مسلمہ بن مخلد الانصاری
مسلمہ بن مخلد انصاری صحابی رسول ہیں۔
نام و نسب
مسلم نام، ابو سعید اور ابو معن کنیت، قبیلۂ خزرج سے ہیں سلسلۂ نسب یہ ہے،مسلمہ بن مخلد بن الصامت بن نیار بن لوذان بن عبدود بن زید بن ثعلبہ بن الخزرج بن ساعد بن کعب بن الخزرج الاکبر1ھ میں مدینہ میں پیدا ہوئے، آنحضرتﷺ کی وفات کے وقت دس سال کے تھے صغر سنی کی وجہ سے کسی غزوہ میں شریک نہ ہوسکے
غزوات
عمر فاروق کے عہد میں جب مصر پر فوج کشی ہوئی اور عمرو بن العاص کو فتح میں دیر لگی تو مدینہ سے چار ہزار آدمی بطور کمک روانہ کئے گئے،ان پر چار شخص افسر تھے جو فن سپہ گری میں تمام عرب میں انتخاب تھے ،یعنی زبیر بن العوام،مقداد بن اسود کندی،عبادہ بن صامت مسلمہ بن مخلد، حضرت عمر نے عمروبن العاص کو خطہ لکھا کہ ان افسروں میں ہر شخص ایک ہزار آدمیوں کے برابر ہے،اس بنا کر فوج 4ہزار نہیں بلکہ 8 ہزار ہے۔[1] مصر فتح ہوا تو مسلمہ نے وہیں اقامت اختیار کی ،پھر مدینہ آئے اور صفین میں امیر معاویہ کی طرف سے شریک ہوئے، یہ عجیب بات ہے کہ انصار کا ہر فرد حضرت علی کے ساتھ تھا؛ لیکن یہ بزرگ اور نعمان بن بشیر امیر معاویہ کے طرفدار تھے[2] محمد بن ابی بکر کے قتل کے بعد امیر معاویہ نے عمرو بن العاص کو مصر کا والی بنایا ان کے بعد اور لوگ بھی ان کی طرف سے والی ہوکر آئے جن میں سب سے آخیر والی اور سب سے پہلے نائب السلطنت مسلمہ بن مخلد تھے۔
امارت مصر وافریقہ
مسلمہ، امیر معاویہ کے پاس شام میں تھے کہ امیر معاویہ نے عقبہ بن عامر جہنی کے بجائے ان کو مصر کا حاکم مقرر کیا اور تاکید کی کہ عقبہ سے امارت مخفی رکھی جائے ،دوسری طرف عقبہ کے نام فرمان بھیجا کہ آپ امیر البحر ہیں،جزیرہ روڈس پرحملہ کیجئے؛چنانچہ مسلمہ مصر پہنچے اور عقبہ کے ساتھ اسکندریہ روانہ ہوئے ادھر عقبہ کے جہاز نے جزیرۂ روڈس پر حملہ کے لئے لنگر اٹھایا اور ادھر مسلمہ تختِ امارت پر متمکن ہوگئے، عقبہ کو خبر ہوئی تو بڑا افسوس کیا [3] مصر اور افریقہ اب تک دو جداگانہ صوبے تھے اوران پر دو والی حکومت کرتے تھے ، مسلمہ نے نظام حکومت از سر نو ترتیب دیا، سائب بن ہشام بن کنانہ عامری کو پولیس کا افسر اعلیٰ بنایا وہ 49ھ تک اس منصب پر فائز رہے اس کے بعد عابس بن سعد مراوی کو کہ ان سے زیادہ انتظامی قابلیت رکھتے تھے اس عہدہ پر مامور کیا۔ معاویہ بن خدیج کو مغرب کی سرحد پر غزوہ کے [4]لئے مامور کیا اور بری وبحری لڑائیوں کے لئے بعض مقامات پر لشکر بھیجے۔ مسلمہ نے اپنے فرائض منصبی نہایت بیدار مغزی، ہوشیاری اور مستعدی سے انجام دیئے ایک بحری لڑائی کے لئے آدمی کثرت سے بھرتی کئے تو فوج میں عام ناراضگی پھیل گئی،اس موقع پر مسلمہ نے فوجی جوش کم کرنے کے لئے ایک خطبہ دیا جوبجنسہ درج ذیل ہے: يا أهل مصر ما نقمتم مني واللہ لقد زدت مددكم وعددكم وقوتكم على عدوكم اعلموا أني خير ممن بعدي والآخر فالآخر شر۔