مولانا رومی

محمد جلال الدین رومی (پیدائش:1207ء میں پیدا ہوئے، مشہور فارسی شاعر تھے۔ مثنوی، فیہ ما فیہ اور دیوان شمس تبریز آپ کی معروف کتب ہے، آپ دنیا بھر میں اپنی لازاول تصنیف مثنوی کی بدولت جانے جاتے ہیں، آپ کا مزار ترکی میں واقع ہے۔

مولانا جلال‌الدین محمد بلخی
جلال الدین محمد رومی
معروفیت مولانا (کلاسیکی فارسی) یا (جدید ترکی)
پیدائش اتوار 6 ربیع الاول 604ھ/ 30 ستمبر 1207ء

وخش (موجودہ تاجکستان)[1][2]بلخ (موجودہ افغانستان)[3][4]
وفات اتوار 5 جمادی الثانی 672ھ/17 دسمبر 1273ء
(مدت حیات: 66 سال 2 ماہ 17 دن شمسی)

قونیہ، سلاجقہ روم (موجودہ ترکی)
مدفن قونیہ (موجودہ ترکی)
37°52′14.33″N 32°30′16.74″E
نسل فارسی
عہد قرون وسطی
شعبۂ زندگی خوارزم سلطنت (بلخ: –1212 اور 1213–17; سمرقند: 1212–13)[5][6]
سلاجقہ روم (مالاطیہ: 1217–19; اقشہر: 1219–22; کارامان: 1222–28; قونیہ: 1228 اپنی وفات تک 1273 ء.)[5]
مذہب اسلام
مکتب فکر حنفی، تصوف؛ انکے پیروکاروں نے سلسلہ مولویہ قائم کیا۔
شعبۂ عمل عارفانہ کلام، صوفی رقص، مراقبہ، ذکر
اہم نظریات فارسی ادب، صوفی رقص
کارہائے نماياں مثنوی، دیوان شمس تبریزی، فیہ ما فیہ
قونیہ، ترکی میں واقع مولائے روم کا مزار
قونیہ میں مولائے روم کا مزار

پیدائش اور نام و نسب

اصل نام محمد ابن محمد ابن حسین حسینی خطیبی بکری بلخی تھا۔ اور آپ جلال الدین، خداوندگار اور مولانا خداوندگار کے القاب سے نوازے گئے۔ لیکن مولانا رومی کے نام سے مشہور ہوئے۔ جواہر مضئیہ میں سلسلہ نسب اس طرح بیان کیا ہے : محمد بن محمد بن محمد بن حسین بن احمد بن قاسم بن مسیب بن عبد اللہ بن عبد الرحمن بن ابی بکرن الصدیق۔ اس روایت سے حسین بلخی مولانا کے پردادا ہوتے ہیں لیکن سپہ سالار نے انہیں دادا لکھا ہے اور یہی روایت صحیح ہے۔ کیونکہ وہ سلجوقی سلطان کے کہنے پر اناطولیہ چلے گئے تھے جو اس زمانے میں روم کہلاتا تھا۔ ان کے والد بہاؤ الدین بڑے صاحب علم و فضل بزرگ تھے۔ ان کا وطن بلخ تھا اور یہیں مولانا رومی 1207ء بمطابق 6 ربیع الاول 604ھ میں پیدا ہوئے۔

ابتدائی تعلیم

ابتدائی تعلیم کے مراحل شیخ بہاولدین نے طے کرادیے اور پھر اپنے مرید سید ب رہان الدین کو جو اپنے زمانے کے فاضل علما میں شمار کیے جاتے تھے مولاناکا معلم اور اتالیق بنادیا۔ اکثر علوم مولانا کو انہی سے حاصل ہوئے۔ اپنے والد کی حیات تک ان ہی کی خدمت میں رہے۔ والد Uکے انتقال کے بعد 639ھ میں شام کا قصد کیا۔ ابتدا میں حلب کے مدرسہ حلاویہ میں رہ کر مولاناکمال الدین سے شرف تلمذ حاصل کیا۔

