ہندو مت

ہندو مت یا ہندو دھرم (ہندی: हिन्दू धर्म) جنوبی ایشیا اور بالخصوص بھارت اور نیپال میں غالب اکثریت کا ایک مذہب ہے جس کی بنیاد ہندوستان میں رکھی گئی، یہ اس ملک کا قدیم ترین مذہب ہے۔ ہندومت کے پیروکار اِس کو سناتن دھرم (सनातन धर्म) کہتے ہیں جو سنسکرت کے الفاظ ہیں، ان کا مطلب ہے ‘‘لازوال قانون’’۔

ہندو دھرم کے اوتار رام کا تعارف رامائن سے ہوتا ہے کچھ اسے خیالی کردار کہتے ہیں مگر وہ اپنے دور میں ایک بادشاہ تھا جس نے بھرہمن سپرمیسی کی بنیاد رکھی جس کے اثرات آج تک ہندو معاشرے میں موجود ہیں ۔ اس کے دور کے متعلق اختلاف پایا جاتا ہے مگر یہ سات ہزار سال قبل مسیح کے لگ بھگ ہے

ہندو مت قدیم ترین مذاہب میں سے ایک ہے۔ اِس کی جڑیں قدیم ہندوستان کی تاریخی ویدی مذہب سے ملتی ہیں۔ مختلف عقائد اور روایات سے بھرپور مذہب ہندومت کے کئی بانی ہیں۔ اِس کے ذیلی روایات و عقائد اور فرقوں کو اگر ایک سمجھا جائے تو ہندومت مسیحیت اور اِسلام کے بعد دُنیا کا تیسرا بڑا مذہب ہے۔[1] تقریباً ایک اَرب پیروکاروں میں سے 905 ملین بھارت اور نیپال میں رہتے ہیں۔ ہندومت کے پیروکار کو ہندو کہاجاتا ہے۔
تمام ہندو متون دو قسموں پر مشتمل ہے، شروتی (مسموع) (श्रुति) اور سمرتی (محفوظ) (स्मृति)۔ ان متون میں دیگر مضامین کے ساتھ ساتھ الہیات، فلسفہ، اساطیر، ویدک یجنا، یوگا اور مندروں کی تعمیر جیسے موضوعات پر گفتگو کی گئی ہے۔ ہندو مت کی اہم کتابوں میں چار وید، اپنیشد، بھگوت گیتا اور آگم (आगम ) شامل ہیں۔[2][3]

نیپال دنیا کا واحد معاصر ہندو ملک تھا (نیپال کی جمہوری تحریک کے بعد نافذ کیے جانے والے عبوری آئین میں کسی بھی مذہب کو بطور قومی مذہب اعلان نہیں کیا گیا ہے۔ نیپال کے ہندو قوم ہونے یا نہ ہونے کا حتمی فیصلہ آئین ساز اسمبلی کے انتخابات سے منتخب ہونے والے رکن اسمبلی کریں گے)۔

تاریخ

ہندو مت کسی ایک مذہب کا نام نہیں ہے، بلکہ یہ مختلف و متضاد عقائد و رسوم، رجحانات، تصورات اور توہمات کے مجموعہ کا نام ہے۔ یہ کسی ایک شخص کا قائم کردہ یا لایا ہوا نہیں ہے، بلکہ مختلف جماعتوں کے مختلف نظریات کا ایک ایسا مرکب ہے، جو صدیوں میں جاکر تیار ہوا ہے۔ اس کی وسعت کا یہ عالم ہے کہ الحاد سے لے کر عقیدہ وحدۃ الوجود تک بلا قباحت اس میں ضم کر لیے گئے ہیں۔ دہریت، بت پرستی، شجر پرستی، حیوان پرستی اور خدا پرستی سب اس میں شامل ہیں۔

مندر میں جانے والا بھی ہندو ہے اور وہ بھی ہندو ہے جس کے جانے سے مندر ناپاک ہوجاتا ہے۔ وید کا سننے والا بھی ہندو ہے اور وہ بھی ہندو ہے جس کے متعلق حکم ہے کہ اگر وید سن لے تو اس کے کانوں میں پگلاہوا سیسہ ڈالاجائے۔ غرض ہندو مت ایک مذہب نہیں ہے بلکہ ایک نظام ہے، جس کے اندر عقائد رسوم اور تصورات کی بہتات ہے۔ اسے ویدی مذہب کی ترقی یافتہ، توسیع یافتہ اور تبدیل شدہ شکل بھی کہا جاسکتا ہے، کیوں کہ وہ مقام جہاں سے یہ پھیلا ہے وہ بہر حال ویدی مذہب ہی ہے۔

