اشرف جہانگیر سمنانی

غوث العالم محبوب یزدانی تارک السلطنت سلطان مخدوم میر اوحد الدین سید اشرف جہانگیر سمنانی جو کی بانی سلسلہ اشرفیہ ہیں، آٹھویں صدی ہجری کے چثتیہ سلسلہ کے مشہور و معروف بزرگ ہیں۔[1][2][3]

اشرف جہانگیر سمنانی
اشرف جہانگیر سمنانی

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1309  
سمنان  
وفات 26 جولا‎ئی 1405 (9596 سال) 
اشرف پور، کچھوچھہ  
شہریت ایران  
عملی زندگی
پیشہ متصوف  

ولادت

آپ ملک سمنان کے صوبہ خراسان کے دار السلطنت شہر سمنان میں سن 707ھ کو ایک بزرگ کامل اور سمنان کے بادشاہ سلطان سید ابراہیم کے گھر پیدا ہوئے ۔

ابتدائی تعلیم

مخدوم سمنانی نے ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد سے حاصل کی۔ سات برس کی عمر میں سات قرأ توں کے ساتھ پورا قرآن کریم حفظ کیا اور چودہ برس کی عمرمیں تمام علوم متداولہ میں عبور حاصل کر لیا

سمنان کی بادشاہت

17 سال کی عمر میں سمنان کے بادشاہ بنائے گئے۔ آپ کے دور حکومت میں سمنان عدل و انصاف اور علم و فن کا مرکز بن گیا۔ آپ کا دل امور سلطنت سے اچاٹ ہونے لگا اور راہ سلوک و معرفت کی طرف طبیعت مائل رہنے لگی۔ شیخ رکن الدین علاء الدین سمنانی متوفی 736ھ شیخ عبد الرزاق کاشی، امام عبد اللہ یافعی، سید علی ہمدانی، شیخ عمادالدین تبریزی اور دیگر اکابر صوفیا و علما سے علوم شریعت و طریقت سے بہرہ مند ہوئے۔

ہندوستان آمد

25 سال کی عمر میں اشارہ غیبی پر سمنان چھوڑ کر سلطنت اپنے چھوٹے بھائی سید محمد اعرف کے سپرد کرکے ہندوستان کی طرف روانہ ہوئے۔ ہندوستان کے مشہورقدیم ہندی وفارسی ادیب ملک محمد جائسی کا قول ہے :’’ امت محمدیہ کے صدقین میں دو شخص ترک سلطنت کے لحاظ سے تمام اولیاء پر فضیلت رکھتے ہیں۔ ایک سلطان التارکین خواجہ ابراہیم بن ادہم،دوم سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی رحمۃ سمنانی رحمۃ اللہ علیہما ۔[4]

حصول تصوف

مخدوم سمنانی سمنان سے نکل کر سمرقند کے راستے ملتان میں اوچ شریف پہنچے۔ یہ مقام اس وقت مخدوم جہانیاں جہاں گشت سید جلال الدین بخاری متوفی 780ھ کی وجہ سے رشد و ہدایت کا مرکز تھا مخدوم جہاں کی خانقاہ میں تین روز تک مہمان رہے۔ مخدوم سمنانی کا بیان ہے کہ مخدوم جہاں نے آپ کو اکابر مشائخ سے حاصل ہونے والے تمام روحانی فیوض وبرکات اور سلسلہ قادریہ کی اجازت و خلافت سے نوازدیاوقت رخصت مخدوم جہاں نے فرمایا : فرزند اشرف جلدی کرو اور دربار شیخ علاء الحق میں حاضر ہوجاؤ وہ شدت سے تمہارا انتظار کر رہے ہیں۔[5] مخدوم سمنانی دہلی ہوتے ہوئے بہار شریف، پھر وہاں سے بنگال پہنچے۔ صوبہ بنگال میں ضلع مالدہ میں مقام پنڈوہ شریف کا مرکز شیخ علاء الحق والدین لاہور رشد و ہدایت بنا ہوا تھا۔ شیخ علاء الحق پنڈوی نے شاہانہ انداز میں مخدوم سمنانی کا استقبال کیا شیخ نے سلسلہ چشتیہ نظامیہ میں مرید فرمایا اور دیگر سلاسل کی اجازت و خلافت سے نوازا۔ مخدوم سمنانی شیخ کی خدمت میں 12 سال رہ کر کثیر مجاہدات و ریاضیات کے ذریعہ منازل سلوک و معرفت کی تکمیل فرمائی۔ 832ھ تکمیل سلوک کے بعد اپنے شیخ کے حکم سے مخدوم سمنانی رشد وہدایت کے لیے بنگال سے اور، شیراز ہند ،جونپوراور بنارس کے راستے سے ہندؤوں کے مقدس مقام اجودھیا کے قریب مقام کچھوچھہ (جواس وقت یوپی کے ضلع جونپور میں تھا اور اب ضلع امبیڈکرنگر میں ہے ) پہنچے اور کچھوچھہ شریف میں اپنی خانقاہ قائم کی -

