اسماعیلی

اسماعیلی اہل تشیع کا ایک فرقہ ہے جس میں حضرت جعفر صادق (پیدائش 702ء) کی امامت تک اثنا عشریہ سے اتفاق پایا جاتا ہے اور یوں ان کے لیے بھی اثنا عشریہ کی طرح جعفری کا لفظ بھی مستعمل ملتا ہے جبکہ ایک قابلِ ذکر بات یہ بھی ہے کہ اکثر کتب و رسائل میں عام طور پر جعفری کا لفظ اثنا عشریہ اہل تشیع کے لیے بطور متبادل آتا ہے۔ 765ء میں حضرت جعفر صادق کی وفات کے بعد ان کے بڑے فرزند اسماعیل بن جعفر (721ء تا 755ء) کو سلسلۂ امامت میں مسلسل کرنے والے جعفریوں کو اسماعیلی جبکہ موسی بن جعفر (745ء تا 799ء) کی امامت تسلیم کرنے والوں کو اثنا عشریہ کہا جاتا ہے۔ اسماعیلی تفرقے والے حضرت علی، حضرت حسن، حضرت حسین، زین العابدین، محمد باقر اور جعفر صادق علیہم السلام کو اہل تشیع کی طرح اپنے ائمہ مانتے ہیں اور ان کے بعد ساتویں امام اسماعیل بن جعفر صادق اور ان کے بعد محمد بن اسماعیل بن جعفر صادق (746ء تا 809ء) کو اپنے آٹھویں امام کا درجہ دیتے ہیں۔[1]

آغاز

جعفر صادق کے بڑے لڑکے اسماعیل سے یہ فرقہ منسوب ہے، ان کے مطابق اسماعیل کی وفات 133ھ میں ہوئی تھی اور انہوں نے اپنے بیٹے محمد پر نص کیا تھا اور امام محمد کے بعد تین ائمہ عبد اللہ، احمد اور حسین ہوئے۔ یہ تینوں مستورین کہلاتے تھے یعنی یہ بہت پوشیدہ زندگی بسر کرتے تھے۔ ان کے خاص خاص نقیبوں کے علاوہ ان کا پتہ کسی کو نہیں معلوم ہوتا تھا۔ ان کے ناموں میں بھی اختلاف پایا جاتا تھا۔ حسین نے عسکر مکرم میں 297ھ میں وفات پائی۔ اس نے اپنی وفات سے پہلے اپنے بیٹے عبد اللہ مہدی کو نص کیا۔ جو مہدی نام سے 297ھ مغرب (افریقہ) میں ظاہر ہوا۔ مذکورہ بالا مستورین اماموں کے ناموں میں بہت اختلاف ہے۔

علویوں نے سرتوڑ کوششیں کیں مگر ایسی کامیابی حاصل نہیں ہوئی جس سے انہیں سیاسی دنیا میں کوئی نمایاں درجہ مل سکے اور دعوتوں کو بنی عباس کے مقابلہ کرکے اپنی امامت ثابت کریں۔ ان کی تحریکوں کو مشرق میں عباسیوں نے کامیاب نہیں ہونے دیا۔ عباسیوں کے خوف سے اسماعیلیوں کی تحریک بھی جو نہایت خفیہ تھی مشرق میں کامیاب نہیں ہوئی اور ان کے اماموں کو مستور ہونا پرا۔ اسی بنا پر انہوں نے اس کے لیے مغرب (افریقہ) کا انتخاب کیا اور وہاں انہوں نے غیر متوقع کامیابی حاصل کی اور یوں فاطمی سلطنت کی بنیاد پڑی۔

فلسفہ اور مذہب

اسلام کے جن فرقوں نے مذہب کو فلسفہ سے ملانے کی کوشش کی ان میں معتزلہ اور اسماعیلی سرفہرست ہیں۔ لیکن اسماعیلیوں کا عقیدہ دوسرے شیعی فرقوں کی طرح یہ تھا کہ شریعت کے تمام روحانی علوم کا منبع اور سرچشمہ حضرت علیؓ کی ذات ہے اور آپ کے بعد ان علوم کی وراثت آپ کی اولاد کو ملی اور سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے ہوئے امام جعفر صادق تک پہنچی۔ اسماعیلیوں کی روایت کے مطابق جعفر صادق نے اس کی اشاعت و تبلغ میں بڑا اہتمام کیا۔

