محمد الیاس کاندھلوی
محمد الیاس کاندھلوی | |
---|---|
(عربی میں: محمد إلياس كاندهلوي) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 1885 [1] کاندھلہ |
تاریخ وفات | 13 جولائی 1944 (58–59 سال) |
شہریت | ![]() |
عملی زندگی | |
مادر علمی | دار العلوم دیوبند |
پیشہ | واعظ |
ملازمت | تبلیغی جماعت |
![]() | |
![]() |
مضامین بسلسلہ |
دیوبندی تحریک |
---|
![]() دار العلوم دیوبند، بھارت |
دار العلوم اور مدارس
|
|
|
محمد الیاس کاندھلوی تبلیغی جماعت کے بانی ہیں۔
تعلیم
حفظ قرآن اور فارسی و عربی کی ابتدائی کتابیں اپنے والدماجد سے پڑھیں۔ پھر اپنے بڑے بھائی کے ساتھ گنگوہ گئے جہاں آٹھ نو برس رہے اس دوران آپکی بہترین اخلاقی تربیت اور دینی تعلیم ہوئی، پھر 1326ھ میں شیخ الہند مفتی محمود کے درس میں شرکت کے لیے دیوبند پہنچے، ترمذی اور بخاری شریف کی سماعت کی۔ اس کے بعد برسوں اپنے بھائی مولانا یحییٰ سے حدیث پڑھتے رہے۔[2]
تدریس
فراغت کے بعد مدرسہ سہارنپور میں مدرس مقرر ہوئے۔ پھر دہلی میں ایک چھوٹی سی مسجد میں چند طالب علموں کو پڑھانے لگے اور درس حدیث دیتے رہے۔
بیعت و اجازت
رشید احمد گنگوہی سے آپ کو بیعت کا شرف حاصل ہے۔ رشید احمد گنگوہی وفات کے بعد خلیل احمد سہانپوری سے سلوک کی تکیل کی۔
مسلمانوں میں ایمان و یقین کی کمی کا احساس
انگریز کی برصغیر میں آمد کے ساتھ مغربی تہذیب کا نہ تھمنے والا سیلاب امڈ پڑا۔ امت میں ایمان و یقین کی جو تھوڑی بہت رمق تھی اسے بھی رفتہ رفتہ دیمک کی طرح چاٹ رہا تھا۔ مولانا روز بروز بڑھتی ہوئی اس بے یقینی کی فضا سے سخت تنگ تھے۔ امت کی اصلاح کے اور بھی بہت سے طریقے جاری تھے مگر آپ ان سے مطمئن نہ تھے بلکہ آپکو اندر ہی اندر بے چینی کھائی چلی جاتی تھی۔ آپ نے بہت سی محنتوں میں حصہ ڈالنا شروع کیا مگر اپنے تئیں مطمئن نہ ہوئے۔ ماحول سے الگ تھلگ عجیب سی کیفیت طاری رہتی۔ گہری سوچوں میں گم رہتے تاہم کسی دینی کام میں پیچھے نہ تھے بلکہ روز مرہ کے معمولات جاری رکھتے۔
اہم کارنامے
آپ کا عظیم کارنامہ تبلیغ کی تحریک کا شروع کرنا ہے۔ اس کا آغاز میوات کے علاقہ (ضلع قصور) سے ہوا۔ مولانا نے شب و روز محنت سے اس علاقے میں بہت سے مکتب قائم کیے اور آہستہ آہستہ اصلاح و تبلیغ کا کام پھیلنے اور اثر دکھانے لگا۔
دوسرا حج اور کام کے رخ کی تبدیلی
سید ابوالحسن علی ندوی کتاب (مولانا الیاس اور انکی دینی دعوت) میں محمد الیاس کے عمومی تبلیغی گشت کی ابتدا کے متعلق ذکر کرتے ہیں [3] کہ:
” | شوال 1344ھ میں آپ دوسرے حج کے لیے روانہ ہوئے، خلیل احمد صاحب کہ ہم رکابی حاصل تھی۔ مدینہ منورہ میں قیام کا زمانہ ختم ہوا اور رفقاء پہلے چلنے کے لیے تیار ہوئے تو انہوں نے مولانا کو عجیب بے چینی اور اضطراب میں پایا۔ آپ کسی طرح مدینہ منورہ سے جدا ہونے کو تیار نہ تھے۔ رفقاء نے خلیل احمد سہارنپوری سے اسکا ذکر کیا تو مولانا الیاس کی حالت دیکھ کر انہیں فرمایا کہ مولانا سے چلنے پر اصرار مت کرو ان پر ایک حالت طاری ہے۔ خود تمہارے ساتھ چلے جائیں یا تم چلے جاؤ یہ بعد میں آجائیں گے تاہم رفقاء ٹھہر گئے۔ مولانا الیاس فرماتے ہیں کہ مدینہ طیبہ کے اس قیام کے دوران میں مجھے اس کام کے لیے امر ہوا اور ارشاد ہوا کہ ہم تم سے کام لیں گے۔کچھ دن میرے اس بے چینی میں گزرے کہ میں ناتواں کیا کرسکوں گا کسی عارف سے ذکر کیا تو انہوں نے فرمایا کہ پریشانی کی کیا بات ہے۔ یہ تو نہیں کہا گیا کہ تم کام کرو گے، یہ کہا گیا کہ ہم تم سے کام لیں گے پس کام لینے والے لے لیں گے ۔اس سے بڑی تسکین ہوئی اور آپ نے مدینہ منورہ سے مراجعت فرمائی ۔ 5 مہینے حرمین میں قیام رہا۔ 13 ربیع الثانی 1345ھ کاندھلہ واپسی ہوئی۔ |
“ |
تبلیغی گشت کی ابتدا
حج سے واپسی پر آپ نے تبلیغی گشت شروع کر دیا۔ آپ نے دوسروں کو بھی دعوت دی کہ عوام میں نکل کر دین اسلام کے اولین ارکان و اصول (کلمہ توحید و نماز) کی تبلیغ کریں۔ لوگوں کے کان اس دعوت سے آشنا تھے، دین کی تبلیغ کے لیے عامیوں زبان کھولنا پہاڑ معلوم ہوتا تھا۔ چند آدمیوں نے بڑی شرم و حیاء اور رکاو ٹ کے ساتھ خدمت انجام دی۔ چند برسوں میں دور دور تک تبلیغی جماعتیں جانے لگیں اور پورے برصغیر میں اصلاح و تبلیغ کا کام ہونے لگا۔ آپ کی ساری زندگی اس تحریک کی نذر ہو گئی ۔[4]
حوالہ جات
- ایف اے ایس ٹی - آئی ڈی: http://id.worldcat.org/fast/238078 — بنام: Muḥammad Ilyās — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- انار کے درخت تلے، از مولانا محمد منصور احمد
- مولانا الیاس اور انکی دینی دعوت، از مولانا ابوالحسن علی ندوی
- Tableegh