مزدک
مزدک (میانہ فارسی:
مزدک | |
---|---|
شاہنامہ میں موجود مزدک کی سزا و پھانسی کا منظر۔ | |
معلومات شخصیت | |
تاریخ پیدائش | صدی 5 |
تاریخ وفات | سنہ 529 (78–79 سال) اور سنہ 531 (80–81 سال) |
عملی زندگی | |
پیشہ | فلسفی ، سیاست دان |
مزدک کا فلسفہ
تمام انسان مساوی ہیں کسی کو کسی پر کوئی فوقیت نہیں، ہر وہ چیز جو ایک انسان کو دوسرے انسان سے بالا تر کر دے وہ اس قابل ہے کہ اسے مٹا کر رکھ دیا جائے مزدک نے کہا کہ دو چیزیں ہیں جو انسان کے درمیان میں ناجائز امتیازات کی دیواریں چنتی ہیں جائداد اور عورت کسی جائداد پر کسی کا حق ملکیت نہیں اور نہ کوئی عورت کسی ایک شخص سے نکاح کا حق رکھتی ہے تمام لوگوں کو جائداد سے فائدہ اٹھانے اور عورت سے لطف اندوز ہونے کا حق ہے۔ اس وجہ سے لوگ اس کی تحریک کا حصہ بنے۔ جب کیقباد کسریٰ مزدک کے دام تزویر میں آ گیا جب حکومتی سرپرستی حاصل ہوئی تو مزدک ایک آدمی کی بیوی دوسرے کے حوالے کر دیتا اسی طرح مال، کنیزیں،غلام اور زرعی زمینیں لوگوں میں بانٹتا اس کی بے حیائی کی انتہا یہاں پر پہنچی کہ کیقباد کو اس کی بیوی کے متعلق کہا کہ یہ میرے ساتھ رات گزارے گی کیقباد نے بھی اسے قبول کیا یہ نوشیرواں کی ماں تھی اس نے منت سماجت اور اور مال و دولت کے بدلے آبرو ریزی سے ایران کی مادر ملکہ کو بچایا۔ کیقباد کے مرنے کے بعد نوشیروان نے مزدک کو قتل کرا دیا اس کا نتیجہ کوئی بیٹا اپنے باپ اور باپ اپنے بیٹے کو نہ پہچانتا تھا۔ حیوان کو ذبح کرنا حرام قرار دیا گیا صرف زمین کی نباتات اور حیوانات سے حاصل شدہ چیزیں(دودھ گھی وغیرہ)استعمال کی اجازت تھی [1]
مزدکیت
ایران کے رہنے والے مزدک اور مانی لوگوں کا مذہب یہ ہے کہ عورت ایک مشترکہ متاع ہے لہٰذا ہر عورت کو ہر شخص استعمال کر سکتا ہے اس میں نکاح کی حدود وقیود کی ضرورت نہیں۔ ان میں ماں بہن بیٹی وغیرہ کا بھی کوئی امتیاز نہیں، عورت صرف عورت ہے اور ہر آدمی کی شہوت رانی کا ذریعہ بن سکتی ہے۔[2] یہی لفظ مزدکیت جسے اشتراکیت یا کمیونزم کے لیے استعمال کیا جانے لگامزدک نے سب سے پہلے دولت اور وسائل کی یکساں تقسیم کا فلسفہ دیا تھا۔ اسی نسبت سے اشتراکیت کو مزدکیت بھی کہتے ہیں۔ علام اقبال نے مثال دی- مزدکیت فتنہ فردا نہیں اسلام ہے (اقبال کی نظم ابلیس کی مجلس شوریٰ کا مصرع)[3]
حوالہ جات
- ضیاءالنبی جلد اول صفحہ 89 پیر محمد کرم شاہ ،ضیاء القرآن بپلیکیشنز لاہور
- تفسیر معالم العرفان۔ مولانا صوفی عبد الحمید سواتی
- ارمغان حجاز صفحہ17