نزاریہ

نزاریہ (عربی: النزاريون) اہل تشیع کا دوسرا بڑا فرقہ ہے (پہلا شیعہ اثناعشری ہے)[1] یہ تعداد میں 15-25 ملین (کل شیعہ آبادی کا 20%) ہیں۔ نزاری 25 سے زیادہ ممالک اور علاقوں میں رہائش پزیر ہیں۔ نزاری تعلیمات میں اجتہاد اور قیاس پر خاصا زور ہے۔ ان تعلیمات میں قرآن و سنت کو اصل اور قیاس کے استعمال کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ نیز ان میں بین ثقافتی ہم آہنگی (یعنی مختلف علاقوں، تہذیبوں اور قومیت کے افراد کو اپنی منفرد شناخت کے ساتھ رہنے کا حق) اور سماجی انصاف پر بھی خاصا زور دیا گیا ہے۔ آغا خان چہارم ان کے امام اور رہبر ہیں۔

عربی: النزاريون
قسم توحیدیت
تشریق اسماعیلی اہل تشیع
امام
بیگم
آغا خان چہارم
انارہ آغا خان
بانی نزار
الگ از اہل تشیع

مضامین بسلسلہ اہل تشیع:
اہل تشیع

آغاز و بانی

المستنصر باللہ نے اپنی زندگی میں ہی، اپنے بعد بڑے بیٹے کے خلیفہ بننے کا اعلان کر دیا۔ لیکن اس کی وفات کے بعد چھوٹے بیٹے ابو القاسم احمد المستعلی باللہ نے سپہ سالار اعلیٰ کی مدد سے حکومت پر قبضہ کر لیا، بڑا بیٹا نزار حمایتی نہ ملنے کی وجہ سے تیسرے دن قاہرہ سے اسکندریہ چلا گیا۔ وہ کے عامل نصیر الدولہ افتگین نے مستعلی کی تخت نشینی کا سن کر بغاوت کر دی اور نزار کو مستحق خلافت مان کر اس کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔ اس معاملے کا علم جب مستعلی کو ہوا تو اس نے فوجیں بھیج کر اسکندریہ کا محاصرہ کر لیا اور چند روز میں محصورین نے تنگ آ کر امن کی درخواست کر دی۔ یوں نزار ک وگرفتار کر کے قید میں ڈال دیا گیا جہاں وہ مر گیا یا قتل کر دیا گیا۔ اس کی وفات کے مشہور ہونے پر یہ مشہور ہو گيا اور لوگوں نے اسے ہی امام مان لیا۔ یوں اسماعیلیوں میں ایک نئے فرقے نزاریہ کی بنیاد پڑی۔ جسے حسن بن صباح کی قیادت نے بام عروج تک پہنچا دیا۔ یون نزاریون کا مرکز ایران میں قلعہ الموت میں منتقل ہو گیا۔

حسن بن صباح

اس نے فاطمی داعیوں سے اسمعیلی مذہب قبول کروایا۔ اصفہان میں ہی اس نے مستنصر کی بیعت لی اور مختلف علاقوں سے ہوتا ہوا مصر پہنچا۔ مصر میں اسمعیلی داعیوں نے اس کا خیر مقدم کیا۔ مستنصر نے اسے انعام سے نوازا لیکن اس کی ملاقات مستنصر سے نہیں ہو سکی۔ اگرچہ اسے قاہرہ میں اٹھارہ مہینے کے بعد مصر چھوڑنا پڑا۔ کیوں کہ مستنصر کے بڑے بیٹے نزار کا حامی تھا۔ 473 ہجری میں واپس اصفہان پہنچا۔ اس کے بعد وہ بلادیز، کرمان طبرستان، دامغان اور فارس کے دوسرے شہروں میں نزار کی امامت کی دعوت کرنے لگا۔ نظام الملک نے اس کی گرفتاری کا حکم دیا۔ مگر حسن بن صباح ہاتھ نہیں آیا۔

یہ وہ دور تھا کہ اس وقت قرامطہ کی قوت عراق و شام میں ٹوٹ چکی تھی۔ لیکن ان کے ہم مذہب ایران وغیرہ میں پھیل گئے تھے اور انہوں نے اپنی تحریک کو خفیہ طور پر جاری رکھا ہوا تھا۔ اس طرح کا ماحول حسن بن صباح کے لیے بہت ساز گار تھا۔ نزار کے نام نے ان کی تحریک نے ایک نئی روح پھونک دی تھی۔ اب یہ لوک اس کے چھنڈے تلے جمع ہو گئے۔ لوٹ مار کا سلسلہ پھر سے شروع کر دیا۔ ابتدا میں یہ لوگ مازندران کی وادیوں میں جہاں بابک اور اس کے ہم مذہب رہتے تھے نمودار ہوئے۔ پہلا قلعہ جو ان کے ہاتھ لگا وہ فارس کے قریب تھا اور اس کا مالک ان کا ہم مذہب تھا۔ پھر اصفہان کے قلعے شاہ در پر ان کا قبضہ ہو گیا۔

