عبیداللہ سندھی

مولانا عبید اللہ سندھی (اردو: مولانا عبیداللہ سندھی، پنجابی زبان ਮੌਲਾਨਾ ਉਬੈਦੁਲਾ، سندھی: عبیداللہ سنڌي) (پیدائش: 22 مارچ 1872ء21 اگست 1944ء) تحریک آزادی ہند کے کارکن تھے۔ ہندوستان میں برطانوی استعمار سے آزادی کے لیے سیاسی طور پر سرگرداں رہے۔

مولانا عبیداللہ سندھی
مولانا عبیداللہ سندھی
مولانا عبیداللہ سندھی

معلومات شخصیت
پیدائش بوٹا سنگھ[1]
جمعہ 12 محرم الحرام 1289ھ/ 22 مارچ 1872ء
سیالکوٹ  
وفات پیر 2 رمضان المبارک 1363ھ/ 21 اگست 1944ء
(عمر: 72 سال 5 ماہ 1 دن شمسی)
ضلع رحیم یار خان  
شہریت برطانوی ہند  
عملی زندگی
پیشہ سیاستدان، مسلم فلسفی، عالم

سانچہ:مولانا عبید اللہ سندھی ؒ سانچہ:یوم وفات21اگست1944 ۔۔۔ وسیم اعجاز

امامِ انقلاب حضرت مولانا عبید اللہ سندھی 12 محرم الحرام 1289ھ / 10مارچ 1872ء بروز جمعۃ المبارک کو سیالکوٹ کے قریب ایک گاؤں ’’چیانوالی‘‘ میں اپنے والد کی وفات کے چار ماہ بعد پیدا ہوئے۔ دو سال کی عمر میں آپؒ کے دادا کا بھی انتقال ہو گیا تو ان کی والدہ انھیں لے کر اپنے والدین کے گھر جام پور ضلع ڈیرہ غازی خان چلی گئیں۔ 1878ء میں چھ سال کی عمر میں جام پور میں تعلیم کا آغاز ہوا۔ آپؒ نے اپنے تعلیمی عرصے میں ریاضی، الجبرا، اُقلیدس اور تاریخِ ہند سے متعلق علوم بڑی دلچسپی سے پڑھے۔ 1884ء میں بارہ سال کی عمر میں ایک نومسلم عالم عبید اللہ مالیرکوٹلی کی کتاب ’’تُحفۃُ الہِند‘‘ پڑھی۔ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد آپؒ نے اسلام قبول کیا اور اس کے مصنف کے نام پر آپؒ نے اپنا نام ’’عبید اللہ‘‘ رکھا۔

1888ء میں سید العارفین حضرت حافظ محمد صدیق بھر چونڈیؒ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ انھوں نے حضرت سندھیؒ کو اپنا بیٹا بنا کر توجۂ باطنی ڈالی۔ اس اجتماعِ صالح کی برکت سے مولانا سندھیؒ کے قلب میں معاشرتِ اسلامیہ راسخ ہو گئی۔ دو ماہ قیام کے بعد سید العارفین کے خلیفۂ اوّل حضرت مولانا ابوالسراج غلام محمدؒ کے پاس دین پور تشریف لے آئے۔ آپؒ کے اساتذۂ کرام میں مولانا عبد القادرؒ، مولانا خدا بخشؒ، مولانا احمد حسن کانپوریؒ (شاگرد حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ)، مولانا حافظ احمدؒ مہتمم دار العلوم دیوبند، حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ جیسے جید علمائے کرام شامل تھے۔ امتحان میں مولانا سید احمد دہلویؒ نے حضرت سندھیؒ کے جوابات کی بڑی تعریف کی اور فرمایا کہ: ’’اگر اس کو کتابیں ملیں تو یہ شاہ عبد العزیز ثانی ہوگا۔‘‘

