بینک آف انگلینڈ

برطانیہ کے مرکزی بینک کو انگلستان کا بینک (Bank of England) کہا جاتا ہے۔ یہ 1694ء میں قائم کیا گیا تھا۔ یہ ایک نجی ادارہ تھا۔ 1946ء میں اسے بظاہر قومیا لیا گیا۔

بینک آف انگلینڈ
Logo
ہیڈکوارٹر Threadneedle Street، لندن، انگلینڈ
متناسقات 51.51406°N 0.08839°W / 51.51406; -0.08839
قیام 27 جولائی 1694
Governor Sir Mervyn King
مرکزی بینکِ برطانیہ
کرنسی پاؤنڈ سڑلنگ
ISO 4217 Code جی بی پی
ذخائر £7,334,000,000 (سونے کی صورت میں)

£229,599,000,000 (total assets) [1]

Base borrowing rate 0.5%[2]
ویب سائٹ http://www.bankofengland.co.uk

قیام کا پس منظر

انگلینڈ فرانس کے ساتھ 50 سالہ جنگ کے نتیجے میں بڑا خستہ حال ہو چکا تھا۔ حکومت عوام سے لیا گیا قرضہ لوٹانے میں اکثر ناکام رہتی تھی۔ 1666ء میں لندن میں آگ لگی جس سے شہر کا بڑا حصہ جل گیا۔ 1673ء میں بادشاہ چارلس دوم نے عوام سے لیے گئے دس لاکھ پونڈ کا قرضہ واپس کرنے سے صاف انکار کر دیا تھا اور اس طرح دس ہزار لوگ اپنی جمع پونجی سے ہمیشہ کے لیے محروم ہو چکے تھے۔[3]

1694ء میں بینک آف انگلینڈ کے چارٹر پر مہر لگائی جا رہی ہے۔
لگ بھگ 1548ء میں بنائی گئی منی چینجر کی ایک تصویر۔

1688ء میں انگلینڈ میں انقلاب آیا اور کیتھولک بادشاہ جیمز دوم کی جگہ ڈچ نزاد ویلیئم آف اورینج اور اس کی بیوی میری تخت نشین ہوئے۔[4] 1692ء میں، جب انگلینڈ اور فرانس کے درمیان جنگ چل رہی تھی، انگلینڈ کی حکومت نے عوام کو دس لاکھ پاونڈ کے حکومتی قرضے(بونڈز) بیچنے کی پیشکش کری لیکن اس وقت یورپی عوام حکومتی ضمانت پر اعتبار نہیں کرتے تھے۔ دس فیصد سالانہ سودکی پیشکش کے باوجود حکومت صرف ایک لاکھ آٹھ ہزار پاونڈ کے بونڈز بیچ سکی۔ اس ناکامی کے بعد شرح سود بڑھا کر 14 فیصد کر دی گئی لیکن پھر بھی سارے بونڈز نہ بکے۔ اس وقت انگلینڈ کے 80 ہزار فوجی 6 سال سے فرانس کے خلاف جنگ میں مصروف تھے۔ ایسے موقع پر اسکاٹ لینڈ کے بینکار William Patterson نے حکومت کو 12 لاکھ پاونڈ قرض کی پیشکش صرف 8 فیصد سود پر اس شرط کے ساتھ کری کہ اسے بینک آف انگلینڈ بنانے کا چارٹر دیا جائے جسے درج ذیل مراعات حاصل ہوں:

  1. حکومت کے سارے قرضوں کا نظم و نسق یہ بینک سنبھالے گا۔
  2. حکومت صرف اسی بینک سے قرضے لے گی۔
  3. یہ بینک جوائنٹ اسٹاک بینکنگ کمپنی ہو گا۔
  4. یہ کمپنی لمٹڈہو گی۔
  5. یہ بینک فریکشنل ریزرو کی بنیاد پر کاغذی کرنسی جاری کرے گا۔

حکومت قرضے بیچنے میں ناکام ہو چکی تھی لیکن بینک آف انگلینڈ نے صرف دس دنوں میں مطلوبہ رقم اکٹھی کر لی۔[5] ایسا ہی ایک نظام اٹلی میں کئی صدیوں سے چل رہا تھا۔[6]

