برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی

برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی یا برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی یا برطانوی شرق الہند کمپنی جسے انگریزی (British East India Company) کہا جاتا ہے، جزائر شرق الہند میں کاروباری مواقع کی تلاش کے لیے تشکیل دیا گیا ایک تجارتی ادارہ تھا تاہم بعد ازاں اس نے برصغیر میں کاروبار پر نظریں مرکوز کر لیں اور یہاں برطانیہ کے قبضے کی راہ ہموار کی۔ 1857ء کی جنگ آزادی تک ہندوستان میں کمپنی کا راج تھا۔ اس کے بعد ہندوستان براہ راست تاج برطانیہ کے زیر نگیں آ گیا۔

ایسٹ انڈیا کمپنی
East India Company
سابقہ قسم
عوامی
صنعت بین الاقوامی تجارت
قسمت تحلیل
کالعدم 1 جون 1874 (1874-06-01)
صدر دفتر لندن، انگلستان
1757 کی جنگ پلاسی کے بعد لارڈ کلائیو کا فاتحانہ لشکر، ہندوستان میں انگریز راج کے عروج کی سمت پہلا قدم

برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کو 1600ء میں ملکہ الزبتھ اول کے عہد میں ہندوستان سے تجارت کا پروانہ ملا۔ 1613ء میں اس نے سورت کے مقام پر پہلی کوٹھی قائم کی اس زمانے میں اس کی تجارت زیادہ تر جاوا اور سماٹرا وغیرہ سے تھی۔ جہاں سے مصالحہ جات برآمد کرکے یورپ میں بھاری داموں بیچا جاتا تھا۔ 1623ء میں جب ولندیزیوں (ڈچ) نے انگریزوں کو جزائر شرق الہند سے نکال باہر کیا تو ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنی تمام تر توجہ ہندوستان پر مرکوز کر دی۔ 1662ء میں بمبئی بھی اس کے حلقہ اثر میں آ گیا۔ اور کچھ عرصہ بعد شہر ایک اہم تجارتی بندرگاہ بن گیا۔ 1689ء میں کمپنی نے علاقائی تسخیر بھی شروع کردی جس کے باعث بالآخر ہندوستان میں برطانوی طاقت کو سربلندی حاصل ہوئی۔ 1795ء میں جب فرانس نے نیدرلینڈ (ڈچ) فتح کر لیا تو برطانیہ نے ڈچ کولونیوں پر قبضہ کر لیا۔ نیدر لینڈ کے بڑے بینکار (Hope) لندن منتقل ہو گئے اور اس طرح مالیاتی مرکز ایمسٹرڈم سے لندن منتقل ہو گیا۔

1858ء میں یہ کمپنی ختم کردی گئی اور اس کے تمام اختیارات تاج برطانیہ نے اپنے ہاتھ میں لے لیے۔ تاہم 1874ء تک کچھ اختیارات کمپنی کے ہاتھ میں رہے۔
ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی 1602ء میں بنی تھی مگر برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی سے زیادہ بڑی ثابت ہوئی۔ ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی کے پاس 4785 بحری جہاز تھے جبکہ برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے پاس 2690 جہاز تھے۔[1]
انگلش ایسٹ انڈیا کمپنی دنیا کی پہلی لمٹڈ کمپنی تھی۔ اس کے 125 شیئر ہولڈرز تھے اور یہ 72000 پاونڈ کے سرمائے سے شروع کی گئی تھی۔[2]

2010ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی کو ہندوستانی نژاد برطانوی کاروباری شخصیت سنجیو مہتا نے خرید لیا۔[3]

ایسٹ انڈیا کمپنی کب بنی
ملکسال
برطانیہ1600ء
ہالینڈ (ڈچ)1602ء
ڈنمارک1616ء
فرانس1664ء
ہندوستان 1765ء تا 1805ء ایسٹ انڈیا کمپنی علاقہ جات گلابی رنگ میں
ہندوستان 1837ء تا 1857ء ایسٹ انڈیا کمپنی (گلابی رنگ میں) اور دیگرعلاقے

اقتباسات

ایسٹ انڈیا کمپنی اگرچہ ایک تجارتی کمپنی تھی مگر ڈھائی لاکھ سپاہیوں کی ذاتی فوج رکھتی تھی۔ جہاں تجارت سے منافع ممکن نہ ہوتا وہاں فوج اسے ممکن بنا دیتی۔
1757ء میں جنگ پلاسی کا واقعہ پیش آیا جس میں انگریزوں کو کامیابی حاصل ہوئی، جس کے بعد بنگال کے جوبیس پرگنوں پر انگریزوں کا کنٹرول ہو گیا۔ مغلیہ سلطنت کے زوال کے نتیجے میں 1765ء میں لارڈ کلائیو مغل بادشاہ شاہ عالم ثانی سے مشرقی صوبوں بنگال،بہار اور اڑیسہ کی دیوانی (ٹیکس وصول کرنے اور عوام کو کنٹرول کرنے کے حقوق) چھبیس لاکھ روپے سالانہ کے عوض حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ دیوانی حاصل کرنے کے بعد، انگریزوں نے رفتہ رفتہ اپنے پاؤں پھیلانے شروع کر دیے اور ان مہاراجوں پر بھی تسلط حاصل کر لیا جو مغلیہ سلطنت کے زوال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، اپنے اپنے صوبوں کی خود مختیاری کا اعلان کرچکے تھے۔ ان میں سے چند مہاراجے ہندو تھے جو دوسری مغربی طاقتوں کی مدد سے مغل شہنشاہ کے خلاف بغاوت کرچکے تھے۔ ان کے خلاف، کامیاب فوجی کارروائی کرتے ہوئے انگریزوں کو ملک کے ایک بڑے حصے پر کنٹرول حاصل ہو گیا۔[4]

1876–78 کے جنوبی ہندوستان کے قحط زدگان۔انگریز اس زمانے میں بھی ہندوستان سے غلہ بر آمد کرتے رہے۔ اس قحط میں لگ بھگ 70 لاکھ لوگ مر گئے۔

شیخ دین محمد جو ایسٹ انڈیا کمپنی کا ملازم تھا اپنے سفر نامے میں لکھتا ہے کہ (سن 1772ء میں) جب ہماری افواج آگے بڑھ رہی تھیں تو ہمیں بہت سارے ہندو زائرین نظر آئے جو سیتا کُنڈ جا رہے تھے۔ 15 دنوں میں ہم منگیر سے بھاگلپور (بہار) پہنچ گئے۔ شہر سے باہر ہم نے کیمپ لگا لیا۔ یہ شہر صنعتی اعتبار سے اہم تھا اور اس کی ایک فوج بھی تھی تاکہ اپنی تجارت کو تحفظ دے سکے۔ یہاں ہم چار پانچ دن ٹھہرے۔ ہمیں پتہ چلا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا کیپٹن بروک جو سپاہیوں کی پانچ کمپنیوں کا سربراہ تھا وہ بھی قریب ہی ٹھہرا ہوا ہے۔ اسے کبھی کبھار پہاڑی قبائلیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ پہاڑی لوگ بھاگلپور اور راج محل کے درمیانی پہاڑوں پر رہتے تھے اور وہاں سے گزرنے والوں کو تنگ کرتے تھے۔ کیپٹن بروک نے ان کی ایک بڑی تعداد کو پکڑ لیا اور انہیں عبرت کا نمونہ بنا دیا۔ کچھ لوگوں کو سر عام بے تحاشا کوڑے مارے گئے اور کچھ مردُودوں کو پھانسی پر اس طرح لٹکایا گیا کہ پہاڑوں پر سے واضح نظر آئے تاکہ ان کے ساتھیوں کے دلوں میں دہشت بیٹھ جائے۔
یہاں سے ہم آگے بڑھے اور ہم نے دیکھا کہ ان پہاڑیوں کی لاشیں نمایاں جگہوں پر ہر آدھے میل کے فاصلے پر لٹکی ہوئی ہیں۔ ہم سکلی گڑھی اور تلیا گڑھی سے گزر کر راج محل پہنچے جہاں ہم کچھ دن ٹھہرے۔ ہماری فوج بہت بڑی تھی مگر عقب میں تاجروں پر کچھ دوسرے پہاڑیوں نے حملہ کر دیا۔ ہمارے محافظوں نے ان کا پیچھا کیا، کئی کو مار دیا اور تیس چالیس پہاڑی لوگوں کو پکڑ لیا۔ اگلی صبح جب شہر کے لوگ معمول کے مطابق ہاتھی گھوڑوں اور بیلوں کا چارہ لینے اور جلانے کی لکڑی خریدنے پہاڑیوں کے پاس گئے تو پہاڑیوں نے ان پر حملہ کر دیا۔ سات آٹھ شہری مارے گئے۔ پہاڑی اپنے ساتھ تین ہاتھی کئی اونٹ گھوڑے اور بیل بھی لے گئے۔ ہماری بندوق بردار فوجوں نے جوابی کارروائی میں بہت سے پہاڑیوں کو مار دیا جو تیرکمان اور تلواروں سے لڑ رہے تھے اور دو سو پہاڑیوں کو گرفتار کر لیا۔ ان کی تلوار کا وزن 15 پاونڈ ہوتا تھا جو اب ہماری فتح کی ٹرافی بن چکی تھیں۔
کرنل گرانٹ کے حکم پر ان پہاڑیوں پر شدید تشدد کیا گیا۔ کچھ کے ناک کان کاٹ دیے گئے۔ کچھ کو پھانسی دے دی گئی۔ اس کے بعد ہم نے کلکتہ کی طرف اپنا مارچ جاری رکھا۔[5]

