شاہ جہاں

شہاب الدین محمد شاہ جہاں اول  یا مرزا شہاب الدین بیگ محمد خان خرم (پیدائش: 5 جنوری 1592ء— وفات: 22 جنوری 1666ء) سلطنت مغلیہ کا پانچواں شہنشاہ تھا جس نے 1628ء سے 1658ء تک حکومت کی۔ شاہ جہاں کا عہد مغلیہ سلطنت کے عروج کا دَور تھا اور اِس دور کو عہدِ زریں بھی کہا جاتا ہے۔ 1658ء میں شاہ جہاں کو اُس کے بیٹے اورنگزیب عالمگیر نے معزول کر دیا۔ شاہ جہاں کی تعمیرات سے دِلچسپی اور اُس کے عہد میں تعمیر ہونے والے تعمیری شاہکار آج بھی قائم ہیں۔ اُسے مغلیہ سلطنت کا عظیم ترین معمار شہنشاہ یا انجنئیر شہنشاہ بھی کہا جاتا ہے۔ شاہ جہاں کی وجہ شہرت تاج محل اور ممتاز محل سے اُس کی محبت کی داستانیں ہیں۔

شہنشاہ جہانگیر شاہ جہاں کے جشن تلادان پر اُسے ترازو میں تولتے ہوئے۔ (1610ء)


شاہ جہاں
 

معلومات شخصیت
پیدائش 5 جنوری 1592 [1] 
قلعۂ لاہور ، اندرون لاہور ، لاہور ، مغلیہ سلطنت  
وفات 22 جنوری 1666 (74 سال)[2][1] 
قلعہ آگرہ ، آگرہ  
مدفن تاج محل ، آگرہ  
شہریت مغلیہ سلطنت [3] 
زوجہ ممتاز محل (30 اپریل 1612–17 جون 1631)
عزالنساء بیگم (2 ستمبر 1617–22 جنوری 1666)
قندھاری بیگم (12 دسمبر 1609–) 
اولاد پرہیز بانو بیگم ، جہاں آرا بیگم ، دارا شکوہ ، شاہ شجاع ، روشن آرا بیگم (شاہزادی) ، اورنگزیب عالمگیر ، مراد بخش ، گوہر آراء بیگم  
والد نورالدین جہانگیر  
والدہ جگت گوسائیں  
بہن/بھائی
خسرو مرزا ، پرویز مرزا ، شہریار مرزا ، بہار بانو بیگم  
خاندان تیموری خاندان  
مناصب
مغل بادشاہ  
دفتر میں
19 جنوری 1628  – 31 جولا‎ئی 1658 
نورالدین جہانگیر  
اورنگزیب عالمگیر  
دیگر معلومات
پیشہ بادشاہ [4] 

ابتدائی زندگی

شاہ جہاں۔ (1630ء)

نام و شجرہ نسب

شاہ جہاں کا اصل نام خرم جبکہ کنیت ابو المظفر ہے۔ لقب اعلیٰ حضرت صاحبِ قرآنِ ثانی ہے۔ مورخین نے اِختصار سے کام لیتے ہوئے یہ نام تاریخ میں لکھا ہے: اعلیٰ حضرت صاحب قرآنِ ثانی ابو المظفر شہاب الدین محمد خرم شاہجہاں اول۔ مکمل نام مع القابات یوں ہے: شاہنشاہ السلطان الاعظم والخاقان المکرم ملک السلطنت اعلیٰ حضرت ابو المظفر شہاب الدین محمد شاہ جہاں اول صاحب قرآنِ ثانی پادشاہ غازی ظل اللہ فردوسِ آشیانی شہنشاہِ سلطنت الہِندیۃ والمُغلیۃ۔ شاہ جہاں کے والد جہانگیر تھے، دادا اکبراعظم اور پردادا ہمایوں تھے جبکہ سکردادا بابر تھے۔نسب یوں ہے: شہاب الدین محمد شاہ جہاں ابن نور الدین جہانگیر ابن جلال الدین محمد اکبر بادشاہ ابن نصیر الدین محمد ہمایوں بادشاہ ابن ظہیر الدین محمد بابر۔

