نوبل امن انعام

نوبل امن انعام (انگریزی: Nobel Peace Prize)، ہر سال امن کے لیے نمایاں کام کرنے پر بلا امتیاز کسی ایک یا ایک سے زیادہ افراد کو اور بعض دفعہ اداروں کو بھی دیا جاتا ہے۔ نوبل انعام برائے امن دیگر نوبل انعامات جیسے نوبل انعام برائے کیمیا، نوبل انعام برائے طبیعیات، نوبل انعام برائے فعلیات و طب اور نوبل انعام برائے ادب دیا جاتا ہے۔ اس کا آغاز سویڈن کے موجد، صنعت کار اور ماہر تعلیم الفرڈ نوبل نے کیا تھا۔ یہ مارچ 1901ء سے اب تک برابر دیا جاتا رہا ہے۔[1] یہ ہر سال امن کے میدان میں نمایاں کارکردگی کرنے والے شخص کو دیا جاتا ہے۔[2]

نوبل امن انعام
نوبل پیس پرائز
اعزاز برائے امن کے لیے نمایاں کارکردگی پر
مقام اوسلو
پیش کردہ الفریڈ نوبل کی وصیت کے مطابق ناروے نوبل کمیٹی
سال اجرا 1901ء
باضابطہ ویب سائٹ Nobelprize.org

الفرڈ نوبل کی خواہش کے مطابق انعام کے حقدار کا انتخاب نارویجن نوبل کمیٹی کمیٹی کرتی ہے۔ اس کمیٹی میں 5 ارکان ہوتے ہیں جنہیں پارلیمان ناروے منتخب کرتا ہے۔ 1990ء سے یہ انعام ہر سال 10 دسمبر کو اوسلو سٹی ہال میں دیا جاتا ہے۔

سیاسی رسی کشی اور اختلافات کی وجہ سے نوبل انعام برائے بہت زیادہ تنازع کا شکار رہا ہے۔

بعض وصول کنندگان پر تنقید

میخائل گورباچوف،[3] اسحاق رابین، یاسر عرفات اور شمعون پیریز[4]،،[5] لی دوک تو، ہنری کسنجر[6] جمی کارٹر،[7] الگور،[8] آئی پی سی سی،[9] لیو زیبیو،[10][11][12] بارک اوبامہ[13][14][15] اور یورپی یونین[16] ان تمام کو امن انعام سے نوازانا تنقید کا شکار رہا ہے۔ لی دوک تو اور ہنری کسنجر کو انعام دینے پر دو ارکان نے استعفی دیا، جس پر ان کی تعریف کی گئی۔

نامزدگی اور انتخاب

اوسلو میں ناروے نوبل انسٹی ٹیوٹ

پارلیمان ناروے نارویجن نوبل کمیٹی کو تشکیل دیتی ہے۔ یہ کمیٹی 5 ارکان ہر مشتمل ہوتی ہے۔ کمیٹی اپنے اجلاس میں منتخب امیدوار کا اعلان کرتی ہے۔

نوبل انعام سے محروم شخصیات

فارن پالیسی نے ایسی شخصیات کی فہرست تیار کی جنہیں نوبل انعام نہیں دیا گیا مگر وہ حقدار تھے۔ ان میں موہن داس گاندھی، یاتھائٹ، فضل حسن عابد اور کوریزون اکینو شامل ہیں۔[17][18] مہاتما گاندھی کا تذکرہ کئی بار ہوا۔ یہاں تک کہ نوبل کمیٹی کے ارکان کے بھی کئی بیانات آئے کہ گاندھی نوبل انعام کے حقدار تھے۔[19][20] کمیٹی نے یہ واضح کیا ہے کہ مہاتما گاندھی 1937ء، 1938ء، 1939ء، 1947ء اور 1948ء میں نامزد ہوئے تھے۔[21]

اقتباس

مزید دیکھیے

حوالہ جات

  1. "The Nobel Peace Prize 1901"۔ نوبل انعام۔ 1972۔ مورخہ 2007-01-02 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-03-19۔ Unknown parameter |url-status= ignored (معاونت)
  2. "Nobel Peace Prize"، The Oxford Dictionary of Twentieth Century World History
  3. EVOLUTION IN EUROPE; Gorbachev Gets Nobel Peace Prize For Foreign Police Achievements, نیو یارک ٹائمز، 16 اکتوبر 1990
  4. Edward Said۔ Peace and Its Discontents: Essays on Palestine in the Middle East Peace Process۔ Vintage۔ آئی ایس بی این 0-679-76725-8۔
  5. Michael Gotlieb (24 اکتوبر 1994)۔ "Arafat tarnishes the Nobel trophy"۔ The San Diego Union – Tribune۔ صفحہ B7۔
  6. "Worldwide criticism of Nobel peace awards"۔ The Times۔ London۔ 18 اکتوبر 1973۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 اکتوبر 2009۔
  7. Douglas G. Brinkley. The Unfinished Presidency: Jimmy Carter's Journey to the Nobel Peace Prize (1999)
  8. "A Nobel Disgrace"۔ National Review Online۔ 22 ستمبر 2009۔ مورخہ 26 دسمبر 2018 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2 اکتوبر 2011۔
  9. "Nobel Peace Prize nominations show how 'hopelessly politicized' and 'screwy' the controversial award has been"۔ 14 فروری 2014۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 اپریل 2014۔
  10. "Overseas Chinese in Norway Protest Against Nobel Committee's Wrong Decision"۔ English.cri.cn۔ مورخہ 26 دسمبر 2018 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اکتوبر 2012۔
  11. "Not so noble"۔ Frontlineonnet.com۔ 5 نومبر 2010۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اکتوبر 2012۔
  12. "Nobel Harbors Political Motives behind Prize to Liu Xiaobo"۔ English.cri.cn۔ مورخہ 26 دسمبر 2018 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اکتوبر 2012۔
  13. "Surprised, humbled Obama awarded Nobel Peace Prize"۔ مورخہ 26 دسمبر 2018 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 9 اکتوبر 2009۔
  14. Sharon Otterman (9 اکتوبر 2009)، "World Reaction to a Nobel Surprise"، نیو یارک ٹائمز، اخذ شدہ بتاریخ 9 اکتوبر 2009
  15. "Obama Peace Prize win has some Americans asking why?"۔ روئٹرز۔ 9 اکتوبر 2009۔ مورخہ 26 دسمبر 2018 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 اگست 2012۔
  16. "Norwegian protesters say EU Nobel Peace Prize win devalues award"۔ مورخہ 26 دسمبر 2018 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 8 دسمبر 2012۔
  17. Kenner, David. (7 اکتوبر 2009)۔ "Nobel Peace Prize Also-Rans" نسخہ محفوظہ 25 جنوری 2010 در وے بیک مشین۔ Foreign Policy۔ Retrieved 10 اکتوبر 2009
  18. Frank James (9 اکتوبر 2009)۔ "Nobel Peace Prize's Notable Omissions"۔ NPR۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 دسمبر 2011۔
  19. Øyvind Tønnesson (1 دسمبر 1999)۔ "Mahatma Gandhi, the Missing Laureate"۔ The Nobel Foundation۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 اکتوبر 2007۔
  20. نسخہ محفوظہ 23 مارچ 2007 در وے بیک مشین
  21. "The Nomination Database for the Nobel Peace Prize, 1901–1956: Gandhi"۔ Nobelprize.org۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اکتوبر 2008۔
  22. An American Oligarch's Dirty Tale Of Corruption
This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.