جون 1757ء میں پلاسی کی جنگ میں نواب سراج الدولہ (جو فرانس کا اتحادی تھا) کو شکست دینے کے بعد کمپنی کے اعلیٰ ترین افسران نے بنگال میں یکے بعد دیگرے کئی نواب مقرر کیے اور ہر ایک سے رشوت لے کر 26 لاکھ پاونڈ بٹور لیے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوجیں اکثر مقامی حکمرانوں کو اجرت کے عوض فوجی خدمات فراہم کرتی تھیں۔ لیکن ان فوجی اخراجات سے مقامی حکمران جلد ہی کنگال ہو جاتے تھے اور اپنی حکمرانی کھو بیٹھتے تھے (جیسے اودھ)۔ اس طرح ایسٹ انڈیا کمپنی کی سلطنت وسیع ہوتی چلی گئی۔[6]
بنگال کے قحط (1769ء - 1770ء) نے کمپنی کے افسران کو امیر بننے کا بھر پور موقع فراہم کیا۔ چاول جو ایک روپے میں 120 سیر ملتا تھا اب ایک روپے میں صرف تین سیر ملنے لگا۔ ایک جونیئر افسر نے اس طرح 60,000 پاونڈ منافع کمایا۔ Cornelius Wallard کے مطابق ہندوستان میں پچھلے دو ہزار سالوں میں 17 دفعہ قحط پڑا تھا۔ مگر ایسٹ انڈیا کمپنی کے 120 سالہ دور میں 34 دفعہ قحط پڑا۔ مغلوں کے دور حکومت میں قحط کے زمانے میں لگان (ٹیکس) کم کر دیا جاتا تھا مگر ایسٹ انڈیا کمپنی نے قحط کے زمانے میں لگان بڑھا دیا۔
Warren Hastings کے مطابق لگ بھگ ایک کروڑ افراد بھوک سے مر گئے جو کل آبادی کا ایک تہائی تھے۔ لوگ روٹی کی خاطر اپنے بچے بیچنے لگے تھے۔[7]

برطانیہ کے ہاوس آف کامنز نے 1813ء میں Thomas Munroe (جسے 1820ء میں مدراس کا گورنر بنایا گیا) سے جاننا چاہا کہ آخر صنعتی انقلاب کے بعدبرطانیہ کے بنے ہوئے کپڑے ہندوستان میں کیوں نہیں بک رہے تو اس نے جواب دیا کہ ہندوستانی کپڑے کہیں زیادہ بہتر کوالٹی کے ہوتے ہیں۔ اس نے مزید کہا کہ میں ایک ہندوستانی شال سات سال سے استعمال کر رہا ہوں مگر وہ آج بھی نئی جیسی ہے۔ اگر کوئی مجھے یورپ کی بنی شال تحفے میں بھی دے تو میں اسے استعمال نہیں کروں گا۔[8][9]

1857کی جنگ آزادی میں انگریزوں نے الٰہ باد کا شہر جلا دیا۔

اس کے بعد ایسی ظالمانہ پالیسیاں اپنائی گئیں کہ برطانیہ کی ایکسپورٹ جو 1815ء میں 25 لاکھ پاونڈ تھی وہ 1822ء تک 48 لاکھ پاونڈ ہو گئی۔[10]