ہم نے ویدی مذاہب میں بتایا ہے کہ آریا یہاں آنے کے بعد وہ چند صدیوں میں اپنی زبان بھول گئے اور ساتھ ہی ساتھ اپنی خصوصیات کھوتے چلے گئے۔ انہوں نے یہاں کی مختلف قوموں کے تمدنی اثرات، عقائد اور رسوم کو قبول کر لیا اور ان دیوتاؤں کو بھی جن کی پرستش غیر آریا کرتے تھے، اپنے دیوتاؤں میں شامل کر لیا۔ مگر وہ اپنی انفرادیت اور نسلی برتری کو کھو نے کے لیے تیار نہ تھے۔ چنانچہ انہوں نے ایک طرف ہر اس جماعت اور مذہب سے ٹکر لینے کی ٹھانی جس نے ان کی عظمت سے انکار کر دیا اور دوسری طرف اور اپنی ذاتوں کی بندش کو سخت کرکے عقائد و رسوم کا جال ایسا پھیلا دیا کہ لوگوں کے لیے اس سے نکلنا ممکن نہیں تھا۔ انہوں نے ویدی عہد کی مذہبی کتابوں اور دیوتاؤں کو احترام کے دائرے میں محدود کر دیا اور نئی کتابوں کی تصنیف اور نئے دیوتاؤں کی شمولیت سے مذہبی نظام قائم کیا اور اس پر نئی کتابوں میں اس نظام کی بنیاد رکھی گئی۔ دھرم شاشتر اور پران میں کو سب سے اہمیت حاصل ہوئی۔ خرافات، ضمیات، عقائد اور رسوم کے لیے پران نے ان کو مواد فراہم کیا اور عملی زندگی کے مطالبات کو دھرم شاشتر نے پورا کیا۔ برھما، شیو اور وشنو کو تسلیم کر لیا گیا اور الوہیت کی ان تینوں شکلوں کو تری مورتی کے نام سے موسوم کیا گیا۔ برھما کو پہلے افضل مانا گیا اور سرسوتی کو جس کی سواری مور ہے اس کی بیوی بتایا گیا، نیز اسے علم اور دانائی کی دیوی بتایا گیا۔ پھر برھما کی عظمت کم کر کے اس کی پرستش روک دی گئی اور وشنو اور شیو کو اس پر فوقیت دے کر اس کی کمتری کا اعلان کر دیا گیا۔

ہند آریائی مذہب

مورخین نے بالعموم آریائی دور کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے:

  1. سابقہ ویدی دور
  2. آخری ویدی دور یا رزمیہ دور
  3. ہندو دور یعنی پران و سمرتی ہے۔

آریائی دور اس عہد سے تعلق رکھتا ہے جب وہ ہندوستان پر حملہ آور ہوئے تھے اور یہاں کے باشندوں سے بر سرِ پیکار تھے.

آریوں کی مذہبی کتابیں

آریوں کی مذہبی کتابوں کی تعداد چار ہیں جو چار ویدوں کے نام سے مشہور ہیں:

  1. رِگ وید (ऋग्वेद)
  2. سام وید (सामवेद)
  3. یَجُر وید (यजुर्वेद)
  4. اَتھروا وید (अथर्ववेद)

وید کا لفظ ود سے نکلا ہے، جس کے معنی جاننے اور علم ہیں۔ اس لیے وید کا اطلاق عام علوم یا مخزن علوم کے ہیں، جسے سنہیتا (संहिता) کہتے تھے۔ یہ مخزن علوم شروع میں تین مجموعوں پر مشتمل تھا۔ رگ وید سنہیتا (ऋग्वेद संहिता)، سام وید سنہیتا (सामवेद संहिता) اور یجر وید سنہیتا (यजुर्वेद संहिता)، بعد میں اس میں اتھروا وید سنہیتا (अथर्ववेद संहिता) کا اضافہ ہو گیا، جو مضمون کے لحاظ سے ایک ہی ہے۔ یہ سنہیتا منتروں یا بھجنوں کا مجموعہ ہیں، اس لیے یہ منتر بھی کہلاتی ہیں۔ راسخ العقیدہ ہندوؤں کا عقیدہ ہے کہ یہ تمام وید الہامی ہیں اور پرمیشور کے خاص بندوں کے ذریعہ ہم تک پہنچائے گئے ہیں اور برہما نے انھیں خود اپنے ہاتھ سے لکھا ہے۔

ویدوں کے مضامین سے صاف ظاہر ہے کہ کچھ منتروں کو چھوڑ کر بقیہ اسی سرزمین پر لکھے گئے ہیں۔ جب یہاں آریا یہاں آئے تھے، تو انہیں کچھ مذہبی بھجن زبانی یاد تھے اور انہیں زبانی منتقل کرتے گئے اور وہ جب وہ فن تحریر سے آگاہ ہوئے، تو ان کی ابتدائی تحریریں یہی بھجن اور منتر ہوئے، جو اب رگ وید کا حصہ ہیں اور تکرار اور حذف و اضافے کے ساتھ دوسرے ویدوں میں شامل کیے گئے ہیں اور ان کے بہت سے مضامین بہت بعد کے حالات پر مشتمل ہیں۔ اس طرح ویدوں کا زمانہ 1000 ق م سے 600 ق م تک متعین ہوتا ہے، جو قرین قیاس ہے۔

رِگ وید

اس وید کا زیادہ تر حصہ ابھی تک نا قابل فہم ہے اور یہ منتر، مناجات اور حمد پر مشتمل ہے۔ ان میں جگہ جگہ رنگین باتیں بھی ملتی ہیں۔ ان منتروں سے ان کی ارتقائی حالت، مقاصد، سیاسی تنظیم اور دشمنوں کے تمدنی مدارج پر کافی روشنی پڑتی ہے۔ ان میں بہت سے معبودوں کا نام لے کر دولت و شہرت طلب کی گئی ہے اور دشمنوں کے مقابلے میں اپنی فتح اور کامرانی کی دعا کی گئی ہے۔

سام وید

قدامت کے لحاظ سے رگ وید کے بعد سام وید کا نام آتا ہے۔ اس کے تمام منتر سوائے 571 منتروں کے رگ وید سے ماخوذ ہیں جنھیں اس میں خاص طور پر اکھٹا کیا گیا ہے، تاکہ رسموں کو ادا کرنے میں آسانی ہو۔ اس کے تمام منتر بلند آواز میں پڑھے جاتے ہیں، یہی وجہ ہے اس کا نام سام یعنی ترنم ہے۔