عقائد

اسماعیلی سات کے عدد کو کامل ہونے کی وجہ سے اسے ایک پر اسرار عدد سمجھتے ہیں اور ان کے عقائد میں اس عدد کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ یہ کہتے ہیں کہ عالم کے مختلف نظاموں میں سات کو بڑا دخل ہے۔ چنانچہ آسمان، زمینیں، کواکب، سیارے، دریا، جہنم کے طبقات، قران کی قراءتیں، سورہ فاتحہ کی آیتیں، انسانی چہرے کے منافذ، گردن کے مہرے، ہفتہ کے دن، بیت اللہ کے طواف وغیرہ یہ سب سات ہیں۔ اسی طرح انبیاے مرسلین جنہیں اسماعیلی نطقا کہتے ہیں اور ان کے ادوار سات ہیں۔ ہر ناطق کا ایک قائم مقام ہوتا ہے جو صامت کہلاتا ہے۔ یہ علم باطن کا وارث ہوتا ہے۔ اس کے دوسرے نام وصی، اساس اور سوس بھی ہیں۔ نبی مرسل کو ناطق اس لیے کہتے ہیں کہ وہ آیت کریمہ "ہذا کتابنا ینطق علیکم بالحق" کے بموجب حق بات کہتا ہے اور خدا کی طرف سے نئی کتاب و شریعت لاتا ہے۔ وصی کو صامت اس لیے کہتے ہیں کہ وہ تاویل بیان کرتا ہے اور ظاہر کے بارے میں خاموشی اختیار کرتا ہے یعنی ظاہر بیان نہیں کرتا ہے۔

ولایت

معرفت کی طرح ہر مومن اپنے زمانے کے امام کی ولایت بھی فرض ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسماعیلی اسلام کے سات دعائم شمار کرتے ہیں۔ یعنی ولایت، طہارت، صلوۃ، زکواۃ، روزہ حج اور جہاد۔ ان سب میں اول درجہ ولایت ہے۔ یعنی ولایت کے بغیر کوئی عمل مقبول نہیں، کوئی کیسے ہی اعمال کیوں نہ کرے۔ لیکن اگر وہ امام کی ولایت کا قائل نہیں تو سارے اعمال بیکار ہیں۔ مہدی اسماعیلیوں کے عقیدہ میں کسی ایک خاض شخص کا نام نہیں بلکہ یہ ایک روخ القدوس ہے۔۔ یعنی اس کا ظہور ہر ساتواں جسمانی دور کے اخر میں امام کی صورت میں اتا ہے۔ ۔۔ ہر وہ امام آپنی دور کے مہدی ہوتا ہے۔ اور اخری مہدی یعنی حقیقی قیامت سے پہلے علم یعنی قران ناطق امامت کو اٹھایا جاتا ہے۔ اور اس کے بعد پھر حقیقی دور قیامت شروع ہوتا ہے۔ اور دنیا بیغیر ظاہری امام کے رہ جاتا ہے۔ ۔۔ دنیا فساد سے بھر جاتا ہے۔ اس کے بعد دوبارہ امام کا ظہور ہوتا ہے۔ ۔۔ اور یہان پر تمام مسلمان جو اس امام کی پہچان کرتے ہے اور وہی اخری امام المہدی ہوتا ہے۔ جو اس کی بیعت کرتے ہے۔ وہ مہدی کے فوج میں شامل ہوجاتے ہے۔ اس دور میں اسماعیلی عقیدہ میں شیعہ سنی والا بات ختم ہوتا ہے۔۔ اور مہدی کے فوج کے نام سے تمام اکٹھے ہوتے ہے ۔۔ اخری مہدی کے بارے میں اسماعیلی کتاب میں تاویلات اور نشانیان موجود ہے۔۔ جو ہر کسی کو نہیں بتا دیا جاتا ہے۔ اسماعیلی عقیدہ میں روخانی قیامت کا تصور بھی ہے۔ جو جسمانی دور کے ساتھ یعنی اماموں کے دور کے ساتھ ہے۔۔ جس کی اغاز اسماعیلی عقیدہ کی کتابوں کے مطابق تو پہلا امام علی کے دور سے ہی شروع ہوا ہے۔۔ جو اسماعیلی کتاب میں قول علی مولا علی علیہ السلام کا ارشاد ہے٫ اَناَ الذی اَقومُ الساعة ۔۔یعنی میں ہوں وہ شخص جوقیامت کو برپا کرتا ہوں۔)( منقبت ٥٣ ) ؛کا حوالہ کے ساتھ فلسفے بیان ہوئے ہے۔۔ اور دوسری جسمانی قیامت کا دور اسماعیل بن جعفرصادق کے دور کو کہا جاتا ہے۔ اور تیسری دور عبد اللہ بن حسین المہدی کے دور کو کہتے ہیں، جو گیارویں امام اور فاطمیین کے ظہور کے پہلے خلیفہ ہیں۔ اس کے بعد اسماعیلی دعوت کے نو امام ہوئے، جو ظہور کے امام کہلاتے ہیں 525ھ میں ان کے اکیسویں امام طیب ڈھائی برس کی عمر میں دشمنوں کے خوف سے مستور کر دیے گئے۔ اور امام نزار کے دور کو بھی دور روخانی قیامت کا دور کہا جاتا ہے۔ کچھ اسماعیلی اٹھتالیس وان امام کے دور کو بھی جسمانی قیامت کا دور سمجھتے ہے۔ جس کے بعد کچھ گروہ اس کے فرزند پرنس علی کو جبکہ کچھ گروہ پرنس آغاخان سوم کے پوتے پرنس کریم آغاخان کو امام مانتے تھے۔۔ ابھی تک نزاری اسماعیلیوں کی ایک کثیر تعداد پرنس علی سلمان کو بھی اماموں میں شمار کرتے ہے۔۔ اسماعیلی عقیدہ میں یہ امامت جہان سے اختلافات کی بنا پر دو گروہ بنتے ہے اس کو جسمانی دور قیامت کا ایک امتحان سمجھا جاتا ہے۔ یو یہ امامت اس سلسلے سے نسل بہ نسل قیامت تک ائمہ یکے بعد دیگر ہوتے رہیں گے ۔، جن کا آخری امام قائم القیامہ ہوگا، جس سے دور کشف کی ابتدا ہوگی۔ یہ سب ائمہ اولولامر کہلاتے ہیں، جن کی اطاعت بندگان خدا پر فرض ہے۔ جب کہ فرقہ نزار کے مطابق مستنصر تک جو اٹھارویں امام ہیں کے بعد نزار انیسواں امام ہے اور ان کے اماموں کا سلسلہ اب بھی جاری ہے اور اس وقت آغا خان چہارم فرقہ نزاریہ کے امام ہیں ۔

