مغلیہ سلطنت

مغلیہ سلطنت 1526ء سے 1857ء تک برصغیر پر حکومت کرنے والی ایک مسلم سلطنت تھی جس کی بنیاد ظہیر الدین بابر نے 1526ء میں پہلی جنگ پانی پت میں دہلی سلطنت کے آخری سلطان ابراہیم لودھی کو شکست دے کر رکھی تھی۔ مغلیہ سلطنت اپنے عروج میں تقریباً پورے برصغیر پر حکومت کرتی تھی، یعنی موجودہ دور کے افغانستان، پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے ممالک پر مشتمل خطے پر انکا دور دورہ تھا۔-

مغلیہ سلطنت
شاہانِ مغل
1526–1858

پرچم

Location of
مغلیہ حدود 1700ء
دار الحکومت آگرہ
(1526 تا1540؛ 1555تا1571)
فتح پور سیکری
(1571تا1585)
دہلی
(1648 تا1857)
زبانیں فارسی (آغاز میں چغتائی ترک بھی; آخر میں اردو بھی)
حکومت بادشاہت ، وحدانی ریاست
مع وفاقی نظام
شاہان مغل
 - 1526–1530 بابر
 - 1530–1539, 1555–1556 ہمایوں
 - 1556–1605 اکبر
 - 1605–1627 جہانگیر
 - 1628–1658 شاہجہاں
 - 1658–1707 اورنگزیب
تاریخی دور ابتدائی عہدِ جدید
 - جنگ پانی پت 1526ء 21 اپریل 1526
 - جنگ آزادی ہند 1857ء 20 جون 1858
رقبہ
 - 1700 3,200,000 مربع کلومیٹر (1,235,527 مربع میل)
آبادی
 - 1700 تخمینہ 150,000,000 
     کثافت 46.9 /مربع کلومیٹر  (121.4 /مربع میل)
جانشین
پیشرو
تیموری سلطنت
سلطنت دہلی
خاندان سوری
عادل شاہی سلطنت
دکنی سلطنتیں
مراٹھا سلطنت
درانی سلطنت
سکھ سلطنت
کمپنی بہادر
برطانوی راج
سلطنت حیدرآباد
موجودہ ممالک  افغانستان
 بنگلادیش
 بھارت
 پاکستان
آبادی کے ذرائع:[1]

ابتدائی تاریخ

سلطنتِ مغلیہ کا بانی ظہیر الدین بابر تھا، جو تیمور خاندان کا ایک سردار تھا۔ ہندوستان سے پہلے وہ کابل کا حاکم تھا۔ 1526ء کو سلطنتِ دہلی کے حاکم ابراہیم لودھی کے خلاف مشہورِ زمانہ پانی پت جنگ میں بابر نے اپنی فوج سے دس گُنا طاقتور افواج سے جنگ لڑی اور انہیں مغلوب کر دیا کیونکہ بابر کے پاس بارود اور توپیں تھیں جبکہ ابراہیم لودھی کے پاس ہاتھی تھے جو توپ کی آواز سے بدک کر اپنی ہی فوجوں کو روند گئے۔ یوں ایک نئی سلطنت کا آغاز ہوا۔ اس وقت شمالی ہند میں مختلف آزاد حکومتیں رائج تھیں۔ علاوہ ازیں وہ آپس میں معرکہ آرا تھے۔

فتوحات اور توسیع کا دور

1526ء میں دہلی اور آگرہ کی فتح کے بعد صرف چند ماہ میں بابر کے سب سے بڑے بیٹے ہمایوں نے ابراہیم لودھی کی تمام سلطنت کو زیر کر لیا۔ 1527ء میں میواڑ کے حاکم سنگرام نے اجمیر اور مالوہ کو اپنی عملداری میں لے رکھا تھا۔

