عمرو ابن عاص

حضرت عمرو ابن العاص ایک صحابی رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تھے۔ فاتح مصر اور معاویہ بن ابو سفیان کے قریب ترین مشیر۔ معاویہ کے ان مشیران میں سے تھے جن کی مدد سے انہوں نے حکومت حاصل کی۔

عمرو بن العاص
عمرو بن العاص بن وائل بن ہاشم
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 580  
مکہ
وفات سنہ 664 (8384 سال)[1] 
مصر
شہریت خلافت راشدہ
سلطنت امویہ  
لقب أبو عبد الله
زوجہ ام کلثوم بنت عقبہ
ریطہ بنت منبہ  
اولاد عبداللہ
رشتے دار والد: عاص بن وائل السہمي
والدہ: نابغہ بنت خزيمہ بن حارث بن كلثوم
انکی والدہ سے انکے بھائی: عروة بن اثاثہ عدوی،عقبہ بن نافع
عملی زندگی
نسب بنو سہم ، قريش
اہم واقعات مصر کی فتح
تاریخ قبول اسلام 8 ھ
پیشہ والی ، عسکری قائد ، سفارت کار ، ریاست کار  
عسکری خدمات
وفاداری خلافت راشدہ  
لڑائیاں اور جنگیں غزوۂ بدر ، غزوہ احد ، غزوہ خندق ، جنگ یرموک ، جنگ صفین  

ابتدائی زندگی

وہ مکہ کے مشہور مالدار سردار عاص بن وائل کا بیٹا ہونے کے سبب ناز و نعمت میں پلے تھے۔ باپ نے ان کی تعلیم و تربیت کا خصوصی اہتمام کیا تھا۔ عاص بن وائل اسلام کا شدید دشمن تھا جس نے آخری وقت تک مسلمانوں کو تنگ کیا۔ عمرو بن العاص نے بھی کئی سال تک اسلام کی شدید مخالفت کی۔ یہاں تک مومنین نے اہل مکہ کی زیادتیوں سے تنگ آکر حبشہ ہجرت کی تو عمرو بن العاص نے شاہ حبشہ سے جا کر مطالبہ کیا کہ ہمارے باغی ہمیں واپس کیے جائیں۔ غزوہ بدر اور غزوہ احد اور غزوہ خندق میں عمرو بن العاص نے قریش کی طرف سے شرکت کی۔

القاب

عمرو بن العاص کو داهيۃ العرب - ارطبون العرب کے القاب حاصل تھے

قبول اسلام

غزوہ خندق کے بعد عمرو بن العاص نے سنجیدگی سے سوچنا شروع کر دیا کہ اگر بتوں میں کوئی جان ہوتی تو اتنا بڑا لشکر کبھی ناکام نہ ہوتا۔ ان کے اندر سے یہ آواز بھی آئی کہ اگر آخرت کا وجود نہ ہو تو دنیا میں کیے گئے ظلم و جور کا حساب کہاں ہوگا۔ اس ذہنی الجھنوں کے دور میں انہوں نے حبشہ کا سفر کیا اور وہاں شاہ نجاشی کی خدمت میں چمڑے کا تحفہ پیش کرکے حضور اکرم کے سفیر عمرو بن امیہ ضمری کو قتل کے لیے اپنے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا۔ نجاشی اس وقت تک مسلمان ہو چکا تھا۔ اس نے نہایت غضب ناک ہو کر جواب دیا۔

’’ کیا تم ایک شخص کو مجھ سے قتل کرنے کے لیے مانگتے ہو جو اس ہستی کا قاصد ہے جس کے پاس ناموس اکبر آتا ہے۔ وہی ناموس اکبر جو موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا کرتا تھا۔

عمرو بن العاص کا اپنا بیان ہے کہ اس جواب سے یک سو ہو گیا اور اپنے ساتھیوں سے کچھ کہے بغیر مدینہ کی طرف روانہ ہو گیا۔ راستے میں خالد بن ولید ملے۔ وہ قبول اسلام کی غرض سے مدینہ جا رہے تھے۔ چنانچہ دونوں نے حضور اکرم کے دست مبارک پر بیعت کی اور اپنے ماضی سے استغفار کیا۔

عہد نبوی میں خدمات

قبول اسلام کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت عمرو بن العاص کو ذات السلاسل اور سواع کی مہمات کا امیر مقرر کیا۔ اور دونوں آپ نے کامیابی سے سر کیں۔ موخر الذکر مہم سواع بت اور اس کے مندر کو مسمار کرنے کی مہم تھی جو مکہ سے تین میل کے فاصلے پر رباط کے مقام پر واقع تھا۔ آپ نے بلی اور عذرہ قبائل کو بھی دعوت حق پہنچا کر مشرف با اسلام کیا اور عمان کے سرداروں عبید اور جیفر کو جو مجوسی تھے مسلمان کرنے کا شرف بھی آپ کو حاصل ہوا۔ حضور اکرم نے آپ کو عمان کا عامل مقرر فرمایا۔