ناطق

اسماعیلی کے نذدیک پہلے ناطق حضرت آدمؑ تھے، جنہوں نے خدا کے حکم سے ایک نئی شریعت وضع کی۔ ان کے بعد حضرت نوحؑ جنہوں نے حضرت آدمؑ کی شریعت کو منسوخ کرکے ایک دوسری نئی شریعت پیش کی۔ اسی طرح برابر ناطق آتے رہے۔ ہر ناطق اپنے پیش رو کی شریعت کو منسوخ کرکے اپنی شریعت کی تعلیم دیتا رہا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے گزشتہ انبیا کی شریعتوں کو منسوخ کرکے ایک جدید شریعت وضع کی۔ آپ محمد صل اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات سے پہلے حضرت علیؓ پر نص کی۔ حضرت علیؓ نے حضرت حسنؓ کو اپنا جانشین بنایا۔

یہ سلسلہ لگاتار امام محمد بن اسماعیل بن جعفر تک پہنچا، جو ساتویں ناطق اور ساتویں امام ہیں۔ جنہوں نے رسول اللہ صلم کی شریعت کے ظاہر کو معطل کرکے باطن کو کشف کیا اور عالم الطبائع کو ختم کیا۔ یہی دور جسمانی میں روخانی دور کا مہدی ہیں جن کے ذریعہ زمین عدل و انصاف سے آباد ہو گیا۔ جس طرح ان سے پہلے ظلم و جور سے معمور تھی۔

ناطقوں کے مبعوث ہونے اور ان کی شریعتوں کے منسوخ ہونے کا حوالہ عام تاریخ میں پایا جاتا ہے اور اس کی تصدیق فاطمیین مصر کے مشہور امام معز کی دعاؤں سے ہوتی ہے۔ ان دعاؤں کو اسماعیلی بہت متبرک سمجھتے ہیں، یہ سات دعائیں ہیں۔ ہر دن کے لیے ایک دعا ہے، جس میں ایک ناطق اور اس کے وصی اور ائمہ کا ذکر تفصیل سے کیا گیا ہے۔

ناطق وصی ساتواں امام
آدم شیث[2] نوح
نوح سام ابراہیم
ابراہیم اسماعیل موسی
موسی ہارون عیسی
عیسی شمعون محمد
محمد علی مہدی [3]