بینک یا دولت کا کارخانہ؟

ایک مضحکہ خیز کارٹون جو 1797 میں جیمز گلرے نے کاغذی کرنسی کے خلاف بنایا تھا۔ نوٹوں کے کپڑے پہنے خزانے پر بیٹھی خاتون سے مراد بینک آف انگلینڈ ہے جبکہ مرد ولیم پٹ ہے جو اس وقت برطانیہ کا وزیر اعظم تھا۔

فریکشنل ریزرو بینکنگ کا تصور نیا نہیں تھا اور صدیوں پہلے نائٹ ٹیمپلار (Knights Templar) بھی اسے استعمال کرتے رہے تھے جنہوں نے بعد میں اسکاٹ لینڈ میں پناہ لی تھی۔[7] لیکن بینک آف انگلینڈ کے چارٹر میں عجیب و غریب بات یہ تھی کہ حکومت کی ضمانت (IOU) کے عوض بینک نہ صرف حکومت کو رقم قرض دیتا تھا بلکہ اُسی ضمانت کے عوض عوام کو بھی قرضے دیتا تھا اور اس طرح دونوں سے سود وصول کرتا تھا۔ یہ درحقیقت قرض اور سود کا دھندا نہیں تھا بلکہ نئی کرنسی تخلیق کرنے کا دھندا تھا جسے بینکنگ کی آڑ میں چھپایا گیا تھا اور جو نجی ادارے کی ملکیت تھا۔ لیکن اس سے حکومت کو بھی زبردست مالی فائیدہ تھا۔

Furthermore, the Bank was given the privilege of creating at least an equal amount of money in the form of loans to the public. So, after lending their capital to the government, they still had it available to lend out a second time.....The Bank pretended to make a loan but what it really did was to manufacture the money for government's use.

یہ معلوم نہیں کہ ویلیم پیٹرسن کی پشت پر کون کام کر رہا تھا۔ چند سالوں بعد ہی پیٹرسن کو بینک آف انگلینڈ سے نکال دیا گیا۔ Sir Edmundbury Godfrey اور دوسرے چند لوگ جو ویلیم پیٹرسن کی پشت پناہی کر رہے تھے ان کا تعلق ایسٹ انڈیا کمپنی سے تھا۔[8]
Chancellor Charles Montagu جو 1691ء میں پارلیمنٹ کا رکن بنا تھا وہ بھی پیٹرسن کے ساتھ شریک تھا۔[9]

"ملک میں سانحے پہ سانحے آتے رہے کیونکہ حکومت اس نجی کاغذی کرنسی کی طرف لاپروائی برت رہی تھی۔ 1694ء میں جیسے ہی بینک آف انگلینڈ بنا، خود بادشاہ ویلیئم اور پارلیمنٹ کے ممبروں نے تیزی سے اس بینک کے شیئر خریدنے شروع کر دیے جو در حقیقت ان کی اپنی تخلیق کردہ دولت بنانے کی فیکٹری تھی"
"حکومت اور بینک کا یہ گٹھ بندھن ایک دوسرے سے وفاداری پر قائم نہیں تھا لیکن پھر بھی دونوں ایک دوسرے کو پورا تحفظ دیتے تھے۔ کیونکہ دونوں جانتے تھے کہ اگر ان میں سے ایک ناکام ہوا تو دوسرے کا ڈوبنا بھی یقینی ہے۔"
"Disaster after disaster had to come upon the country," says Shaw, because "of the indifference of the state to these mere private paper tokens.
As soon as the Bank of England was chartered in 1694, King William himself and various members of Parliament rushed to become shareholders of the new money factory they had just created
The Cabal is a partnership, and each of the two groups is committed to protect each other, not out of loyalty, but out of mutual self interest. They know that, if one falls, so does the other.

صرف دو سالوں میں بینک نے اتنی زیادہ کاغذی کرنسی جاری کر دی کہ لوگوں کو وعدے کے مطابق کاغذی کرنسی کے عوض سونے کے سکے دینا ممکن نہ رہا۔ اس موقع پر حکومت نے بینک آف انگلینڈ کو بچانے کے لیے مداخلت کری اور پارلیمنٹ نے ایک نیا قانون منظور کیا جس کے تحت بینک کو سونے کے سکے کی ادائیگی سے روک دیا گیا اور وعدے کی صریح خلاف ورزی کو قانونی تحفظ فراہم کیا۔

It is not surprising, therefore, that, when there was a run on the Bank of England, Parliament intervened. In May of 1696, just two years after the Bank was formed, a law was passed authorizing it to "suspend payment in specie." By force of law, the Bank was now exempted from having to honor its contract to return the gold.

