بلوچ تاریخ
اصل میں لفظ بلوص ہے جسے عربوں نے بلوش اور ایرانیوں نے بلوچ لکھا اہل ایران” ص” ادا نہیں کرسکتے اس لیے انھوں نے “ص” کو “چ” سے بدل کر اسے بلوچ کی صورت عطا کی اور عربوں نے “ص” کو “ش” سے بدلابدلابلیدی بیلوص کی شاہی اولاد ہے۔
ﻣﻠﮏ ﺧﻄﯽ ﺧﺎﻥ ماندائی ﺑﻠﻮﭺ
ﺳﺮﺩﺍﺭ ﻣﻠﮏ ﺧﻄﯽ ﺧﺎﻥ ماندائی ﭼﺎﻏﯽ ﮐﮯ ﻋﻼﻗﮯ ﻣﯿﮟ میر ﭘﺴﻨﺪ ﺧﺎﻥ ماندائی ﮐﮯ ﮨﺎﮞ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺋﮯ، ﻭﻩ ﺍﺑﮭﯽ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﺍﻥ ﮐﺎ ﻭﺍﻟﺪﺍﯾﺮﺍﻧﯽ ﺣﻤﻠﮧ ﺁﻭﺭﻭﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﻌﺮﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺷﮩﯿﺪ ﮨﻮﺋﮯ، ﺍﯾﺮﺍﻥ ﮐﮯ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﺑﺰﺭﮒ ﺯﺍﺩﻩ ﺑﮩﻤﻦ ﮐﮯ ﺳﺮﺑﺮﺍﮨﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺮﺍﻧﯽ ﻟﺸﮑﺮ ﻧﮯ ﻣﺤﻤﺪ ﺣﺴﻨﯽ ﺑﻠﻮﭼﻮﮞ ﭘﺮ ﺣﻤﻠﮧ ﮐﺮﺩﯾﺎ، ﺑﻠﻮﭺ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﻧﺎﻃﮯ ﺳﺮﺩﺍﺭ ﭘﺴﻨﺪ ﺧﺎﻥ ماندائی ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﮨﻤﺮﺍﻩ ﺍﯾﺮﺍﻧﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﺟﻨﮓ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺷﮩﺎﺩﺕ ﮐﺎ ﻣﻘﺎﻡ ﺍﭘﻨﺎﯾﺎ . ﻣﻠﮏ ﺧﻄﯽ ﺧﺎﻥ ماندائی ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﭼﭽﺎ شیر جاﻥ ﮐﮯ ﮨﺎﮞ ﺟﻮ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺳﯿﺎﻩ ریک ﻣﯿﮟ ﻣﻘﯿﻢ ﺗﮭﺎ ﺁﻏﺎ ﻧﻮﺭ ﻣﺤﻤﺪ ﺧﺎﺭﻭﺋﯽ ﺳﮯ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﺗﻘﺮﯾﺒًﺎ 14 ﺳﺎﻝ ﺑﻌﺪ ﺳﺮﺩﺍﺭﯼ ﺳﻨﺒﮭﺎﻝ ﻟﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﻨﺘﺸﺮ ﻗﺒﯿﻠﮧ ﮐﻮ ﻣﺘﺤﺪ ﻭﻣﻨﻈﻢ ﮐﯿﺎ . ﻣﻠﮏ ﺧﻄﯽ ﺧﺎﻥ ماندائی ﮐﻮ ﺳﺮﺩﺍﺭﯼ ﺳﻨﺒﮭﺎﻟﮯ ﺍﺑﮭﯽ ﺯﯾﺎﺩﻩ ﻋﺮﺻﮧ ﻧﮧ ﮔﺰﺭﺍ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﻧﮩﯽ ﺩﻧﻮﮞ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﮨﻨﺪ ﮨﻤﺎﯾﻮﮞ ﺳﮯ ﺗﺨﺖ ﭼﮭﻦ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﻩ ﮐﻤﮏ ﺍﻭﺭ ﭘﻨﺎﻩ ﮐﯽ ﺧﺎﻃﺮ ﺳﻨﺪﮪ ﻭ ﺑﻠﻮﭼﺴﺘﺎﻥ ﮐﮯ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﭼﮭﭙﺘﮯ ﭼﮭﭙﺎﺗﮯ ﺍﯾﺮﺍﻥ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻋﺎﺯﻡ ﺳﻔﺮ ﮨﻮﺍ، ﺍﺳﯽ ﺍﺛﻨﺎﺀ ﻣﺮﺯﺍ ﮐﺎﻣﺮﺍﻥ ﺟﻮ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ کابل ﮐﺎ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﺗﮭﺎ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﻣﻠﮏ ﺧﻄﯽ ﺧﺎﻥ ﺣﺎﮐﻢ ﭼﺎﻏﯽ ﮐﻮ ﺧﻠﻌﺖ ﻭ ﺗﺤﺎﺋﻒ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﯾﮏ ﻓﺮﻣﺎﻥ ﻣﻼ، ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﻟﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﮨﻤﺎﯾﻮﮞ ﺍﺩﮬﺮ ﺳﮯ ﮔﺰﺭﮮ ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﮔﺮﻓﺘﺎﺭ ﮐﺮﮐﮯ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺣﻀﻮﺭ ﭘﯿﺶ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﯽ ﺑﮯ ﺣﺪ ﺍﻧﻌﺎﻣﺎﺕ ﺍﻭﺭ ﻧﻮﺍﺯﺷﻮﮞ ﮐﺎ ﻭﻋﺪﻩ ﮐﯿﺎﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ . ﺍﺗﻔﺎﻕ ﺩﯾﮑﮭﺌﮯ ... ﮐﮧ ﮨﻤﺎﯾﻮﮞ ... ﮐﺴﻤﭙﺮﺳﯽ ﺍﻭﺭ ﺩﺭﺑﺪﺭﯼ ﮐﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺮﺍﻥ ﺳﮯ ﺍﻣﺪﺍﺩ ﻭ ﺗﻌﺎﻭﻥ ﮐﮯ ﺣﺼﻮﻝ ﮐﯽ ﺧﺎﻃﺮ ﻧﻮﺷﮑﯽ ( ﮈﺍﮎ ) ﮐﮯ ﺭﺳﺘﮯ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﺳﺮﺩﺍﺭ ﺧﻄﯽ ﺧﺎﻥ ﮐﮯ ﺩﺍﺩﺍ میر جیہند ﺧﺎﻥ ﮐﮯ گھر ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺧﯿﻤﮧ ﺯﻥ ﮨﻮﺍ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﭽﮫ ﺧﺪﺍﻡ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﮯ . ﮨﻤﺎﯾﻮﮞ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﻣﻨﺼﺒﺪﺍﺭ ﮐﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﺟﻮ ﺑﻠﻮﭼﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﺟﺎﻧﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﻗﻠﻌﮧ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﻠﮏ ﺧﻄﯽ ﺧﺎﻥ ﮐﯽ ﺑﯿﮕﻢ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﻣﯿﮟ ﺣﺎﺿﺮ ﮨﻮﮐﺮ ﺍﺳﮯ ﭘﻮﺭﻩ ﺣﺎﻝ ﺳﻨﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﺪﺍﺩ ﻭ ﺣﻔﺎﻇﺖ ﮐﯽ ﺩﺭﺧﻮﺍﺳﺖ ﮐﯽ . ﻣﻠﮏ ﺧﻄﯽ ﺧﺎﻥ ﮐﻮ ﺟﺐ ﯾﮧ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﮨﻤﺎﯾﻮﮞ ﻣﯿﺮﮮ ﻗﺒﻀﮯ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﺸﻮﺭﻩ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﮨﻤﺎﯾﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﺎﻣﺮﺍﻥ ﮐﮯ ﺣﻮﺍﻟﮧ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺍﻧﻌﺎﻡ ﻭ ﺍﮐﺮﺍﻡ ﺑﮭﯽ ﻣﻠﮯ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺧﻮﺷﻨﻮﺩﯼ ﺑﮭﯽ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﻮﮔﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﮨﻤﺎﯾﻮﮞ ﮐﻮ ﺟﺎﻧﮯ ﺩﯾﺎﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﮐﺎﻣﺮﺍﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺩﺷﻤﻨﯽ ﺍﻭﺭ ﻏﯿﺾ ﻭ ﻏﻀﺐ ﺳﮯ ﻭﺍﺳﻄﮧ ﭘﮍﮮ ﮔﺎ . ﻣﺸﺎﻭﺭﺕ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﻠﮏ ﺧﻄﯽ ﺧﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮑﮯ ﺫﯼ ﻭﻗﺎﺭ قوم ﻧﮯ ﯾﮧ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﻭﻩ ﺍﯾﮏ ﻣﻈﻠﻮﻡ، ﺑﮯ ﺧﺎﻧﻤﺎﮞ ﺍﻭﺭ ﺗﺨﺖ ﺳﮯ ﻣﺤﺮﻭﻡ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﮨﻤﺎﯾﻮﮞ ﮐﻮ ﮨﺮ ﮔﺰ ﮔﺮﻓﺘﺎﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯﺍﻭﺭ ﮐﺎﻣﺮﺍﻥ ﮐﺎ ﺟﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﻣﻌﺎﻣﻠﮧ ﮨﮯ ﺟﻮﮐﭽﮫ ﮨﻮﺍ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺟﺎﺋﯿﮕﺎ ... ﻣﻠﮏ ﺧﻄﯽ ﺧﺎﻥ ﺍﯾﮏ ﻋﻈﯿﻢ ﺑﻠﻮﭺ ﮐﯽ ﺣﯿﺜﯿﺖ ﺳﮯ ﮨﻤﺎﯾﻮﮞ ﮐﮯ ﺧﯿﻤﮧ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺎﯾﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﻼﻗﺎﺗﯽ ﮨﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﺗﺴﻠﯽ ﺩﯼ ﮐﮧ ﺟﻤﻊ ﺧﺎﻃﺮ ﺭﮐﮭﯿﮟ ﺁﭖ ﻧﮯ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﮨﺎﮞ ﭘﻨﺎﻩ ﻟﯽ ﮨﮯ ﺁﭖ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻣﻌﺰﺯ ﻣﮩﻤﺎﻥ ﮨﮯ .... ﮨﻢ ﺑﻠﻮﭺ ﻟﻮﮒ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮨﻤﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﺭﻭﺍﯾﺎﺕ ﺑﮯ ﺣﺪ ﻋﺰﯾﺰ ﮨﯿﮟ، ﺍﮔﺮﭼﮧ ﮨﻤﯿﮟ ﮐﺎﻣﺮﺍﻥ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﺁﭖ ﮐﯽ ﮔﺮﻓﺘﺎﺭﯼ ﮐﮯ ﺍﺣﮑﺎﻣﺎﺕ ﻣﻞ ﭼﮑﮯ ﮨﯿﮟ، ﻣﮕﺮ ﮨﻢ ﺳﯿﻢ ﻭ ﺯﺭ ﮐﯽ ﻻﻟﭻ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺑﺪ ﺍﺧﻼﻗﯽ ﮐﺮﮐﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺷﺎﻧﺪﺍﺭ ﺭﻭﺍﯾﺎﺕ ﮐﻮ ﺩﺍﻏﺪﺍﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ ... ﮨﻢ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﯾﺴﺎ ﺍﻗﺪﺍﻡ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﭨﮭﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﮐﮧ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺁﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﻧﺴﻠﯿﮟ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺷﺮﻣﻨﺪﻩ ﮨﻮﮞ ... ﺍﻭﺭ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﻣﯿﮟ ﮨﻢ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺭﺳﻮﺍ ﮨﻮﺟﺎﺋﯿﮟ .... ﺁﭖ ﺑﺘﺎﺩﯾﮟ ﮨﻢ ﺁﭖ ﮐﯽ ﮐﯿﺎ ﻣﺪﺩ ﮐﺮﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ؟ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﻠﮏ ﺧﻄﯽ ﺧﺎﻥ ﻧﮯ سات ﺩﻥ ﺗﮏ ﮨﻤﺎﯾﻮﮞ ﮐﻮ ﻣﮩﻤﺎﮞ ﺭﮐﮭﺎ، ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﻤﺎﻡ ﺿﺮﻭﺭﯾﺎﺕ ﭘﻮﺭﯼ ﮐﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺟﺎﻥ ﻭ ﻣﺎﻝ ﺍﻭﺭ ﻋﺰﺕ ﻭ ﺁﺑﺮﻭ ﮐﯽ ﺣﻔﺎﻇﺖ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻣﺤﺎﻓﻆ ﻣﺎﻣﻮﺭ ﮐﯿﮯ ﺍﻭﺭ ﺭﺧﺖ ﺳﻔﺮ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﻩ ﺑﮯ ﺷﻤﺎﺭ ﮔﮭﻮﮌﮮ ﺍﻭﺭ ﺍﻭﻧﭧ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﯿﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﺫﺍﺗﯽ ﺣﻔﺎﻇﺖ ﺍﻭﺭ ﻧﮕﺮﺍﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺎﯾﻮﮞ ﮐﻮ ﻣﻠﮏ ﺳﯿﺎﻩ ﯾﺎ ﺳﯿﺎﻩ ﮐﻮﻩ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﺳﯿﺴﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﻮﺍﻥ ﭼﺎﻩ ﮐﮯ ﻣﻘﺎﻡ ﭘﺮ بلیدی، ﻧﺎﺭﻭﺋﯽ، ﺭﯾﮑﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﻤﺎﻋﯿﻞ ﺯﺋﯽ ﺑﻠﻮﭼﻮﮞ ﮐﮯ ﺟﻤﻠﮧ ﺳﺮﺩﺍﺭﻭﮞ ﮐﻮ ﺑﻼﮐﺮ ﻣﺠﻠﺲ ﮐﯽ .. ﺍﺣﻮﺍﻝ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﺳﮯ ﺍﻣﺪﺍﺩ ﻭ ﺣﻔﺎﻇﺖ ﮐﺎ ﺑﻠﻮﭼﯽ ﻗﻮﻝ ﻟﮯ ﮐﺮ ﮨﻤﺎﯾﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺳﭙﺮﺩ ﮐﯿﺎ ﺟﻨﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﺮﻣﺎﻥ ﮐﮯ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﻃﮩﺮﺍﻥ ﺗﮏ ﺍﺳﮯ ﻋﺰﺕ ﻭ ﺗﮑﺮﯾﻢ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﭘﮩﻨﭽﺎﯾﺎ . ﺑﺎﻵﺧﺮ ﻣﯿﺮ ﭼﺎﮐﺮ ﺧﺎﻥ ﺭﻧﺪ ﮐﮯ ﺑﻠﻮﭺ ﻓﻮﺝ ﮐﯽ ﺍﻣﺪﺍﺩ ﻭ ﻣﻌﺎﻭﻧﺖ ﺳﮯ ﮨﻤﺎﯾﻮﮞ ﺩﻭﺑﺎﺭﻩ ﺩﮨﻠﯽ ﮐﺎ ﺗﺨﺖ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻣﯿﺎﺏ ﮨﻮﮔﯿﺎ ... ﮨﻤﺎﯾﻮﮞ ﻧﮯ ﺑﻠﻮﭼﻮﮞ ﮐﮯ ﺍﺱ ﻋﻈﯿﻢ ﮐﻤﮏ ﺑﮩﺎﺩﺭﯼ ﺍﻭﺭ ﻣﮩﺮﺑﺎﻧﯽ ﮐﮯ ﺻﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﻠﻮﭼﻮﮞ ﮐﻮ ﺩﮨﻠﯽ ﮐﮯ ﻧﻮﺍﺡ ﺍﻭﺭ ﭘﻨﺠﺎﺏ ﮐﮯ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﻣﻘﺎﻣﺎﺕ ﭘﺮ ﺑﮍﯼ ﺑﮍﯼ ﺟﺎﮔﯿﺮﯾﮟ ﻋﻄﺎ ﮐﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺑﻠﻮﭼﻮﮞ ﮐﯽ ﺑﮍﯼ ﺗﻌﺪﺍﺩ ﺑﻠﻮﭼﺴﺘﺎﻥ ﺳﮯ ﻧﮑﻞ ﮐﺮ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﻟﺨﺼﻮﺹ ﭘﻨﺠﺎﺏ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺁﺑﺎﺩ ﮨﻮﮔﺌﮯ ... ﮔﻮﯾﺎ ﻣﻠﮏ ﺧﻄﯽ ﺧﺎﻥ ماندائی ﻧﮯ ﮨﻤﺎﯾﻮﮞ ﮐﻮ ﭘﻨﺎﻩ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﻣﺪﺍﺩ ﺭﮨﻨﻤﺎﺋﯽ ﮐﺮﮐﮯ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﻣﯿﮟ ﻧﮧ ﺻﺮﻑ ﺍﭘﻨﺎ ﻧﺎﻡ ﺭﻭﺷﻦ ﮐﯿﺎ ﺑﻠﮑﮧ ﭘﻮﺭﯼ ﺑﻠﻮﭺ ﻗﻮﻡ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺳﺮﺧﺮﻭ ﻭ ﺳﺮﻓﺮﺍﺯ ﮐﺮﺩﯾﺎ .