امام

سوائے کسانیہ اور زیدیہ کے کل شیعی فرقوں کے اعتقاد کے لحاظ سے سچے امام کی دو بڑی شرطیں ہیں۔ ایک یہ وہ فاطمی ہو اور دوسری اس کے پیش رو نے اس پر نص بھی کی ہو۔ شیعی امام کی جامع اور مانع تعریف یہ ہوسکتی ہے کہ وہ زمین پر خدا کے خاص منتخب نمائندے ہیں جنہیں اس نے اپنے بندوں کی ہدایت کے لیے رہنما بنایا ہے اور مانوق الطبعیت قوتوں سے سرفراز کیا ہے اور جنہیں مومنین سے بیت لینے کا حق کسی انتخاب اور امت کے اجماع سے نہیں بلکہ برا راست خدا سے حاصل ہے۔ غرض کہ شیعہ آسمانی حق و اصول کے قائل ہیں جو جمہوری انتخاب کے اصول سے مخالف ہے۔ امام علم خدا کا خازن اور علم نبوت کا وارث ہے۔ اس کا جوہر سمادی اور اس کا عالم علوی ہے۔ اس کے نفس پر افلاک کا کوئی اثر نہیں ہوتا ہے۔ کیوں کہ اس کا تعلق اس عالم سے ہے جو خارج از افلاک ہے۔ اس میں اور دوسرے بندگان خدا میں وہی فرق ہے، جو حیوان ناطق اور غیر حیوان ناطق میں ہے۔ ہر زمانے میں ایک امام کا ہونا ضروری ہے۔ زمین کبھی امام سے خالی نہیں رہے سکتی ہے، ورنہ متزلزل ہو جائے۔ اماموں کا سلسلہ روز قیامت تک حضرت فاطمہؓ کی نسل سے جاری رہے گا۔ باپ کے بعد بیٹا خواہ وہ عمر میں بڑا ہو یا چھوٹا ہو، بالغ ہو نابالغ امام ہوتا رہے گا۔ سوائے حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کے جو ایک خاص صورت ہے۔ امام کو ہی دنیا پر حکومت کرنے کا حق حاصل ہے۔ دوسرے سب احکام غاسب اور متغلب ہیں۔ کبھی امام ظاہر ہوتا ہے اور کبھی اپنے دشمنوں کے خوف سے چھپ جاتا ہے۔ ایسی صورت میں اس کے نائب جنہیں داعی کہتے ہیں اس کے قائم مقام ہوتے ہیں ۔

امام کی خصوصیات

امام معصوم ہوتا ہے اس سے کوئی خطا نہیں ہوسکتی ہے۔ ہر حالت میں اس کے حکم کی تعمیل لازم ہے خواہ اس میں کوئی حکمت نظر نہیں آئے یا نہ آئے۔ امام شریعت کے تمام علوم جانتا ہے۔ خصوصاً قران کے حروف مقطعات کے اسرار سے سوائے امام کے کوئی دوسرا واقف نہیں۔ ہر مومن پر اپنے زمانے کے زندہ امام کی معرفت واجب ہے، اگر وہ چل بسے اور اپنے زمانے کے امام کو نہیں پہچانے تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہے۔ امام اپنے رائے سے نہیں بلکہ خدا کے الہام سے اپنا خلیفہ مقرر کرتا ہے۔ امام کے بعد اس کا بیٹا ہی امام بنتا ہے، چاہے وہ چھوٹا ہو کہ بڑا۔

