حدیث کساء
حدیث کساء (حديث الكساء) حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ایک مشہور حدیث ہے جس کی مستند روایات بے شمار کتابوں میں موجود ہیں۔ یہ حدیث حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے روایت کی ہے اور بے شمار لوگوں نے اسے مزید روایت کیا ہے جن میں حضرت جابر بن عبداللہ نمایاں ہیں۔ یہ حدیث صحیح مسلم، صحیح ترمذی، مسند احمد بن حنبل، تفسیر طبری، طبرانی، خصائص نسائی اور دیگر کتابوں میں موجود ہے۔ اس کے علاوہ اسے ابن حبان، حافظ ابن حجر عسقلانی اور ابن تیمیہ وغیرہ نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے۔ یہ حدیث قرآن کی ایک آیت کی وجہ نزول بھی بتاتی ہے جسے آیہ تطہیر کہتے ہیں۔ تمام حوالوں کی فہرست نیچے درج کی جائے گی۔
![]() |
![]() |
عیدیں و تقریبات
|
شیعی مصادر تشریع
|
کلیدی شخصیات
|
فرقے
|
تحریکات و تنظیمیں
|
اہم کتابیں
|
ایضاً
|
تفسیر سیوطی اور مشکل الآثار میں ام سلمہ سے نقل کیا گیا ہے (حدیث کے الفاظ سیوطی کے ہیں) کہ: جب آیت تطہیر میرے گھر میں رسول اکرم ﷺ پر نازل ہوئی تو اس وقت گھر میں سات افراد موجود تھے: جبرئیل، میکائیل، علی، فاطمہ، حسن، حسین اور میں جو کہ گھر کے دروازے پر کھڑی تھی۔ میں نے رسول اللہ ﷺ سے کہا: "کیا میں آپ کے اہلبیت میں سے ہوں؟" آنحضرت ﷺ نے جواب میں دو دفعہ فرمایا:
” | تمہاری عاقبت بخیر ہے۔ تم پیغمبر ﷺ کی بیویوں میں سے ہو لیکن رسول ﷺ کے اہلبیت میں سے نہیں ہو۔ | “ |
مختصر کردہ روایت
نیچے دیے گئے حوالوں میں یہ روایت کافی لمبی ہے جس کو یہاں مختصر لکھا جا رہا ہے۔ تمام حوالوں میں یہ حدیث اسی طریقہ سے مذکور ہے۔ یہاں تک کہ حضرت فاطمہ کے نام کے ساتھ سلام اللہ علیہا استعمال ہوا ہے جسے یہاں برقرار رکھا جائے گا۔ روایت یوں ہے:
حضرت جابر بن عبداللہ نے حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا سے روایت کی ہے کہ ایک دن حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی بیٹی حضرت فاطمہ کے گھر تشریف لائے۔ وہ ایک بڑی یمنی چادر اوڑھ کر آرام فرمانے لگے۔ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا نے روایت کی ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا چہرہ چودھویں کے چاند کی طرح نورانی تھا۔ تھوڑی دیر میں نواسہ رسول حضرت حسن بن علی گھر آئے تو انہوں نے اپنی والدہ سے کہا کہ مجھے اپنے نانا رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خوشبو محسوس ہوتی ہے۔ بعد میں انہوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سلام کیا۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جواب دیا اور انہیں اپنے ساتھ چادر اوڑھا دی۔ کچھ دیر بعد رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دوسرے نواسے حضرت حسین بن علی آئے۔ انہوں نے بھی نانا کی موجودگی محسوس کی سلام کیا اور چادر اوڑھ لی۔ کچھ دیر کے بعد حضرت علی ابن ابوطالب کرم اللہ وجہہ تشریف لائے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سلام کیا جنہوں نے انہیں اپنے ساتھ چادر اوڑھا دی۔ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا فرماتی ہیں کہ میں بھی اجازت لے کر چادر میں داخل ہو گئی۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے چادر پکڑی اور دائیں ہاتھ سے آسمان کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ اے خدا یہ ہیں میرے اہل بیت ہیں، یہ میرے خاص لوگ ہیں، ان کا گوشت میرا گوشت اور ان کا خون میرا خون ہے۔ جو انہیں ستائے وہ مجھے ستاتا ہے اور جو انہیں رنجیدہ کرے وہ مجھے رنجیدہ کرتا ہے۔ جو ان سے لڑے میں بھی ان سے لڑوں گا اور جو ان سے صلح کرے میں ان سے صلح کروں گا۔ میں ان کے دشمن کا دشمن اور ان کے دوست کا دوست ہوں کیونکہ وہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں۔ پس اے خدا تو اپنی عنائتیں اور اپنی برکتیں اور اپنی رحمتیں اور اپنی بخشش اور اپنی خوشنودی میرے لیے اور ان کے لیے قرار دے۔ ان سے رجس کو دور رکھ اور ان کو پاک کر بہت ہی پاک۔۔۔۔۔[1][2][3][4][5]
