فیض بلوچ

فیض محمد بلوچ 1900 میں کسر کند میں پیدا ہوئے جو آج ایرانی صوبہ بلوچستان کا علاقہ ہے۔ پیدائش کے چند سال بعد تک وہ وہی رہے پھروہ کام کے غرض سے مائی کلانچی، جو آج کل کراچی کے نام سے جانا جاتا ہے، وہاں منتقل ہو گئے۔

فیض بلوچ
ملک پاکستان
صوبہبلوچستان

کراچی آ کر وہ کیماڑی کے علاقے میں مزدوری کرنے لگے اور مزدوری کرنے کے ساتھ ساتھ وہ موسیقی بھی سیکھنے لگے۔ یہاں انہوں نے تنبورہ میں انتہائی مہارت حاصل کرلی اور اپنے گانوں سے بلوچی موسیقی میں جدیدیت کا انقلاب برپا کیا جو بلوچی موسیقی میں ایک نیا پہلو تھا۔

انہوں نے اپنی گائکی اور موسیقی استاد نوری اور استاد خیر محمد خیرو سے حاصل کی اور کلاسیکل موسیقی کا درس استاد رمضان سے حاصل کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے سندھی میوزک میں بھی عبور حاصل کیا۔

انہوں نے تعلیم بالکل بھی حاصل نہیں کی ہاں البتہ وہ موسیقی کی روح لے کر پیدا ہوئے۔ انہوں نے حکومت پاکستان کی جانب سے تمغا امتیاز بھی حاصل کیا جو خود انکی عظیم صلاحیتوں کا اعتراف ہے۔

انہوں نے دنیا کے مختلف مقامات میں پرفارم کیا اور اپنے نیچرل انداز سے ہر جگہ لوگوں کے دل جیت لیے۔ استاد نور محمد بورل بلوچی کے ممتاز گلوکار ہیں۔ ان کے مطابق ناکو فیض محمد کا انداز دل موہ لیتا تھا کیونکہ وہ خود ایک نہایت سادہ صفت انسان تھی اور بہت نیچرل سٹائل میں سٹیج پر پرفارم کرتے تھی۔ کبھی کبھار تو وہ اپنی موسیقی میں مگن ہو کر ننگے پاؤن پرفارم کرتے تھے جو اس چیز کا ثبوت ہے کہ وہ موسیقی کو دل سے محسوس کرتے تھے۔

وہ خود ایک سوبر انسان تھےلیکن جب وہ پرفارمنس دیتے تو ان کے گائے ہوئے گیتوں میں ایک جنونیت ہوتی جو جھومتی رہتی۔ ایسا اس لیے تھا کیونکہ انکا موسیقی کے ساتھ ایک روحانی رشتہ تھا (نورمحمد نورل)

انہوں نے کئی ملکوں میں لوگوں کو بلوچی موسیقی سے روشناس کیا جن میں چائنا، رشیا، امریکا، کینیڈا، افغانستان، جرمنی، فرانس، ساوَتھ کوریا، لبنان،اسپین، الجزائر اور انگلینڈ شامل ہیں۔

انہوں نے اپنی زندگی میں بہت سارے گانے گائے۔ ان کا پہلا بلوچی گانا "لیلی او لیلی" ریڈیو پاکستان پر چلایا اور انتہائی مقبول ہو کر زبان زدِ عام ہوا۔ انہوں نے سن 1948 میں ریڈیو پاکستان کو جوائن کیا۔

اس کے علاوہ انہوں نے بلوچی موسیقی کو اور بھی بہت سے خوبصورت گانے دیے۔ ان کے گانے آج بھی بار بار گائے جاتے ہیں اور سننے والے اصرار کرتے ہیں کہ ایک بار سن کر دوبارہ سنا جائے۔ انکا ایک اور گیت جو یوں ہے۔

ان کے ساتھ تفصیلی انٹرویو مبنی بلوچی زبان میں ایک کتاب بھی چھپ چکی ہے۔ کتاب کا نام "یاتانی کلمپر" ہے مگر اب یہ کتاب بہت نایاب ہےاور بہت کم لوگوں کو اس کے بارے میں علم ہے۔

فیض محمد بلوچ نے بلوچی میوزک کے علاوہ اردو میں بھی بہت سارے گانے گائے اور پی ٹی وی، ریڈیو پاکستان کے علاوہ مختلف پلیٹ فارمز پر اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے پوری دنیا میں بلوچی موسیقی کے ساتھ ساتھ پاکستان کی بھی نمائندگی کی اور اپنی سریلی آواز کا جادو جگایا۔

فیض صاحب نے آبائی گاوَں سے کراچی آنے کے بعد کافی عرصہ یہیں گزارا اور پھر کوئٹہ منتقل ہو گئے۔ 1980 میں ان کا کوئٹہ میں ہی انتقال ہو گیا اورانکو وہیں سپرد خاک کیا گیا۔

This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.