والدین

شاہ جہاں کے والد مغل شہنشاہ جہانگیر اور والدہ جگت گوسائیں تھی۔جگت گوسائیں راجہ ادھے سنگھ کی بیٹی تھی جس سے جہانگیر نے 26 جون 1586ء کو شادی کی تھی۔[5]

حلیہ و مشابہت

شاہ جہاں کا قد میانہ تھا اور رنگ گندمی تھا۔ اُس کی پیشانی کشادہ، بھویں اُبھری ہوئی، ناک کسی قدر جھکی ہوئی لیکن ستواں، آنکھیں چمکدار اور بھورے رنگ کی لیکن پتلیاں سیاہ تھیں۔ آواز شیریں تھیں، فصاحت کے ساتھ فارسی زبان بولنے پر اُس کو قدرت حاصل تھی۔ باپ داد کے برعکس اُس کی داڑھی متشرع مسلمانوں کی داڑھی جیسی دراز تھی۔ ہاتھ نہ تو بہت دراز تھے اور نہ بہت چھوٹے۔ دست راست کی چار اُنگلیوں پر تل تھے جو نیک فال کی علامت سمجھے جاتے تھے۔ اِس لحاظ سے وہ شاہانہ اقتدار کے لیے موزوں سمجھا جاتا تھا۔[6]

ولادت

شاہ جہاں تین شاہزادوں دارا شکوہ، شاہ شجاع، اورنگزیب اور ابوالحسن آصف خان کے ہمرا۔ (1628ء)

شاہ جہاں کی ولادت بروز بدھ 30 ربیع الاول 1000ھ مطابق 5 جنوری 1592ء کو دار السلطنت لاہور میں ہوئی۔[7] شاہ جہاں کی ولادت اُن کے دادا اکبر اعظم کی حکومت کے 36 ویں سال میں ہوئی۔ اُس وقت لاہور مغل سلطنت کا دار السلطنت تھا اور مغل شہنشاہ اکبر اعظم 1586ء سے مع مغل شاہی خاندان کے یہیں مقیم تھا۔ پیدائش کے چھٹے روز جہانگیر نے اپنے والد جلال الدین اکبر کو مدعو کیا تاکہ وہ نوزائیدہ بچے کا نام تجویز کریں۔ شہنشاہ اکبر نے نوزائدہ بچے کا نام خرم رکھا اور رقیہ سلطان بیگم کے حوالے کر دیا گیا کہ وہ اِس کی تربیت کرسکیں۔ شاہ جہاں ابتدائی ایام سے ہوش سنبھالنے تک اور ہوش سنبھالنے کے بعد تین سال تک رقیہ سلطان بیگم کے زیرسایہ پروان چڑھتا رہا۔[8]

تعلیم

شاہ جہاں اور مغل شاہزادہ دارا شکوہ۔ (جولائی 1638ء)
شاہ جہاں۔ (غالباً 1656ء)

