محمد قاسم نانوتوی

محمد قاسم نانوتوی (1833ء-1880ء) غیر منقسم ہندوستان کے ایک متبحر عالم، تحریک دیوبند کے سرکردہ قائد اور دار العلوم دیوبند کے بانیان میں سے ہیں۔ قاسم نانوتوی کی پیدائش 1833ء میں بھارت کے شہر سہارنپور کے قریب واقع ایک گاؤں نانوتہ میں ہوئی۔[1]

محمد قاسم نانوتوی
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1833  
نانوتہ ، سہارنپور  
وفات 15 اپریل 1880 (4647 سال) 
دیوبند  
شہریت برطانوی ہند  
عملی زندگی
مادر علمی ذاکر حسین دہلی کالج  
پیشہ مصنف  
باب اسلام

تعلیم

ابتدائی تعلیم اپنے ہی گاؤں میں حاصل کی اور اس کے بعد دیوبند پہنچے، جہاں مولانا مہتاب علی کے مکتب میں داخل ہوئے۔ اس کے بعد سہارنپور میں اپنے نانا کے ساتھ قیام پزیر رہے، یہیں مولانا نواز صاحب سے عربی نحو اور صرف کی ابتدائی کتابیں پڑھیں۔ 1843ء کے اواخر میں مولانا مملوک علی نانوتوی اپنے ساتھ دلی لے گئے، جہاں کافیہ اور دیگر کتابیں پڑھیں اور اس کے بعد سالانہ امتحان کے بغیر ہی دلی کالج میں داخلہ لے لیا۔ دلی کالج میں داخلہ لینے سے قبل مولانا مملوک علی نانوتوی سے منطق، فلسفہ اور علم کلام پر متعدد کتابیں پڑھ چکے تھے۔[1]

ذاتی زندگی

تعلیم کی تکمیل کے بعد محمد قاسم نانوتوی مطبع احمدی میں ادارت کے فرائض انجام دینے لگے۔ دار العلوم دیوبند کے قیام سے قبل چھتہ مسجد میں اقلیدس کا درس دیا کرتے تھے، وہیں چھاپہ خانہ میں مولانا کا درس ہوا کرتا تھا۔ مولانا کے سلسلہ درس کے ذریعہ کئی نامی گرامی علما پیدا ہوئے۔

1860ء میں حج سے واپسی پر میرٹھ کے مطبع مجتبی میں کتابوں کے نسخوں کا تقابل اور نظر ثانی کا کام شروع کیا۔ 1868ء تک اس مطبع سے وابستہ رہے اس کے بعد دوبارہ حج پر روانہ ہوئے۔ حج سے واپسی پر اسی شہر میں مطبع ہاشمی میں ملازمت اختیار کی۔

قیام مدارس

مولانا کی سب سے بڑی کامیابی اور زندگی کا روشن ترین پہلو تحریک قیام مدارس ہے۔ اس تحریک نے ہندوستان کے طول وعرض میں دینی علوم کے حوالے سے بیداری کی ایک زبردست لہر برپا کردی جس کے نتیجہ میں سیکڑوں مدارس کا قیام عمل میں آیا اور گویا دینی علوم کی نشأۃ ثانیہ کی داغ بیل پڑ گئی۔ مرادآباد، دیوبند اور رامپور کے مدارس اسی تحریک کا نتیجہ تھے۔

وفات

1880ء میں مولانا قاسم نانوتوی محض 47 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔ مولانا کی قبر دار العلوم دیوبند کے شمال میں واقع مقبرہ قاسمی میں موجود ہے۔ اس قبرستان میں کثیر تعداد میں علما اور مشائخ مدفون ہیں۔

شہر شاملی اب بھی آباد ہے اور صدیوں سے ہے انیسویں صدی کے نصف یعنی 1857ءمیں مڑکر دیکھیے اس انقلابی عہد میں جب پورا ملک جنگ ِ آزادی کے طوفان کی زد میں تھا- شاملی بھی اس ولولے کی آگ سے نہ بچ سکا، فرنگی فوج کی اندھاد ھند گولہ باری چل رہی تھی اور ہرسو بندوقوں کی فائرنگ ہو رہی تھی اس معرکہ میں ایک محاذ محبانِ وطن کا بھی قائم تھا یہ ایک مختصر سی جماعت دیسی ہتھیاروں اور چند توڑے دار بندوقوں سے توپ خانہ اور برطانوی کی تربیت یافتہ فورس سے سینہ سپر تھی، ہندوستانی جاں بازوں میں اکثر ادھیڑ عمر افراد شامل تھے مگر ایک پچیس سالہ نوجوان نہایت دلیری اور جوش سے میدان حرب میں مورچے پرڈٹا تھا جس کو آگے چل کر حجة الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتوی کے نام سے دوامی شہرت وعظمت حاصل ہوئی۔

بیرونی روابط

حوالہ جات

This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.