علم و فضل

مولانا رومی اپنے دور کے اکابر علما میں سے تھے۔ فقہ اور مذاہب کے بہت بڑے عالم تھے۔ لیکن آپ کی شہرت بطور ایک صوفی شاعر کے ہوئی۔ دیگرعلوم میں بھی آپ کو پوری دستگاہ حاصل تھی۔ دوران طالب علمی میں ہی پیچیدہ مسائل میں علمائے وقت مولانا کی طرف رجوع کرتے تھے۔ شمس تبریز مولانا کے پیر و مرشد تھے۔ مولانا کی شہرت سن کر سلجوقی سلطان نے انھیں اپنے پاس بلوایا۔ مولانا نے درخواست قبول کی اور قونیہ چلے گئے۔ وہ تقریباً 30 سال تک تعلیم و تربیت میں مشغول رہے۔ جلال الدین رومی ؒ نے 3500 غزلیں 2000 رباعیات اور رزمیہ نظمیں لکھیں۔

اولاد

مولانا کے دو فرزند تھے، علاؤ الدین محمد، سلطان ولد۔ علاؤ الدین محمد کا نام صرف اس کارنامے سے زندہ ہے کہ انہوں نے شمس تبریز کو شہید کیا تھا۔ سلطان ولد جو فرزند اکبر تھے، خلف الرشید تھے، گو مولانا کی شہرت کے آگے ان کا نام روشن نہ ہو سکا لیکن علوم ظاہری و باطنی میں وہ یگانہ روزگار تھے۔ ان کی تصانیف میں سے خاص قابل ذکر ایک مثنوی ہے، جس میں مولانا کے حالات اور واردات لکھے ہیں اور اس لحاظ سے وہ گویا مولانا کی مختصر سوانح عمری ہے۔

سلسلہ باطنی

مولانا کا سلسلہ اب تک قائم ہے۔ ابن بطوطہ نے اپنے سفرنامے میں لکھا ہے کہ ان کے فرقے کے لوگ جلالیہ کہلاتے ہیں۔ چونکہ مولانا کا لقب جلال الدین تھا اس لیے ان کے انتساب کی وجہ سے یہ نام مشہور ہوا ہوگا۔ لیکن آج کل ایشیائے کوچک، شام، مصر اور قسطنطنیہ میں اس فرقے کو لوگ مولویہ کہتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم سے قبل بلقان، افریقہ اور ایشیا میں مولوی طریقت کے پیروکاروں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی۔ یہ لوگ نمد کی ٹوپی پہنتے ہیں جس میں جوڑ یا درز نہیں ہوتی، مشائخ اس ٹوپی پر عمامہ باندھتے ہیں۔ خرقہ یا کرتا کی بجائے ایک چنٹ دار پاجامہ ہوتاہے۔ ذکر و شغل کا یہ طریقہ ہے کہ حلقہ باندھ کر بیٹھتے ہیں۔ ایک شخص کھڑا ہو کر ایک ہاتھ سینے پر اور ایک ہاتھ پھیلائے ہوئے رقص شروع کرتا ہے۔ رقص میں آگے پیچھے بڑھنا یا ہٹنا نہیں ہوتا بلکہ ایک جگہ جم کر متصل چکر لگاتے ہیں۔ سماع کے وقت دف اور نے بھی بجاتے ہیں۔

وفات

بقیہ زندگی وہیں گزار کر تقریباً 66 سال کی عمر میں سن 1273ء بمطابق 672ھ میں انتقال کر گئے۔ قونیہ میں ان کا مزار آج بھی عقیدت مندوں کا مرکز ہے۔

مثنوی رومی

ان کی سب سے مشہور تصنیف ’’مثنوی مولانا روم‘‘ ہے۔ اس کے علاوہ ان کی ایک مشہور کتاب ’’فیہ مافیہ‘‘ بھی ہے۔

باقی ایں گفتہ آید بے زباں

در دل ہر کس کہ دارد نورِ جان

ترجمہ: ’’جس شخص کی جان میں نورہوگا اس مثنوی کا بقیہ حصہ اس کے دل میں خودبخود اتر جائے گا‘‘

اقبال اور رومی

علامہ محمد اقبال مولانا رومی کو اپنا روحانی پیر مانتے تھے۔ کشف اور وجدان کے ذریعے ادراک حقیقت کے بعد صوفی صحیح معنوں میں عاشق ہو جاتا ہے کہ بہ رغبت تمام محبوب حقیقی کے تمام احکام کی پیروی کرتا ہے۔ رومی نے جوہر عشق کی تعریف اور اس کی ماہیت کی طرف معنی خیز اشارے کیے ہیں۔ صوفی کی ذہنی تکمیل کا مقام کیا ہے اس کے متعلق دو شعر نہایت دل نشیں ہیں:

آدمی دید است باقی پوست است

دید آں باشد کہ دید دوست است
جملہ تن را در گداز اندر بصر
در نظر رو در نظر رو در نظر

علامہ اقبال نے اس کی یوں تشریح کی ہے:

خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں

ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں

رومی بین الاقوامی سال

ان کے 800 ویں جشن پیدائش پر ترکی کی درخواست پر اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تعلیم، ثقافت و سائنس یونیسکو نے 2007ء کو بین الاقوامی سالِ رومی قرار دیا۔ اس موقع پر یونیسکو تمغا بھی جاری کیا۔

نگار خانہ

مزید دیکھیے

حوالہ جات

  1. William Harmless, Mystics, (Oxford University Press, 2008), 167.
  2. en:Annemarie Schimmel, "I Am Wind, You Are Fire," p. 11. She refers to a 1989 article by Fritz Meier:
    Tajiks and Persian admirers still prefer to call Jalaluddin 'Balkhi' because his family lived in Balkh, current day in en:Afghanistan before migrating westward. However, their home was not in the actual city of Balkh, since the mid-eighth century a center of Muslim culture in (Greater) Khorasan (Iran and Central Asia). Rather, as Meier has shown, it was in the small town of Wakhsh north of the Oxus that Baha'uddin Walad, Jalaluddin's father, lived and worked as a jurist and preacher with mystical inclinations. Franklin Lewis, Rumi : Past and Present, East and West: The Life, Teachings, and Poetry of Jalâl al-Din Rumi, 2000, pp. 47–49.
    Lewis has devoted two pages of his book to the topic of Wakhsh, which he states has been identified with the medieval town of Lêwkand (or Lâvakand) or Sangtude, which is about 65 kilometers southeast of Dushanbe, the capital of present-day Tajikistan. He says it is on the east bank of the Vakhshâb river, a major tributary that joins the Amu Daryâ river (also called Jayhun, and named the Oxus by the Greeks). He further states: "Bahâ al-Din may have been born in Balkh, but at least between June 1204 and 1210 (Shavvâl 600 and 607), during which time Rumi was born, Bahâ al-Din resided in a house in Vakhsh (Bah 2:143 [= Bahâ' uddîn Walad's] book, "Ma`ârif."). Vakhsh, rather than Balkh was the permanent base of Bahâ al-Din and his family until Rumi was around five years old (mei 16–35) [= from a book in German by the scholar Fritz Meier—note inserted here]. At that time, in about the year 1212 (A.H. 608–609), the Valads moved to Samarqand (Fih 333; Mei 29–30, 36) [= reference to Rumi's "Discourses" and to Fritz Meier's book—note inserted here], leaving behind Baâ al-Din's mother, who must have been at least seventy-five years old."
  3. "UNESCO: 800th Anniversary of the Birth of Mawlana Jalal-ud-Din Balkhi-Rumi"۔ UNESCO۔ 6 ستمبر 2007۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 جون 2014۔ The prominent Persian language poet, thinker and spiritual master, Mevlana Celaleddin Belhi-Rumi was born in 1207 in Balkh, presently Afghanistan.
  4. "UNESCO. Executive Board; 175th; UNESCO Medal in honour of Mawlana Jalal-ud-Din Balkhi-Rumi; 2006"۔ UNESDOC – UNESCO Documents and Publications۔ اکتوبر 2006۔ مورخہ 26 دسمبر 2018 کو اصل (پی‌ڈی‌ایف) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 جون 2014۔
  5. H. Ritter, 1991, DJALĀL al-DĪN RŪMĪ, en:The Encyclopaedia of Islam (Volume II: C–G), 393.
  6. en:C. E. Bosworth, 1988, BALḴ, city and province in northern Afghanistan, Encyclopaedia Iranica: Later, suzerainty over it passed to the Qarā Ḵetāy of Transoxania, until in 594/1198 the Ghurid Bahāʾ-al-Dīn Sām b. Moḥammad of Bāmīān occupied it when its Turkish governor, a vassal of the Qarā Ḵetāy, had died, and incorporated it briefly into the Ghurid empire. Yet within a decade, Balḵ and Termeḏ passed to the Ghurids’ rival, the Ḵᵛārazmšāh ʿAlāʾ-al-Dīn Moḥammad, who seized it in 602/1205-06 and appointed as governor there a Turkish commander, Čaḡri or Jaʿfar. In summer of 617/1220 the Mongols first appeared at Balḵ.
This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.