Murray Rothbard نامی مصنف اپنی کتاب What Has Government Done to Our Money? میں لکھتے ہیں کہ بینکوں کو اپنے وعدے کی خلاف ورزی کی اجازت دے کر حکومت دراصل انہیں چوری کرنے کا سرکاری اجازت نامہ دیتی ہے۔

The bluntest way for government to foster inflation, then, is to grant the banks the special privilege of refusing to pay their obligations, while yet continuing in their operation. While everyone else must pay their debts or go bankrupt, the banks are permitted to refuse redemption of their receipts, at the same time forcing their own debtors to pay when their loans fall due. The usual name for this is a "suspension of specie payments." A more accurate name would be "license for theft;"[10]

"اس بینک کا نام اگرچہ کہ بینک آف انگلینڈ تھا مگر یہ نہ انگریزوں کا بینک تھا نہ ان کی حکومت کا۔ یہ تو ایک نجی بینک تھا جو ذاتی منافع کے لیے دھوکا دہی کرتا تھا۔"

Although misleadingly called the “Bank of England” it did not belong to the English Government or to the English people. It was a private bank that dealt in deceptive practices for private profit.[11]

لگ بھگ 1750ء تک پورے انگلینڈ میں سونے چاندی کے سکوں کی بجائے بینک آف انگلینڈ کی کاغذی کرنسی چھا چکی تھی۔[12] یہ وہ زمانہ تھا جب یورپ کے باہر کے لوگ کاغذی کرنسی سے بالکل واقف نہ تھے۔ اسی زمانے میں ایسٹ انڈیا کمپنیوں نے خوب ترقی کری۔

اسٹاک کا بلبلہ

تاریخ سے یہ بات مٹا دی گئی ہے کہ بینک آف انگلینڈ کے قیام کے صرف چند مہینے بعد 1694ء میں اسٹاک مارکیٹ کا بلبلہ پہلی دفعہ پھٹا۔ اور اس کے بعد بھی تواتر سے پھٹتا رہا۔

The year 1694 is remarkable as the one in which the first of those speculative manias occurred, which have, on different subsequent occasions, seized upon the nation.[8]

ساوتھ سی ببل

ساوتھ سی کمپنی کے شیئر کی قیمتیں تیزی سے دس گنا بڑھنے کے بعد اتنی ہی تیزی سے گر گئیں۔ شدید نقصان اٹھانے والوں میں مشہور طبیعیات دان نیوٹن بھی شامل تھا۔

1720ء میں جب South Sea کمپنی کے شیئرز کی قیمت تیزی سے گر رہی تھی اُس وقت برطانوی عوام میں بے چینی پھیل گئی۔ عوام سخت ناراض تھے کہ قرض دینے والا سب سے بڑا ادارہ بینک آف انگلینڈ اس مرحلے پر ساوتھ سی کمپنی کو قرضہ فراہم کر کے بچانے کی کوشش کیوں نہیں کر رہا۔ لوگوں کو شک ہونے لگا تھا کہ بینک کے پاس اتنی دولت نہیں ہے جتنا وہ دعویٰ کرتا ہے۔ اس موقع پر بینک آف انگلینڈ نے اپنی ساکھ بچانے کے لیے ایک عجیب و غریب چال چلی۔ بینک کے خفیہ ایجنٹ بینک کاونٹر پر بڑی رقم کا چیک دے کر سکے طلب کرتے۔ بینک انہیں بوری بھر کے چھوٹے سکوں میں ادائیگی کر دیتا جسے لے کر وہ باہر نکل جاتے اور ایک دوسرے ایجنٹ کے حوالے کر دیتے جسے دوسرا ایجنٹ لیکر بینک میں جمع کرانے داخل ہوتا۔ اس طرح عوام پر یہ تاثر پڑا کہ بینک کے پاس دولت کی کوئی کمی نہیں ہے اور بڑے تاجروں سے اس کی لین دین حسب معمول جاری ہے۔ اس طرح بینک رن کو شروع ہونے ہی سے پہلے روک دیا گیا۔ یہی ڈراما ستمبر 1745ء میں بھی رچایا گیا جب اسکاٹ لینڈ میں بغاوت ہوئی تھی۔[8]