امامت کا سلسلہ باپ کے بعد بیٹے کا دنیا ختم ہونے تک جاری رہے گا، ہر زمانے میں امام کا ہونا ضروری ہے اور اس کے وجود سے دنیا میں برکت برقرار ہے۔ امام کبھی ظاہر ہوتا ہے اور کبھی دشمنوں کے خوف سے مستور اور اس کی نیابت اس کے داعی کرتے ہیں۔ جن پر ہمشیہ اس کی تائید ہوتی رہتی ہے۔ امام اپنے پیروں کی جان و مال کا مالک ہوتا ہے اور ان کے متعلق جیسا چاہے ویسا ہی احکام نافذ کر سکتا ہے۔ قیامت کے دن قایم القیامہ ظاہر ہوں گے جو اس زمانے کی تمام حکومتوں کو مغلوب کر کے اپنی حکومت قائم کریں گے۔ قیامت کی ابتدا امام محمد بن اسماعیل سے ہو گئی ہے اور ان کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ظاہر شریعت کی تاویلات بیان کر دیا ہے۔ معرفت کی طرح ہر مومن اپنے زمانے کے امام کی ولایت بھی فرض ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسماعیلی اسلام، کے سات دعائم شمار کرتے ہیں۔ یعنی ولایت، طہارت، صلوۃ، زکواۃ، روزہ حج اور جہاد۔ ان سب میں اول درجہ ولایت ہے۔ یعنی ولایت کے بغیر کوئی عمل مقبول نہیں، کوئی کیسے ہی اعمال کیوں نہ کرے۔ لیکن اگر وہ امام کی ولایت کا قائل نہیں تو سارے اعمال بیکار ہیں۔ مہدی اسماعیلیوں کے لحاظ سے عبد اللہ حسین ہیں، جو گیارویں امام اور فاطمیین کے ظہور کے پہلے خلیفہ ہیں۔ اس کے بعد طیبی دعوت کے نو امام ہوئے، جو ظہور کے امام کہلاتے ہیں 525ھ میں ان کے اکیسویں امام طیب ڈھائی برس کی عمر میں دشمنوں کے خوف سے مستور کر دیے گئے۔ اس امام کی نسل سے قیامت تک ائمہ یکے بعد دیگر ہوتے رہیں گے ۔، جن کا آخری امام قائم القیامہ ہوگا، جس سے دور کشف کی ابتدا ہوگی۔ یہ سب ائمہ اولولامر کہلاتے ہیں، جن کی اطاعت بندگان خدا پر فرض ہے ۔

نصف و توقیف

شیعوں کے تمام فرقوں کی طرح اسماعیلی بھی باشاہوں کے خدائی حق کے قائل تھے۔ ان کہنا ہے کہ آدم کو اللہ نے اپنا خلیفہ بنایا اور بندوں کو اختیار نہیں ہے کہ وہ کسی کو خلیفہ مقرر کریں۔ اللہ نے آدم کو حکم دیا وہ اپنا جانشین مقرر کرے۔ اس طرح ان کا قائم مقام بھی خدا کا خلیفہ کہلاتا ہے۔ خدا کی خلافت ہمیشہ زمین پر قائم رہے تی ہے اور یہ کبھی منقطع نہیں ہوتی ہے اور یہ سلسلہ ہمیشہ روئے زمین پر جاری رہتا ہے۔ کسی امام کا اپنا جانشین مقرر کرنا نص و توقیف کہلاتا ہے۔ بغیر نص و توقیف کے کسی امام کا قیام جائز نہیں ہے۔ اس میں بندوں کی رائے اور اجماع کا کوئی دخل نہیں ہے۔ اور شیعی فرقوں کی طرح اسماعیلیوں میں نصف و توقیف کا اصول بہت اہم ہے۔ جس میں خلافت کا قیام اجماع امت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بلکہ یہ اختیار خود اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خود اللہ تعلیٰ نے اپنا رسول بنایا اور آپ نے خدا کے حکم سے حضرت علی کو اپنا خلیفہ مقرر کیا،۔ کسی خلیفہ کی خلافت بغیر نص و تو قیف کے درست نہیں ہوسکتی ہے۔ علاوہ اس اصول کی بنیادی امتیاز حضرت فاطمہ کی نسل سے ہر زمانے میں ایک امام کے ضرورت ہے۔ خواہ وہ ظاہر ہو یا کسی مصلحت سے مستور ہو۔ باپ کے بعد بیٹا خواہ وہ عمر میں بڑا ہو یا چھوٹا ہو، بالغ ہو نابالغ امام ہوتا رہے گا۔ سوائے حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کے جو ایک خاص صورت ہے۔ امام کو ہی دنیا پر حکومت کرنے کا حق حاصل ہے۔ دوسرے سب احکام غاسب اور متغلب ہیں۔ فاطمیین کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا رسول بنایا اور انہیں حکم دیا کہ علیؓ کو اپنا خلیفہ بنائیں اور حضرت علیؓ نے اللہ کے حکم سے خلافت کی امانت ہماری طرف منتقل کی۔ لہذا ہم اللہ کے خلیفہ ہیں اور ہم دنیا میں مذہبی و سیاسی حکمران ہیں ۔