یَجُر وید

یجُروید سنسکریت کے لفظ "یجُرویدا" سے ماخوُز ہے۔ "یجُوس" کا مطلب منتر اور "ویدا" کا مطلب علم ہے یعنی علم کے منتر۔ یہ ان منتروں کا مجموعہ ہے جو پنڈِت مذہبی رسوم ،جیسے "یجنا" کے دوران پڑھتے ہیں۔ سام وید کی طرح اس کے منتر بھی رگ وید سے ماخوذ ہیں۔ اس میں منتروں کے درمیان پوجا کے لیے ہدایتیں بھی ہیں۔يجروید کو دو اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے، کرشنا یجروید اور شکلہ یجروید۔ اوّل الزکر میں غیر واضح اور غیر ترتیب یافتہ آیات جبکہ موخر الزکر میں ترتیب کے ساتھ واضح آیات ہیں۔ کرشنا یجروید کے چار ایڈیشن جبکہ شُکلا یجروید کے دو ایڈیشن موجود ہیں۔

اتھروا وید

اس کی تصنیف بہت بعد میں ہوئی ہے، مگر اس کے بعض حصے رگ وید سے بھی قدیم معلوم ہوتے ہیں۔ یہ مذکورہ بقیہ تین ویدوں سے مختلف ہیں۔ اس کے منتر زیادہ تر جادو ٹونے اور جھاڑ پھونک پر مشتمل ہیں اور بھوتوں کی پرستش کا ذکر بھی ہے۔

براہمن گرنتھ

آریا اس ملک میں آنے کے بعد جلد اپنی زبان بھول گئے، اس لیے ویدوں کی تفسیریں لکھی گئیں اور انہوں نے ان منتروں کو جنھیں سمجھ سکتے تھے، کچھ نہ کچھ تفسیریں لکھ لیں اور بقیہ حصہ کو چھوڑ دیا، لہذا بقیہ حصہ ناقابل فہم بن گیا۔ یہ تفسیریں براہمن کے نام سے مشہور ہیں۔ یہ سب کے سب منتر ہیں، مگر زیادہ تر اساطیری واقعات خرافاتی قصوں اور قربانی کے متعلق ہدایتیں ہیں۔ یہ براہمن بہت سارے لکھے گئے تھے، مگر اب صرف سات باقی بچے ہیں۔

آرن یک

براہمنوں کے بعد آرن یک کا نام آتا ہے، جو بطور ضمیمہ براہمنوں میں شامل ہیں، ان کو جنگلوں کی بیاض بھی کہتے ہیں۔ کیوں کہ یہ اس قدر پاک ہیں کہ ان کو صرف جنگلوں میں ہی پڑھا جاسکتا ہے۔ ان میں آریاؤں کے لیے ہدایتیں درج ہیں۔ یہ براہمن کی طرح ہیں، مگر ان میں رسومات کے برخلاف معنوں سے سروکار کیا گیا ہے۔

اپنیشد

یہ ویدی دور کا آخری ضخیم حصہ ہے، جسے معنویت اور فلسفیانہ گہرائی کی وجہ سے بڑی اہمت حاصل ہے۔ اپنیشد کے معنی کسی کے آگے بیٹھنے کے ہیں اور اصلاحی معنی اسرار کے ہیں۔ یہ بہت سے ہیں، کچھ نظم میں اور کچھ نثر میں۔ انہیں عام طور پر ویدانت کہتے ہیں، جس کے معنی وید کا تتمہ ہے۔ بعض لوگوں نے بھگوت گیتا اور سوتروں کو بھی ودیانت میں شمار کیا ہے۔

ہندو دھرم کی خصوصیات

ہندو مت کی تدوین نو رزمیہ نظموں کے عہد میں شروع ہوئی ۔ برہما ، وشنو اور مہیش جنہیں تر مورتی کہا جاتا ہے کے ساتھ دیوی ماں منظر عام پر آکر غیر معمولی مقبولیت کا باعث بنیں ۔ ہندو مت برہمنی مت کی توسیع کا نام ہے ۔ نئے عظیم دیوتاؤں کا وجود میں آنا اور عوام کی مقبولیت کی سند حاصل کرنے میں ایک زمانہ لگا ۔ عہد وسطی کی تاریخ انہی کے عروج کی داستان کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے ۔

قدیم برہمنی اور ویدک دھرم میں جو فرق ہے وہ یہ ہے کہ ویدک رسومات میں یگیہ (قربانی) کو مرکزیت حاصل تھی ۔ جب کہ نئے ہندو دھرم میں یگیہ کو بالکل ختم کر دیا گیا ہے ۔ قدیم ویدک دھرم میں یگیہ صرف برہمنوں کے ذریعے ادا کی جاسکتا تھا اور دیوتا یگیہ کے مقابلے میں تمام عبادتیں اہمیت حقیقت نہیں دیتے تھے اور عوام یگیہ کا خرچ برداشت نہیں کرسکتے تھے ۔ مگر ہندو مت کی تنظم نو میں یگیہ کو ختم کرکے پوجا پاٹ کو اہمیت دی گئی برہمنی مت میں جب غیر آریائی قبائل کو جگہ دینا شروع کی تو برہمنی مت کے ساتھ ساتھ مقامی قبائل کے مذہبی عقائد و رسومات بھی جگہ پانے لگے ، پھر بھی ان ان سب میں برہمنی مت اور اس کے عقائد کو اولیت حاصل رہی ۔ مہابھارت اور رامائن عہد کے تمام مذہبی عقائد اور سماجی روایات کی برہمنی عالموں نے نہ صرف حوصلہ افزائی کی اور ان کے ذریعے برہمنی مت کی تائید اور سند کی قبولیت بخشی اس طرح برہمنوں کو کلیدی حثیت حاصل ہو گئی اور یہی دھرم کے اصول و ضوابط کی ترتیب و ترمین یا تنسیخ کے ذمہ دار تھے ۔ یعنی کوئی بھی عمل جس کا تعلق مذہب و زندگی کے کسی شعبے سے ہو ۔ ان کے عمل و دخل کے بغیر تکممیل کو نہیں پہنچ سکتا تھا ۔

