اسحا ق خاموش

تحصیل تُمپ کے شعرا: اسحاق خاموش پُل آبادی (Ishaque Khamosh): اسحاق خاموش ایک فطری شاعر ہیں اور شاعرِ فطرت بھی!سخن وری ان میں ودیعت ہے۔ نئے اسلوب اور فنی حوالے سے نوجوان شعرا میں اسحاق خاموش ایک منفرد مقام رکھتے ہیں۔ وہ بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں لیکن نظم پر بھی اتنا ہی عبور رکھتے ہیں۔ جہاں سادہ و رنگیں اور شیریں بیانی ان کی کامیابی کی رازداں ہوتی ہے۔ حق تو یہ ہے کہ ان کے نظم، غزل کے رنگ سے ہی سرشار ہوتی ہے۔ اسحاق خاموش11 اگست 1979 کو تُمپ سے 10 کلومیٹر دُور پُل آباد میں پیدا ہوئے۔ اور ابتدائی تعلیم اپنے گاوں کے مڈل اسکول میں حاصل کی۔ بچپن میں شاعری کے شوق نے بلوچی شاعری کے آسمان کے درخشاں ستاروں سے ہمقدم کر دیا۔ تُربت میں ملازمت کے دوران 1993 سے 1998 تک ریڈیو تُربت میں یوتھ پروگرام میں اپنے خدمات سر انجام دیتے رہے۔ 2000 سے 2006 تک ایک بین الاقوامی نشریاتی ادارہ فیبا ریڈیو www.feba.org.uk/‎ سے بھی بطور اسکرپٹ رائٹر منسلک رہے ہیں۔ ایک بہترین شاعر کے علاوہ اسحا ق خاموش ایک اچھے کمپئیر بھی ہیں۔ اسحاق کراچی آرٹس کونسل اور بلوچستان کے بیشمار یادگار پروگراموں میں میزبانی کے فرائض سر انجام دے چُکے ہیں۔ بلوچی اور اردو کے رسائل اور اخبارات میں وقتا’’ فوقتا’’ اسحاق خاموش کے نگارشات اور غزلیں شائع ہوتی رہتی ہیں اور اس کے علاوہ بلوچی کے تقریبا’’ تمام مایہ ناز فنکاروں نے اسحاق خاموش کے لاتعدا د گیت اور غزلیں خوبصورت سُروں کے ساتھ سجائے ہیں۔ اسحا ق خاموش تقلید کی روش سے دامن بچاتا ہوا اپنے لیے ایک جداگانہ اور منفرد لائحہءعمل تلاش کرتاہے۔ ادبی روایت کو وہ ایک ایسے عمل سے تعبیر کرتا ہے جو زندگی کی تمام حرکت و حرارت کا نقیب ہے۔ یہ کائنا ت بادی النظر میں ہنوز تشنہءتکمیل ہے۔ اس عالم آب و گل کے جملہ مظاہر سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ یہ جو دما دم صدائے کن فیکون سنائی دے رہی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ خوب سے خوب تر کی جستجو کا جو سلسلہ ازل سے جاری ہے وہ ابد تک جاری رہے گا۔ ادبی روایات بھی زندگی کی تاب و تواں کی امین ہوتی ہیں۔ اسحاق خاموش کی شاعری میں زندگی کی اقدار عالیہ پوری قوت ،صداقت اور شدت کے ساتھ الفاظ کے قالب میں ڈھلتی چلی جاتی ہیں۔ اسحاق خاموش ایک وسیع المطالعہ تخلیق کار ہے۔ اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ زمانے میں محبت کے سوا اور بے شمار مسائل ہیں۔ اس کی شاعری میں مارکس اور اینگلز کے تصورات کا پرتو بھی ملتا ہے۔ یہ ایک تلخ اور تند حقیقت ہے نکہ معاشرتی زندگی میں معیشت اور اقتصادی مسائل نے فکر و نظر کی کایا پلٹ دی ہے۔ آج کا انسان حسیناؤں کی زلف گرہ گیر ،عشوے اور غمزے،لب لعلیں ،سیاہ چشمگی،چاہ زنخداں یا کمر سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔ اس کے شعور اور لا شعور کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ اسے سر چھپانے کو جھونپڑا اور پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے نان جویں درکار ہے۔ معیشت اور اقتصادیات کے تفکرات نے اسے نڈھال کر دیا ہے۔ اسحاق خاموش نے اپنی شاعری میں ادب ،کلچر اور اسے متعلق مسائل کا احوال نہایت حقیقت پسندانہ انداز میں کیا ہے۔ رومانوی شاعری کے بین السطور عشق حقیقی یا عشق مجازی جلوہ افروز ہو، یہ ضروری تو نہیں . نرگسیت بھی رومان کی وجہ تسمیہ ہوسکتی ہے، لڑکپن کی زیادہ تر شاعری نرگسیت کی دین ہوتی ہے۔ نوجوان شاعر جس نے ایک چھوٹے مضافاتی شہر سے ایک تھوڑے بڑے مضافاتی شہر مین حصول علم کے لیے ہجرت کی تھی نرگسیت آمیز رومان کا علمبردار شاعر تھا۔ اس نوجوان شاعر نے بلا شبہ خود کو آغاز سفر میں رومانویت کی گرفت میں دے دیا تھا لیکن حیات شناسی اور وقت کی رفتار نے اس کے لیے نئے راستے متعین کیے . اس نے اپنی فکر کی جہات کے لیے اپنے آپ کو محدود نہیں کیا اس نے فکر کو جلا بخشنے کے لیے نئے راستے تراشے . اس نے سوسائٹی کی زود فراموشی و شکست و ریخت اور تصورات کی پامالی سے لے کر تمام تغیرات کا مکمل منظرنامہ اپنی شاعری میں پیش کیا۔ وقت کے لمبے سفر نے اسے نرگسیت کی گرفت سے نکال کر اس مقام پر لا کھڑا کیا جو زندگی سے بھرپور کسی بھی شخص کے اندر پیار کی رت جگا دیتا ہے۔ اس پیار کی کہانی کا تانا بانا بنتے ہوئے کل کا نوجوان شاعر آج کا صاحب طرز کہنہ مشق شاعر قاری کو اپنی جگہ لا کھڑا کرتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں یہ شاعر اپنے اندر مظہریات سے جمالیات تک کے تمام زاوئے اپنے قاری پر کھول دیتا ہے۔ شاعری صرف عرض ہنر کا نام نہیں . یہ ظاہر سے باطن اور باطن سے ظاہر کے سفر سے مستعار ہے۔ اسحاق خاموش کی شاعری میں فکری عناصر کی بہتات ہے جذبات کا ایک سیلاب ہے کہ ٹھاٹھیں مار رہا ہے اسحاق خاموش کا کہنا ہے کہ "روایتی شاعری کے ہر دور میں "جدید شاعری" کی اصطلاح عام ہوتی رہی ہے۔ اس لحاظ سے غالب بھی اپنے عہد میں "جدید شاعر" رہے ہیں کیونکہ انھوں نے اپنے عہد کی روایتی شاعری کے اصول توڑے تھے۔ یہ انیسویں صدی کی بات ہے۔ بیسویں صدی میں اقبال اپنے وقت کے "جدید شاعر" تھے۔ پھر 1936ء میں سجاد ظہیر "ترقی پسند ادب" کے میر کارواں رہے۔ 1950ء کے آتے آتے "ترقی پسند ادب"، جسے بنیادی طور مارکسی ادب کہا جاسکتا ہے مارکسزم کی ادّعائیت سے متاثر ہوا اور اس کی جگہ نئے رجحانات اس میں داخل ہوئے جسے جدید ادب کا نام دیا جاسکتا ہے۔ یہ صورت حال پورے ہندوستان میں ہر زبان کے ادب پر حاوی رہی۔ اس کی دو بنیادی وجوہات رہی ہیں۔ پہلی وجہ ادب پر "ازم" کا حاوی ہونا اور دوسری وجہ موضوعات اور لب و لہجہ کی تبدیلی۔ " بلوچی زبان و ادب کے ترویج و اشاعت کے لیے آج کل " آتار پبلیکیشنز کراچی " کے نام سے ایک ادارہ چلا رہے ہیں جو بلوچی میں ادبی کتب شائع کرتے ہیں۔

تصانیف: گُمان ( شاعری)اشاعت اول 2002) گُمان(اشاعت دوم(2003) واھگء_ تُنّ (2004) شُبین (اشاعت اول 2007) شُبین (اشاعت دوم2010) جار (2010) بلوچی لبز بلد (ڈکشنری) 2014 رابطہ: aataar2010@gmail.com

This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.