فتح قلعہ اصفہان

اس وقت بغداد میں خلیفہ عباسی مقتدی باللہ تھا۔ لیکن حکومت ملک شاہ سلجوقی کے ہاتھ میں تھی۔ حسن بن صباح نے اسی زمانے میں قوت حاصل کی۔ ملک شاہ کے مشہور وزیر نظام الملک کو نزاریوں 484 ہجری میں قتل کر دیا۔ ان کی قوت ٹوڑنے کے لیے ملک شاہ نے دو دفعہ لشکر بھیجا، مگر اسے کوئی نمائیاں کامیابی نہیں ہوئی۔ 584 ہجری میں ملک شاہ کے انتقال کے بعد اس کے خاندان کے باہمی جھگڑوں سے نزاریوں نے فائدہ اٹھایا۔ اس کی بیوی خاتون جلالیہ کی رائے سے خلیفہ نے اس کے چھوٹے بیٹے محمود کو سلطنت دے کر ناصر الدنیا والدین کے لقب سے سرفراز کیا۔ لیکن اس کے بڑے بیٹے برکیارق نے حکومت چھین لی اور خود رکن الدین کا لقب اختیار کیا۔ محمود اور اس کی ماں نے اصفہان میں پناہ لی۔ برکیاق نے نزاریوں کی مدد سے اصفہان کا محاصرہ کیا اور محمود کو بھگا دیا۔ لیکن اصفہان پر نزاریوں کا قبضہ ہو گیا۔ نزاریوں نے اپنی عادت کے مطابق لوٹ مار شروع کردی۔ شہر کے باشندے ان کے مظالم سے تنگ آ گئے۔ آخر کار اصفہانیوں نے نزاریوں سے خوب انتقام لیا اور ان کے کئی سرداروں کو مار ڈالا۔ اس کے حسن بن صباح قزوین پہنچا۔ جس کے قریب قلعہ ’ الموت ‘ واقع ہے۔ اس مقام کے آس پاس رہنے والوں سے دوستی کرلی اور ان پر اپنے زہد و تقویٰ کا اثر ڈالا۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے چالاکی سے اس قلعے پر قبضہ کر لیا۔

الموت کو مسقرر بنا کر حسن بن صباح نے اسعیلی دعوت تنظیم کی اور چند حدود ( ارکان ) مثلاً رفیق، لاحق اور فدائی کا اضافہ کیا۔

فدائی

فدائیوں میں بڑے ان پڑھ جان باز نوجوان شریک کیے جاتے تھے۔ صرف ہتھیار استعمال کرنے کا فن انہیں سکھایا جاتا تھا۔ یہ سپاہی حسن کے حکم کی بے عذر آنکھیں بند کرکے تعمیل کرتے تھے۔ جس کے قتل کا اشارہ ہوتا اس کو ہر حال میں قتل کرتے۔ اس نے ایک جنت بھی بنائی تھی جہاں یہ خونخوار اعمال کو حشیش ( بھنگ ) کے اثر سے بے ہوش کرکے جنت میں پہنچائے جاتے۔ جہاں پہنچتے ہی وہ ہوش ربا دلستان حوروں کی آغوش شوق میں آنکھ کھولتے تھے۔ کچھ عرصہ کے بعد وہ اپنے کو شیخ کے قدموں پر پاتے۔ ان کو پھر جنت میں پہنچنے کی امید دلائی جاتی اور ان لوگوں سے ظالمانہ کام لیے جاتے۔ بڑے بڑے امرا انہی کے خنجروں سے قتل ہوئے اور انہی فدائیوں نے نظام الملک کی بھی جان لی۔ ان کی فدائیانہ ذہنیت کا مشہور واقع ہے کہ ایک دفعہ صلیبی سردار کاؤنٹ سامین شہر ’ مسیات ‘ میں سنان کا مہمان ہوا۔ یہاں اسے قلعے کے برج دیکھائے گئے۔ خاص کر وہ برج جو سب سے بڑا تھا۔ اس کے ہر زینہ پر دو دو سپاہی ادب سے کھڑے تھے۔ ان کو دیکھ کر باطنیوں کے حکمران سنان نے اپنے مسیحی مہمان سے کہا اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ فرمان دار نبرد آزما سپاہی تمہیں نصیب نہیں ہیں۔ یہ کہتے ہی اس نے ایک زینہ کی طرف اشارہ کیا اور اشارے کے ساتھ ہی وہ دونوں سپاہی جو وہاں کھڑے تھے نیچے کود گئے اور کودتے ہیں مر گئے۔ یہ تماشا دیکھانے کے بعد سنان کہنے گا۔ یہی دو نہیں بلکہ یہ جتنے سپاہی سفید کپڑے پہنے کھڑے ہیں میرے ایک اشارے پر اب اسی طرح جان نثار کرسکتے ہیں۔ مسیحی بادشاہ نے کہا۔ مجھ پر کیا منحصر ہے شاید کسی تاجدار کو ایسے جانثار رعایا نہیں ملی ہوگی۔