آسمانی حق کا تصور

کہا جاتا ہے کہ آسمانی حق اور خاندانی حکومت ایسے تصورات جن کی طرف عرب کی ذہنیت مائل نہیں تھی۔ اس کے بخلاف ایرانی حق آسمانی کو اہم سمجھتے تھے۔ جن کے یہاں حکومت ایک خاندان میں محدود رہتی تھی۔ ساسانی بادشاہ اپنے آپ کو دیوتا یا ربانی وجود سمجھتے تھے۔ قدیم کیانی خاندان کی اولاد ہونے ساتھ اپنے کو حکومت اور فر کیانی کا جائز وارث سمھتے تھے۔ ساسانیوں کے عہد میں حق آسمانی کا عقیدہ جس عمومیت اور جوش کے ساتھ ایران میں پھیلا اس کی مثال نہیں پیش کی جاسکتی ہے۔ ائمہ کے جو غلو آمیز عقیدے پھیلے ان کا بانی یمن کا عبد اللہ بن سباتھا۔ جس نے حضرت علیؓ کو ’ انت انت ‘ یعنی تم خدا کہا۔ یہ یہودی تھا اس لیے حضرت موسیؑ کے وصی یوشع بن نون کے متعلق یہی عقیدہ رکھتا تھا۔ آسمانی حق اور تناسخ وغیرہ جیسے ایرانی خیالات کے یمن میں شائع ہونے کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ ایرانیوں نے عام الفیل یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے سال یمن فتح کیا تھا۔ اسماعیلوں کے دور کشف، دور فترت، دور ستر اور جہنم اور نفوس کی جزا اور سزا کے مسائل کم و بیش ہندی فلسفے سے ملتے جلتے ہیں۔ اگرچہ بعض مسائل میں اسماعیلیوں نے جدت بھی دکھائی ہے ۔

دعوت

اسماعیلیوں نے اپنی سیاسی عمارت کی بنیاد مذہب پر رکھی تھی۔ جسے وہ دعوت کہتے تھے۔ مہدی سے مستنصر کے زمانے تک ان کی مذہبی سرگرمیں جاری رہیں۔ لیکن مستنصر کے دور میں ہی اس کی قوت گھٹنے لگی۔ مستنصر کی وفات کے بعد خود اسماعیلیوں کے دو فرقے ہو گئے۔ مستعلیوں نے آمر کے قتل کے بعد اپنی دعوت یمن منتقل کردی، نزاریوں نے ’ الموت ‘ کو اپنا مستقر بنایا۔ دروزی جو حاکم کو خدا مانتے تھے مصر چھوڑ کر لبنان منتقل ہو گئے۔ اس طرح اسماعیلیوں کی قوت جو ایک مرکز پر تھی منتشر ہو گئی۔ اسماعیلیوں کے دعوت کے اس اصول کے مطابق امامت باپ کے بعد منتقل ہونی چاہیے۔ لیکن آمر کے بعد اس کا چچا ذاد بھائی حافظ امام بن گیا۔ گو مستعلوی کہتے ہیں کہ آمر کے قتل کے بعد اس کا ڈھائی سالہ بیٹا طبیب حقیقی امام جو نزاریوں کے خوف سے چھپادیا گیا۔ اس وجہ سے بھی بہت سے اسماعیلیوں کے خیلات بدل گئے اور اسماعیلیوں کی قوت کو ضعیف پہنچا۔

باطنی

اسماعیلیوں کی کتابوں میں ظاہر شریعت کے تعطیل کے معتدد حوالے ملتے ہیں۔ امام معز کی دعا میں جو تعطیل کا لفظ ہے اس کے معنی تبدیل و منسوخ کے ہیں۔ علاوہ اس کے شریعت محمدی کا مقابلہ انبیا سابقین سے کیا ہے، جن کا ظاہر منسوخ کر دیا گیا ہے۔ غرض کہ ساتویں امام محمد بن اسماعیل بن جعفر الصادق کے جو قائم القیامہ اور یوم القیامۃ و البعث ہیں کے دور میں ظاہری شریعت کے اسرار واضح کر دیا گیا۔ ۔۔ اور چھٹا جسمانی دور ختم ہو کر ساتویں روحانی دور کی ابتدا ہوئی، اب ظاہری اعمال یعنی نماز، روزہ وغیرہ کی تاویلات بیان کردی گئی۔ اور اسماعیلی عقیدہ شریعت سے طریقت میں تبدیل ہوئی۔۔ کیوں کہ شریعت کی تاویلات ظاہر کردی گئیں ہیں۔ ممثولات کی معرفت اور ولایت ( محبت ) کافی ہے۔ امام معز کی دعاؤں کا حوالہ اور شرح جلیل قدر داعیوں نے کیں ہیں۔ امام محمد بن اسماعیل کے بعد جو چودہ امام ان کی نسل سے ہوئے اور روز قیامت تک ہوں گے۔ ان کو امام معز نے اپنی دعاؤں میں امام محمد بن اسماعیل کے خلفائے راشدین کہا ہے۔ امام مزکور سے قائم کا روحانی دور شروع ہوا ہے۔ اس دور کے اماموں میں سے جس کو موقع ملے وہ قائم کی حثیت سے ظاہرہو کر عدل و انصاف سے حکومت کرے گا۔ اور یہ امامت نسل بہ نسل جاری رہی گا۔ ۔۔۔