نئے مذہب کی خصوصیت یہ ہے یہ اپنے اندر تمام رسومات و روایات کو سمو لینے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتا ہے اور یہی اس کی مقبولیت کی ضامن بنی ۔ ہندو مت میں شمولیت کے لیے کسی طرح کی کوئی شرط نہیں ہے ۔ کوئی بھی شخص خواہ وہ کسی قبیلے ، کسی ذات ، کسی مذہب و نسل سے تعلق رکھتا ہو اپنے مذہبی عقائد و رسومات کے ساتھ اس نئے مذہب میں شامل ہوسکتا تھا ۔ اس طرح ہندو مت میں تمام طبقات کے لوگ شامل ہونے لگے تھے ۔ یہ وہی لوگ تھے جو پہلے اس مذہب سے مستفید ہو نہیں سکتے تھے اور نہ ہی برہمنی مذہب کو ان سے دلچسپی تھی ۔ سماجی کی وہ ذاتیں جو پہلے حقیر سمجھی جاتی تھیں وہ ہمشہ مذہبی معملات سے دور رکھے گئے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہندو مت کا برہمنی مت کو عوامی رنگ اختیار کرنے کی کوششوں کا نتیجہ ہے ۔

ہندو مت نے تمام نسلی ، قبائلی و مقامی عقائد کو جگہ دے کر اپنے دائرے کو پھیلایا کہ ہندو مت میں متضاد خیالات و افکار رکھنے والے سبھی اپنے اپنے دیوتاؤں سے عقیدت رکھنے کے ساتھ دوسرے دیوتاؤں کا بھی احترام کیا جاتا ہے ۔ چنانچہ اپنی ضرورتوں کے لیے ہر فرقہ اپنے دیوتا کی طرف رجوع کرتا ہے اور اسی کو خالق کائنات سمجھتا ہے ۔ شیو کے بھگت وشنو اور دیوی ماں کو اس کا اوتار یا شیو کی ہی مختلف صفات کا مظہر سمجھتے ہیں ۔ اس طرح وشنو کے بھگت شیو اور دیوی ماں کو وشنو کی مختلف صفات کا مظہر سمجھتے ہیں ۔

ہندو مذہب کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ مختلف دیوتا جو مخصوص نسلی اور تہذیبی روایتوں کی دین ہیں اور ان کے اتحاد سے کسی ایک دیوتا کی تخلیق ممکن نہیں تھی اور بعض اوقات کسی ایک دیوتا کی مختلف صفات یا اس کے مختلف مظاہر میں ان دیوتاؤں کی تکمیل سے اس دیوتا کی تکمیل ممکن تھی ۔

مہا بھارت

مہا بھارت، رامائن سے زیادہ ضخیم ہے، اس کے اندر ایک لاکھ اشعار ہیں، جو بیس ہزار قطعات میں منقسم ہیں۔ ان کے علاوہ نظموں کا ایک اور مجموعہ بھی ہے، جو چوبیس ہزار اشعار پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کا مصنف ویاس بتایا جاتا ہے۔ یہ کتاب بھی کسی ایک مضمون کے متعلق نہیں ہے، بلکہ اس میں قصے بھی ہیں، پند و نصائح بھی، رزمیہ کارنامے بھی، فلسفیانہ بحثیں اور یوگ کے دروس بھی ہیں۔ ان میں سب سے اہم بھگوت گیتا ہے۔

یہ حقیقتاََ نئے مذہب کی کتاب ہے، جس کے اکثر تصورات گو اپنشد سے ماخوذ ہیں، تاہم نتیجے کے لحاظ سے ان سے مختلف ہیں۔ اس میں دوسرے دیوتاؤں پر وشنو کی عظمت قائم کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور وشنو کو برھما مانا گیا ہے۔ نیز تناسخ کے فلسفہ پر زور دیا گیا ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ خود کرشن نرائن، واسدیو، وشنو اور برہما ہیں، دوسرے الفاظ میں وہی معبود اور روح کل بھی ہے۔ ہندوؤں کے خیال میں اس میں ایک ہستی کو تسلیم کر کے وحدت الوجود کی تعلیم دی گئی ہے۔ اس میں قدیم دیوتاؤں کو نظر انداز کر کے ایک نئے مذہب کی داغ بیل ڈالی گئی ہے، جس میں کرشن ہی کو سب کچھ بتایا گیا ہے۔ اس تعلیم نے کچھ عرصہ کے بعد ایک بڑے فرقے کی صورت اختیار کرلی۔ اس حقیقت کو سمجھانے کے لیے بھگوت گیتا میں تین طریقے بتائے گئے ہیں۔ (1) جنان مارگ یعنی علم کے ذریعے (2) کرم مارگ یعنی عمل کے ذریعے (3) بھکتی مارگ یعنی گیان و یوگ کے ذریعے۔ یہاں بھی اپنشد کی طرح آرواگون سے رہائی پا جانے یا مکتی یٰا نجات بتایا گیا ہے۔