برطانیہ میں بنے کپڑے کو ہندوستان میں مقبول بنانے کے لیے ہندوستان کی کپڑے کی صدیوں پرانی صنعت کو بڑی بے رحمی سے تباہ کیا گیا۔ اگر کوئی جولاہا کپڑے بیچتا ہوا نظر آ جاتا تو اس کے ہاتھ کا انگوٹھا کاٹ دیا جاتا تھا تاکہ وہ زندگی بھر کپڑا نہ بن سکے۔ کسانوں کی آمدنی پر ٹیکس 66 فیصد کر دیا گیا جو مغل دور میں 40 فیصد تھا۔ روز مرہ استعمال کی عام اشیاء پر بھی ٹیکس عائد کیے گئے جن میں نمک بھی شامل تھا۔ اس سے نمک کی کھپت آدھی ہو گئی۔ نمک کم استعمال کرنے کی وجہ سے غریب لوگوں کی صحت سخت متاثر ہوئی اور ہیضے اور لو لگنے کی وجہ سے ہونے والی اموات میں بڑا اضافہ ہوا۔

The "moneyocracy" shut out India's finished textiles from British markets, and the "millocracy" flooded India with products of Britain's power looms. "British steam and science uprooted, over the whole surface of Hindustan, the union between agriculture and manufacturing industry." [11]

ایسٹ انڈیا کمپنی کے ایک ڈائریکٹر ہنری جارج ٹکر نے 1823ء میں لکھا کہ اس طرح ہندوستان کو ایک صنعتی ملک کی حیثیت سے گرا کر ایک زراعتی ملک بنا دیا گیا ہے۔ (تاکہ انگلستان کا مال ہندوستان میں بیچا جا سکے)

India is thus reduced from the state of manufacturing to that of an agricultural country. (Memorials of the Indian Govt. being a selection from the papers of Henry St. George Tucker London, 1853 Page 494) [12]

1814ء سے 1835ء تک برطانیہ کے بنے کپڑے کی ہندوستان میں فروخت میں 51 گنا اضافہ ہوا جبکہ ہندوستان سے برطانیہ آنے والی درآمدات صرف چوتھائی رہ گئیں۔ اس دوران ڈھاکہ جو کپڑا سازی کا بڑا مرکز تھا اس کی آبادی دیڑھ لاکھ سے گر کر صرف بیس ہزار رہ گئی۔ گورنر جنرل ویلیم بنٹنک نے 1834ء میں اپنی رپورٹ میں لکھا کہ معاشیات کی تاریخ میں ایسی بدترین صورت حال کی مثال نہیں ملتی۔ ہندوستانی جولاہوں کی ہڈیوں سے ہندوستان کی زمین سفید ہو گئی ہے۔[13]

1771ء میں کمپنی کے پاس صرف 187 یورپی سول افسران تھے جو بنگال میں تعینات تھے اور تین کروڑ لوگوں پر حکومت کرتے تھے۔ فوج میں بھی عموماً آدھے سے زیادہ لوگ ہندوستانی ہوا کرتے تھے۔

1857ء کی ناکام جنگ آزادی کے بعد انگریز دہشت پھیلانے کے لیے ہندوستانیوں کو سرعام پھانسی دیتے تھے۔
1884 میں مصور وزلی کی بنائی ہوئی ایک پینٹننگ۔ 1857ء کی جنگ آزادی میں شکست کے بعد ہندوستانیوں کو توپ سے اُڑایا جا رہا ہے۔ خون آلودہ سفید لباس لاش کی دہشت میں اضافہ کرتا ہے۔
1857ء کی ناکام جنگ آزادی کے بعد پشاور میں باغیوں کو توپ سے اڑانے کی "تقریب"۔ چونکہ توپیں کم تھیں اور باغی زیادہ اس لیے یہ "تقریب" دو قسطوں میں انجام پائی۔