دہلی سے سندھ میں بھرچونڈی شریف پہنچے۔ حضرت شیخ الہندؒ سے درس و تدریس کا اجازت نامہ آگیا تھا۔ 1891ء میں مولانا ابوالحسن تاج محمود امروٹی ؒ کے پاس امروٹ ضلع سکھر تشریف لے گئے اور وہیں آپؒ کی شادی ہوئی۔ 1897ء تک امروٹ شریف میں کتب ِحدیث وتفسیر کی درس و تدریس اور مطالعۂ کتب میں مصروف رہے۔ اسی دوران نشر و اشاعت کا ایک ادارہ ’’ محمود المطابع‘‘ قائم کیا اور اس مطبع سے سندھی زبان میں ایک ماہ نامہ ’’ہدایۃ الاخوان‘‘ کے نام سے شروع کیا۔ 1897ء میں حضرت شیخ الہندؒ نے انھیں سیاسی کام کرنے کا حکم دیا۔ 1901ء کو آپ نے صاحب العلم الثالث پیر رشیدالدینؒ کے ساتھ مل کر حیدر آباکے قریب ’’پیرجھنڈا‘‘ میں ایک مرکز ’’دارالرشاد‘‘ کے نام سے قائم کیا اور سات سال تک آپؒ نے علمی اور سیاسی کام سر انجام دیے۔ 1909ء میں سندھ سے آپؒ دیوبند منتقل ہو گئے اور ’’جمعیت الانصار ‘‘قائم کی۔ جس میں دار العلوم دیوبند کے فاضلین کی تعلیم و تربیت کا نظام اور تحریک ِحریت پیدا کرنے کے لیے اجلاسات منعقد کیے گئے۔

1913ء میں آپؒ نے قرآن حکیم کی تفسیر ’’الفوزالکبیر‘‘ کے اصولوں کی روشنی میں سمجھانے کے لیے دہلی میں ’’نظارۃ المعارف القرآنیہ‘‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا، جس کی سرپرستی حضرت شیخ الہندؒ، حکیم اجمل خان اور نواب وقار الملک نے کی۔

1915ء میں آپؒ حضرت شیخ الہندؒ کے حکم سے کابل جانے کے لیے روانہ ہوئے۔ سات سال کابل میں قیام پزیر رہے۔ اس دوران آپؒ نے ایک جماعت ’’جنودُ اللہ الربانیہ‘‘ کے نام سے قائم کی، جو ہندوستان، افغانستان کی آزادی کے لیے جدوجہد اور کوشش کرتی رہی۔ 1916ء میں کابل میں ’’عبوری حکومت ِہند‘‘ قائم کی اوراس کے وزیر خارجہ کے طور پر کام کرتے رہے۔ 1922ء میں آپؒ نے ’کانگریس کمیٹی کابل‘ بنائی اور اس کے صدر مقرر ہوئے۔ جس کا الحاق انڈین نیشنل کانگریس نے اپنے اجلاس منعقدہ ’’گیا‘‘ میں منظور کیا۔ 1922ء میں ترکی جانے کے لیے براستہ روس روانہ ہوئے۔ اس دوران ماسکو میں سات ماہ قیام فرمایا۔ 1923ء میں آپؒ انقرہ ترکی پہنچے۔ یہاں چار ماہ قیام فرمایا اور عصمت پاشا، رؤف بِک وغیرہ انقلابی رہنماؤں، نیزشیخ عبد العزیز جاویش سے ملاقاتیں ہوئیں۔ استنبول میں تین سال قیام فرماکر یورپ کی تاریخ کا بڑی گہری نظر سے مطالعہ فرمایا۔ 1924ء کو ہندوستان کے مستقبل کے سیاسی اور معاشی اُمور کو حل کرنے کے لیے ’’آزاد برصغیر کا دستور ی خاکہ‘‘ جاری فرمایا۔ استنبول سے اٹلی اور سوئٹزرلینڈ تشریف لے گئے اور کچھ عرصہ جدید اٹلی اور یورپ کی سیاسیات کا مطالعہ کیا۔ 1926ء میں مکۃ المکرمہ تشریف لائے اور دینی تعلیمات کی روشنی میں قومی جمہوری دور کے تقاضوں کے مطابق ایک پروگرام ترتیب دیا۔