شاہ جہاں کی عمر جب چار سال چاہ ماہ چار یوم ہوئی تو اُسے مکتب بٹھایا گیا اور اِس خوشی میں غالباً مروجہ شان و شوکت کے مطابق جشن منایا گیا۔ شاہ جہاں کے پہلے اُستاد ملا قاسم بیگ تبریزی تھے جو مرزا جان تبریزی کے شاگرد تھے۔ اِن کے علاوہ ممتاز عالم دین اور علوم عقلی کے ماہر اور صوفی منش انسان بھی تھے۔ مرزا قاسم بیگ تبریزی کے بعد شاہ جہاں کے اتالیق حکیم علی گیلانی مقرر ہوئے جو مشہور طبیب اور گراں قدر خوبیوں کے حامل تھے۔ حکیم علی گیلانی علم طبابت میں اپنے ماموں حکیم الملک شیرازی اور اُن کے بعد شاہ فتح اللہ گیلانی کے شاگرد تھے۔ علوم دینیہ میں وہ شیخ عبدالنبی کے شاگرد تھے۔شاہ جہاں کو دِیگر اُساتذہ کی بجائے زیادہ سروکار حکیم علی گیلانی سے رہا۔ علاوہ ازیں شاہ جہاں کے دِیگر اُساتذہ میں شیخ صوفی بھی شامل تھے جو میاں وجیہ الدین گجراتی کے شاگرد تھے۔ یہ خوش مذاق شاعر اور شگفتہ مزاج شخصیت تھے۔ شیخ ابوالخیر اور شیخ ابوالفضل بھی متوازن مزاج شخصیات تھیں کہ جن سے شاہ جہاں کو علم حاصل ہوا۔ شاہ جہاں اپنے والد نورالدین جہانگیر کی نسبت مفکرانہ ذہنیت کا مالک نہ تھا بلکہ وہ عملی ذہن کا حامل تھا۔ فارسی زبان بہت جلد سیکھ لی اور اِس کے اِظہارِ بیان پر قدرت حاصل کی۔ ترکی زبان شاید اُسے پسند نہ تھی جس کے سیکھنے کی طرف وہ مائل نہ ہوا۔ ترکی زبان سے بیگانگی کی شکایت ایک بار اُس نے رقیہ سلطان بیگم سے بھی کی تھی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اُسے ترکی زبان کے سیکھنے سے کوئی شغف نہ تھا۔ شہنشاہ اکبر نے ایک بار اُسے ترکی زبان سکھانے کی کوشش کی تھی کہ تاتار خان کو اُس کا ترکی زبان کے لیے استاد مقرر کیا مگر یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اُس نے شاہ جہاں میں اِس زبان کے لیے کوئی شوق پیدا کیا یہ نہیں۔ البتہ شاہ جہاں کے حوالے سے کہا جاسکتا ہے کہ وہ کند ذہن لڑکا نہ تھا بلکہ اُس کا ذہن تیز اور حافظہ غیر معمولی تھا۔ تفصیل پسندی اور اُس پر عبور حاصل کرنے کی اُس میں خاص صلاحیت تھی جو مرتے دم تک اُس کے ساتھ رہی۔[9]

جسمانی و آہنی تربیت

شہنشاہ اکبر نے شاہ جہاں کی مکتب کی تعلیم کے ساتھ اُس کی جسمانی تربیت کا بھی خیال رکھا۔ 1587ء میں جب شہنشاہ اکبر آخری بار کشمیر جا رہا تھا تو شاہ جہاں کو لاہور میں میر مراد جوانیسی کی زیرنگرانی چھوڑ گیا اور میر مراد کے ذمے یہ حکم لگایا تھا وہ شاہزادے کو تیراندازی سکھائے اور تعلیم قور کی روزانہ مشق کروائے۔ بعد ازاں شاہ جہاں دادا شہنشاہ اکبر کے ساتھ جب دکن گیا تو بندوق چلانا سیکھی اور بندوق کی مشق راجا سلیوان کے ذمے رہی۔ دکن میں اُس نے سواری و تیغ زنی کی مشقیں بھی کیں اور روزانہ ورزش اُس کا معمول بن گئی ۔ فن عروض و خطابت جیسے خشک موضوعات کے مقابلے میں اُس کو اُن فنون میں دلچسپی رہی کہ اپنے والد کی طرح وہ تیر کمان اور بندوق کے استعمال کا ماہر ہوا۔[10]

