واثلہ بن اسقع
واثلہ بن اسقعایک صحابی رسول اور اصحاب صفہ میں شمار ہوتا ہے۔
نام ونسب
واثلہ نام، ابو قرضا ضہ کنیت، نسب نامہ یہ ہے،واثلہ بن اسقع بن عبد لعزیٰ ابن عبد یالیل بن ناشب بن غزہ بن سعد بن لیث بن بکر بن کنانہ کنانی
اسلام
9ھ میں غزوۂ تبوک سے چند دن پہلے قبولِ اسلام کے ارادہ سے مدینہ آئے اورآنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے،آپ نے فرمایا جاؤ پانی اوربیر کی پتیوں سے نہاؤ اورزمانہ کفر کے بالوں کو صاف کراؤ، یہ کہہ کر ان کے سرپر دستِ شفقت پھیرا۔[1]
غزوۂ تبوک
ان کے اسلام قبول کرنے کے بعد ہی غزوۂ تبوک کی تیاریاں شروع ہوئیں تمام مجاہدین اپنا اپنا سامان درست کر رہے تھے،واثلہ بھی تیاری کرنے کے لیے گھر گئے یہاں کچھ نہ تھا، اس لیے واپس آئے، ان کی واپسی تک مجاہدین کا قافلہ روانہ ہوچکا تھا اوران کے شرکت کی بظاہر کوئی صورت باقی نہ تھی، لیکن ذوق جہاد بے تاب کیے ہوئے تھا؛چنانچہ انہوں نے مدینہ کی گلیوں میں پھر پھرکرآواز لگانا شروع کی کہ کون مجھ کو میرے مالِ غنیمت کے بدلہ میں تبوک لے چلتا ہے؟ اتفاق سے ایک انصاری بزرگ بھی باقی رہ گئے تھے،انہوں نے کہا، میں لے چلوں گا کھانا میں دونگا، اوراپنی سواری پر بٹھاؤں گا، خدا کی برکت پر بھروسا کرکے تیار ہوجاؤ، واثلہ کو تیاری ہی کیا کرنی تھی، فورا ساتھ ہو گئے،انصاری بزرگ نے نہایت حسن سلوک اورشریفانہ طریقہ سے انہیں رکھا اور وہ غزوۂ تبوک میں شریک ہوئے، وعدہ کے مطابق وہ مالِ غنیمت میں ملی اونٹینون کو انصاری بزرگ کے پاس لائے،انہوں نے ان اونٹنیوں کی چال ڈھال وغیرہ کو دیکھنے کے بعد کہا تمہاری یہ سب اونٹنیاں نہایت اچھی ہیں،واثلہ نے کہا تمہیں مبارک ہوں، انہیں لیجاؤ، میرا مقصد صرف ثواب آخرت تھا۔[2]
بیت المقدس میں قیام
بصرہ آباد ہونے کے بعد کچھ دنوں یہاں رہے،پھر شام منتقل ہو گئے اور دمشق سے تین کوس کی مسافت پر بلاط نامی گاؤں میں اقامت اختیار کرلی اور شام کی لڑائیوں میں شریک ہوتے رہے،آخر میں بیت المقدس میں سکونت اختیار کرلی تھی۔[3]
وفات
83ھ میں 105 سال کی عمر میں وفات پائی،واقدی کے بیان کے مطابق 85ھ میں انتقال کیا اور98 سال کی عمر تھی [4]آخر عمر میں بصارت جاتی رہی تھی ۔
حوالہ جات
- مستدرک حاکم:3/570
- ابوداؤد کتاب الجہاد باب الرجل کیری وابتر علی النصف والسہم
- اسد الغابہ:5/77
- ابن سعد،جلد7،ق1،صفحہ:121