خلیل احمد خان جمالانی گبول
خاندانی پس منظر
سردار الہٰی بخش خان گبول کی وفات کے بعد ضلع گھوٹکی کے گبول قبیلہ کی سرداری دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ ایک طرف سردار محمد عالم خان گبول اور دُو سری تاج محمد خان گبول۔ سردار محمد عالم خان گبول کی وفات کے بعد اُن کے بیٹے سردار خلیل احمد خان گبول کی دستار بندی ہوئی،اُن کی سرداری میں گبول برادری نے بہت ترقی کی ۔
سردار خلیل احمد خان گبول ضلع گھوٹکی کے گبول قبیلے کے موروثی سردار ہیں۔ اُن کے والد سردار محمد عالم خان گبول اَپنے وقت کے مضبوط ترین سردار تھے۔ اُن کے دور میں گبول قبیلہ کی مہروں کے ساتھ کافی جنگیں اور کشت وخون ہوئے، مگر اُنہوں نے قبیلے کو یکجا رکھا اور خان پور مہر کے مہروں کا اُن جنگوں میں ایسا حال کیا کہ وہ ہر جنگ میں بُری طرح پسپا ہونے پر مجبور ہوئے۔ ملکی سطح پر اِنتہا درجے کا سیاسی اَثر رسوخ رکھنے والے مہر سرداروں کو گبولوں پر مسلط کی گئی ہر جنگ میں منہ کی کھانا پڑی۔[1]
گبول و مہر قبائلی جنگوں میں کردار
سردار خلیل احمد خان گبول کو تما م قبیلہ انتہائی عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ وہ قبیلے کے ہر مسئلے میں پیش پیش ہوتے ہیں خاص طور پر مہروں کے ساتھ ہونے والی قبائلی جنگوں میں اُن کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ یہ تاثر بہت اہمیت کا حامل ہے کہ اُن کے بغیر گبول قبیلے کا کسی بھی دوسرے قبیلے کے ساتھ نتیجہ خیز جرگہ ممکن نہیں سمجھا جاتا۔[2]
گھوٹکی کے سرداری گھرانے
ضلع گھوٹکی میں اگر گبول قبیلہ کی سرداری کے پس منظر پر نظر ڈالی جائے تو سب سے پہلا نام شیرلانی پاڑے کا آتا ہے جو خیر پور میرس کے ٹالپر امیروں کے قریبی لوگوں میں شامل تھے، یہاں تک کہ اُن کا ٹالپروں کی فوج میں شامل ہونے کا تذکرہ بھی ملتا ہے ۔’’سنڌ جي اقتصادي تاريخ‘‘ (سندھ کی اِقتصادی تاریخ) کے مصنّف ’’ڊاڪٽر۔ ايس۔.پي ڇٻلاڻي‘‘ نے ’’ٽالپرن جي فوجي طاقت‘‘ (تالپوروں کی فوجی طاقت)کے عُنوان سے مُندرجہ ذیل تفصیل مُہیّا کی ہے۔[3]
قبیلہ | جنگی نفری | قبیلہ | جنگی نفری |
---|---|---|---|
شهاڻي | 1100 | جمالي | 9000 |
جوکيا | 6000 | الڪاڻي | 1000 |
رند | 3000 | گبول | [4] 4500 |
مزاري | 500 | بگٽي | 1000 |
کٽياڻ | 1000 | ڀرڳڙي | 800 |
ڇلگري | 500 | باگراڻي | 1000 |
نومڙيا | 7000 | ٽالپر | 2200 |
چانڊيا | 8000 | گاڏهي | 700 |
لغاري | 14000 | بڙدي | 1800 |
مري | 7000 | ڪرمتي | 4000 |
جلالاڻي | 4000 | لاشاري | 2000 |
نظاماڻي | 16000 | ڊومبڪي | 8000 |
غور طلب بات یہ ہے کہ مسٹر لیچ نے مذکورہ بالا تعداد کس لحاظ سے شمار کی ہے؟ کیونکہ گبول قبیلہ کے سردار بُلندہ خان حمزانی کے زیر کمان کیر تھرائی گبولوں کی بہت بڑی تعداد تالپوروں کی فوج میں شامل تھی۔ دوسری طرف ٹھٹہ کے کلمتی گبول بھی حیدرآباد کے ٹالپور وں کے حلیف تھے۔ گھوٹکی کے شیرلانی گبول اور دیگر پاڑے اُن کے علاوہ ہیں جو میر سہراب تالپور والئی ریاست خیر پور میرس کے قریبی اور محافظ تھے۔ اِن حقائق اور تاریخی حوالوں کی روشنی میں(خصوصاً مسٹر لیچ کی فراہم کردہ مذکورہ رپورٹ جس میں بلندہ خان حمزانی گبول کا تذکرہ بھی موجود ہے) واضح ہوتا ہے کہ وہ تعداد صرف کیر تھرائی گبولوں کی ہے۔ لہٰذا گھوٹکی کے شیرلانی و جمالانی گبول اور کلمتی، ڈومبکی و بُلیدی قبیلہ میں شامل گبول پاڑے اُن کے علاوہ ہیں۔ ان حقائق کے پیشِ نظر تالپوروں کی فوج میں گبول قبیلہ کی جنگی نفری مذکورہ بالا تعداد سے بھی کہیں زیادہ ہے۔
حوالہ جات
- دی ریجنل ٹائمز، 19 نومبر2008
- ڈان نیوز، 5 نومبر 2010
- گبول قبیلہ کی نمایاں شخصیات صفحہ 361 ناشر: ادارہ تحقیق و تاریخ، علی پور(2014)۔
- سنڌ جي اقتصادي تاريخ از: ڊاڪٽر۔ ايس۔.پي ڇٻلاڻي ناشر: سندھی ادبی بورڈ
دیگر ماخذ
- جنب گزاریم جن سین از: جی ایم سید ناشر: سندھی ادبی بورڈ، جامشورو سندھ ۔
- جنت السنڌ از: رحیم داد خان مولائی شیدائی ناشر: سنڌ یکا اکیڈمی، کراچی۔
- گبول قبیيلي جو تاريخي جائزو (2011) محقق: عبد الحميد گبول۔
- مہماتِ بلوچستان ضمیمہ اول از: کامل القادری ناشر: قلات پبلشرز کوئٹہ۔
- بلوچ تاریخ کے آئینے میں از: مظہر علی خان لاشاری ناشر: علم و عرفان پبلشرز لاہور۔
- پنجاب کی ذاتیں از: ڈینزل ابسٹن ترجمہ: یاسر جواد ناشر: بک ہوم، 26- مزنگ روڈ لاہور۔
- بلوچ قبائل ، کامران اعظم سوہدروی ،تخلیقات، لاہور
- تذکرہ بلوچان سندھ ، کامران اعظم سوہدروی ، تخلیقات، لاہور