ابو عبیدہ بن جراح

ابوعبیدہ ابن الجراح جنہیں دربار رسالت سے امین الامت کا خطاب ملا قبیلہ فہر سے متعلق تھے۔ جو قریش کی ایک شاخ تھی۔ اصل نام عامر بن عبد اللہ تھا۔ ہجرت مدینہ کے وقت عمر 40 سال تھی۔ بالکل ابتدائی زمانے میں مشرف باسلام ہوئے۔ دیگر مسلمانوں کی طرح ابتدا میں قریش کے مظالم کا شکار ہوئے۔ حضور سے اجازت لے کر حبشہ ہجرت کر گئے لیکن مکی دور ہی میں واپس لوٹ آئے۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے چند روز قبل اذن نبی سے مدینہ کی طرف ہجرت کی اور حضور کی آمد تک قبا میں قیام کیا۔ مواخات مدینہ میں معزز انصاری صحابی ابوطلحہ کے بھائی بنائے گئے۔ بے مثال خدمات اسلام کی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جن صحابہ کو دنیا میں جنت کی بشارت دی ان سے ایک ہیں۔

ابوعبیدہ ابن جراح

(عربی: أبو عبيدة بن الجراح)

عامر بن عبد الله بن الجراح بن ہلال بن اہيب بن ضبہ بن الحارث بن فہر بن مالك بن النضر بن كنانہ بن خزيمہ بن مدركہ بن الياس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان القرشی الفہری المكی۔
ابو عبیدہ بن جراح

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 581 [1] 
مكہ
وفات سنہ 639 (5758 سال)[2] 
مات بطاعون عمواس بغور الأردن
وجۂ وفات طاعون [2] 
مدفن غور الأردن
شہریت خلافت راشدہ  
لقب امین الامت
رشتے دار والد عبد الله بن الجراح بن ہلال:
والدہ: اميمہ بنت عثمان بن جابر
عملی زندگی
نسب الفہری القرشی
فرمان نبوی إن لكل أمة أمينا وأمين هذه الأمة أبو عبيدة بن الجراح
اہم واقعات فتح الشام کے چار رہنماؤں میں سے ایک
خصوصیت غزوہ احد، عشرہ مبشرہ، امین امت
پیشہ عينہ عمر قائدا عاما على جيوش شام
عسکری خدمات
لڑائیاں اور جنگیں غزوۂ بدر ، جنگ یرموک  
مقبرہ - ابوعبیدہ ابن الجراح

حلیہ

قد لمبا، جسم نحیف ولاغر، چہرہ کم گوشت اور سامنے کے دو دانت خدمت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں قربان ہو گئے تھے، داڑھی گھنی نہ تھی۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ وہ خضاب استعمال کرتے تھے۔[3]

شخصیت

ابوعبیدہ ابن الجرح بے حد ذہین۔ سلیم الطبع، متقی اور بہادر تھے۔ لمبا قد، بظاہر لاغر کمزور نظر آنے والی شخصیت لیکن ایمان کامل کے سبب انتہائی پرنور چہرہ اور آہنی عزم کے مالک تھے۔ ابوعبیدہ بن الجراح نے اپنے زمانے کے سب سے بڑی عالمی طاقت روم کے خلاف ٹکر لی اور اسے ایشائی علاقوں سے پیچھے دھکیل دیا۔

عہد نبوی میں خدمات اسلام

مدینہ کی اسلامی ریاست قائم ہوئی تو ابوعبیدہ ان اکابرین میں سے تھے جن کو ہر نوعیت کا کام سونپا جا سکتا تھا۔ غزوات میں ابوعبیدہ کی خدمات جلیلہ کا خلاصہ یہ ہے کہ تمام غزوات میں شریک ہوئے اور عشق رسول اور اطاعت الٰہی کا حق ادا کر دیا۔ غزوہ بدر میں اپنے باپ عبداللہ بن الجراح کو اپنے ہاتھ سے قتل کیا۔(سنن الصغری للبیقی: 3910) قرآن پاک کی ایک آیات آپ ہی جیسے صحابہ کے لیے نازل ہوئی تھی جس میں اللہ تعالٰی باپ، بیٹے، بھائی اور اہل خاندان کے خلاف قتال کی وجہ سے جنت کی بشارت دی اور ارشاد فرمایا کہ اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔
غزوہ احد میں ابوعبیدہ بن الجراح افراتفری کے عالم میں بھی ثابت قدم رہنے والے صحابہ میں سے تھے۔ جب ایک کافر کے وار سے حضور کے آہنی خود کی کڑیاں آپ کے رخسار میں دھنس گئیں تو آپ نہایت سرعت سے آگے بڑھے اور اپنے دانتوں سے ان کڑیوں کو باہر نکالا اور اس آپریشن میں خود آپ کے دو دانت ٹوٹ گئے۔
غزوہ احزاب میں ابوعبیدہ بن الجراح نے ایک مستعد اور بہادر سپاہی کی حیثیت سے شرکت کی اور اس کے بعد بنو قریظہ کے استیصال میں حصہ لیا۔ غزوہ احزاب کے بعد بنو ثعلبہ اور بنو انمار کی غارت گری کے انسداد پر مامور ہوئے اور ان کے مرکز ذی القصہ پر کامیاب چھاپہ مارا۔

