خوارزم شاہی سلطنت

خوارزم شاہی سلطنت (فارسی: خوارزمشاہیان) وسط ایشیا اور ایران کی ایک سنی مسلم بادشاہت تھی جو پہلے سلجوقی سلطنت کے ماتحت تھی اور 11 ویں صدی میں آزاد ہو گئی اور 1220ء میں منگولوں کی جارحیت تک قائم رہی۔ جس وقت خوارزم خاندان ابھرا اس وقت خلافت عباسیہ کا اقتدار زوال کے آخری کنارے پر تھا۔ سلطنت کے قیام کی حتمی تاریخ واضح نہیں۔ خوارزم 992ء تا 1041ء غزنوی سلطنت کا صوبہ تھا۔

Khwarazmian Empire

خوارزمشاهیان
Khwārazmshāhiyān
1077–1231
دار الحکومت کہنہ گرگانج
(1077–1212)
سمرقند
(1212–1220)
غزنی
(1220–1221)
تبریز
(1225–1231)
مذہب اہل سنت
حکومت Oligarchy

جد اعلٰی

1077ء میں صوبے کی گورنری خوارزم شاہی خاندان کے جد اعلٰی انوشتگین کے ہاتھ آگئی جو سلجوقی سلطان کا غلام تھا۔ انوشتگین غیر معمولی ذہانت و قابلیت کا مالک تھا۔ اس لیے سلجوقی سلطان اس کو عزیز رکھتا تھا۔ اس کا ایک بیٹا قطب الدین محمد اول بھی انہی صلاحیتوں کا حامل تھا۔ اس کی تعلیم و تربیت سلجوقی امرا کے درمیان میں ہوئی تھی اس لیے سلجوقیوں نے اسے ایک صوبے کی حکومت سپرد کردی تھی جہاں وہ نہایت محنت سے اپنے فرائض منصبی بجا لاتا تھا۔ انوشتگین کی وفات کے بعد محمد کو اس کی قابلیت کی بنیاد پر باپ کی جگہ دی گئی جس نے اپنی کارگذاری و وفاداری سے سلطان سنجر کے مزاج میں بڑا رسوخ حاصل کیا۔ محمد کی وفات کے بعد اتنسر بن محمد اس کا جانشیں بنا جس نے صوبہ خوارزم میں حکومت کی بنیاد رکھی۔ اتنسر کا لقب خوارزم تھا جس کی بنیاد پر یہ خوارزم شاہی سلطنت کہلائی۔

خوارزم شاہ

خوارزم شاہی سلطنت

خوارزم شاہ نے اپنے باپ کی جگہ لے کر کئی دفعہ سپہ سالاری کے فرائض انجام دیے۔ اس کی قابلیت سے سلطان سنجر سلجوقی اتنا متاثر تھا کہ اسے ہر وقت اپنے پاس رکھتا تھا، اس کو سپہ سالار اعظم بناتا اور اس کا شمار اہم درباریوں میں ہوتا تھا۔ اس سے کئی حاسد پیدا ہو گئے اور انہوں نے سلطان سنجر کے اس سے تعلقات کشیدہ کر دیے جس پر خوارزم شاہ نے اپنی خود مختار حکومت قائم کرلی۔ ان اختلافات کی وجہ سے سلطان سنجر اور خوارزم شاہ کے درمیان میں جنگ ہوئی جس میں خوارزم شاہ کو شکست ہوئی اور اس کا بیٹا اور کئی دیگر لوگ مارے گئے۔ سلطان سنجر نے خوارزم پر قبضہ کرکے غیاث الدین غوری کے سپرد کر دیا لیکن غیاث الدین اہل خوارزم کو خوش نہ کرسکا۔ اس لیے انہوں نے خوارزم شاہ کو واپس بلاکر شہر اس کے حوالے کر دیا۔ اس طرح اتنسر عرف خوارزم شاہ خوارزم کا مستقل حکمران بن گیا۔ مستقل حکومت حاصل کرنے کے بعد اس نے بادشاہ خطا کی پشت پناہی میں خراسان، مرد اور نیشا پور بھی حاصل کر لیا۔ اتنسر نے صوبے میں قتل و غارت گری کرڈالی اور مسلمانوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سلسلے میں سلجوقی ترکوں کا ایک گروہ ترکان غزل ان سے علاحدہ ہو گیا اور سلطان سنجر سے خراسان چھین لیا۔ سلجوقی سلطنت میں انتشار پھیل گیا وار اس کی تمام قوت کا خاتمہ ہو گیا۔ 551ھ میں خوارزم شاہ کا انتقال ہو گیا۔

ارسلان بن اتنسر

اتنسر کے انتقال کے بعد اس کا بیٹا ارسلان تخت نشین ہوا۔ اس نے اپنے بھائی سے دشمنی کی اور سلطان سنجر کی اطاعت و فرماں برداری کا اظہار کیا۔ جس پر سلطان سنجر نے اسے خوارزم کی سند حکومت دے دی۔ اس کے بعد سلطان سنجر کے مخالف ترکان خطا سے جنگ کی لیکن کامیابی نہ ہوئی۔ اس کے کچھ عرصے بعد ارسلان کا انتقال ہو گیا۔