حکومت کی قرضوں سے نجات

عوام کا خواہ کتنا ہی نقصان ہوا ہو مگر بینک آف انگلینڈ، برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی اور ساوتھ سی کمپنی نے برطانوی حکومت کے قرضوں کے بوجھ میں خاطرخواہ کمی کر دی کیونکہ ان کمپنیوں نے قرض کو شیئر میں تبدیل کر دیا تھا۔ اسی طرح مسی سیپی کمپنی نے فرانس کے حکومتی قرضوں کا بوجھ بہت ہلکا کر دیا۔

In the meantime, the British had their own problems. Costly wars had caused government debt to balloon, with companies such as the Bank of England and the East India Company financing part of it. In 1711, a third company joined them: the South Sea Company. It took over almost 10 million pounds of government debt, which was magically converted into company shares.[13]

مسی سیپی ببل

جس وقت برطانیہ میں ساوتھ سی کا بحران جاری تھا اس وقت فرانس میں بھی Mississippi Company کا بحران پرورش پا رہا تھا۔ مئی 1719ء سے دسمبر 1719ء کے درمیان مسی سیپی کمپنی کے شیئر کی قیمت 500 بلیور سے بڑھ کر دس ہزار بلیور ہو چکی تھی جس پر چار فیصد منافع (ڈیویڈنڈ) کا وعدہ کیا گیا تھا۔ 1720ء میں جب ان کاغذی شیئرز کی قیمتیں گرنے لگیں تو حکومت فرانس نے سونے کی مانگ کم کرنے کے لیے سونے کی فروخت پر سزائے موت کا قانون جاری کیا۔ چند دنوں بعد جب یہ قانون منسوخ ہوا اس وقت تک 50 لوگ سزائے موت پا چکے تھے۔
اس سازش کا ماسٹر مائنڈ John Law تھا جو فرانس سے بھاگ نکلا اور مفلس ہو گیا۔ مگر اس کی پشت پر کام کرنے والا بینکر Richard Cantillon کروڑ پتی بن گیا۔[14]

رکارڈ کینٹیلون وہ پہلا آدمی تھا جس نے 300 سال پہلے یہ لکھا کہ کرنسی تخلیق کرنے سے دولت تخلیق نہیں ہوتی۔ کرنسی تخلیق کرنے سے کسی کی دولت تخلیق کنندہ کو منتقل ہوتی ہے۔[15]

1720ء میں ساوتھ سی کمپنی اور مسی سیپی کمپنی کے ایک ساتھ ڈوبنے سے پورے یورپ میں شدید بحران آیا۔ ایمسٹرڈیم کا بینک 1683ء سے کاغذی کرنسی جاری کر رہا تھا۔ لیکن چونکہ یہ بینک فریکشنل ریزرو بینکنگ نہیں کرتا تھا (یعنی 100 فیصد ریزرو رکھتا تھا) اس لیے 1720ء کے بحران میں بھی ڈچ گلڈر کی قیمت میں کوئی کمی نہیں آئی۔

گریگور میک گریگور

اسکاٹ لینڈ کا ایک فوجی میک گریگور جو وینیزویلا کی 1812ء کی جنگ آزادی میں لڑ چکا تھا اور جنرل کے عہدے تک پہنچ چکا تھا، 1821ء میں لندن پہنچا اور اس نے اپنے آپ کو جنوبی امریکا کی ایک فرضی مملکیت "Poyais" کا حکمران ظاہر کیا۔ اس کے بیان کے مطابق اس کا ملک برطانیہ کا دوست تھا اور وہاں پہلے ہی سے بہت سارے برطانوی آباد ہو چکے تھے۔ میک گریگور نے اپنے ملک کی بڑی تفصیلات شائع کرئیں جس میں یہ بھی ذکر تھا کہ وہاں کے دریا میں سونے کے ذرات ملتے ہیں۔ یہ سب جھوٹ کا پلندہ تھا۔ جس علاقے کا وہ ذکر کرتا تھا وہ موجودہ ہونڈراس کے بلیک ریور کے آس پاس کا دلدلی اور ناقابل رہائیش علاقہ تھا جہاں ملیریا عام تھا۔
میک گریگور نے لندن میں اپنے اس فرضی ملک کی کاغذی کرنسی اور زمین بیچنا شروع کی۔ اس کے علاوہ دو لاکھ پاونڈ کے بانڈز (حکومتی قرضے) بھی بیچے جو اس زمانے کے معروف بینک Sir John Perring, Shaw, Barber & co. کی وساطت سے بیچے گئے۔ میک گریگور کے جاری کردہ شیئر لندن اسٹاک ایکسچینج میں باقاعدہ listed تھے۔
1822ء اور 1823ء میں 270 افراد وہاں جا بسنے کے ارادے سے لندن سے روانہ ہوئے۔ جب 1823ء میں ان میں سے بچ جانے والے 50 افراد واپس لندن پہنچنے میں کامیاب ہو سکے تو یہ جھوٹ کھلا۔ اس وقت تک میک گریگور فرار ہو کر پیرس پہنچ چکا تھا اور وہاں بھی انہی کاموں میں مصروف تھا۔ اسے اپنے فراڈ کی کبھی کوئی سزا نہیں ہوئی۔ اس زمانے میں برطانیہ میں اگرچہ 800 بینک کاغذی کرنسی جاری کرتے تھے مگر مرکزی حیثیت صرف بینک آف انگلینڈ کو ہی حاصل تھی۔[16] [17]