صلح حدیبیہ کے موقع پر بیعت رضوان میں شامل ہو کر اللہ تعالٰیٰ کی رضا حاصل کی۔ اور غزوہ خیبر میں بھی نبی کریم کے ان فدائیوں میں سے شامل تھے جنہوں نے اپنی شمشیر زنی کا حق ادا کیا۔

بنو قضاعہ نے مدینہ پر حملہ کرنے کے منصوبے بنائے تو آپ کو ایک ایسے دستے کا کمانڈر بنا کر بھیجا گیا جس میں ابوبکر صدیق اور عمر فاروق بھی شامل تھے۔ قریش کی بدعہدی کے بعد ان کے قافلوں کی نگرانی کے لیے ایک مہم ساحل سمندر کی طرف بھیجی گئی جس کی قیادت ابوعبیدہ کو سونپی گئی اور اس لشکر میں عمر بن خطاب بھی شامل تھے۔ اسی سریہ خبط میں خوراک ختم ہونے پر پتے کھا کر گزارہ کیا گیا یہاں تک کہ ایک بہت بڑی مچھلی مسلمانوں کے ہاتھ لگی اور اس طرح اللہ نے مسلمانوں کی خوراک کی ضرورت پوری کی۔

9 ھ میں وفد نجران نے جب ایک ’’امین شخص‘‘ کو ساتھ بھیجنے کا مطالبہ کیا تو آپ نے ابوعبیدہ کو اس مشن پرمامور کرتے ہوئے فرمایا:

’’ ہر امت کا ایک امین ہوتا ہے، میری امت کا امین ابوعبیدہ ہے ‘‘

ابوعبیدہ ابن الجراح ایک معلم بھی تھے، محصل (خراج و دیگر سرکاری واجبات وصول کرنے) بھی اور فوج کے کمانڈر بھی غرض دربار رسالت کے معتمد ترین اور اہل ترین اشخاص میں سے تھے۔

دور خلافت راشدہ میں خدمات

ابوعبیدہ کو اپنی عظمت کردار اور زہد و تقوی اور صلاحیتوں کی وجہ سے اہل مدینہ میں بہت اثر و رسوخ حاصل تھا۔ اسی وجہ سے آپ ان تین افراد میں سے تھے جنہوں نے سقیفہ بنو ساعدہ میں انتشار کی لہروں کو روکا اور آپ کی تجویز و تائید سے ابوبکر صدیق خلیفہ بنے۔ حضرت عمر فاروق کو آپ پر اس حد تک اعتماد تھا کہ ابو لؤلؤ فیروز کے ہاتھوں زخمی ہونے کے بعد جب انہیں خلیفہ کی تلاش تھی تو آپ نے فرمایا

’’اگر ابوعبیدہ زندہ ہوتے توانہیں خلیفہ بناتا کیونکہ حضور نے انہیں امین الملت قرار دیا تھا۔ ‘‘

اجنادین کا معرکہ

عہد صدیقی میں ابوعبیدہ کو حمص کی فتح پر مامور کیا گیا تو آپ کئی گنا زیادہ نفری والے دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے بصریٰ کو فتح کرتے ہوئے جابیہ پہنچے جہاں سے رومیوں اور شامیوں کی جنگی تیاریوں اور منصوبے کے بارے میں رپورٹ دربار خلافت بھیجی۔ حضرت ابوبکر نے یزید بن ابوسفیان، شرجیل بن حسنہ اور عمرو بن العاص کو آپ کے پاس پہنچنے کی ہداہت کی۔ مشرقی محاذ سے خالد بن ولید وہاں پہنچے اور اسلامی لشکر نے آپ کی قیادت میں اجنادین کا معرکہ جیتا۔