1857ء کی جنگ آزادی میں شکست کے بعد انگریزوں نے ہندوستانیوں کو بے دریغ قتل کیا۔ بے شمارگاؤں دیہات جلا دیے اورسارے دیہاتیوں کو پھانسی دے دی۔ اُس زمانے میں ہندوستان میں بینک نہیں ہوتے تھے اور امیر لوگ اپنی دولت زمین میں دفن کر دیا کرتے تھے۔ انگریزوں نے امرا کی حویلیاں بارود سے اڑا دیں اور زمین کھدوا کر سارا سونا چاندی لوٹ لیا۔
انگلینڈ میں نئی فوجی بھرتی کے لیے ہمیشہ کی طرح اس جنگ کو بھی مذہب کا روپ دیا گیا۔ معظم پادری نے اپنے وعظ میں کہا کہ ہم نے توکافروں کو مسیحت اور شائستگی جیسی نعمت کی پیشکش کری تھی لیکن انہوں نے نہ صرف اسے ٹھکرا دیا بلکہ تشدد پر اتر آئے۔ اب تلوار نیام سے نکال لینی چاہیے اور ان سے ہزار گنا بڑا بدلہ لینا چاہیے۔[14] لندن کے اخبار “دا ٹائم“ میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہاں ہر درخت کی شاخ پر باغی کی لاش ہونی چاہیے۔ [15] اور واقعی یہی کیا گیا۔ دہلی میں کوئی درخت ایسا نہ تھا جس سے کوئی لاش نہ لٹک رہی ہو۔ ایک سال تک ان لاشوں کو ہٹانے کی اجازت نہ تھی۔ کانپور میں ایک برگد کے درخت سے 150 لاشیں لٹک رہی تھیں۔ [16]

"انگریز مورخین نے عام طور پر برٹش افواج کے ان بہیمانہ مظالم کو نظرا نداز کیا ہے۔ لیکن کچھ نے اس پر نفریں اور دکھ کا اظہار ضرور کیا ہے جو بدلے کے جذبے سے ہندوستانیوں پر کیے گئے تھے۔ خود ہڈسن کا نام خون کا پیاسا پڑ گیا تھا۔ نیل اس بات پر فخر کیا کرتا تھا کہ نام نہاد مقدموں کے نام پر اس نے سینکڑوں ہندوستانیوں کو پھانسی کے تختے پر چڑھایا۔ الٰہ آباد کے آس پاس کوئی ایسا درخت نہیں بچا تھا جس سے کسی ہندوستانی کی لاش نہ لٹکائی گئی ہو۔ ہو سکتا ہے کہ انگریزوں کو غصہ زیادہ آ گیا ہو۔ لیکن یہی بات ہندوستانی بھی اپنے بارے میں کہا کرتے تھے۔ اگر بہت سے ہندوستانیوں کی اس حرکت کا کوئی جواز نہیں پیش کیا جاسکتا تو یہی بات انگریزوں کے ساتھ بھی صادق آتی تھی۔ مسلمان امرا کو سور کی کھالوں میں زندہ سی دیاجاتا۔ اور پھر زبردستی ان کے گلے میں سور کا گوشت ڈال دیا جاتا۔ ہندؤوں کو لٹکتی تلواروں کے تلے گائے کا گوشت کھانے پر مجبور کیا گیا۔ زخمی قیدیوں کو زندہ جلا دیا گیا۔ انگریز سپاہی گاؤں میں نکل جاتے اور گاؤں والوں کو پکڑ کر لاتے اور انہیں اتنی اذیت دیتے کہ آخر کار وہ مرجاتے۔ کوئی بھی ملک یاکوئی بھی شخص اس قدر نفرت انگیز پُرتشدد کام نہیں کر سکتا۔ اس کے بعد بھی وہ اپنے کو مہذب ہونے کا دعویٰ کرتے۔ "[17]