اردو کے پہلے مصنف

مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی صرف عربی اور فارسی پر ہی عبور نہیں رکھتے تھے بلکہ اردو زبان کے پہلے ادیب بھی مانے جاتے ہیں۔ چنانچہ جامعہ کراچی کے شعبہ اردو کے سابق سربراہ ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی نے اپنی تحقیق میں دریافت کیا ہے کہ آپ کا ایک رسالہ اردو نثر میں ’’ اخلاق و تصوف‘‘ بھی تھا۔ پروفیسر حامد حسن قادری کی تحقیق بھی یہی ہے کہ اردو میں سب سے پہلی نثری تصنیف سید اشرف جہانگیر سمنانی کا رسالہ ’’اخلاق و تصوف‘‘ ہے جو 758ھ مطابق 1308 ء میں تصنیف کیا گیا یہ قلمی نسخہ ایک بزرگ مولانا وجہہ الدین کے ارشادات پر مشتمل ہے اور اس کے 28 صفحات ہیں قادری صاحب نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ مذکورہ رسالہ اردو نثر ہی نہیں بلکہ اردو زبان کی پہلی کتاب ہے۔ اردو نثر میں اس سے پہلے کوئی کتاب ثابت نہیں پس محققین کی تحقیق سے ثابت ہوا کہ سید اشرف جہانگیر سمنانی اردو نثر نگاری کے پہلے ادیب و مصنف ہیں -

تصنیفات

آپ نے 31تصنیف فرمائیں جو مرور ایام کے ساتھ ساتھ وہ ناپید ہو گئیں، لیکن اب بھی 10کتابیں ایسی ہیں جو صحیح حالت میں ہیں۔ اور عالم اسلام کی مختلف جامعات میں محفوظ ییں اکثر کتابیں فارسی میں تھیں بعد میں آپ نے ان کا عربی میں ترجمہ کیا

  • فوائد العقائد یہ کتاب فارسی میں تھی بعد میں اس کا عربی میں ترجمہ کیا گیا۔ آپ کے خلیفہ و جانشین حضرت سید عبد الرزاق نورالعین فرماتے ہیں کہ جب آپ عرب میں تشریف لے گئے تو بدوؤں نے تصوف کے مسائل جاننے کی خواہش کی تو آپ نے فوائد العقائد کا عربی زبان میں ترجمہ کیا
  • لطائف اشرفی کو بڑی اہمیت حاصل ہے یہ کتاب فارسی میں ہے اور اس میں آپ نے تصوف کے بڑے اہم اسرار و رموز بیان فرمائے ہیں طریقت کے تمام سلاسل کے بزرگوں نے اس سے استفادہ کیا ہے یہ کتاب دیگر جامعات کے علاوہ جامعہ کراچی کی لائبریری میں بھی محفوظ ہے اور اس کا اردو میں ترجمہ ہو چکا ہے ۔
  • مکتوبات اشرفی
  • بشارت المریدین

وفات

آپ نے 28محرم الحرام 828ھ کو داعئ اجل کو لبیک کہا [1]

مزار اور عرس

آپ کا مزار کچھوچھہ، ضلع امبیڈکر نگر، صوبہ اترپردیش، بھارت میں ہے۔ اُن کا عرس اسلامی ماہ محرم کی 28 تاریخ کو ہوتا ہے۔

حوالہ جات

  1. حیات مخدوم سید اشرف جہانگیر سمنانی ازسید وحید اشرف، ISBN 978-93-85295-54-6،مکتبہ جامعہ لیمیٹد، شمشاد مارکٹ، علیگڈھ، انڈیا
  2. HAYATE MAKHDOOM SYED ASHRAF JAHANGIR SEMNANI (2nd Ed.)، 2017
  3. http://www.shamstimes.com/articles/life-of-makhdoom-:2649]]
  4. (صحائف اشرفی 113
  5. لطائف اشرفی ج2ص94 ،خزینۃ الاصفیان ج2ص57
This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.