ﺧﻄﯽ دراصل ایک ترک خانہ بدوش تھا جو اپنے جانوروں کو خوراک کھلانے کے لیے ہر سال موجودہ زنگی ناوڑ آیا کرتے تھے ۔ جس کی بہادری اور اخلاق سے متاثر ہو کر اس کا نام رکھا گیا ﺗﮭﺎ
ﺳﺮﺩﺍﺭ ﺧان گشکوری رقمطراز ہے کہ 'آپ بھی اپنے قومی دستہ کے سات باقی بلوچوں کے ہمراہ ہمایوں کی مدد کو ہندوستان کو چلے تھے اور واپسی پر آپ راستے میں فوت ہو گئے تھے ۔ آپ کو کچھی میں دفنایا گیا تھا ۔ ' ہمایوں کی بہن گلبدن بیگم نے آپ کو بخشو بلوچ لکھا ہے اور آپ کے احسان کو اپنے بھائی کے لیے اعزاز تصور کیا ہے ۔
بلوچ حضرت امیر حمزہ ؓ کی اولاد
خود بلوچوں کے پاس ایک نظم کے سوا کوئی قدیم مواد نہیں۔ اس نظم میں آیا ہے کہ وہ امیر حمزہ ؓ کی اولاد ہیں اور حلب سے آئے ہیں۔ یہی درست معلوم ہوتا ہے۔ اس میں مزید یہ بیان ہوا ہے کہ انھوں نے کربلا میں حضرت امام حسین علیہ السلام کا ساتھ دیا تھا اور ان کی شہادت کے بعد وہ بامپور یا بھمپور پہنچے اور وہاں سے سیستان اور مکران آئے۔ اولامیر حمزہ ؓ ھیئگوں
سوب درگاہ ءَ گو تر انت
اش حلب ءَ پاد کایوں
گوں یزید ءَ جیڑو انت
کلبلا بھمپور مس نیام ءَ
شہر سیستان منزل انت
ترجمہ:
ہم امیر حمزہ کی اولاد ہیں
نصرت ایزدی ہمارے ساتھ ہے
ہم حلب سے اٹھ کر آئے ہیں
یزید سے لڑنے کے بعد کربلا اور بمبور
کا پیچھے چھوڑ کر سیستان کے
شہر میں ہم نے ڈیر ے ڈال دیے ہیں
بلوچوں کا کربلا اور مکہ میں کردار
بلوچوں کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے نہ صرف کربلا میں حضرت امام حسین ؓ کا ساتھ دیا بلکہ ان دنوں جب کہ رسول اللہ مکہ میں بے یار مدد گار تھے تو بلوچوں نے اپنے قبائل سے پانچ بہادر منتخب کرکے رسول اللہ کی حفاظت کے لیے بھیجے اس بات کا پتہ بھی ہمیں بلوچی کی ایک نظم سے چلتا ہے۔
جکتہ پنج مرد بلوچیں
گوں رسول£ ءَ شامل ءَ
دوست نماز ءَ کہ پڑھگن
سرہ کننتی پانگی ءَ
جنگ اڑ تہ گوں کفاراں
شہ حساب ءَ زیادھی ءَ
ترونگلی تیر ءِ شلیاں
در کپاں ڈاؤزمی ءَ
جکتیش ایمان مس ہند ءَ
ڈبنگ ءَ نہ اشتش وتی ءَ
تنگویں تاجے بلوچار
داتہ آ روچ ءَ نبی ءَ
ترجمہ:
پانچ بہادر بلوچ
رسول اللہ کی خدمت میں کھڑے تھے
جب خدا کے دوست نماز پڑھتے
تو وہ پہرہ دیا کرتے تھے
جب کفار کے ساتھ لڑائی چھڑی
کفار کا لشکر بے شمار تھا
تیر اولوں کی طرح برسے
اور زمین سے دھواں اٹھنے لگا
مگر وہ ثابت قدم رہے ان کا ایمان قا ئم رہا
دشمن ان کو مغلوب نہ کرسکا
اس دن پاک نبی£ نے
بلوچ کے سر پر طلائی تاج رکھا
فردوسی شاہنامے میں بلوچوں کا ذکر
فردوسی نے شاہنامے میں تین بادشاہوں کے عہد میں بلوچوں کا ذکر کیا ہے
اول: کیخسرو
دوم : زرکس
اور سوم : نوشیروان
عہد کیخسرو:۔(532 ق۔ م) میں بلوچ بحر خضر کے جنوبی ساحلی علاقے اور کوہ البرز کے دامن میں رہتے تھے۔ ان میں جو تھوڑے متمدن ہو گئے وہ حکومت اور فوجی خدمت کرنے لگے۔ زرکس کے عہد میں بلوچ ایرانی بادشاہوں کے دربار میں اعلیٰ عہد وں پر فائز رہے۔ لیکن بعد میں بلوچ ایرانی بادشاہوں کے لیے خطرہ بن گئے۔ اس لیے انہوں نے نہایت بے دردی سے ان کے خلاف جو مہم بھیجی تھی اس کا تذکرہ فردوسی نے شاہنامے میں بڑی تفصیل سے کیا ہے گمان ہے کہ اس مہم کے نتیجے میں بلوچوں کی قوت اس علاقے میں ٹوٹ گئی اور مجبوراً جنوب و مشرق کے پہاڑوں میں جاکر رہنے لگے لیکن ڈیمز نے اپنی کتاب “دی بلوچ ریس” اور گینکووسکی نے اپنی کتاب “پیپل آف پاکستان” میں قیاس کیا ہے کہ سفید ہُنوں کی یورش کی وجہ سے بلوچوں نے بحر خضر کے جنوبی پہاڑوں سے کرمان کی طرف کوچ کیا۔ بہر حال اس سلسلے میں کوئی بات وثوق سے نہیں کی جاتی کرمان کے بلوچ خانہ بدوشوں کا ذکر عرب سیاحوں، مورخوں اور جغرافیہ نویسوں نے بھی کیاہے۔