خسرو کی بغاوت

27 اکتوبر 1605ء کو شہنشاہ اکبر نے وفات پائی اور اِس کے ایک ہفتے بعد نورالدین جہانگیر بحیثیت مغل شہنشاہ کے 3 نومبر 1605ء کو تخت نشین ہوا۔ اِس تخت نشینی کے ساتھ ہی خسرو مرزا کی بغاوت شروع ہو گئی جو حکومت کے ساتھ ہلچل کرتی گئی۔ خسرو 6 اپریل 1606ء کی شام کو آگرہ سے بہانہ کرکے نکل گیا کہ وہ شہنشاہ اکبر کی قبر پر جا رہا ہے لیکن وہ پنجاب کی طرف بڑھا اور راستے میں اُس کو حسین بیگ بدخشی اور عبدالرحمٰن مل گئے۔ خسرو کے فرار سے جہانگیر پریشان ہوا اور شیخ فرید بخاری کو حکم دیا کہ باغی خسرو کا پیچھا کرے۔ اُس نے فیصلہ کیا کہ وہ خود بھی اِس مہم کے لیے فوراً روانہ ہو لیکن آگرہ دار السلطنت تھا اور اِس کا انتظام بھی ضروری تھا، اِس لیے جہانگیر نے ایک مجلس وزارت تشکیل دی اور اِس مجلس وزارت میں شیخ علاء الدین (جو شیخ سلیم چشتی کے پوتے تھے)، مرزا غیاث بیگ تہرانی، دوست محمد خواجہ جہاں اور راجا راؤ سنگھ بھرتبا شامل تھے۔ شاہ جہاں کو اِس مجلس کا صدر بنایا گیا۔ یہ شاہ جہاں کے لیے عوامی رابطے کا پہلا موقع تھا۔ سوہدرہ کے مقام سےخسرو کی جلد گرفتاری کے ساتھ بغاوت دم توڑ گئی اور 1607ء میں خسرو کو آگرہ کے قلعے میں اندھا کرکے قید کر دیا گیا۔ 1616ء سے 1620ء تک وہ ابوالحسن آصف خان کی تحویل میں رہا۔ 1620ء میں وہ شاہ جہاں کی تحویل میں دے دیا گیا اور 26 جنوری 1622ء کو شاہ جہاں کے حکم پر خسرو کو دکن میں قتل کر دیا گیا۔[11]

ملکہ نورجہاں

ملکہ نورجہاں شہنشاہ جہانگیر کی چہیتی ملکہ تھی۔ جہانگیر نے اُس سے 25 مئی 1611ء کو نکاح کر لیا اور وہ شہنشاہ جہانگیر کی قانونی بیوی تسلیم کی گئی اور بعد ازاں کارہائے حکومت میں مشیر بھی ثابت ہوئی۔ ملکہ نورجہاں ممتاز محل کی پھوپھی اور ابوالحسن آصف خان کی بہن تھی۔

ازدواج

جنوری 1610ء میں شہنشاہ جہانگیر نے شاہ جہاں کی نسبت مرزا مظفر حسین صفوی خانوادۂ شاہ اسماعیل (ایران) کی لڑکی قندھاری بیگم سے کردی تھی حالانکہ اِس سے قبل شاہ جہاں کی نسبت ارجمند بانو بیگم سے ہوچکی تھی۔ قندھاری بیگم بعد میں محل میں موجود رہی اور شاہ جہاں نے اُسے اپنی بیوی کی حیثیت سے اپنائے رکھا۔ یہ معاملہ مؤرخین کے لیے زیادہ مشکوک نظرآتا ہے۔ قندھاری بیگم سے شادی مزید ایک سال مؤخر کردی گئی اور بعد ازاں ارجمند بانو بیگم سے شادی کردی گئی۔[12] 30 جنوری 1607ء کو شاہ جہاں کی نسبت ابوالحسن آصف خان کی بیٹی ارجمند بانو بیگم سے ہوچکی تھی جسے بعد ازاں ممتاز محل کے نام سے پکارا گیا۔ اُس وقت شاہ جہاں کی عمر محض پندرہ سال تھی۔ اِس نسبت کے پانچ سال بعد 30 اپریل 1612ء کو آگرہ میں رخصتی عمل میں آئی۔ یہ عقد انتہائی کامیاب ترین رہا اور تاریخ میں ایک مثالی جوڑے کے نام سے یاد کیا گیا۔[13] یہ عقد 19 سال قائم رہا اور ممتاز محل شاہ جہاں کی چہیتی بیوی کے طور پر اپنی حیثیت قائم رکھنے میں برقرا رہی۔ گوہر آراء بیگم کی پیدائش کے کچھ ہی گھنٹوں بعد 17 جون 1631ء کو ممتاز محل اِس دنیا سے رخصت ہو گئی۔ ممتاز محل کو اولاً برہانپور میں امانتاً سپردِ خاک کیا گیا اور بعد ازاں تاج محل کی تعمیر مکمل ہوجانے کے بعد اُس کی قبرکشائی کرکے اُسے تاج محل میں دفن کیا گیا۔ 23 اگست 1617ء کو شاہ جہاں نے تیسری شادی عبد الرحیم خان خاناں کی بیٹی سے کی جو دکن میں سر انجام پائی۔ یہ شادی مصلحتاً سیاسی تھی۔

