ابو الحسین النوری
ابو الحسین النوری یا ابو الحسن النوری کا شمار معروف اور بزرگ صوفیا کرام میں ہوتا ہے۔ آپ کا آبائی وطن افغانستان ہے، جہاں سے بعد میں آپ کے والد گرامی ہجرت فرما کر بغداد تشریف لائے اور آپ کی ولادت باسعادت ہوئی۔ آپ سلسلہ نوریہ کے بانی بھی ہیں۔ مشائخ و صوفیہ آپ کو امیر القلوب کے لقب سے یاد کیا کرتے تھے۔
| ||||
---|---|---|---|---|
معلومات شخصیت | ||||
پیدائش | سنہ 840 بغداد | |||
وفات | سنہ 907 (66–67 سال) بغداد | |||
رہائش | بغداد میں | |||
شہریت | ![]() | |||
مذہب | اہل سنت و الجماعت | |||
عملی زندگی | ||||
دور | ؟؟ - 295ھ | |||
مادر علمی | سری سقطی | |||
پیشہ ورانہ زبان | عربی | |||
مؤثر | سری سقطی احمد بن ابی حواری | |||
متاثر | ابن الفرغانی ابو بکر بن ابی سعدان | |||
وجہ تسمیہ
آپ کو نوری اس لیے کہا جاتا ہے کہ آپ جب بھی رات کی تاریکی میں گفتگو فرماتے تو منہ سے نور (روشنی) کی کرنیں ظاہر ہوتیں، جن سے اس پاس کا سارا ماحول روشن ہو جاتا تھا۔ آپ نور کرامت سے لوگوں کے دلوں کے حالات معلوم کرلیتے، لوگ آپ کی زیارت کو جاتے تو آپ کی جائے مقام سے نور کی شعاعیں دیکھتے جو آسمان کو چھوتیں۔ اندھیری رات میں آسانی کےساتھ اس مقام پر پہنچ جاتے تھے۔
نام و نسب
آپ کا نام احمد اور آپ کی کنیت ابوالحسین ہے اور آپ کا لقب نوری ہے۔ مکمل نام اس طرح ہے شیخ احمد بن محمد بن الفتوری
تحصیل علم
آپ کی ولادت بغداد میں ہوئی۔بغداد اس وقت علم وفن کا اور اسلامی علوم کا گہوارہ تھا۔ جید علما و محدثین و مفسرین اور صوفیا موجود تھے۔ اسی علم و فن کے مرکز میں آنکھ کھولی۔ مختلف شیوخ سے علمی و روحانی استفادہ کیا۔ آپ کا شمار وقت کے جید علما صوفیا میں ہوتا تھا۔
بیعت و خلافت
آپ شیخ سری سقطی کے مرید وخلیفہ تھے۔ اسی طرح جنید بغدادی کے رفیق خاص تھے۔ شیخ احمد بن ابو حواری سے بھی ملاقات ہوئی۔ ان کے علاوہ بہت سے مشائخ سے ملے۔
سیرت و خصائص
آپ کا شمار کبار اولیاء کرام اور صوفیا عظام میں ہوتا ہے۔ مشائخ و صوفیہ آپ کو "امیر القلوب" کے لقب سے یاد کیا کرتے تھے۔ بعض صوفیا آپ کو "قمر الصوفیاء" اور "طاؤس العباد" کے نام سے پکارتے تھے ۔ آپ نے سری سقطی سے خرقہ خلافت پایا تھا اور شیخ احمد حواری کی مجالس سے بھی استفادہ کیا، آپ جنید بغدادی کے معاصر تھے خود مجتہد صاحب مذہب امام طریقت اور سلسلہ نوریہ کے بانی تھے۔
اولیاء کی کتب میں ذکر
فرید الدین عطار نے تذکرہ اولیاء میں، سید علی ہجویری داتا گنج بخش نے کشف المحجوب میں، رسالہ قشیریہ میں ابو القاسم عبد الکریم بن ہوازن قشیری نے اور عبد الوہاب الشعرانی نے طبقات شعرانی میں آپ کو ہدیۂ تحسین پیش کیا ہے۔
وصال
آپ کا وصال 24 شوال 295ھ بمطابق 908ء کو بغداد میں ہوا۔ آپ کے وصال پر جنید بغدادی نے فرمایا: "نوری کے انتقال سے آدھا علم جاتا رہا"۔
حوالہ جات
- صوفی انسائیکلوپیڈیا
- فیضان صوفیا
- نفحات الانس:94
- طبقات الصوفیاء، رسالہ قشیریہ، اے۔ ایچ حبیبی، قاہرہ 1913ء