ڈیمز نے بلوچوں کی ہجرت کے بارے میں اپنی کتاب “دی بلوچ ریس” میں لکھا ہے (ترجمہ کامل القادری)
“یہ بات قرین قیاس ہے کہ بلوچوں نے دومرتبہ نقل مکانی کی اور دونوں بار ہجرت کی وجہ ایک بڑے علاقے میں نئے فاتحوں کی پیش قدمی تھی پہلی ہجرت اس وقت ہوئی جب فارس میں سلجوقیوں کے ہاتھوں ولیمی اور غزنوی طاقتوں کا خاتمہ ہوا۔ اس موقع پر یہ لوگ کرمان چھوڑ کر سیستان اور مغربی مکران کے علاقوں میں آکر آباد ہوئے۔ دوسری بار انہوں نے اس علاقے کو چھوڑ کر مشرقی مکران اور سند ھ کا رخ کیا۔ یہ ہجرت چنگیز خان کے حملوں اور جلال الدین منگول کی وجہ سے ہوئی۔ دوسری ہجرت کے نتیجے میں انھوں نے پہلی بار وادی سندھ میں قدم رکھا جس سے ان کے لیے تیسری اور آخری ہجرت کا راستہ ہموار ہو ا اور اس آخری ہجرت نے ان کے بڑے حصے کو ہندوستان کے میدانی علاقوں میں منتشر کر دیا۔ اس آخری ہجرت کا زمانہ ہندوستان پر تیمور لانگ کے حملے اور بابر کی یورش کا زمانہ ہے ”
بعض قبیلوں نے قلات پر قابض ہوکر بلوچوں کو سندھ اور پنجاب کے میدانی علاقوں کی طرف جانے پر مجبور کر دیا۔ یہ واقعہ بلوچی تاریخ میں ناقابل فراموش ہے۔ اس واقعہ کے بعد یہ قوم دو گروہوں میں تقسیم ہو گئی۔
سردار امیر جلال خان بلوچ
محمد سردار خان بلوچ نے اپنی کتاب میں لکھا کہ بلوچ روایت کے مطابق سردار امیر جلال خان بلوچ تمام بلوچ قبائل کے سردار تھے جو گیارہوں عیسوی میں کرمان کے پہاڑ وں اور لوط کے ریگستان میں رہتے تھے۔ بلوچوں کی مقبول عام روایات اسی سردار کے عہد سے شروع ہوتی ہیں۔ سردار امیر جلال خان بلوچ کے چار بیٹے رند، کورائی، لاشار اور ھوت تھے آگے چل کر رند کی اولاد سے امیر چاکر خان رند بن امیر شہک پیدا ہوا۔ جو بلوچ نسل کا عظیم سپوت کہلاتے ہیں۔
میر چاکر خان رند بلوچ
سردار میر چاکر خان رند بن سردار امیر شہک رند بن سردار امیر اسحاق رند بن سردار امیر کا لو رند بن سردار امیر رند بن سردار امیر جلال خان رند بلوچ۔ میر چاکر رند یا چاکر اعظم صرف ایک نام یا ایک شخصیت نہیں بلکہ بلوچوں کی تہذیب و ثقافت، تاریخ و تمدن، معیشت و معاشرت، اخلاق و عادات، بہادری و جوانمردی، جوش و جذبہ، گفتار و کردار، ایثار م قربانی، ایفائے عہد اور انتقام کا نام ہے۔ سردار میر چاکر رند خود بھی بہادر تھے اور بہادر دوستوں ہی کی نہیں بلکہ دشمنوں کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور بقول میر چاکر "بہادروں کا انتقام بھی مجھے پیارا ہے جو میرے اونچے قلعوں پر حملہ کرنے کی ہمت رکھتے ہیں" میر چاکر خان مکران کے قیام کے دوران اپنی ابھرتی جوانی میں ہی قوم میں مقبول ہو گئے تھے۔ قلات پر حملے کے دوران بہادری کے وہ جوہر دکھائے کہ لوگ انگشت بدنداں رہ گئے۔ میر شہک کے انتقال کے بعد پورے رند علاقوں کا حکمران انکا بیٹا میر چاکر تھا اور رندوں کی تاریخ کا سنہری دور تھا لیکن اس دور کا اختتام اتنا تاریک اور عبرت انگیز ہے کہ میر چاکر کے آخری دور میں نہ صرف رند بلکہ پوری بلوچ قوم اس طرح منتشر ہوئی کہ آج تک دوبارہ اکھٹی نہ ہو سکی میر چاکر کا دور بلوچوں کا عروج اور خوشحالی کا دور تھا اور آج بھی بلوچ قوم کا اجتماعی طور پر ہیرو میر چاکر رند ہے اور آج بھی میر چاکر کا نام عزت و احترام سے لیتے ہیں بقول میر چاکر "مرد کا قول اس کے سر کے