رامائن

رامائن لطیفوں اور فلسفیانہ بحث سے خالی ہے۔ اس میں جو کچھ قابل تذکرہ ہے، وہ رام چندر اور سیتا کی سیرتیں ہیں، جنہیں ڈرامائی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ بعد میں چوں کہ رام چندر اور سیتا کو وشنو اور لکشمی کا اوتار مانا گیا ہے، اس لیے اس کی اہمیت بڑھ گئی ہے اور یہ وشنو کے ماننے والوں کی سب سے اہم کتاب بن گئی۔ اس کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں ویدی معبودوں کے ساتھ نئے دیوتاؤں کا نام بھی آتا ہے، جس سے ظاہر ہو رہا تھا کہ آریائی مذہب ہندو مذہب میں تبدیل ہو رہا تھا۔ گو انہیں برتری نہیں ہوئی تھی، نیز تناسخ کا عقیدہ پختہ ہوچکا تھا اور عام انسانوں کو اوتار سمجھنے کی بدعت جاری ہوچکی تھی۔

اس کتاب کا مصنف والمیکی بتایا جاتا ہے اور اس کو رام چندر کا ہم عصر قرار دیا گیا۔ اس کتاب کے مختلف مواد سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ 600 ق م سے پہلے کی نہیں ہے۔[4]

ہندو دھرم کی کتابیں

چونکہ آریا اس ملک میں آنے کے بعد چند صدیوں میں اپنی زبان بھول گئے۔ اس وقت انھوں نے ویدوں کی تفسیر لکھنی شروع کی، جو براہمن کے نام سے مشہور ہوئیں۔ مگر یہ بھی ناقابل فہم ہوتی گئیں اور تشفی بخش ثابت نہیں ہوئیں تو انہوں نے ایک نیم مذہبی ادب ویدانگ کی بنیاد رکھی۔ اور کلپا کے زمرہ میں چار رسالے سروثہ ستر، سلو ستر، گریہ ستر اور دھرم ستر تصنیف کیے۔

دھرم ستر

ہندو مت کی بنیاد جن کتابوں پر رکھی گئی، ان میں پہلا نام دھرم سترہ کا آتا ہے۔ اس کو ہندو قانون میں ماخذ کی حثیت حاصل ہے۔ دھرم کے معنی مذہب، فرائض اور اعمال کے ہیں اور ستر کے معنی دھاگہ کے۔ مگر اصطلاحی معنوں میں مقدس کتابوں کی طرف رہنمائی کرنے والے کے ہیں۔

اس نوع کے متعدد کتابیں لکھی گئیں۔ جن میں چار دھرم ستر، جو گوتم، بودھیان، وششت اور آپس تمب کی طرف منسوب ہیں اور زیادہ اہم سمجھی جاتی ہیں۔ ان کی تصنیف چھٹی صدی قبل مسیح کے بعد کی ہیں۔ ہندو دور کے اوائل میں یہی دھرم ستر قانون کا ماخذ رہی ہیں اور اجتماعی زندگی میں ان پر عمل در آمد ہوتا رہا ہے۔

دھرم سترہ جو نثر میں تھیں یہ ان کے برعکس نظم میں ہیں، ان میں سب سے اہم منو ہے۔ اس کے بعد یجن والکی، وشنو اور ناردا کی طرح غیر الہامی ہیں۔ اس لیے ان کو سمرتی کہا جاتا ہے اور اسی نام سے یہ کتابیں زیادہ مشہور ہوئیں۔ اس لیے عام طور پر سمرتی کہا جاتا ہے۔ دھرم شاشتر کی تصنیف غالباً پہلی صدی عیسوی میں ہوئی ہے۔

دھرم شاستر

کچھ دنوں کے بعد جب ان آریوں نے جو اپنی خصوصیت کھو کر ہندو بن چکے تھے اور غیر آریائی بن چکے تھے۔ یہ محسوس کیا کہ ایک طرف بدھ مت ان کی مذہبی عالم گیریت سے متصادم ہے اور دوسری طرف شودر ان کی نسلی برتری سے نبرد آزمائی۔ انہوں نے اپنی نسلی برتری کو برقرار رکھنے کے لیے ایک نیا قدم اٹھایا۔ انہیں پورا یقین تھا کہ دھرم سترہ وقت کے مطالبہ کو پورا نہیں کرسکتے اور ایسے پرخطر موقع پر اگر کوئی شے انہیں فنا ہونے بچاسکتی ہے، تو معاشرہ کی نئی تشکیل ہے جو ذاتوں کی تفریق کی بنا پر کی جائے۔ چنانچہ انہوں نے دھرم شاشترہ رکھا۔