انڈین نیشنل کانگریس، جمعیت علمائے ہند، مسلم لیگ اور دیگر قومی جماعتوں نے حضرت سندھیؒ کی ہندوستان واپسی کے لیے کوششیں شروع کیں۔ 1939ء کو آپؒ کراچی کی بندرگاہ پر اُترے۔ حکومت ِسندھ کے وزیر اعظم اللہ بخش سومرو نے عمائدین کے ساتھ آپؒ کا استقبال کیا اور کراچی میونسپل ہال میں آپ کے اعزاز میں استقبالیہ دیا۔ جہاں آپؒ نے ایک اہم اور معرکہ آرا خطاب فرمایا۔ آپؒ کی واپسی پر جمعیت علمائے صوبہ بنگال کے اجتماع منعقدہ کلکتہ کا آپ کو صدر مقرر کیا گیا۔ آپ ؒ نے شاہ ولی اللہؒ کے فلسفے کو سمجھانے کے لیے دہلی، لاہور، کراچی، پیرجھنڈا اور دین پور میں بیت الحکمت کے مراکز کھولی، جہاں نہایت سرگرمی سے نوجوانوں کی تربیت فرماتے رہے۔ 1944ء میں بیماری کے باوجود حضرت سندھیؒ کراچی سے حیدرآباد، میرپور خاص اور نواب شاہ ہوتے ہوئے گوٹھ پیرجھنڈا مدرسہ دار الرشاد میں قیام فرما ہوئے۔ آپؒ آخری دم تک پروفیسرمحمدسرور، مولانا غلام مصطفی قاسمی، مولانا بشیر احمد لدھیانوی اور اپنے دیگر نام وَر شاگردوں کو تاریخ، سیاست اور قرآنی علوم و معارف سے آراستہ کرتے رہے۔

انتقال سے دو روز قبل دین پور تشریف لائے اور 2رمضان المبارک 1363ھ / 21 اگست 1944ء بروز منگل کو وِصال فرمایا۔ آپؒ کا مزار حضرت غلام محمد دین پوریؒ کے قریب دین پور کے قبرستان میں مرجع خلائق ہے۔ اللہ تعالیٰ انھیں اپنی خاص نعمتوں سے مالا مال فرمائے اور ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

نام

ان کا نام پیدائشی نام بوٹا سنگھ تھا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد اپنا نام عبید اللہ رکھا۔

ولادت

عبید اللہ سندھی بروز جمعہ 12 محرم الحرام 1289ھ/ 22 مارچ 1872ء کو ضلع سیالکوٹ کے ایک گاؤں چیلانوالی کے ایک سکھ خاندان میں پیدا ہوئے۔

قبول اسلام

مولانا عبید اللہ سندھی پہلے سکھ مذہب سے تعلق رکھتے حافظ الملت محمد صدیق قادری بھرچونڈی شریف کی خدمت میں حاضر ہوئے تو نگاہ کیمیاء اثر نے ان کے قلب کی ماہیت تبدیل کر دی مشرف بہ اسلام ہوئے پیر کامل نے توجہ کی تو خرقہ صفا پہن کر بھرچونڈی شریف کے ہو کر رہ گئے[2]
عبید اللہ سندھی خود لکھتے ہیں۔

میں سولہ برس کا تھا اور اردو میں میٹرک کے درجے تک تعلیم پا چکا تھا کہ میں مسلمان ہوا اور مجھے کلمہ توحید حضرت حافظ محمد صدیق بھر چونڈی والوں نے پڑھایا میں اپنے آپ کو حضرت صاحب کی جماعت کا ایک فقیر سمجھتا ہوں۔[3]
اللہ تعالی کی رحمت سے جس طرح ابتدائی عمر میں اسلام کی سمجھ آسان ہو گئی اسی طرح کی خاص رحمت کا اثر یہ بھی ہے کہ سندھ میں حضرت حافظ محمد صدیق صاحب (بھرچونڈی والے) کی خدمت میں پہنچ گیا جو اپنے وقت کے جنید اور بایزید تھے چند ماہ ان کی صحبت میں رہا اس کا فائدہ یہ ہوا کہ اسلامی معاشرت میرے لیے اس طرح بیعت ثانیہ بن گئی جس طرح ایک پیدائشی مسلمان کی ہوتی ہے ایک روز آپ نےمیرے سامنے لوگوں کو مخاطب فرمایا اور کہا کہ عبید اللہ نے ہم کو اپنا ماں باپ بنایا ہے ۔ اس کلمہ کی تاثیر خاص طور پر میرے دل میں محفوظ ہے میں انہیں اپنا دینی باپ سمجھتا ہوں اس لیے سندھ کو اپنا مستقل وطن بنایا یا بن گیا میں نے قادری راشدی طریقہ میں حضرت سے بیعت کر لی تھی اس کا نتیجہ یہ محسوس ہوا کہ بڑے سے بڑے سے بہت کم مرعوب ہوتا ہوں۔[4]