ساتھ بندھا ہے" اور میرچاکر اپنے قول کا دھنی تھا اپنے قول کے مطابق ایک مالدار عورت "گوھر" کو امان دی اور اس کی حفاظت کف لیے جان کی بازی لگا دی اور اپنے ہی بھائیوں لاشاریوں سے جنگ کی جو تیس سالہ کشت و خون میں بدل گئی اور یہی جنگ کئی نامور رند اور لاشاریوں کو خاک و خون میں نہلا گئی جن میں میر چاکر کے دو نوجوان بھائیوں کے علاوہ میرھان، ھمل، جاڑو، چناور، ھلیر، سپر،جیند، بیبگر، پیرو شاہ اور دیگر سینکڑوں بہادر بلوچ شامل تھے بلوچوں کی معاشرتی زندگی میں وعدہ خلافی کے علاوہ جھوٹ بولنا معیوب سمجھا جاتا ہے خاص کر اگر وہ رند بلوچ ھو بقول چاکر خان رند کے "سچ بولنا بلوچوں کا شیوہ ہے اور جھوٹ ایمان کی کمزوری کی نشانی ہے" بلوچ معاشرے میں جو کوئی جھوٹ بولے اور وعدہ خلافی کرے تو ان کے معاشرے میں کوئی مقام و عزت نہیں ہوتی اور ان کی نظر میں وہ شخص زندہ نہیں بلکہ مردہ ہے اور رندوں کی ایک کہاوت ہے کہ"مرے ہوۓرند کو کوئی راستہ نہیں ملتا دونوں طرف سے ان کی زندگی اسیر ہے" بلوچ لوگ بالخصوص رند بلوچ لوگ عورتوں اور بچوں پر کبھی ہاتھ نہیں اٹھاتے، مہمان اور مہمان نوازی بلوچ معاشرے کا ایک لازمی حصہ ہے اور مہمانوں کو خدا کا نعمت سمجھتے ہیں سردار چاکر خان رند کی تاریخ پیدائش کا مختلف روایات ہیں ان میں سب سے زیادہ معتبر 1486ء اور قلات کو 1486ءفتح کیا کہ در آن وقت سردار چاکر کی عمر صرف 16 سال تھی اور سال 1488ء میں سبھی پر قبضہ کیا اور اسی سال میر شہک وفات پا گئے اور رند اور لاشار کی تیس سالہ جنگ کا آغاز سال 1489ءمیں شروع ھوا جو 1519ءمیں اختتام پزیر ہوا 1520ء میں میر چاکر ملتان کی روانہ ہوئے اور 1523ء میں مستقل طور پر ستگھڑہ میں قیام کیا اور 1555ءمیں ہمایوں کے ساتھ دہلی پر حملہ آور ہوئے اور شیر شاہ سوری کے جانشینوں کو شکست دے کر دہلی فتح کیا اور 1565ءمیں یہ عظیم قائد اس دنیاے فانی کو چھوڑکر خالق حقیقی سے جا ملے اور بمقام ستگھڑ اوکاڑہ میں دفن ہوئے۔
رند و لاشار کا واقعہ
بلوچ اپنے سردار میر جلال خان کی سر کردگی میں کرمان کے مختلف اضلاع میں رہتے تھے مگر سیاسی انتشار کی وجہ سے وہ قافلہ در قافلہ کرمان چھوڑ کر سیستان چلے آئے۔ جب یہاں بھی چین نہ ملا تو وہ اپنے سردار امیر جلال خان کی قیادت میں واپس کرمان گئے اور ضلع بام پور میں آباد ہوئے۔ پھر سردار جلال خان اپنے چوالیس قبیلوں (پاڑوں) کو لے کر مکران کی طرف بڑھا اور یوں مکران کو بلوچستان کا نام دیا۔ اس کی آمد سے پہلے مکران پر مغول حکومت کرتے تھے۔ بلوچ سردار نے انہیں شکست دی جس سے مقامی آبادی کی وفاداریاں بھی انہیں آسانی سے میّسر آگئیں۔ کیونکہ مقامی لوگ مغول کے ظلم و ستم سے تنگ آچکے تھے۔ یہ مسلمہ ام رہے کہ امیر جلال خان کی آمد سے پہلے مکران میں بلوچ آباد تھے۔ جو خانہ بدوش تھے بھیڑ بکریاں پال کر گزارہ کرتے تھے سردار کے ساتھ جو بلوچ مکران پہنچے وہ شہسوار تھے اور بہت منظم بھی۔ سردار جلال خان نے حکومت قائم کرکے ا نہیں قومیت کا احساس دیا اور قبائلی نظام کو مضبوط بنیادوں پر استوار کیا۔
پندرھوں صدی عیسویں میں بلوچوں کے دو قبیلوں رندو لاشار ساتھ ساتھ وسطی بلوچستان کی طرف بڑھے۔ جو لوگ ان کے مقابلے پر تھے یا وہ قتل کردیے گئے یا انہوں نے اطاعت قبول کر لی۔ آخر میر چاکر خان رند کے عہد میں سارا بلوچستان بلوچوں کے قبضے میں آگیا اور وہاں ان کی حکومت قائم ہو گئی۔