کارپوریشن جس نے دنیا بدل دی

نک روبنس اپنی کتاب The Corporation that Changed the World میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے بارے میں لکھتے ہیں “اس کمپنی نے معیشت کی تاریخ بالکل بدل دی۔ صدیوں سے دولت کا بہاو مغرب سے مشرق کی طرف تھا۔ روم کے عروج کے زمانے سے یورپ تجارت کے لیے ایشیا کا مرہون منت تھا اور مسالا، کپڑے اور نفیس اشیاء کے بدلے سونا اور چاندی ادا کرتا تھا۔ انگلینڈ کے پاس ایسا کچھ نہیں تھا جسے مشرق خریدنا پسند کرتا۔ جنگ پلاسی سے پہلے تجارتی توازن سارے ممالک کے خلاف اور بنگال کے حق میں تھا۔ بنگال وہ جگہ تھی جہاں جا کر یورپ کا سونا چاندی گُم ہو جاتا تھا اور جہاں سے یورپ کا سونا چاندی واپس آنے کے امکانات صفر تھے۔ 1773ء تک سونے چاندی کے بہاو کا رخ پلٹ چکا تھا۔ 1600ء میں ہندوستان اور چین کی معیشت یورپ کی معیشت سے دوگنی تھی۔ 1874ء میں جب ایسٹ انڈیا کمپنی کا خاتمہ ہوا اس وقت یورپ کی معیشت ہندوستان اور چین کی معیشت کا دُگنا ہو چکی تھی۔ اس کمپنی نے ساری دولت لوٹ کر انڈیا کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔
اس کمپنی نے ہندوستان پر قبضہ جمانے کے لیے دو حربے استعمال کیے۔ پہلا یہ کہ فیصلہ کرنے والوں کو رشوت سے قابو کرو اور دوسرا یہ کہ عوام کو تقسیم کرو۔ (Divide and rule)
جنگ پلاسی میں فتح حاصل ہونے سے ایسٹ انڈیا کمپنی کو 25 لاکھ پاونڈ کا مال غنیمت ہاتھ لگا جبکہ لارڈ کلائیو کو دو لاکھ چونتیس ہزار پاونڈ ذاتی منافع ہوا“۔

ایسٹ انڈیا کمپنی (جو جوہن کمپنی کے نام سے شروع ہوئی تھی) نے ہندوستان کو تجارت کے نام پر لوٹ کر بے حساب دولت کمائی مگر ہندوستانیوں کو شدید کرب و اذیت سے دوچار کیا۔ کمپنی کی تاریخ سے یہ سبق ملتا ہے کہ ملٹی نیشنل کمپنیاں صرف تجارت نہیں چاہتیں بلکہ سیاسی طاقت بھی حاصل کرنا چاہتی ہیں۔

تحلیل

اپنے آغاز کے 275 سال بعد برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کو تحلیل کر دیا گیا اور اس کے سارے اثاثے Lloyds کے حوالے کر دیے گئے جو N.M. Rothschild & Co کا ذیلی ادارہ ہے۔ آج کل ایسی کمپنیاں ملٹی نیشنل کمپنیاں کہلاتی ہیں۔[18] [19]

اسٹاک مارکیٹ

یورپ میں سونے چاندی کے سکوں کی شدید قلت ہوا کرتی تھی۔ ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی دنیا کی پہلی کمپنی تھی جس نے 1602ء میں کاغذ پر چھاپ کر شیئر (اسٹاک) بیچنا شروع کیے[20] جس سے سونا چاندی یورپ آنے لگا۔ اگرچہ یورپ میں جوائنٹ اسٹاک کمپنیاں کئی صدیوں سے موجود تھیں لیکن ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی کے یہ شیئر (قرضے) دوسروں کو خریدے بیچے جا سکتے تھے۔[21] اس طرح پہلی دفعہ کیپیٹل مارکیٹ کا آغاز ہوا۔[22] کاغذی دولت تخلیق کرنے کا یہ کاروبار اتنا منافع بخش ثابت ہوا کہ جلد ہی اسے پرتگال، اسپین اور فرانس کی بحری تجارتی کمپنیوں نے اپنا لیا۔ اس کے بعد یہ کاروبار برطانیہ پہنچ گیا۔ آج بھی اسٹاک مارکیٹیں ملٹی نیشنل کمپنیوں کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔[23]

"جنگ کے بغیر تجارت ناممکن ہے اور تجارت کے بغیر جنگ ناممکن ہے"
‘trade without war is not possible, neither is war without trade’.[24]

برطانوی وزیر اعظم کا بیان

1947ء میں تقسیم ہند کے موقعے پر ونسٹن چرچل کے جانشین Clement Richard Attlee نے ایوان میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ آج ہمیں اپنے ساتھیوں کے اُن کارناموں پر فخر ہے جو انہوں نے انڈیا میں انجام دیے۔[25]

نسل کُشی

ہولوکاسٹ[26]
مقامدورانیہمرنے والوں کی تعداد
فلسطین1967-20093 لاکھ
عراق1990-200941 لاکھ
افغانستان2001-200930 سے 70 لاکھ
بنگال1769-1770ایک کروڑ
بنگال1943-194560 سے 70 لاکھ
ہندوستان1757-1947ایک ارب 80 کروڑ

پرچم

مزید دیکھیے

بیرونی ربط

حوالہ جات

This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.