امام معز کی دعاؤں سے پتہ چلتا ہے کہ قدیم اسماعیلوں کا عقیدہ یہ ہے کہ امام محمد بن اسماعیل کے عہد سے ظاہری اعمال اٹھ گئے اور علم باطن کا دور شروع ہوا۔ چنانچہ قدیم اسماعیلی فرقہ مثلاً قرامطہ اور نزاری بھی یہی عقدہ رکھتے تھے۔ بلکہ انہوں نے کھلاکھلم اپنا عقیدہ ظاہر کیا۔ امام مہدی اور ان کے جانشینوں اس قسم کے عقیدے ظاہر نہیں کیے۔ اس کی وجہ مستشرق اولیری نے یہ بتائی کہ ان حکمرانوں کو مصر و شام پر مستقل حکومت کرنے کا موقع ملا اور ان ممالک میں اکثریت اہل سنت کی تھی۔ اس لیے انہوں نے صرف ایسے عقیدے ظاہر کیے جو ان کی رعایا سے ملتے جلتے تھے۔ مہدی اور اس کے خلفاء نے باطن کی تعلیم تو دی لیکن اس کے ساتھ اس امر پر بھی زور دیا کہ کہ باطن کے ساتھ ظاہر بھی ضروری ہے۔ ظاہری اعمال دور کشف میں قائم القیامۃ ہی اٹھائیں گے۔ اس مقام پر یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے باطن کی تعلیم ہر کس و ناکس کو نہیں دی جاتی تھی، بلکہ اس میں سننے والے کے استعداد اور وقت کے مقتضاد کا بڑا لحاظ کیا جاتا تھا۔ دعوتوں کی مجلسیں صرف قیصر ہی میں پوشیدہ مقام پر ہوا کرتی تھیں۔ مبتدی صرف ظاہر کی تعلیم سے مستفید ہوا کرتے تھے۔ علامہ مجلسی کی روایت ہے کہ امام جعر صادق نے اسماعیل کو اپنا جانشین بنایا تھا۔ لیکن ایک موقع پر وہ شرع عمل کے مرتب ہوئے۔ یہ دیکھ کر ان کے والد برا فروختہ ہوئے اور امامت کے عہدہ موسیٰ کاظم کی طرف منتقل کر دیا، فرقہ اسماعیلیہ نے نہیں مانا اور تاویل کی کہ اسماعیل کا ایسا کرنا ان کی اعلیٰ روحانیات کا ایک ثبوت ہے، کیوں کہ وہ ظاہر شریعت کے پابند نہ تھے بلکہ باطن کے قائل تھے۔ یہ اسماعیلیوں کے اس رجحان کی مثال ہے جو تاویل یعنی باطنی شریعت کی طرف ہے ۔

اسماعیلی دعوت کے درجات

عہدہحجتامور
صدر دعوت( 1 ) نبی# نبی کے بعد وصی جس کا دوسرا نام صامت ہے# وصی کے بعد امام ظاہر شریعت کی تعلیم

باطنی علوم کی تعلیم ظاہری شریعت کی حفاظت باطنی علم کی تعلیم۔

بارہ باطنی مدگار

ان میں امام کا خاص اور اول مدد گار شامل ہے جسے داعی البواب کہتے ہیں

پہلی حجتیںیہ لوگ امام کی خدمت میں رہتے ہیں اور ان پر جہاد فرض نہیں ہے ۔
بارہ ظاہری مدگارنہاری حجتیںظاہری شریعت کی تعلیم۔ بارہ زجزیروں میں زمین کی تقسیم کی جاتی ہے اور ہر جزیرے میں ایک حجت کو پھیجاجاتا ہے۔ نہاری حجتوں پر جہاد فرض ہے ۔
مبلغین جو نبی یا وصی یا امام کی طرف سے مختلف شہروں میں تبلیغ کے لیے بھیجے جاتے ہیں۔داعی البلاغظاہری شریعت کی حفاظت اور باطنی علوم کی تعلیم امام کی غیبت کے زمانے میں جو داعی اس کا قائم مقام ہوتا ہے، اسے داعی مطلق کہتے ہیں، اسے کل اختیارات ہوتے ہیں۔ سب داعیوں کے صدر کو داعی الدعاۃ کہتے ہیں ۔
داعی کا اول مددگارماذوںمستجب سے عہد میثاق لینا
داعی کا دوسرا مددگارمکاسرمستجب کے پہلے مذہب کو باطل ٹہرانا اور اپنا ،ذہب ثابت کرنا۔