میر چاکر خان رند ایک عظیم بلوچ تھے انھوں نے خضدار فتح کیا درۂ مولا پر قبضہ کیا۔ کچھی کے میدانوں کو فتح کیا۔ درۂ بولان پر قبضہ کیا اور ڈھاڈر پر قبضہ کرنے کے بعد سبّی کو فتح کیا۔ اس کے بعد قبائلی حسد کی وجہ سے رند و لاشاریوں میں جنگ چھڑ گئی جو تیس سال تک جاری رہی۔ (ان دونوں قبائل کی جنگ نے بھی کئی داستانوں کو جنم دیاہے) اس جنگ کانتیجہ یہ نکلا کہ کئی بلوچ قبائل سندہ اور پنجاب میں ہجرت کرنے پہ مجبور ہو گئے اور بلوچ منتشر ہو گئے جس میں بلوچوں کا بہت نقصان ہوا۔
بلوچوں کا ذکر شہنشاہ بابر کی خود نوشت تزک بابری اور شہنشاہ ہمایوں کی بہن گلبدن بیگم کے تحریر کردہ ہمایوں نامے میں بھی موجود ہے۔
شہنشاہ بابر نے لکھا ہے “میں نے حیدر علم دار کو بلوچوں کی طرف بھیجا۔ بھیرے اور خوشاب سے دوسرے دن بلوچ گھوڑے کی ڈالی لے کر آئے او ر اطاعت کا وعدہ کیا”
1539 ء کو ہمایوں نے شیر شاہ سوری سے چونسہ کے مقام پر شکست کھائ اور دشت نوردی کے عالم میں اوکاڑے کے قریب ست گرہ پہنچا جہاں میر چاکر خان کے ایک امیر بخشو بلوچ نے شہنشاہ کو غلے کی سو کشتیاں امداد کے طور پر دیں۔
گلبدن بیگم نے جو ہمایوں کے ساتھ ہمایوں نامے میں بخشو بلوچ کی امداد کا شکریہ ادا کیا ہے۔ ایران جاتے ہوئے شہنشاہ ہمایوں بلوچستان سے گزرا جب وہ نوشکی پہنچا تو ایک بلوچ سردار ملک خطی نے اسے پناہ دی اور اگلے دن اسے ایران کی سرحد پر چھوڑ کرآیا شہنشاہ نے انعام کے طور پر اسے ایک انمول ہیرا دیا۔ جب شہنشاہ ہمایوں نے تحت دہلی کے لیے ہندوستان پر چڑھائی کی تو اس کے لشکر میں چالیس ہزار بلوچ جوان تھے جن کا سالار میر چاکر خان رند کا بیٹا میر شاہ داد خان تھا۔
جنوبی پنجاب میں زیادہ بلوچ آباد ہیں۔ اس کے علاوہ بلوچ پورے پاکستان میں آباد ہیں جن میں ساھیوال،اوکاڑہ،جھنگ، بھکر،میانوالی ،سرگودها ،خوشاب ،فیصل آباد، للہ، پنڈ دادنخان ،چکوال ،تلہ گنگ ،اٹک، فتح جنگ، راولپنڈی اور اسلام آباد میں کثیر تعداد میں موجود ہیں۔ بلوچ قوم سب سے زیادہ بہادر اور دلیر قوم مانی جاتی ہے
بلوچی زبان
بلوچی | |
---|---|
بلوچی baločî Balóćí | |
مقامی | پاکستان، ایران، افغانستان، ترکمانستان، م ع ا، عمان |
مقامی متکلمین | 20 ملین (1998) |
ہند۔یورپی
| |
رسمی حیثیت | |
دفتری زبان |
![]() ![]() |
منظم از | بلوچی اکادمی (پاکستان) |
زبان رموز | |
آیزو 639-2 |
bal |
آیزو 639-3 |
bal – مشمولہ رمزانفرادی رموز: bgp – مشرقی بلوچی bgn – رخشانی (مغربی ) بلوچی bcc – جنوبی بلوچی |
کرہ لسانی |
58-AAB-a> 58-AAB-aa (East Balochi) + 58-AAB-ab (West Balochi) + 58-AAB-ac (South Balochi) + 58-AAB-ad (Bashkardi) |
بلوچی زبان (Balochi language) بلوچ قبائل کی زبان ہے۔ ہند یورپی خاندانِ السنہ کی ایک شاخ ہند ایرانی جو مروجہ فارسی سے قبل رائج تھی، کی ایک بولی ہے۔ پاکستانی صوبہ بلوچستان ایرانی بلوچستان، سیستان، کردستان اور خلیج فارس کی ریاستوں میں بولی جاتی ہے۔
بلوچی ادب
بلوچی ادب کو تین ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ پہلا رند دور جو 1430ء سے 1600ء تک کے عرصے پر محیط ہے۔ دوسرا خوانین کا دور جس کی مدت 1600ء سے 1850ء تک ہے۔ تیسرا دور برطانوی دور جو 1850ء سے شروع ہوا اور اگست 1947ء میں تمام ہوا۔ چوتھا ہمعصر دور جس کا آغاز قیام پاکستان سے ہوا۔
کلاسیکی دور