عسکری کمان

شاہ جہاں برہانپور میں شیروں کا شکار کرتے ہوئے۔ (جولائی 1630ء)

خسرو کی بغاوت ختم کرکے جہانگیر نے لاہور میں قیام کیا۔ قیامِ لاہور کے دوران ہی شاہ جہاں کو 21 مارچ 1607ء کو پہلا فوجی منصب یعنی ہشت ہزاری ذات اور پنج ہزاری سوار مع طومان، تغ و طبل و علم تفویض ہوئے۔ نومبر 1607ء میں شاہ جہاں کو اجین کی جاگیر اور حصار فیروزہ کی سرکار تفویض ہوئی۔ اِس کے علاوہ شہنشاہ جہانگیر کی طرف سے شاہزادے کو یہ اجازت دِی گئی کہ وہ سرخ خیمہ نصب کرسکتا ہے (یہ اجازت خصوصاً عنایت خاص کے اعتبار سے سب سے بڑے شاہزادے کو دی جاتی تھی)۔ اِس اعزازات کے علاوہ مزید یہ کہ ایک شاہی مہر اُس کے سپرد کردی گئی اور حکم دِیا گیا کہ جملہ فرامین اور پروانوں پر اُس کی مہر ضرور ثبت ہونی چاہیے[14]۔ 27 مارچ 1612ء کو ملکہ نورجہاں کے مشورے پر شہنشاہ جہانگیر نے شاہ جہاں کو بارہ ہزار ذات اور پانچ ہزار سوار کا منصب عطاء کیا۔[15]

گورنری

چتوڑ کی مہم

1568ء میں شہنشاہ اکبر نے میواڑ کے دار الحکومت چتوڑگڑھ کو فتح کر لیا تھا اور چتوڑ واحد ایسی ریاست تھی جس نے دیر تک مغلوں کا مقابلہ کیا۔

عہد حکومت اور واقعات حکومت

28 اکتوبر 1627ء کو مغل شہنشاہ نورالدین جہانگیر نے راجوری کے مقام پر وفات پائی۔ جہانگیر کی وفات کے وقت شاہ جہاں جُنَّار (یا جُنَّیر) کے مقام پر تھا۔ جہانگیر کی وفات کے بعد شاہ جہاں کے خسر ابوالحسن آصف خان نے اُس کے دوسرے بھائی خسرو مرزا کے بیٹے داور بخش کو تخت پر بطور مغل شہنشاہ کے بٹھا دِیا۔ یہ مسند داور بخش کے لیے عارضی ثابت ہوئی اور جب خاندان کے دوسرے شاہزادے یعنی دانیال مرزا کے بیٹے ہوشنگ مرزا، طہماسپ اور طہمورث شاہ جہاں کے زیرعتاب آئے تو ابوالحسن آصف خان نے داور بخش کو ایران فرار ہوجانے کا موقع دے دیا لیکن یہ موقع اُس کے لیے پائیدار ثابت نہ ہو سکا اور اسی دوران لاہور میں 30 دسمبر 1627ء کو شاہ جہاں کو مغل شہنشاہ تسلیم کر لیا گیا اور 23 جنوری 1628ء کو شاہ جہاں کے حکم پر لاہور میں چاروں شہزادوں کو قتل کر دیا گیا۔[16][17][18]