اس کے بعد یہی کتابیں ہندو قانون کا ماخذ قرار پائیں اور ان کی تعلیم کے تحت پورے معاشرے کا چلانے کی کوشش کی گئی۔ عنلی زندگی میں منو سمرتی کو اولیت اور فوقیت حاصل ہے۔ عدالتوں کے اندر اس کے تحت فیصلے ہوتے ہیں۔ دھرم شاشترہ کی بنیاد ذات پر رکھی گئی تھی اور مقدمہ کے طور پر اس اصول کو تسلیم کیا گیا کہ انسانی آبادی چار ذاتوں میں بٹی ہوئی ہے۔ برہمن، کشتری، ویش اور شودر۔ ان میں اول الذکر تین دوئج ہیں، یعنی مرنے کے بعد پھر جنم لیتے ہیں۔ لیکن شودر کا صرف ایک ہی جنم ہے۔ دوم ذاتوں میں برہمن کی ذات سب سے اعلیٰ ہے۔ کیوں کہ برہمانے اسے سر سے پیدا کیا ہے۔ برہمن بحثیت دیوتا کہ ہیں، گو وہ انسانی شکل میں ہیں۔ ان کے حقوق سب سے زیادہ ہیں، وہ علم و دھرم کا محافظ ہے۔ اس کے وسیلہ کے بغیر فلاح نہیں ہے۔

برہموں کے بعد کشتری ہے جس کو برہماکے بازو سے پیدا ہوئے ہیں شجاعت ان کا لازمی صفت ہے، اس لیے حکومت کرنے کا ان کو پیدائیشی حق حاصل ہے۔ اس کے بعد ویش کی ذات ہے، برہما نے ران سے پیدا کیا ہے اور تجارت و صنعت کے لیے انہیں منتخب کیا ہے۔ شودر کا درجہ سب سے آخر ہے۔ انہیں تینوں ذاتوں کی خدمت کے لیے پیدا کیا گیا، کیوں کہ انہیں برہمانے پیر سے پیدا کیا ہے۔

پران

اس کے بعد پران کا درجہ ہے، جو تعداد میں اٹھارہ ہیں ان کے علاوہ دو اور پران ہیں، اس طرح یہ تعداد میں بیس ہو جاتے ہیں۔ ان کتابوں کے عنوانات یہ ہیں:

  • تخلیق کائنات یعنی کائنات کس طرح وجود میں آئی۔
  • کائنات کی تخلیق نو یعنی یوگ چکر کے بعد مہایوگ شروع ہوتا ہے، اس سے پہلے تین یوگ، ست یوگ، ترتیا یوگ اور دواپر یوگ گزر چکے ہیں، اب آخری یوگ کلی یوگ چل رہا ہے۔ ہر یوگ تنتالیس لاکھ سال کا ہوتا ہے۔
  • دیوتاؤں کے نسب نامے جو خترافات پر مبنی ہیں۔
  • دنیا کے ادوار اور ان پر دیوتاؤں کی حکومت۔
  • بادشاہوں کے نسب ناموں کے متعلق۔

ہندو مت کے فرقے

ہندو مت کے چھ اہم فرقے ہیں۔

  1. ویشنو مت
  2. شیو مت
  3. شکتی مت
  4. گنپتی مت
  5. سوریا مت
  6. سمارت سوتر

ویشنو مت

یہ فرقہ وشنو کو رب اعلیٰ کائنات کا محافظ اور رزاق مانتا ہے۔ وشنوکو چار بازوؤں کے ساتھ مقدس جوہرات کوس تھ پہنے تخت پر بیٹھے دیکھایا جاتا ہے۔ یہ ایک عقاب گروڈ پر سوار ہے، جس کو بھی انسانی شکل میں پیش کیا جاتا ہے۔ اس کی بیوی لکشمی ہے، جو دولت کی دیوی ہے، جو مودبانہ اس کی خدمت میں رہتی ہے۔ لکشمی کی سواری مور ہے۔ وشنو کے ماننے والے لکشنی، گروڈ، مور اور ہنومان کی پرستش بھی کرتے ہیں۔ وشنو سمندر کی گہرائی میں ہزار سر والے سانپ شیش پر سویا رہتا ہے۔ جب کوئی کائنات کو تباہ و برباد کرنا چاہتا ہے تو بھر جاگتا ہے۔ چنانچہ کائنات کو بچانے اور برائیوں سے بچانے کے لیے مختلف مواقع پر اس نے نو بار جنم لیا ہے اور ایک بار جنم لینے والا ہے۔ جوحسب ذیل ہیں۔

  1. متسیا: اس نے مچھلی کی شکل اختیار کرکے ایک سادھو منو کی مدد کی تھی۔
  2. کورم: اس نے کچھوے کی شکل اختیار کرکے مندھر پہاڑ جو سمندر میں غرق ہو رہا تھا اپنی پیٹ پر اٹھا یا۔
  3. وراہ: اس نے ہرن یکش دیو کو مارنے کے لیے سور کا جنم لیا تھا۔
  4. نرسنگھ : نے نیم انسانی شیر کی شکل میں ہرن یکشیپو دیو جس نے خدائی کا دعویٰ کر کے وشنو کی پوجا سے روک دی تھی قتل کیا۔
  5. وامن: ایک حکمران بلی نے آسمان پر قبضہ کر کے دیوتاؤں کو جلاوطن کر دیا تھا۔ اس نے ایک بونے کی شکل میں جنم لے کر اسے باہر کیا۔
  6. پرشو رام: جب کشتریوں نے براہمنوں پر ظلم کرنا شروع کر دیا تو اس نے پرشورام کا جنم لیا اور کلہاڑی سے تمام کشتریوں کو قتل کیا۔
  7. دشرتھ رام : ساتویں مرتبہ اس نے رام کی صورت میں جنم لیا اور لنکا کے راجا جس نے سیتا کو اغوا کر لیا تھا قتل کیا۔ یہ قصہ رامائن میں پیش کیا گیا ہے۔
  8. کرشن: آٹھواں جنم اس نے کرشنا کی صورت میں مہا بھارت کی جنگ میں حصہ لیا تھا۔
  9. بدھ: نواں جنم اس نے بدھ کی شکل میں لیا تھا اور اپنے عقیدت مندوں کو چاہنے کے لیے ایسی تعلیم پیش کی جو وشنوی تعلیم سے مختلف تھی۔ جو راسخ عقیدہ تھے وہ ثابت قدم رہے اور جن کے دلوں میں کھوٹ تھا وہ گمراہ ہو گئے۔
  10. کلکی: وشنو کا دسواں اور آخری جنم ہے۔ جب دنیا برائیوں کے آخری کنارے تک پہنچ جائے گی، تو وہ کالکی کی شکل میں ایک گھوڑے پر سوار تباہی کی تلوار لیے آئے گا اور دنیا کو برباد کر کے ایک نئی دنیا آباد کرے گا۔