رند یا کلاسیکی دور میں بلوچ شعرا نے چار بیت طرز کی رزمیہ داستانیں اور مشہور بلوچ رومان نظم کیے۔ اُس دور کے شعرا میں سردار اعظم میرچاکرخان رند، میر بیو رغ رند، سردارگوہرام لاشاری، میر ریحان رند، شے مرید، میر شہدادرند، میر جمال رند اور شے مبارک قابل ذکر ہیں۔ خوانین قلات کے دور میں خان عبد اللہ خان، جیئند رند، جام درک ڈومبکی، محمد خان گیشکوری، مٹھا خان رند اور حیدربالاچانی شعرا نے شہرت پائی۔ برطانوی دور نے ملا فضل رند ،ملاقاسم رند، مست توکلی، رحم علی،پلیہ کھوسہ ,محمد علی چگھا،رحمن چاکرانی ,جوانسال بگتی، بہرام جکرانی، حضور بخش جتوئی ،ملاعبدالنبی رند، ملاعزت پنجگوری، نور محمد بمپُشتی، ملاابراہیم سربازی، ملا بہرام سربازی اور اسماعیل پل آبادی جیسے شعرا اور ادبا پیداہوئے۔
قیامِ پاکستان کے بعد
قیام پاکستان کے بعد بلوچی ادب کی ترقی و فروغ کے لیے موثر کوشیشیں کی گئیں۔ 1949ء میں بلوچستان رائٹر ایسوسی ایشن کا قیام عمل میں آیا۔ 1951ء میں بلوچ دیوان کی تشکیل ہوئی اور بلوچی زبان کاایک ماہوار مجلہ اومان کا اجرا ہوا۔ کچھ عرصے بعد ماہنامہ بلوچی جاری کیا گیا۔ اس کے فوری بعد ماہنامہ اولس اور ہفت روزہ ’’دیر‘‘ شائع ہوئے۔ 1959ء میں بلوچی اکیڈیمی قائم ہوئی جس کے زیر اہتمام متعدد بلوچی کلاسیکی کتب شائع ہو چکی ہیں۔
ہمعصر بلوچی شعرا میں سیّد ظہور شاہ ہاشمی، عطا شاد، مراد ساحر، میرگل خان نصیر، مومن بزدار، اسحاق شمیم، ملک محمد طوقی، صدیق آزاد ،اکبر بارکزئی،مراد آوارانی، میرعبدالقیوم بلوچ، میر مٹھا خان مری اور ملک محمد پناہ خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔ نئی پود میں امان اللہ گچکی، نعمت اللہ گچکی، عبد الحکیم بلوچ، عبد الغفار ندیم ،اللہ بخش بزدار،قاضى مبارک ،سيدخان بزدار،عيدالغفور لغارى اور صورت خان مری نے بلوچی ادب کے ناقدین کو کافی متاثر کیا ہے۔
بلوچ یوم ثقافت
نامور بلوچ شخصیات
حوالہ جات
Vidya Prakash Tyagi۔ Martial Races of Undivided India۔ Gyan Publishing House۔ صفحات 7–9۔ آئی ایس بی این 8178357755۔ مورخہ 6 جنوری 2019 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 3 نومبر 2014۔
Central Intelligence Agency۔ "The World Factbook: Ethnic Groups"۔ مورخہ 6 جنوری 2019 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 3 نومبر 2014۔ Iran, Library of Congress, Country Profile . Retrieved December 5, 2009. Joshua Project۔ "Baloch, Southern of Oman Ethnic People Profile"۔ Joshuaproject.net۔ مورخہ 6 جنوری 2019 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-08-01۔ Languages of Oman, Ethnologue.com . Retrieved December 5, 2009. Oman, CIA World Factbook . Retrieved December 5, 2009. Afghanistan, CIA World Factbook . Retrieved December 5, 2009. Languages of United Arab Emirates, Ethnologue.com (retrieved 5 December 2009) Baloch, Eastern of India Ethnic People Profile. Joshuaproject.net (2008-08-01). Retrieved on 2013-07-12. KOKAISLOVÁ, Pavla, KOKAISL Petr. Ethnic Identity of The Baloch People. Central Asia and The Caucasus. Journal of Social and Political Studies. Volume 13, Issue 3, 2012, p. 45-55., ISSN 1404-6091 Baloch people in Turkmenistan (1926–1989), http://beludzove.central-asia.su Mehrdad Izady of Religion in the Gulf http://gulf2000.columbia.edu/images/maps/GulfReligionGeneral_lg.png%7Ctitle=Demography of Religion in the Gulf Check|url=
value (معاونت)۔|title=
غیر موجود یا خالی ہے (معاونت)