لوہاری دروازہ

لوہاری دروازہ لاہور، پاکستان کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے، جو اصلی حالت میں محفوظ ہے۔لوہاری دروازہ شہر قدیم کی فصیل میں بجانب جنوب واقع ہے۔ اس کے دائیں طرف شاہ عالمی جبکہ بائیں طرف موری دروازہ ہے اور اس کے بالمقابل انارکلی بازار شروع ہوجاتا ہے۔ اس دروازہ کا نام لاہور شہر کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے۔ بعض لوگوں کے نزدیک لاہور کی قدیمی بستی اچھرہ کے پاس واقع تھی جبکہ کچھ لوگ قبرستان میانی صاحب کے نواح کو قدیم لاہور کی بستی بتاتے ہیں بہرحال اکثر مورخ اس بات پر متفق ہیں کہ محمود غزنوی نے جے پال کو شکست دے کر جس لاہور پر قبضہ کیا تھا وہ لوہاری دروازے کے اندر واقع تھا لہذا قرین قیاس ہے کہ لوہاری دروازہ ہی شہر میں داخل ہونے کا پہلا دروازہ تھا۔ برصغیر کا پہلا مسلم حکمران قطب الدین ایبک بھی اس دروازے کے قریب ہی محو خاک ہے۔ ملک ایاز جب پنجاب کے انتظام کے لیے معمور ہوا تو اس نے شہر کو دوبارہ آباد کرنا چاہا۔ بقول ایچ آر گولڈنگ ملک ایاز نے ایک رات میں شہر پناہ تعمیر کی۔ رنجیت سنگھ نے جب 1799ء میں لاہور پر لشکر کشی تو مہر محکم دین نے لوہاری دروازہ ہی کھول دیا تھا جس سے رنجیت سنگھ کی فوج شہر میں داخل ہو گئی اور رنجیت سنگھ نے لاہور پر قبضہ کر لیا۔

لوہاری دروازہ

برطانوی عہد میں لاہور کے کئی دروازوں کو دوبارہ تعمیر کیا گیا مگر ان کو اصل صورت سے بر عکس بنایا گیا۔ تاہم لوہاری دروازہ اس اثر سے محفوظ رہا اور اس دروازے کو اس کی اصل حالت کے مماثل تعمیر کیا گیا۔ لوہاری دروازے کے اندر داخل ہوں تو لوہاری بازار شروع ہو جاتا ہے۔ لوہاری منڈی لاہور کی قدیم منڈی ہے۔ لوہاری دروازے میں داخل ہوتے ساتھ ہی الٹے ہاتھ پر جامع مسجد آمنہ و مدرسہ شیر ربانی ہے۔ جامع مسجد آمنہ کے پہلو میں صوفی مولوی محمد نواب علی المعروف صوفی صاحب کی قبر ہے۔ لوہاری دروازے میں موجود کمروں میں حکومت نے سارنگیاسکول کھولا ہے جہاں بلا معاوضہ یہ ساز بجانا سکھایا جاتا ہے۔ لاہور کے دیگر دروازوں کی نسبت لوہاری دروازہ رہائشی اعتبار سے تقریباً سب سے گنجان آباد علاقہ ہے اور شہر کے اس حصے میں ابھی بھی اندرون شہر کی ثقافت قائم ہے۔ میں جب لوہاری کے لاہوریوں سے ملا تو معلوم ہوا کہ لوگ لاہوریوں کو زندہ دل کیوں کہتے ہیں آج تک میں نے فقط سنا تھا آج سے لاہوریوں کی زندہ دلی کا شاہد ہوں۔ لوہاری میں لوگ آج بھی رات گئے تک گلیوں کوچوں میں تھڑا محفلیں کرتے ہیں۔ جہاں مذہب سے لے کر سیاست تک تمام امور پر بحث مباحثے اور طنز مزاح کی فضا قائم رہتی ہیں۔ لوہاری دروازے کی چھت سے مسلم مسجد کے مینار اور لاہور کے مصروف بازاروں کو دیکھا جاسکتا ہے۔ اندرون لوہاری دروازے میں پرانے لاہور کی جھلک نظر آتی ہے۔ میں نے جب قدیم حویلیوں میں رہائش پزیر لوگوں سے جھجکتے ہوئے ان کے گھر دیکھنے کی خواہش کی تو انکا برتاؤ توقع کے برعکس تھا۔ لوگوں نے ناصرف مجھے اپنے گھر دکھائے بلکے ان کی مہمان نوازی اور فراخ دلی حیران کن تھی۔ کھانے پینے کے حوالے سے یہ بھی علاقہ اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ لاہور کے معروف حاجی نہاری بھی یہیں ہے۔ لوہاری منڈی میں نہاری کے علاوہ پائے، چنے، بار بی کیو ،اور مٹھائیوں کی بھی بے شمار دکانیں ہیں۔ میرا خیال ہے مجھے لاہور کا اصل تعارف لوہاری جاکر ہوا۔ احباب سے گزارش ہے کہ لاہور میں بادشاہی مسجد ،مینار پاکستان اور شاہی قلعہ ہی تاریخی و تفریخی مقامات نہیں ہیں کبھی اندرون لاہور کی گلیوں کی خاک چھانیں آپ یقین کریں آپ کو لاہور مختلف معلوم ہوگا۔ لاہور و لاہوریوں کے متعلق آپ کے نظریات تبدیل ہو جائیں گے۔

روابط

This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.