حاجی سید محمد عابد سفید رومال کی جھولی بناکراور اس میں تین روپئے اپنے پاس سے ڈال کر چھتہ کی مسجد سے تنِ تنہا مولوی مہتاب عل مرحوم کے پاس تشریف لائے، مولوی صاحب نے کمالِ کشادہ پیشانی سے چھہ روپئے عنایت کیے اور دعا کی اور بارہ روئے مولوی فضل الرحمن صاحب نے اور چھہ روپئے اس مسکین (سوانح مخطوطہ کے مصنف حاجی فضل حق صاحب) نے دئے، وہاں سے اٹھ کر مولوی ذو الفقار علی سلمہ کے پاس آئے، مولوی صاحب ماشاء اللہ علم دوست ہیں، فوراً بارہ روپئے دئے اور حسنِ اتفاق سے اس وقت سید ذو الفقار علی ثانی دیوبندی وہاں موجود تھے، ان کی طرف سے بھی بارہ روپئے عنایت کیے، وہاں سے اٹھ کر یہ درویش بادشاہ صفت محلہ ابوالبرکات پہونچے، دوسو روپئے جمع ہو گئے اور شام تک تین سو روپئے، پھر تو رفتہ رفتہ چرچا ہوا اور جو پھل پھول اس کو لگے وہ ظاہر ہیں، یہ قصہ بروزجمعہ دوم ماہ ذی قعدہ 1282ھ میں ہوا۔
انتظامِ دار العلوم دیوبند دار العلوم کی مجلسِ شوریٰ کی رکنیت کے علاوہ تین مرتبہ اہتمام آپ کے سپرد ہوا، پہلی مرتبہ یومِ تاسیس سے 1867ءمطابق 1284ھ تک، دوسری مرتبہ 1869ء مطابق 1286ھ سے 1871ء مطابق 1288 تک اور تیسری مرتبہ 1890ء مطابق 1308ھ سے 1892ء مطابق 1310ھ تک، مجموعی طور پر یہ مدت دس سال ہوتی ہے۔
جامع مسجد دیوبند کی تعمیر بھی آپ ہی کی جدو جہد اور سعی و کوشش کا نتیجہ ہے، آخر میں کثرتِ مصروفیت کے باعث آپ اہتمام سے مستعفی ہو گئے تھے، ان کے اثرووجاہت سے دار العلوم کو کافی فوائد حاصل ہوئے اور اس کا ہر قدم ترقی کی جانت گامزن رہا۔
وصال
آپ نے پنجشنبہ 27/ذی الحجہ 1331ھ مطابق 1912ء کو 81/سال کی عمر میں وفات پائی، "مدارالمہام بہشت بریں" مادہ سنہ وفات ہے۔ تذکرۃ العابدینمیں آپ کے تفصیلی حالات مذکور ہیں۔