مذہب

یہ بات واضح ہے کہ مغل سلطنت کا سرکاری مذہب اسلام تھا تاہم اکبراعظم کے دور میں کچھ عرصے تک اکبر کا ایجاد کردہ مذہب (دین الٰہی ) رائج کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ لیکن اس کا عوام پر کوئی اثر نہ ہوا اور وہ بہت جلد ہی ختم ہو گیا۔ باقی تمام شہنشاہوں کے دور میں اسلام ہی سرکاری مذہب تھا اور مغل شہنشاہان اسلام کے بہت پابند ہوا کرتے تھے۔ ان میں اورنگزیب عالمگیر زیادہ شہرت رکھتے تھے۔ باقی شہنشاہ بھی اسلام کی پیروی کے لحاظ سے جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے نہ صرف اسلامی قوانین رائج کیے اور اسلامی حکومت کو برصغیر کے کونے کونے میں پھیلانے کی بھرپور کوشش کی۔

مغل ثقافت بھی عمومًا اسلام پر مشتمل تھی۔

زبانیں

چغتائی ترکی

چغتائی ترکی مغل سلطنت کے بانی ظہیر الدین محمد بابر کی مادری زبان قرار دی جاتی ہے۔ اس زبان میں مغل سلطنت کے دفتری امور تو سر انجام نہیں دئے جاتے تھے اور نہ ہی سلطنت کے لیے اہمیت رکھتی تھی تاہم بابر اس میں شعر و شاعری لکھتے تھے۔

فارسی

فارسی کو مغل سلطنت میں دفتری اور رسمی زبان تھی لیکن جب اردو زبان وجود میں آئی تو اردو دفتری زبان بنی۔

اردو

مغلیہ سلطنت کے دور میں اردو عوام کی زبان تھی۔ جبکہ سرکاری کام کاج کے لیے فارسی کا استعمال کرتے تھے۔ ولی اورنگ آبادی اورنگ زیب کے دورِ حکومت میں دہلی آئے۔ یہ اردو میں بڑے پیمانے پر شعروشاعری کا باعث بن گیا۔

جانشینی کی جنگیں

تیموری روایت تھی کہ بادشاہ کہ مرنے کے بعد شاہی تخت کا وارث بادشاہ کا بڑا بیٹا ہی ہو لیکن تخت کی لالچ نے اس روایت کو روند ڈالا۔ایک بادشاہ کے مرنے کے بعد اس کے بیٹوں اور رشتہ داروں کے درمیان جنگ چھڑ جاتی جو شہزادہ اپنے حریفوں کو شکست دے دیتا وہ تخت مغلیہ کا وارث بن جاتابابر کو اپنے ماموں اور چچا سے لڑنا پڑ ااس کا بھائی جہا نگیر مرزابھی اس کے لیے دردر سر بن گیا ۔بابر کی موت کے بعد اس کا بیٹا ہمایوں بادشاہ بنا اسے اپنے بھائیوں کی دشمنی اور مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے ہر محاذپر اس کے ساتھ دشمنی کی ہمایوں کو افغان سرداروں کی مخالفت کی وجہ سے نقصان اٹھانا پڑامگر اس کے بھائی اسے شکست دے کر تخت دہلی حاصل کرنا چاہتے تھے انہوں نے قدم قدم پر اسے پریشان کیا افغان سردار شیر خان سوری نے اسے شکست دے کر دہلی چھوڑنے پر مجبور کیا ہمایوں دہلی چھوڑ کر لاہور پہنچا، افغان فوج نے اسے لاہور سے بھی بھگا دیا، ہمایوں شکست کھا کر ملتان جاپہنچا ۔کامران مرزا نے ملتان میں قیام کے دوران اس کی خواب گاہ کو توپ سے اڑانے کی کوشش کی۔ مگر ہمایوں محفوظ رہا بالآخر وہ سندھ کے راستے ایران جاکر پناہ گزین ہوا۔ پندرہ سال بعد 1555ء میں اس نے ایک بار پھر مغل سلطنت حاصل کی مگر ایک سال سے کم عرصہ میں اس کا انتقال ہو گیا ہمایوں کے بعد اکبر بادشاہ بنا۔ کسی نے اکبر کی مخالفت نہیں کی صرف اس کا سوتیلا بھائی مرزا عبد الحکیم سازشی امرا کے بھڑکانے پر فوج لے کر لاہورپر حملہ آور ہو امگر اکبری فوج نے اسے شکست دے کر گرفتار کر لیا اس نے تمام عمر قید میں گزاری۔