یہ فرقہ مزید ذیلی فرقوں میں بٹا ہوا ہے، اس کی اہم کتابیں ہری ونش اور وشنو پران ہیں اور یہ بھگتی کو مکتی کو اہم ذریعہ سمجھتا ہے۔

شیو مت

یہ فرقہ شیو کو رب اعلیٰ مانتا ہے اور اسے تخریب و تعمیر کا دیوتا سمجھتا ہے، اسے مہا یوگ اور مہادیو بھی کہتے ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ غیر آریائی دیوتا ہے، جس کی پوجا وادی سندھ میں ہوتی تھی۔ اس کی بیوی پاروتی ہے، جو مختلف روپ کی وجہ سے درگا، کالی اور اُما پاروتی کے ناموں سے مشہور ہے۔ پاروتی سے شیو کے دو بیٹے پیدا ہوئے، ایک گنیش اور دوسرا کارتیکے جو جنگ کا دیوتا مانا جاتا ہے اور اس کا نام سکند بھی بتایا جاتا ہے۔

شیو کے پجاری شیو کے علاوہ پاروتی اور اس کے بیٹوں خاص کر گنیش جو ہاتھی کا سر رکھتا ہے، کے علاوہ نندی (شیو کی سواری کا بیل) کی پوجا کرتے ہیں۔ ہندوؤں میں جو لنگ اور یونی پوجا ہوتی ہے، وہ بھی شیو اور کالی کے متعلق ہیں۔ اس فرقہ کی اہم کتاب وایو پران ہے۔ یہ علم کو نجات کا ذریعہ مانتا ہے۔ یہ فرقہ بھی بہت سے ذیلی فرقوں میں بٹا ہوا ہے۔

شکتی مت

یہ فرقہ شکتی کی پوجا کرتا ہے۔ اس کا عقیدہ ہے کہ شکتی مونث ہے اور وہ ایک عورت کی حثیت سے تشخیص کی جاسکتی ہے اور وہ نسوانی شکل رب اعلیٰ ہے اور وہ اسے درگا، کالی اور بھوانی کے نام سے موسوم کرتے ہیں اور اسے شیو کی بیوی مانتے ہیں۔ ان کے عقیدے کے مطابق شیو کی بیوی بنے سے کالی یادرگاہ کے قادر مطلق ہونے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ شکتی مزکورہ کی مختلف شکلوں میں کالی بہت مشہور ہے۔ اس کو سیاہ رو ہاتھی جیسے دانت نکالے اور منہ کو خون سے سرخ کیے دیکھا جاتا ہے۔ اس کا دوسرا روپ بھوانی اب ٹھگوں کی دیوی ہے۔

اس کے دو بڑے فرقے ہیں، ’دکشن مارگی‘ یعنی دائیں بازو کے پوجنے والے اور ’واما مارگی‘ یعنی بائیں بازو کے پوجنے والے۔ یہ ایک خفیہ فرقہ ہے جو ان کے نزدیک پانچ ’م‘ نجات کا ذریعہ ہیں، یعنی مادیہ (شراب)، متسیا (مچھلی)، مانس (گوشت)، مدرا (اناج)، میتھن (جنسی اتحاد)۔ ان لوگوں میں ایک مذہبی رسم ہے جسے یہ چکر پوجا کہتے ہیں، اس پوجا میں اپنی بیوی کے علاوہ کسی دوسری عورت سے اختلاط کرنا کار ثواب سمجھا جاتا ہے اور وہ عورت ہمیشہ کے لیے اس کی رومانی بیوی بن جاتی ہے۔ اس فرقہ کی اہم کتابیں تنتر ہے۔ یہ ہری ونش اور مارکنڈیہ پران کو بھی اہمیت دی جاتی ہے۔

گنپتی مت

یہ فرقہ گنیش کو رب اعلیٰ مانتا ہے اور اس کو فہم و تدبر کا دیوتا سمجھتا ہے۔ گنیش کو ہاتھی کے سر کے ساتھ دیکھایا جاتا ہے۔

سوریا مت

یہ سورج کو دیوتا مانتا ہے اور طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت اس کی پوجا کرتا ہے۔

سمارت سوتر

یہ وسیع النظر فرقہ ہے اور ہر دیوتا پر اعتقاد رکھتا ہے اور اپنی خواہش اور ضرورت کے تحت اس کی پوجا کرتاہے۔