وفي لفظ: والذي نفسي بيدہ لا يأتينكم زمان إلا الآخر فالآخر شر فمن استطاع منكم أن يتخذ نفقاً في الأرض فليفعل[5] لوگو!تم کو مجھ سے ناخوش نہ ہونا چاہیے میں نے تمہاری تعداد اورکمک میں اضافہ کرکے دشمنوں کے مقابلہ میں تم کو مضبوط بنایا ہے، خدا کی قسم !(مجھ کو غنیمت سمجھو) آئندہ زمانہ میں سخت وجابر عمال آئیں گے اس وقت کے لئے البتہ تم کو زمین میں کوئی سوراخ تلاش کرلینا چاہیے۔
محکمۂ مذہبی کا انتظام
مسلمہ نے محکمۂ مذہبی کے افسر اعلیٰ ہونے کی حیثیت سے بہت سی مذہبی خدمات بھی انجام دیں 53ھ میں جامع مسجد کی توسیع کی اور عمروبن عاص نے جو جامع مسجد تعمیر کی تھی اس کو منہدم کیا۔ مسجدوں میں روشنی کے منارے بنوائے اورخولان اور نجیب وغیرہ کے ذمہ روشنی کا جو انتظام تھا، اس کو موقوف کردیا،مسجدوں میں یہ حکم بھیجا کہ رات کے وقت سب جگہ ایک اذان ہو،فجر کے وقت یہ انتظام کیاکہ پہلے جامع مسجد میں کئی مؤذن اذان پکاریں جب وہاں اذان ختم ہو تو فسطاط کی ہر ہر مسجد میں اذان کہی جائے، چونکہ یہ طریقہ نہایت پسندیدہ مستحسن اور اسلام کی شان و شوکت کو دو بالا کرتا تھا، نہایت مقبول ہوا اور مسودہ کے زمانہ تک متواتر رائج رہا، ان لوگوں کے زمانہ میں کسی وجہ سے یہ رسم موقوف ہوگئی اور پھر افسوس کہ کبھی زندہ نہ ہوسکی۔
وفات
25 رجب 62ھ میں مسلمہ نے انتقال فرمایا، 62 سال کاسن تھا، 15برس چار ماہ حکومت کی، وفات کے وقت کاروبار حکومت عابس بن سعید کے سپرد کیا۔
اولاد
کوئی صلبی یاد گار نہیں چھوڑی
فضل وکمال
مسلمہ حافظ قرآن تھے اور وہ ایسا صحیح یاد تھا کہ لوگ تعجب کرتے تھے ، مجاہد تفسیر و قرأت کے امام ہیں اوراپنے زمانہ میں اس فن میں بے نظیر تسلیم کئے جاتے تھے ان کا بیان ہے کہ میں دنیا میں اپنے کو قرآن کا سب سے بڑا حافظ سمجھتا تھا ؛لیکن مسلمہؓ کے پیچھے ایک روز نماز فجر پڑھی تو یہ خیال غلط ثابت ہوا انہوں نے سورۂ بقرہ پڑھی تھی اتنی بڑی سورت میں کہیں واؤ اور الف کی بھی غلطی نہیں کی۔ حدیث میں بھی مرجعیت عامہ حاصل تھی اورخود صحابہ حدیث سننے کے لئےان کے پاس مصر جاتے تھے ، ابو ایوب انصاری صرف ایک حدیث سننے کے لئے مصر گئے تھے،عقبہ بن عامر جہنی بھی اسی غرض سے گئے تھے اور حدیث سنی تھی۔[6]
حوالہ جات
- کنز العمال:3/151
- یعقوبی:2/219
- کتاب ولاۃ مصر الکندی ،صفحہ38 تا40
- الاستيعاب في معرفة الأصحاب : أبو عمر يوسف بن عبد اللہ بن محمد بن عبد البر بن عاصم النمري القرطبي :الناشر: دار الجيل، بيروت
- الاصابۃ فی معرفۃ الصحابۃ،باب ذکر من اسمہ مسلمۃ مفتوح الاول:3/930
- مسند:4/104