اکبر کے بعد اس کا بیٹا جہانگیر تخت نشین ہو ا،اس کے بیٹے خسرو نے جہانگیر کے خلاف بغاوت کردی۔ جہانگیر نے باغی فوج کو شکست دے کر باغیوں کو سرعام پھانسی دی اور شہزادہ خسرو کو اندھاکروادیا اس نے تمام عمر قید میں گزاری۔جہانگیرکے بعد شہزادہ خرم شاہجہان کے لقب سے تخت نشین ہوا اس کی مخالفت اس کے بھائی شہزادہ شہر یار اور شہزادہ داور بخش نے کی مگر شاہجہان کے وفاداروں نے انہیں شکست دے کر گرفتار کر لیا۔ شہزادے شہریار کو اندھا کر دیا گیا جبکہ شہزادہ داور بخش مارا گیا ۔

1658ء میں شاہجہان کی زندگی میں ہی اس کے بیٹوں (داراشکوہ،اورنگ زیب ،شجاع اور مراد )کے درمیان تخت کے حصول کے لیے خونریز جنگیں ہوئیں جس میں اورنگ زیب کو فتح نصیب ہوئی جب کہ تمام شہزادے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اورنگ زیب نے اپنے باپ شاہجہان کو لال قلعے میں نظر بند کر دیا اور اپنی بادشاہت کا اعلان کر دیا۔

1707ء میں اورنگ زیب کے انتقال کے بعد ایک بار پھر جانشینی کی جنگ چھڑ گئی `جس میں شہزادہ اعظم ،معظم اور کام بخش نے حصہ لیا شہزادہ معظم کامیاب رہا جبکہ دوسرے شہزادے جنگوں میں مارے گئے۔ اورنگ زیب کی وفات کے دس سال بعد کے عرصہ میں سات خون ریز جنگیں ہوئیں جس میں مغل حکومت کا بہت بڑا نقصان ہوا۔ لاتعداد جرنیل،سپاہی اور جنگی فنون کے ماہرین مارے گئے۔ جس کی وجہ سے مغل یہ سلطنت کمزور ہو گئی ۔

نوابوں کی بڑھتی طاقت و اثر و رسوخ

مغل حکومت کی کمزوری سے فائدہ اٹھا کر بہت سے صوبے دار باغی ہو گئے۔ انہوں نے مرکز کی اطاعت سے انکار کر دیا۔ بنگال کے صوبے دار علی وردی خان نے بنگال کے حکمران ہونے کا اعلان کر دیا۔ مرکزی حکومت میں اتنی ہمت نہ تھی اس کو سزا دی جاتی۔ حیدرآباد دکن کا صوبہ نظام الملک کے زیرحکومت تھا۔ اس نے بغاوت کرکے خود کو وہاں کا حاکم قرار دیا۔ مرکز نے اس کے خلاف بھی کوئی کارروائی نہ کی۔ پنجاب میں سکھ اور درانی حکومت کر رہے تھے۔ روہیل کھنڈ کی ریاست روہیلہ سرداروں کے ماتحت تھی۔ بعض علاقوں میں مرہٹے چھائے ہوئے تھے۔ سلطنت مغلیہ سمٹ کر دہلی کے گردونواح تک رہ گئی تھی۔ کوئی ایسا مضبوط حکمران نہ تھا جو ان باغیوں کی سرکوبی کرکے یہ علاقے دوبارہ مرکز کا حصہ بناتا۔

مراٹھا شورش

مرہٹے جنوبی ہند سے تعلق رکھتے تھے، مذہب کے لحاظ سے ہندو تھے، متعصب اور متشدد تھے۔ ان کی سرکوبی کے لیے اورنگ زیب کو کئی سال خرچ کرنا پڑے۔ ان کا سردار سیوا جی ایک عام سردار سے زیادہ نہ تھا، مگر اس نے مقامی حکمرانوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر کئی شہروں اور قلعوں پر قبضہ کر لیا اور اپنی حکومت کو مضبوط کیا۔