پرستش کے دیوتا

پرستش کے لیے ہندو تین دیوتاؤں کے قائل ہیں۔ پہلا گرام دیوتا، یعنی بستی کا دیوتا، دوسرا کُل دیوی/دیوتا یعنی خاندان کا دیوتا، تیسرا اِشٹ دیوتا، یعنی محبوب دیوتا۔ اس طرح ایک ہندو کا گرام دیوتا گنیش، کُل دیوی لکشمی اور محبوب دیوتا نندی ہو سکتا ہے۔ گرام دیوتا مندروں میں خاندانی اور محبوب دیوتا گھروں میں رکھے جاتے ہیں۔ ان تین دیوتاؤں کے علاوہ ہر ہندو دوسرے بہت سے دیوتاؤں کو حسب مواقع پر پوجتا ہے۔ درگاہ پوجا کے موقع پر درگا کو، گنیش چترتھی کے موقع پر گنیش کو، کرشن کے جنم اشٹمی کے زمانے میں کرشن کی، دیوالی کے موقع پر لکشمی کو اور شیواتری میں شیو کی پرستش کی جاتی ہے۔

ہند مت کے یہ اہم دیوتا ہیں، مگر ان کی فہرست بہت لمبی ہے اور ان کی تعداد پانچ کڑور بتائی جاتی ہے، اس لیے ان سب کا جائزہ لینا آسان نہیں ہے، مختصر یہ ہے کہ تمام اہم اور غیر اہم بے شمار دیوتاؤں کے علاوہ بے شمار جانور مثلاً ہاتھی، سانپ، گھڑیال، شیر، مور، ہنس، طوطا، چوہا وغیرہ مختلف دیوتاؤں کی طرف سے ہونے کی وجہ سے مقدس سمجھے جاتے ہیں اور ان کی پوجا ہوتی ہے۔ جانوروں میں سب سے اہم گائے ہے۔ ان کے علاوہ درختوں میں پیپل، انجیر، تلسی اور ببول اور دریاؤں میں گنگا کو خاص اہمیت حاصل ہے اور اسے مقدس سمجھا جاتا ہے۔

ہندو مت کے عقائد اور رسوم

ہندو مت کا پہلا عقیدہ مخلوق پرستی ہے جس کی تفصیل گزر چکی ہے۔ اس کے علاہ کرم و تناسخ کا عقیدہ ہے جنہیں بہت اہمیت حاصل ہے۔ کرم کے عقیدے کے مطابق ہر عمل چھوٹا بڑا، اچھا برُا انسانی روح پر اثر انداز ہوتا ہے اور انسان اپنے عمل (کرم) کے لحاظ سے سزا اور جزا کا عمل مستحق ہوتا ہے۔ یعنی کرم کے مطابق اچھا یا برُا جنم لیتا ہے۔

ان کا دوسرا عقیدہ تناسخ (آوا گون) کے متعلق ہے، جو ویدی عہد میں کچھ مبہم تھا۔ پھر بھگود گیتا میں کرشن نے متعدد جنم کی تعلیم نے اس کے لیے مواد فراہم کیا کہ یہاں تک ہندو عہد میں پوری طرح مستحکم ہو گیا۔ اس عقیدے کے مطابق انسان کو صرف ایک زندگی نہیں ملتی ہے، چنانچہ وہ مرنے کے بعد پھر جنم لیتا ہے اور یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے اور ہر موت کے بعد اس کا اعمال نامہ یم یعنی موت کے دیوتا کے سامنے پیش ہوتا ہے، جو اسے جانچتا ہے اور روح کو صفائی پیش کرنے کا حکم دیتا ہے اور پھر روح کو اس کے اعمال کے مطابق نرک میں کچھ دنوں کے لیے بھیج دیتا ہے۔ جب یہ میعاد ختم ہوجاتی ہے، تو اسے دوبارہ جنم لینے کے لیے بھیج دیتا ہے اور یہ چکر اس وقت تک چلتا رہتا ہے۔ جب تک انسان اچھے اور معقول اعمال کا ذخیرہ کرلیتا ہے، تو اس کی مکتی نہیں ہوجاتی ہے۔ مگر مکتی (نجات) کیا ہے، معلوم نہیں ہے۔

ہندو رسوم میں یجن یا یگیہ یعنی قربانی کو بہت اہمیت حاصل تھی۔ یہ آریاؤں کی رسم تھی، جو ہندو عہد تک جاری رہی۔ مختلف راجاؤں کے عہد میں گھوڑے کی قربانی کا تذکرہ ملتا ہے۔ اوائل میں آدمی کی قربانی بھی رائج تھی۔ جانوروں کی قربانی کو اہمیت حاصل ہے، آج بھی کالی کو سیکڑوں بھنسوں چڑھائے جاتے ہیں۔ ہون ہردیگیہ کا ضروری سمجھا جاتا ہے۔

ستی بھی مذہبی رسم تھی، ہندو عہد میں رائج رہی۔ اس کے علاوہ روزانہ غسل کرنا، صبح شام سورج کی پوجا کرنا، مقدس مقامات کی زیارت کرنا اور دیوتاؤں کے سامنے ناچنا گانا اہم مذہبی رسوم ہیں۔

حوالہ جات

  1. جسامت کے لحاظ سے مذاہب کی فہرست
  2. RC Zaehner (1992), Hindu Scriptures, Penguin Random House, ISBN 978-0-679-41078-2, pages 1-7
  3. Klaus Klostermaier (2007), A Survey of Hinduism: Third Edition, State University of New York Press, ISBN 978-0-7914-7082-4, pages 46-52, 76-77
  4. ڈاکٹر معین الدین، قدیم مشرق ،جلد دوم، 273
  1. اکٹر رضی احمد کمال ۔ ہندوستانی مذاہب
This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.