قومیانہ

1946ء میں بظاہر بینک آف انگلینڈ کو حکومتی ملکیت میں لے لیا گیا۔ لیکن در حقیقت حکومت نے قیمت ادا کر کے بینک کو خریدا۔ چونکہ حکومت نقد ادائیگی کے قابل نہ تھی اس لیے حکومت نے یہ بینک شراکت پر لیا (یعنی شیئر جاری کیے) اور پرانے مالکوں کو اس پر منافع (dividend) ادا کرنا شروع کیا۔ اس "قومیانے" میں یہ شرط بھی شامل تھی کہ حکومت یہ شیئرز خود نہیں خرید سکتی۔ اس قومیانے کے باوجود برطانیہ کی 97 فیصد کرنسی حکومت کی بجائے نجی کمرشیئل بینک جاری کرتے تھے۔

However even though the Bank of England is now state owned its important to note that up to 97% of the UK’s money supply is privately controlled being in the form of interest bearing loans created by the big commercial banks.[18]

مئی 1997ء میں بینک آف انگلینڈ کو دوبارہ مکمل آزادی دے دی گئی۔

Immediately following the election of a Labour government in May 1997, the Bank of England was granted full independence. The goal of 2% inflation is now a global standard throughout the central banking fraternity.[19]

اقتباس

  • "یاد رہے کہ معاشی بلبلے بننے کے لیے دو چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ پہلی چیز ایک خوبصورت کہانی جس پر لوگوں کو یقین آ جائے اگرچہ کہ یہ جھوٹی ہو۔ دوسری چیز کریڈٹ کی فراوانی۔ اور یہی کریڈٹ امریکا، یورپ اور جاپان کے سینٹرل بینک مہیا کر رہے ہیں۔ انہوں نے پوری دنیا کو کریڈٹ میں ڈبو دیا ہے۔ اب ہر طرف بلبلے نظر آتے ہیں۔ جب یہ پھٹیں گے تو یہ زندگی کی بد ترین صورت حال ہو گی کیونکہ ہم نے ایسی کوئی صورت حال پہلے کبھی نہیں دیکھی۔"[20]
  • سونے چاندی کی کرنسی میں قوت خرید بھی ہوتی ہے اور قوت پیداوار بھی۔ کریڈٹ میں قوت خرید تو ہوتی ہے مگر قوت پیداوار نہیں ہوتی۔
“For Credit, though it is not productive power, is Purchasing Power”[21]
  • اگر تمہیں خبر نہیں ہے کہ کریڈٹ (جاری کرنا) دولت حاصل کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے تو تم بالکل جاہل ہو۔
If you were ignorant of this that Credit is the greatest Capital of all towards the acquisition of Wealth, you would be utterly ignorant.[22]
  • There was a double-inverted pyramid in the banking system. At the bottom pyramid, the Bank of England, engaging in fractional-reserve banking, multiplied fake warehouse receipts to gold—its notes and deposits—on top of its gold reserves. In their turn, in a second inverted pyramid on top of the Bank of England, the private commercial banks pyramided their demand deposits on top of their reserves, or their deposit accounts, at the Bank of England.[23]

بیرونی ربط

مزید دیکھیے

حوالہ جات

This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.