زرتشت

زرتشت
زرتشت

معلومات شخصیت
پیدائش 2 ہزاریہ ق م 
رے [1] 
وفات 2 ہزاریہ ق م 
والد پوروشسب  
والدہ دوغدو  
عملی زندگی
پیشہ نبی ، مذہبی بانی ، شاعر  

زرتشت قدیم فارس کے مفکر اور مذہبی پیشوا تھے۔

نام

اوستا میں ممدوح کا نام زرتُشتَرَہ آیا ہے۔ لیکن مختلف میں اختلاف قاعدہ ہجا نے مختلف صورتیں پیدا کردی ہیں۔ چنانچہ لاطینی میں زوروایسٹریس بنا۔ بلکہ اسی پر بس نہیں ہوا مختلف مصنفین نے اپنے مذاق کے موافق مختلف صورتیں اختیار کر لیں۔ مثلاً زرُوادوس، زرادس، زروآٹرس، زاراٹوس، زارس وغیرہ۔ آرمینیا کا ایک مصنف زرویسٹ لکھتا ہے اور دوسرا زڈرادوٹس۔ تیسرا زراڈشٹ۔ انگریز زوراسٹر کہتے ہیں۔ مصنفین عرب اگرچہ مختلف طور پر ہجا کرتے ہیں۔ لیکن پہلوی صورت سے باہر نہیں جاتے۔ پہلوی والے عموماً زَرَتُست لکھتے ہیں۔ مروجہ فارسی والے زرتست، زردشت، زردست، زردہشت، زراتست، زرادست، زراتھست، زرادھشت اور رزرہست لکھتے ہیں۔ لیکن اصلیت ان سب کی ہی زرتشترہ ہے۔

ظاہر ہے کہ جب ہجا میں اختلاف ہے تو لفظ کے معنی میں بھی اسی قدر اختلاف ہوگا۔ ہر شخص نے اپنا زور طبع دکھایا ہے۔ اور ایک نئی بات اختراع کی ہے۔

حسب نسب

زرتشت کے سلسلہ نسب کو دیکھا جائے تو گو وہ بدھ کی طرح بادشاہ کی پیٹھ اور ملکہ کے پیٹ سے نہ تھے لیکن تھے خاندان شاہی سے۔ منوچہر کی شجاعت رکاب میں ایرج کی حمیت دل میں فریدوں کا خون رگوں میں تھا اور پینتالیسویں پشت میں جہان بھر کے سب سے پہلے بادشاہ اور دنیا بھر[2] کے باوا آدم کیومرث سے جا ملتے ہیں۔

ان کا سلسلہ نسب پہلوی مصنفین نے یوں بیان کیا ہے: زرتشت بن پوروشسپ بن پیتیرسپ بن ہردرشن بن ہردار بن اسپنتمان بن ویداشت بن نایزم (یا ہایزم) بن راجشن (یا ایرج) بن دورانسرو (یا دورشیریں) بن منوچہر بن ایرج بن فریدوں۔

مسعودی نے اس کو (غالباً معرب کر کے) یوں لکھا ہے: زرتشت بن بورشسف بن فذرسف بن اریکدسف بن ہجدسف بن حجیش بن باتیر بن ارحدس بن ہردار بن اسفنتمان بن واندست بن ہایزم بن ایرج بن دورشیریں بن منوچہر بن ایرج بن فریدوں۔

ابتدائی زندگی

افغانستان کے مقام گنج میں پیدا ہوا۔ جوانی گوشہ نشینی ، غور و فکر اور مطالعے میں گزاری۔ سات بار بشارت ہوئی۔ تیس برس کی عمر میں اہورا مزدا (اُرموز) یعنی خدائے واحد کے وجود کا اعلان کیا لیکن وطن میں کسی نے بات نہ سنی۔ تب مشرقی ایران کا رخ کیا اور خراسان میں کشمار کے مقام پر شاہ گستاسپ کے دربار میں حاضر ہوا۔ ملکہ اور وزیر کے دونوں بیٹے اس کے پیرو ہو گئے۔ بعد ازاں شہنشاہ نے بھی اس کا مذہب قبول کر لیا۔ کہتے ہیں کہ تورانیوں کے دوسرے حملے کے دوران میں بلخ کے مقام پر ایک تورانی سپاہی کے ہاتھوں قتل ہوا۔ کوروش اعظم اور دارا اعظم نے زرتشتی مذہب کو تمام ملک میں حکماً رائج کیا۔ ایران پر مسلمانوں کے قبضے کے بعد یہ مذہب اپنی جنم بھومی سے بالکل ختم ہو گیا۔ آج کل اس کے پیرو ، جنہیں پارسی کہا جاتا ہے ، ہندوستان ، پاکستان ، افریقا ، یورپ میں بہت قلیل تعداد میں پائے جاتے ہیں۔

عقائد

زرتشت ثنویت کا قائل تھا۔ اس کا دعوی تھا کہ کائنات میں دو طاقتیں (یا دو خدا) کارفرما ہیں۔ ایک اہورا مزدا (یزداں) جو خالق اعلیٰ اور روح حق و صداقت ہے اور جسے نیک روحوں کی امداد و اعانت حاصل ہے۔ اور دوسری اہرمن جو بدی ، جھوٹ اور تباہی کی طاقت ہے ۔ اس کی مدد بد روحیں کرتی ہیں۔ ان دونوں طاقتوں یا خداؤں کی ازل سے کشمکش چلی آرہی ہے اور ابد تک جاری رہے گی ۔ جد اہورا مزدا کا پلہ بھاری ہو جاتا ہے تو دنیا امن و سکون اور خوشحالی کا گہوارہ بن جاتی ہے اور جب اہرمن غالب آجاتا ہے تو دنیا فسق و فجور ، گناہ و عصیاں اور اس کے نتیجے میں آفات ارضی و سماوی کا شکار ہو جاتی ہے۔ پارسیوں کے اعتقاد کے مطابق بالآخر نیکی کے خدا یزداں کی فتح ہوگی اور دنیا سے برائیوں اور مصیبتوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔

زرتشتی مذہب کے تین بنیادی اصول ہیں۔ گفتار نیک ، پندار نیک ، کردار نیک ۔ اہورا مزدا کے لیے آگ کو بطور علامت استعمال کیا جاتا ہے کہ کیوں کہ یہ ایک پاک و طاہر شے ہے اور دوسری چیزوں کو بھی پاک و طاہر کرتی ہے۔ پارسیوں کے معبدوں اور مکانوں میں ہر وقت آگ روشے رہتی ہے غالباً اسی لیے انہیں آتش پرست سمجھ لیا گیا ۔ عرب انھیں مجوسی کہتے تھے۔

مزید دیکھیے

حوالہ جات

  1. عنوان : Encyclopædia Britannica
  2. ایرانیوں کے اعتقاد کے بموجب
This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.