عہد خلافت میں خدمات

عہد صدیقی میں آپ عمان ہی کے عامل رہے یہاں تک کہ انہیں تسخیر فلسطین کی ذمہ داری سونپی گئی۔ اجنادین کے معرکہ میں آپ نے نوے ہزار مجاہدین کی کمان کی۔ اسی معرکہ میں آپ کے بھائی ہشام بن عاص شہید ہو گئے۔ جو آپ سے بہت پہلے اسلام قبول کرچکے تھے۔ اجنادین کی فتح کے بعد مخل و بیسان کے لوگوں میں بھی آپ نے کامیابی حاصل کی اور یرموک کے فیصلہ کن معرکہ میں آپ نے نمایاں کردار ادا کیا۔

طاعون عمواس نے پچیس ہزار مسلمانوں کی جانیں لے لیں جن میں قائد لشکر امین الملت ابوعبید بن جراح اور معاذ بن جبل بھی شامل تھے۔ ان دونوں کے بعد عمرو بن العاص لشکر کے قائد بنے تو انہوں نے حسن تدبیر سے مسلمانوں کی جانیں بچائیں۔ انہوں نے مسلمانوں کو وبا والے علاقے سے فوراً ہٹا لیا۔ اور پہاڑوں میں منتشر کر دیا۔ اس طرح وبا کے جراثیم ایک سے دوسرے تک نہیں پہنچ سکتے تھے۔ اسی طرح جلد ہی مسلمان اس وبا سے محفوظ ہو گئے۔

فتح مصر

عمرو بن العاص کو جس کارنامہ کی بدولت امتیاز حاصل ہوا وہ فتح مصر ہے۔ آپ نے صرف چار ہزار جانبازوں کے ساتھ مصر کی سرحد عبور کی۔ بابلیوں اور العریش پر قبضہ کرکے عین شمس پہنچے اور طویل محاصرے سے قصر شمع کو فتح کیا۔ اس قلعہ کے پاس آپ نے فسطاط کا شہر بسایا جو بعد میں اسلامی مصر کا دار الحکومت قرار پایا۔ اس فتح کا سب سے اہم معرکہ اسکندریہ کی فتح ہے جس کے بعد مقوقس شاہ مصر نے مسلمانوں کی اطاعت قبول کر لی۔ اور مصر کی تسخیر مکمل ہو گئی۔ مصر کے بعد عمر بن العاص نے طرابلس بھی فتح کر لیا۔ تاہم امیر المومنین نے افریقا (تونس اور الجزائر اور مراکش ) کی طرف پیش قدمی روک دی۔

مصر کے زرخیز علاقے کی آمدن نے مسلمانوں کا معیار زندگی بلند کر دیا۔ حضرت عمر کو عیش کوشی پسند نہ تھی انہوں نے عمرو بن العاص کے بیٹے محمد بن عمرو کو ایک قبطی کو پیٹنے کے بدلے میں اس قبطی سے کوڑے لگوائے اور عمرو بن العاص کو بھی سختی سے تنبیہ کی ۔

عثمانی دور

عثمانی دور میں حکومت میں عمرو بن العاص نے مصر کا خراج بڑھانے سے معذرت کی اور لکھا کہ ’’گائے اس سے زیادہ دودھ نہیں دے سکتی‘‘ حضرت عثمان نے آپ کو معزول کر دیا۔ لیکن آپ بدستور حضرت عثمان کے بہی خواہ رہے اور دور فتن میں آپ کو مشورے دیتے رہے۔

امیر معاویہ سے تعلق

امیر معاویہ نے قصاص عثمان کی دعوت دی تو عمرو بن العاص سے امداد کی درخواست کی۔ چنانچہ آپ نے مصر کی حکومت کی شرط منوا کر ان کا ساتھ دیا۔ جنگ صفین میں قرآن پاک کے اوراق کو نیزوں پر اٹھانے اور حکم مقرر کرنے کی تجویز بھی آپ ہی نے پیش کی تھیں۔ تحکیم کے معاہدہ کے بعد عمرو بن العاص نے امیر معاویہ کے مقرر کردہ ثالث کی حیثیت سے امیر معاویہ کی خلافت کا اعلان کر دیا۔ اس کے بعد آپ نے محمد بن ابی بکر کو شکست دے کر مصر پر قبضہ کر لیا اور آخر وقت تک مصر پر حکومت کی۔ خارجیوں نے حضرت علی کے ساتھ ان کوبھی قتل کرنے کی کوشش کی لیکن وہ صرف زخمی ہوئے اور بچ گئے۔

حوالہ جات

  1. مصنف: Aydın Əlizadə — عنوان : Исламский энциклопедический словарь — ناشر: Ansar — ISBN 978-5-98443-025-8
This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.