1884ء میں آپ نے اپنے ایک ہم جماعت سے عالم دین مولانا عبید اللہ پائلی کی کتاب “تحفۃ الہند“ لے کر پڑھی۔ اس کے بعد شاہ اسماعیل شہید (انہیں شہید کے نام سے یاد کیا جاتا ہے) کی کتاب “تقویۃ الایمان“ پڑھی اور یوں اسلام سے رغبت پیدا ہو گئی۔ 15 برس کی عمر میں 19 اگست 1887ء کو مشرف بہ اسلام ہوئے۔[حوالہ درکار]

سندھی نسبت

مسلمان ہو کر بھرچونڈی شریف سکھر پہنچے جہاں حافظ الملت حافظ محمد صدیق سے ملے جو ان کے قبولِ اسلام کے جذبے سے بہت متاثر ہوےٴ اور انھوں نے اس نو مسلم کو اپنا روحانی فرزند بنا لیا حافظ الملت کی تربیت کا اثر یہ ہوا کہ اسلامی معاشرت انکی طبیعت ثانیہ بن گئی ان کو اپنے استاد کے ساتھ حد درجہ محبت تھی جس وجہ سے انھوں نے اپنے نام کے ساتھ سندھی لکھنا شروع کر دیا[5]

تعلیم

اردو مڈل تک کی تعلیم آپ نے جام پور ضلع ڈیرہ غازی خان میں حاصل کی۔ پھر قبول اسلام کے بعد 1888ء میں دیوبند گئے اور وہاں دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیا اور تفسیر و حدیث، فقہ و منطق و فلسفہ کی تکمیل کی۔

اہم کارنامے

  • 1901ء میں گوٹھ پیر جھنڈو میں دالارشاد قائم کیا اور سات برس تک تبلیغ اسلام میں منہمک رہے۔
  • 1909ء میں اسیر مالٹا محمود الحسن کے حکم کی تعمیل میں دارالعلوم دیوبند گئے اور وہاں طلبہ کی تنظیم “جمیعت الانصار“ کے سلسلے میں اہم خدمات انجام دیں۔
  • 1912ء میں دلی نظارۃ المعارف کے نام سے ایک مدرسہ جاری کیا جس نے اسلامی تعلیمات کی اشاعت میں بڑا کام کیا ہے۔
  • ترکی میں 1924ء میں اپنی ذمہ داری پر تحریک ولی اللہ کے تیسرے دور کا آغاز کیا۔ اس موقع پر آپ نے آزادئ ہند کا منشور استنبول سے شائع کیا۔
  • ترکی سے حجاز پہنچے اور 1939ء تک مکہ معظمہ میں رہے۔ اسی عرصہ میں انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کے حقوق اور دینی مسئل کو تحریروں اور تقریروں کے ذریعہ عوام تک پہنچایا۔
  • آپ نے تحریک ریشمی رومال میں سرگرم حصہ لیا۔
  • افغانستان کی آزادی کی سکیم آپ ہی نے مرتب فرمائی تھی، 25 سال تک جلاوطن رہے۔
  • افغانستان میں آل انڈیا کانگریس کی ایک باضابطہ شاخ قائم کی۔
  • ساری زندگی قائد حریت کی حیثیت سے اسلامی اور سیاسی خدمات انجام دیتے رہے۔

تصانیف

  1. ذاتی ڈائری
  2. خطبات و مقالات
  3. شعور و آگہی
  4. شاہ ولی اللہ اور ان کا فلسفہ
  5. فکر ولی اللہی کا تاریخی تسلسل
  6. قرآنی شعور انقلاب
  7. قرآن کا مطالعہ کیسےکیا جائے
  8. مجموعہ تفاسیر امام سندھی
  9. شاہ ولی اللہ اور ان کی سیاسی تحریک
  10. تفسیر المقام المحمود

وفات

21 اگست 1944ء کو آپ نے دین پور میں رحلت فرمائی۔

حوالہ جات

  1. ::: Pioneers of Freedom - Maulana Obaidullah Sindhi :: Humsafar.info :::
  2. عباد الرحمن، سید مغفور القادری صفحہ 11، حافظ الملت اکیڈمی بھرچونڈی شریف سندھ
  3. خطبات مولانا عبید اللہ سندھی مرتبہ محمد سرورصفحہ 146 سندھ ساگر اکیڈمی لاہور
  4. کابل میں سات سال ،مولانا عبید اللہ سندھی صفحہ 96،سندھ ساگر اکیڈمی لاہور
  5. Famous Personalities Articles : Hamariweb.com - مولانا عبید اللہ سندھی ایک مختصر تعارف

بیرونی روابط

This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.