عہد فاروقی میں فتوحات

عہد فاروقی میں چند سال تک شام کے لشکر کی قیادت خالد بن ولید کرتے رہے۔ لیکن کم و بیش پانچ سال بعد 17 ھ میں فاروق اعظم نے خالد بن ولید کو ابوعبیدہ ابن الجراح کے ماتحت کر دیا۔ قیادت کی ان تبدیلیوں سے جہاد کے مقاصد کے حصول اور مہمات کی تربیت و کامرانی میں کوئی فرق نہ آیا۔ اس کا بہت بڑا سبب ابوعبیدہ بن الجراح کا وہ منجھا ہوا انداز قیادت تھا جس کی وجہ سے وہ دوسری پوزیشن میں رہتے ہوئے بھی اپنی صائب رائے پیش کرتے۔ اس پر عمل کرتے اور کرواتے اور اپنے ساتھیوں کا بھرپور تعاون حاصل کرتے۔ خالد بن ولید بھی ان کی شخصیت اور صلاحیتوں کے مداح تھے اور آپ کی پر کشش شخصیت اور سادہ اور پروقار زندگی ایک طرف رومیوں کے سفیر کو اسلام کی حقانیت کا قائل کرنے والی تھی تو دوسری طرف سرفروشان اسلام کو عزم جہاد دینے والی۔

ابوعبیدہ ابن الجراح جنگ یرموک کے فاتح ہیں جس نے ہرقل شاہ روم کو شام چھوڑنے پر مجبور کیا۔ بیت المقدس کے فاتح ہیں جو دینا کا عظیم روحانی مرکز ہے۔ آپ نے بیت المقدس میں پہلی نماز وہاں پڑھی جہاں آج کل مسجد اقصیٰ ہے۔ ابوعبیدہ فتح شام کے بعد شام کے پہلے گورنر تھے۔ وہ جرنیل بھی تھے۔ اچھے منتظم بھی اور دین اسلام کے مبلغ بھی تھی۔

امین الملت کی زندگی کا آخری معرکہ حمص کی وہ خونریز جنگ ہے جس میں ہرقل نے شام واپس پلٹنے کی آخری کوشش کی لیکن ناکام ہوا اور اس کے بعد اس نے کبھی شام کا رخ نہ کیا۔

شان فقر

فاتح شام اور فاتح بیت المقدس کی شان فقر کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ جب فاروق اعظم بیت المقدس تشریف لے گئے تو آپ نے اپنے بھائی ابوعبیدہ بن الجراح سے فرمائش کرکے ان کے ہاں کھانا کھایا جس میں صرف چند سوکھے ہوئے ٹکڑے تھے جن کو ابوعبیدہ پانی میں بھگو کر کھایا کرتے تھے۔ حضرت عمر نے فرمایا ’’شام میں آکر سب ہی بدل گئے لیکن ابوعبیدہ ایک تم ہو کہ اپنی اسی وضع پر قائم ہو۔ ایک اور موقع پر فاروق اعظم نے آپ کے بارے میں فرمایا :

’’الحمد اللہ مسلمانوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جن کی نظر میں سیم و زر کی کچھ حقیقت نہیں۔

مزار - ابوعبیدہ ابن الجراح

حدیث میں ذکر

ان 10 صحابہ کرام م اجمعین کا ذکر عبدالرحمن بن عوف رضي اللہ تعالٰی عنہ کی روایت کردہ حدیث میں ہے کہ:

عبدالرحمن بن عوف رضي اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں، عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں، عثمان رضي اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہيں، علی رضي اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں، طلحہ رضي اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں، زبیر رضي اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں، عبدالرحمن رضی اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں، سعد رضي اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہيں، سعید رضی اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں، ابوعبیدہ رضي اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں ۔[4]

وفات

18ھ میں مسلمانوں کے لشکر میں طاعون کی وبا پھوٹ نکلی جسے عمواس کی طاعون کہا جاتا ہے۔ اس موذی وبا نے بہت سے مسلمانوں کی جان لے لی ان میں سے ایک سپہ سالار اعظم امین الملت ابوعبیدہ بھی تھے۔ جن کو عمر فاروق نے مدینہ واپس بلانے کی کوشش کی لیکن انہوں نے جواب دیا کہ ’’ میں مسلمانوں کی فوج میں ہوں اور میرا دل ان سے جدا ہونے کو نہیں چاہتا۔ ‘‘ اس طرح اٹھاون برس کی عمر میں یہ تاریخ ساز شخصیت مالک حقیقی سے جا ملی ۔

حوالہ جات

  1. ISBN 9783902782076
  2. مصنف: Aydın Əlizadə — عنوان : Исламский энциклопедический словарь — ناشر: Ansar — ISBN 978-5-98443-025-8
  3. صفہ اور اصحاب صفہ از مولانا مفتی مبشر ص 121
  4. جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر1713
This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.