شام نزاریوں کی سرگرمیاں

ملک شاہ کے بعد سلطان سنجر نے حسن بن صباح کا مقابلہ کیا۔ مگر حسن بن صباح نے نہایت چالاکی سے اسے صلح پر راضی کر لیا۔ اس کے بعد یہ ایران کے شہروں کے بعد رفتہ رفتہ شام کے بعض مقاموں میں بھی حسن کے ماننے والے پھیل گئے۔ حلب کے اسمعیلی والی رضوان نے صلیبی مسیحیوں سے دوستی کرلی اور فدائیوں کی ایک بڑی جماعت کو اپنے ساتھ لے کر مسلمانوں کو قاتل کرنا شروع کیا۔ لیکن رضوان کے مرنے کے بعد مسلمانوں کو پھر قوت حاصل ہو گئی اور انہوں نے اکثر فدائیوں کو قتل کرڈالا۔ اس کے بدلے میں فدائیوں نے خلیفہ بغداد کے بھرے دربار میں دمشق کے اتابک کے دھوکے میں والی خراسان پر حملہ کرکے اس کا کام تمام کر دیا۔ اس طرح کئی صوبوں کے داعی مارے گئے۔ اب نزاریوں کا رعب تمام اسلامی دولتوں پر چھاگیا۔

نزاریوں کی قوت کا خاتمہ

نزاریوں کا کہنا ہے کہ نزار اسکندریہ میں شکست کھا کر ایران چلا گیا اور آغا خان اس کی نسل سے نہیں ہے۔ اگرچہ یہ تاریخ سے ماخذ نہیں ہے کیوں کہ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ مستعلی نے نزار کو قتل کرا دیا تھا۔

حسن بن صباح کے بعد تقریباً سوا سو سال تک اس کے جانشینوں کی حکومت کم و بیش شمالی ایران کے پہاڑی مقاموں پر اور عراق و شام کے چند شہروں میں باقی رہی۔ آتھویں جانشین رکن الدین خورد شاہ کے زمانے میں ہلاکو خان نے خلافت بغداد کے ساتھ ان کی حکومت کا بھی خاتمہ کر دیا۔ اس کے بعد جو سلسلہ ان کا جاری ہے وہ صرف مذہبی ہے۔

رکن الدین خود شاہ متوفی654 ہجری کے بعد امام مذکور کے بیٹے شمس الدین محمد نے اپنے چچا کے ساتھ آذر بئیجان کا قصد کیا۔ یہاں پوشیدہ طور پر رہنے لگے اور زردوزی کا پیشہ اختیار کیا۔ ان کے مریدوں نے ایران کے علاقوں میں اسمعیلیت پھیلائی۔ اس کے علاوہ شمالی ہنددستان کے علاقوں میں بڑی سرگرمی دیکھائی۔ ان کے مورخوں کے مطابق یہ اکثر ایران کے حکمرانوں سے خوف زدہ رہتے تھے۔ ان کے ائمہ اکثر درویشی کی زندگی بسر کرتے۔ ایک دفعہ تو دفعہ شاہ اسماعیل صفوی نے اپنے عہد میں اسمعیلیوں کے قتل عام کا حکم دے دیا تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے ایران کے بعض شاہوں نے ان سے سلسلہ قرابت قائم کیا تھا۔ تقریباً پونے چھ سو سال ایران نزاریوں کی امامت کا مرکز رہا۔