بعض اوقات نئے عہدے مثلاً لاحق، جناح، لومصہ، مکلب، رفیق اور داعی محصور وغیرہ بھی قائم کیے جاسکتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اسماعیلی دعوت کا حقیقی بانی ایک ایرانی داعی ابو شاکر میمون القداح یا اس کا بیٹا عبد اللہ تھا۔ دونوں مختلف ادیان اور یونانی فلسفہ کا ماہر تھے ۔

اسماعیلیوں کے مخصوص مذہبی علم

علمتفصیل
( 1 ) فقہاسماعیلی فقہ میں قیاص اور رائے کو بالکل دخل نہیں ہے، اجتہاد گمراہی کا راستہ ہے۔ ہر شریعی حکم نص قطی کا محتاج ہے ،
( 2 ) تاویلاس فن میں سب سے معتبر تصنیفیں قاضی القضاۃ نعمان بن محمد کی ہیں۔ علم تاویل کو علم باطن بھی کہتے ہیں۔ ان میں وہ اسرار ہیں جو عوام کو نہیں بتائے جاتے ہیں۔ اسماعیلیوں میں بھی جو ایک خاص درجہ تک پر پہنچتا ہے وہی ان پر مطلع ہو سکتا ہے ۔
( 3 ) فلسفہتاویل کے ختم ہوجانے پر مذہبی فلسفہ کی تعلیم دی جاتی ہے جسے اسماعیلی اپنی اصطلاح میں ’ حقیقت ‘ کہتے ہیں۔ اس فن میں عالم کی ابتدا، انتہا، قیامت، بعث، حشر وغیرہ کے مثائل بیان کیے جاتے ہیں ۔

علم حقیقت ( یا حقائق ) میں سب سے اہم اور مستند کتاب ’ اخوان الصفا ‘ ہے۔ اس کے آخری رسالہ جو ’ جامعہ ‘ نام سے مشہور ہے۔ اس میں تاویل و حقائق کے بنیادی مسائل بیان کیے گئے ہیں ۔

اسماعیلی فرقے

اسماعیلی دعوت کی ابتد کو بارہ صدیاں سے زیادہ گزر چکی ہے ں۔ اس طویل مدت میں کئی مذہبی اور سیاسی بتدیلیاں ہوئیں۔ جس کی وجہ سے اس میں مختلف فرقہ پیدا ہوئے، اس لیے اصل عقیدے میں تبدیلیاں ہوچکی ہیں۔ ہر فرقہ نے علحیدہ اعتقاد اختیار کیا۔ اس وقت جو اسماعیلی ہیں ان میں بعض امام کو خدا مانتے ہیں جیسے دروزی۔ بعض صرف باطن ہی کے قائل ہیں جیسے نزاری جو عام طور پر خوجے کہلاتے ہیں اور بعض باطن سے ساتھ ظاہر کے بھی پابند ہیں جیسے داودی اور سلیمانی۔

ایران کے قلعہ الموت میں ان کی بے مثال حکومت رہی ہے۔ یہ حکومت ان سے مصر میں ان کی مشہور زمانہ فاطمی دور حکومت کے چھن جانے کے بعد شروع ہوتی ہے جس میں حسن صباح مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔ موجودہ دور میں اسماعیلی پوری دنیا میں آباد ہیں اور بین الاقوامی سطح پر اسلام کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یہ بہت ہی پر امن لوگ ہیں اور کسی دوسرے کے عقیدے کو نہیں چھیڑتے ہیں۔ پوری دنیا میں ان دی تعداد میں روز بروز اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ اس وقت اسماعیلی مسلمان ہندوستان، پاکستان، یمن، لبنان، شام اورایران میں آباد ہیں اور بہت ہی قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔

ماخذ ڈاکٹر زاہد علی۔ تاریخ فاطمیین مصر

دیگر نام و گروہ

بیرونی روابط

حوالہ جات

  1. دیکھیں اسماعیلی ویب سائیٹ امانہ نیز اسماعیلی تاریخ کی ویب سائٹ
  2. بعض اسماعیلی، ہابیل کو آدم علیہ السلام کا وصی سمجھتے ہیں.
  3. یہ تمام اسماعیلی فرقے کا نظریہ ہے۔ البتہ مہدی کون ہے یہ اختلاف ہے۔
This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.