سکھ شورش

شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کی وفات (1707ء)کے بعد مغل شہزادے تخت کے حصول کے لیے جنگوں میں الجھ گئے۔ اس دوران سکھ سرداروں نے اپنی عسکری طاقت کو مضبوط کر لیا۔ انہوں نے بہادر شاہ اول کے دور میں مغل حکومت کے خلاف چھاپہ مار کارروائیاں شروع کر دیں۔ انہیں ایک متشدد، ظالم اور مسلم دشمن قائد مل گیا، جس کا نام بندہ بیراگی تھا، جو تاریخ کے اوراق میں بابا بندہ کے نام سے مشہور ہوا۔ اس نے پنجاب کے علاقوں جالندھر،گرداسپور، فیروزپور، پٹھان کوٹ کو تباہ و برباد کیا اور قتل وغارت کی انتہا کر دی۔ اس کے ظلم کا نشانہ مسلمان بنتے تھے۔ اس نے مسلمان عورتوں، بچوں، بوڑھوں کو وسیع پیمانے پر موت کے گھاٹ اتارا۔ اس کے ظلم کی داستانیں دہلی دربار تک پہنچ گئیں۔ اس پر بادشاہ نے اس کے خلاف شاہی فوجیں روانہ کیں۔ شاہی فوج کی کارروائیوں پر یہ لوگ جنگلوں میں چھپ جاتے اور موقع ملتے ہی چھاپہ مار کارروائیوں سے شاہی فوج کو نقصان پہنچاتے۔ یہ فتنہ 1718ء میں فرخ سیر کے دور میں ختم ہوا، جب بندہ بیراگی مارا گیا، مگر سکھ فتنہ کا مکمل خاتمہ نہ ہو سکا۔

پنجاب کے گورنر میر معین الملک عرف میر منو نے سکھوں کے اس فتنہ کے تدراک کی کوششیں کیں۔ وہ قصور میں سکھوں کے خلاف جنگ لڑنے کے لیے گیا، سکھ اس کی آمد کی خبر سن کر بوکھلا گئے۔ جنگ کے بعد وہ اپنی گھوڑی پر سواری کا لطف اٹھا رہا تھا کہ گھوڑی بے قابو ہو گئی۔ میر معین نے اسے قابو کرنے کی کوشش کی، مگر ناکامی ہوئی۔ اس حادثہ میں میر معین مارا گیا۔ بعض لوگوں نے اسے سازش قرار دیا، مگر حقائق سامنے نہ آسکے۔

اس کی موت کے بعد اس کی بیوی مغلانی بیگم نے اپنے تین سالہ نابالغ بیٹے کی سر پرستی کی اور پنجاب کی حکمران بن گئی۔ یہ دور سازشوں کا دور تھا، ہر شخص حاکم پنجاب بننے کے خواب دیکھ رہاتھا۔ اس دوران احمد شاہ درانی نے پنجاب پر حملے کیے تاکہ سکھوں کا زور توڑا جائے، مگر سکھ سردار جونہی اس کی آمد کی خبر سنتے جنگلوں اور اپنے محفوظ مقامات پر چھپ جاتے۔ مگر جونہی شاہی فوج واپس ہوتیں سکھ ایک بار پھر کارروائیاں شروع کردیتے۔ احمد شاہ درانی نے اپنے بیٹے تیمور شاہ کو حاکم پنجاب مقرر کیا اور مغلانی بیگم کو جاگیر دے کر حکومتی امورسے دستبردار کر دیا۔

اس دوران مرہٹے اور سکھ متحد ہو گئے۔ انہوں نے مل کر ایسا بھرپور حملہ کیا کہ افغان سپاہ کے پاؤں اکھڑ گئے، انہوں نے بھاگ کر اپنی جانیں بچائیں اور دریائے سندھ پارکرکے دم لیا۔ پنجاب کے صوبے دار آدینہ بیگ نے ان کا بھر پور مقابلہ کیا۔ لاتعداد سکھ اس کا مقابلہ کرتے ہوئے مارے گئے۔ چنانچہ سکھوں نے رات کے اندھیرے میں اس کی رہائش گاہ پر شب خون مارا، جس سے آدینہ بیگ جاں بحق ہو گیا۔