ہندوستان میں آمد

ایران کے آخری امام خلیل اللہ علی ( دوم ) یزد میں سکونت پزیر تھے۔ ان کے عہد میں تعصب کا بازار گرام تھا۔ ملاؤں کا دور دورہ تھا۔ انہوں نے اس خوف سے کہ کہیں ان کا اقتدار کم نہ ہو جائے 1233 ہجری میں خلیل اللہ علی کو قتل کروا دیا۔ جب اسمعیلی ان کا انتقام لینے پر آمادہ ہوئے تو ایران کے حکمران فتح علی شاہ قاشار نے ان کے قاتلوں کو پھانسی کی سزا دی اور ان کے بیٹے حسن علی کو آغا خان کا خطاب دیا۔ یہ امام ایران چھوڑ کر ہندوستان آ گئے۔ گویا 1236 ہجری میں نزاری امامت ہندوستان منتقل ہو گئی۔ امام مذکور کے بعد ان کے بیٹے شاہ علی قائم ہوئے جو آغا خان ثانی کہلاتے ہیں۔ ان کی وفات کے بعد 1885ء میں ان کے بیٹے ہزہائینس سلطان محمد شاہ آغا خان ثالث نے ان کی جگہ لی۔ 1954ء ان کے پوتے کریم آغا خان چہارم امام بنے جو حاضر امام صاھب الزماں کہلاتے ہیں۔

نزاری عام طور پر خوجے کہلاتے ہیں۔ اس فرقہ میں اختلاف کی وجہ سے مختلف جماعتیں نظر آتی ہیں۔ پنجابی خوجے آغا خان کے ماتحت نہیں ہیں۔ لیکن ان کے عقیدے بمبئی کے خوجوں سے ملتے جلتے ہیں۔ بمبئی خوجوں کی جماعت جو زیادہ منعظم ہیں ان کاانتظام ایک انجمن کے ذریعے ہوتا ہے۔ جس میں تین عہدے دار ہوتے ہیں۔ ان کی نامزدگی بعض وقت آغا خان کی طرف سے ہوتی ہے۔ لیکن اکثر ان کا انتخاب خود جماعت کرتی ہے۔ اکثر خوجوں کے نکاح م طلاق اور وراثت کے احکام اسلامی فقہ سے مختلف ہیں۔ ان میں سے کچھ اثنا عشری خوجے ہیں اور کچھ سنی خوجے کہلاتے ہیں۔

آبادیاں

ایران میں آج کل یہ نیشاپور کے دیہات کے علاوہ جام، قین، برجند کے علاوہ تاشقند، بدخشاں، روشان، شغنان، واخان میں یہ ملا کہلاتے ہیں۔ چین میں سری کول اور اس کے اطراف بھی آباد ہیں۔ چترال کنجوت یا ہنزہ اور نقیر میں ان کی کافی تعداد آباد ہے۔ ہر جگہ ان کی مذہبی کتابیں فارسی میں۔ یہ لوگ زیادہ تعلیم یافتہ نہیں ہیں۔عربی تو بالکل نہیں جانتے ہیں۔

تقسیم ہند سے پہلے ان کی اکثریت گجرات میں آباد تھی اس لیے ان کی مادری زبان گجراتی ہے۔ یہ بڑے بڑے شہروں مثلاً بمبئی، کلکتہ، مدراس، احمد آباد، سورت، ناگپور، کراچی اور سندھ میں آباد تھے۔

تقسیم ہند کے بعد ان کی کثیر تعد پاکستان آگئی۔ اس کے علاوہ یہ کولمبو، سیام سنگاپور عراق اور افریقہ کے بعض شہروں مثلاً ممباسہ، کیپ ٹاون، دارسلام زنجبار اور دوسری جگہوں پر یہ آباد ہیں۔[2]

مرکز امامت

سنہ 2015ء میں جمہوریہ پرتگال سے ایک تاریخی معاہدہ کے بعد 11 جولائی 2018ء کو آغا خان نے لزبن میں واقع "ہنریک دی مینڈونکا" محل کے پورے احاطے کو اسماعیلی امامت کا باضابطہ مرکز قرار دیا اور اس کا نام "دیوان اسماعیلی امامت" رکھا۔

حوالہ جات

  1. "Islamic Sects: Major Schools, Notable Branches"۔ Information is Beautiful۔ David McCandless۔ مورخہ 26 دسمبر 2018 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 9 اپریل 2015۔
  2. ڈاکٹر زاہد علی۔ تاریخ فاطمین مصر، دائرہ معاروف اسلامیہ
This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.