یہ روایت آگے مزید چلتی ہے۔ اس دعا کے بعد قرآن کی ایک آیت نازل ہوئی (سورہ الاحزاب آیت 33) جسے آیت تطہیر کہا جاتا ہے۔ اس روایت کو بے شمار علما نے اس آیت کی تفسیر کے ذیل میں بھی نقل کیا ہے۔ آیت کا ترجمہ ہے کہ خدا نے ارادہ کر لیا ہے کہ آپ لوگوں سے رجس کو دور رکھے اے اہل بیت اور آپ کو پاک و پاکیزہ رکھے۔ یہ روایت صحیح مسلم میں حضرت عائشہ سے بھی اسی طرح منقول ہے جس میں انہوں نے یمنی چادر کی جگہ اونٹ کے بالوں سے تیار کردہ سیاہ چادر کا ذکر کیا ہے۔[6]
حدیث کے حوالے

یہ حدیث بے شمار جگہ مستند روایات کے ساتھ مروی ہے۔ یہاں صرف ان مرتبین و مصنفین ایک ایسی فہرست درج ہے جنہوں نے اس حدیث کو آیت تطہیر کی شان نزول میں لکھا ہے اور اس میں پنجتن پاک کے نام لے کر ان کے حوالے سے روایت بیان کی ہے۔ یاد رہے کہ یہ فہرست مکمل نہیں ہے۔
- علامہ ولی الدین محمد ابن عبد اللہ الخطیب الامری تبریزی[7]
- علامہ فخر الدین الرازی[8]
- علامہ جلال الدین سیوطی[9]
- حافظ ابو عبد اللہ احمد بن محمد بن حنبل شیبانی المعروف بہ احمد بن حنبل[2]
- علامہ ابو عبد الرحمان احمد ابن شعیبون نسائی[3]
- حافظ محمد ابن جریر طبری[4]
- حافظ احمد بن حسین بن علی بیہقی[5]
- حافظ حاکم ابوعبداللہ محمد ابن عبد اللہ نیشاپوری[10]
- حافظ دیلمی[11]
- حافظ ابوبکر احمد بن علی ثابت الخظیب ابغداد۔[12]
- علامہ محمود ابن عمر الزمخشری[13]
- علامہ علی ابن حسین ابن عبد اللہ ابن عساکر دمشقی[14]
- علامہ یوسف الواعظ ابن عبد اللہ المشتحربہ ابن جوزی[15]
- شمس الدین ابوعبداللہ محمد بن احمد الذہبی[16]
- الشیخ احمد ابن حجر المکی[17]
- علامہ شیخ محمد ابن علی شوکانی[18]
- شہاب الدین محمود آلوسی[19]
بیرونی حوالے
حوالہ جات
- ۔ حدیث 5595 صحیح مسلم
- مسند احمد بن حنبل۔ حافظ ابو عبد اللہ احمد بن محمد بن حنبل شیبانی۔ جلد اول صفحہ 331 مطبوعہ مصر
- الخصائص (نسائی) صفحہ 4۔ علامہ ابو عبد الرحمان احمد ابن شعیبون نسائی
- تفسیر طبری جلد 22 صفحہ 5۔ مطبوعہ مصر۔ حافظ محمد ابن جریر طبری
- سنن الکبری جلد 2 صفحہ 149۔ حافظ احمد بن حسین بن علی بیہقی
- صحیح مسلم حدیث 5595
- مشکوۃ المصابیح۔ علامہ ولی الدین محمد ابن عبد اللہ الخطیب الامری تبریزی
- تفسیر معروف از علامہ فخر الدین الرازی
- در منثور از علامہ جلال الدین سیوطی
- مستدرک حاکم۔ از حافظ حاکم ابوعبداللہ محمد ابن عبد اللہ نیشاپوری۔ جلد 2 صفحات 416،146،159،172
- کتاب الفردوس (دیلمی) از حافظ دیلمی۔ جسے صواعق نے نقل کیا
- تاریخ بغداد از علامہ حافظ ابوبکر احمد بن علی ثابت الخظیب ابغداد۔ جلد 10
- کشاف (زمخشری) جلد اول صفحہ 193۔ از علامہ محمود ابن عمر الزمخشری
- تاریخ دمشق (عساکر) از علامہ علی ابن حسین ابن عبد اللہ ابن عساکر دمشقی
- تاریخ خواص عامہ از ابن جوزی۔ علامہ یوسف الواعظ ابن عبد اللہ المشتحربہ ابن جوزی
- تلخیص المستدرک (ذہبی) شمس الدین ابوعبداللہ محمد بن احمد الذہبی
- صواعق المحرقہ از الشیخ احمد ابن حجر المکی
- فتح القدیر از علامہ شیخ محمد ابن علی شوکانی
- روح المعانی از شہاب الدین محمود آلوسی