محمود بن ارسلان

ارسلان کے بعد اس کا بیٹا محمود خوارزمی تخت پر بیٹھا۔ وہ ابھی کم سن تھا اس لیے ماں اس کی طرف سے حکومت کرنے لگی لیکن ارسلان کے بڑے بیٹے علاؤ الدین تکش کو یہ ناگوار گزرا کہ اس کے ہوتے ہوئے چھوٹا بھائی حکومت کرے۔ اس نے بادشاہ خطا سے معافی مانگی۔ بادشاہ خطا بھی خوارزم کے لالچ میں فوج لے کر محمود کے مقابلے کے لیے نکل کھڑا ہوا۔ اس مقابلے کے بعد محمود کی ماں گرفتار ہو گئی لیکن ترکان خطا نے علاؤ الدین کے ساتھ کوئی وفاداری نہ کی اور اس کے خلاف فوج کشی کردی۔ علاؤ الدین قلعہ بند ہو گیا اور بادشاہ خطا کو نقصان اٹھانا پڑا۔

علاؤ الدین تکش

582ھ میں علاؤ الدین نے نیشا پور پر فوج کشی کی، اہل نیشا پور نے مدافعت کی جس پر علاؤ الدین کا محاصرہ ناکام ہو گیا اور وہ خوارزم واپس آگیا۔ لیکن 583ھ میں علاؤ الدین نے نیشا پور پر قبضہ کر لیا۔ اس کے بعد علاؤ الدین کا اپنے بھائی سلطان شاہ نے جھگڑا ہو گیا جو اقتدار کے لیے تھا۔ علاؤ الدین نے آخری سلجوقی سلطان طغرل ثالث کو بھی قتل کر دیا۔ علاؤ الدین نے سلطان شاہ کو نکال دیا اور وہ مرو چلا گیا۔ علاؤ الدین کا زیادہ وقت مخالفین سے جنگ میں اور ان کو قابو کرنے میں گزرا۔ اس میں آپس کی خانہ جنگیاں بھی تھیں اور وہ غوری و سلجوقی امرا سے بھی بر سر پیکار رہا۔ 596ھ میں اس کا انتقال ہو گیا۔

محمد بن تکش خوارزم

علاؤ الدین کے بعد قطب الدین محمد تخت نشین ہوا اور اپنا لقب علاؤ الدین ثانی رکھا۔ تخت نشینی کے بعد اپنے بھائی علی شاہ کو اصفہان سے طلب کیا اور خراسان کی حکومت عطا کی جس میں اس کے بعد جانے کے بعد نیشا پور میں ہندو شاہ بن ملک شاہ حکومت کرتا تھا۔ اس کی علاؤ الدین کے خاندان سے مخالفت چلی آ رہی تھی۔ ہندو خان نے خراسان پر حملہ کر دیا۔ علاؤ الدین ثانی نے جعفر ترکی کے ماتحت ایک فوج روانہ کی۔ ہندو خان بھاگ گیا اور غیاث الدین کے علاقے میں پناہ لی جہاں اس کی بڑی آؤ بھگت ہوئی۔ جعفر ترکی نے مرو میں داخل ہوکر ہندو خان کے اہل خانہ کو خوارزم روانہ کیا۔ محمد بن تکش علاؤ الدین ثانی کے تعلقات غوری خاندان نے کشیدہ چلتے رہے۔ فوج کشی بھی ہوئی۔ جنگ کے نتائج بھی کچھ بہتر نہ تھے لیکن اس سے بڑھ کر منگولوں کے حملے خطرناک ثابت ہوئے۔ محمد بن تکش نے اپنے عہد میں غزنی پر بھی قبضہ کر لیا اور ہمدان و جبل کے تمام علاقوں پر قابض ہوا۔ منگولوں سے بھی اس کی جنگ جاری رہی۔ 617ھ میں اس کا انتقال ہو گیا۔

جلال الدین بنکرس

محمد بن تکش کے بعد اس کا بیٹا جلال الدین بنکرس ولی عہد بنا۔ اس نے اپنے چھوٹے بھائی کو ولی عہدی سے خارج کر دیا۔ منگول اس وقت خوارزم شاہی سلطنت کے تعاقب میں تھے اور ہر طرف تباہی و بربادی مچا رہے تھے۔ خوارزم کے دریائے طبرستان کو عبور کر کے ماژندران پر حملہ کیا اور وہاں کے سب قلعوں پر قبضہ کر لیا۔ جہاں جاتے تباہی و بربادی مچادیتے۔ ان کا ریلا مستقل بڑھتا چلا جا رہا تھا۔ منگولوں کے حملے کی تاب نہ لاکر جلال الدین کوہستانی علاقے کی طرف نکل گیا لیکن جرائم پیشہ کردوں نے پکڑلیا اور ایک دشمن نے 626ھ میں قتل کر دیا۔ اس کے قتل کے ساتھ ہی خوارزمی سلطنت کا خاتمہ ہو گیا۔

خوارزم شاہیاں

سلسلہ المامونی

اغوز ترکی

سلسلہ أنوش طگین

غیر سلسلہ

سلسلہ أنوش طگین

حواشی

  • جامنی خانے اس بات کی نشان دہی کرتے ہیں کے یہ سلجوقی سلطنت کے ماتحت یا زیر اثر تھے-**گلابی خانے اس بات کی نشان دہی کرتے ہیں کے یہ سلجوقی سلطنت یا دولت قرا خطائی کے زیر اثر تھے-***سنتری خانے اس بات کی نشان دہی کرتے ہیں کے یہ دولت قرا خطائی کے ماتحت یا زیر اثر تھے-

حوالہ جات

    This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.