اب سکھوں کا راستہ روکنے ولاکوئی نہ تھا اور مغل شہنشاہ بالکل بے بس تھے۔ لاہور شہر کے عوام تین سکھ سرادروں (لہنا سنگھ، چڑت سنگھ اور گوجر سنگھ) کے درمیان ظلم وستم کا نشانہ بنتے رہے اور ان کا کوئی پرسان حال نہ تھا۔

ایسٹ انڈیا کمپنی کا عروج

24 ستمبر، 1599ء میں برطانیہ کے تاجروں نے مل کر ایک تجارتی کمپنی کی بنیاد رکھی جس کو برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کا نام دیا گیا۔ ملکہ برطانیہ (ملکہ الزابیتھ) کی طرف سے اسے ہندوستان اور دیگر ایشیائی ممالک میں تجارت کرنے کی اجازت دی گئی۔ 1612ء میں کمپنی کے سربراہوں نے فیصلہ کیا کہ تجارت کا دائرہ کار ہندوستان تک وسیع کیاجائے اس سلسلہ میں انہوں نے ملکہ برطانیہ سے گزارش کی کہ برطانوی سفیر کے ذریعے مغل بادشاہ جہانگیر سے تجارت کے لیے اجازت دلوائی جائے۔ چنانچہ حکومت برطانیہ نے سر تھامس رو کو مغل بادشاہ کے پاس روانہ کیااس خط میں شہنشاہ ہندوستان نور الدین محمد جہانگیر سے گزارش کی گئی وہ برطانوی تاجروں کو سورت اور دیگر شہروں میں تجارت کی اجازت دی جائے، انہیں رہائش گاہوں،گودام خانے تعمیر کرنے کی اجازت دی جائے اور اپنے سامان تجارت کی حفاظت کے لیے پہرے دار اور اسلحہ رکھنے کی اجازت دی جائے۔ شہنشاہ جہانگیر نے خط کے جواب میں یہ لکھوایا کہ میں نے اپنے تمام صوبائی حکمرانوں کو حکم نامہ جاری کر دیا ہے کہ برطانوی تاجروں کو ہندوستان میں اشیاء کی خرید وفروخت ،نقل وحرکت اور رہائش کی مکمل آزادی حاصل ہے۔ اس نے مزید یہ بھی کہا کہ برطانوی تاجر شاہی محلات کے لیے اشیاء لا سکتے ہیں۔

اسلحہ رکھنے کی فی الحال انہیں اجازت نہیں دی گئی مگر پہرے داروں کی شکل میں برطانوی تاجروں نے تربیت یافتہ سپاہ تیار کرلی۔ انہوں نے مختصر وقت میں گوا،چٹاگانگ اوربمبئی میں اپنے تجارتی ٹھکانے بنا لیے۔ انہوں نے پرتگیز ،ڈچ،اسپینی تجارتی کمپنیوں نے جہازوں پر حملے کیے تاکہ ان کی طاقت کو توڑا جائے اس طرح انہوں نے سورت،مدراس،کلکتہ میں اپنی طاقت مستحکم کر لی۔ انہوں نے فورٹ ولیم،فورٹ سینٹ جارج اور بمبئی کا قلعہ آباد کیے انہوں نے مقامی آبادی کے لوگوں کو اپنا ملازم رکھا مقامی آبادی کے لوگ ان کے اخلاق اور دیانت داری کے قائل ہو گئے۔

فہرست حکمران مغلیہ سلطنت

اس عنوان کے لیے مزید پڑھیں، فہرست حکمران مغلیہ سلطنت

فہرست ملکہ و بیگمات مغلیہ سلطنت

اس عنوان کے لیے مزید پڑھیں، فہرست ملکہ و بیگمات مغلیہ سلطنت

حوالہ جات

  1. John F. Richards (مارچ 26, 1993)۔ Gordon Johnson؛ C. A. Bayly, ویکی نویس.۔ The Mughal Empire۔ The New Cambridge history of India: 1.5۔ Cambridge: Cambridge University Press۔ صفحات 1, 190۔ آئی ایس بی این 978-0-521-25119-8۔ ڈی او آئی:10.2277/0521251192۔ |access-date= requires |url= (معاونت)
This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.