1628ء1633ء

شاہ جہاں اپنی تیس سالہ حکومت کے دوران اندازہً نصف مدت تک دار السلطنت کے باہر رہا۔ اِس موقع پر اُس کے نجی معاملات کا مختصر سا بیان باعث دلچسپی ہے کہ تخت نشینی کے سال کے اندر ہی اُسے آگرہ چھوڑ کر گوالیار جانا پڑا تاکہ وہ جھجھار سنگھ کی سرکوبی کرسکے۔ جھجھار سنگھ نے اطاعت قبول کرلی اور شاہ جہاں کو ایک مہینے سے کچھ زائد کی مدت کی غیر حاضری کے بعد آگرہ واپس آنا پڑا۔ دسمبر 1629ء میں اُسے دوبارہ آگرہ چھوڑ کرجانا پڑا جس کی وجہ یہ تھی کہ وہ خان جہاں لودھی کو دکن بھاگ جانے پر سزا دے سکے۔ شاہ جہاں رنتھنبور کے راستے سے چاندا سے ہوتا ہوا مالوہ سے یکم مارچ 1630ء کو برہانپور پہنچا اور یہاں دو سال تک مقیم رہا۔ برہانپور میں قیام کے دوران ہی ممتاز محل کا انتقال ہوا۔ 6 مارچ 1632ء کو شاہ جہاں برہانپور سے روانہ ہوکر ماہِ جون 1632ء میں واپس آگرہ پہنچا اور یہاں مزید دو سال تک مقیم رہا۔ 1632ء کے آخری مہینوں میں شاہ جہاں نے بڑے فرزند دارا شکوہ کی شادی کی تقاریب منعقد کیں اور یہ شادی 25 جنوری 1633ء کو طے پائی۔ یکم فروری 1633ء کو تقاریب عروسی منعقد ہوئیں اور شاہ جہاں ممتاز محل کے انتقال کے بعد سے جاری ایامِ سوگ ترک کرکے زندگی نغمہ سنج میں واپس آگیا۔ دارا شکوہ کی شادی کے فوراً بعد ہی 23 فروری 1633ء کو شاہ شجاع کی شادی بھی کردی گئی۔[19]

دکن میں قحط

1630ء سے 1632ء کے وسطی عرصے میں دکن میں قحط پڑا۔ گجرات، خاندیش میں فصلیں تباہ ہوگئیں جس سے دو لاکھ کے قریب افراد قلت خوراک کے باعث جاں بحق ہوئے۔ شاہ جہاں نے ہنگامی بنیاد پر لنگرخانے تشکیل دیے تاکہ دکن کی آبادی پر تیزی سے قحط پر قابو پایا جاسکے۔[20]

1632ء1640ء تک کے واقعات

1632ء سے 1636ء تک احمد نگر سلطنت کے متعلق مہمات جاری رہیں۔ 1632ء میں شاہ جہاں نے دولت آباد کا قلعہ تسخیر کر لیا جس سے احمد نگر سلطنت کے آخری حکمران مرتضیٰ نظام شاہ سوم کو قید کروا دیا۔ 1635ء میں گولکنڈہ اور 1636ء میں بیجاپور بھی شاہ جہاں کے قبضہ اقتدار میں آگئے۔ شاہ جہاں نے شاہزادہ اورنگزیب کو دکن کے علاقوں دولت آباد، صوبہ برار، تلنگانہ، خاندیش پر بطور نائب السلطنت کے مقرر کر دیا۔ بعد ازاں شاہزادہ اورنگزیب نے 1656ء میں گولکنڈہ اور 1657ء میں بیجاپور تسخیر کرلیے۔[21] 1636ءسے 1657ء کے وسطی عرصے میں دکن کی باقی ماندہ تین سلطنتوں مغلیہ سلطنت میں شامل ہوگئیں۔ 1636ء میں احمد نگر سلطنت ختم ہو گئی اور باقی ماندہ دو سلطنتوں یعنی بیجاپور سلطنت اور گولکنڈہ کی قطب شاہی سلطنت کو شاہزادہ اورنگزیب نے مجبور کر دیا کہ وہ مغلیہ سلطنت کے شاہی اقتدار کو تسلیم کریں اور باجگزار ہوجائیں۔ [22]

ہُگلی کی بندرگاہ پر مغل تسلط

جون 1631ءسے اکتوبر 1632ء تک چار مہینوں کے محاصرے کے بعد پرتگالیوں سے دریائے ہُگلِی کی بندرگاہ چھین لی گئی جن پر اُن کا مدتِ دراز سے قبضہ چلا آ رہا تھا۔ مغل صوبیدار قاسم خان جوینی کی قیادت میں ایک مہم ہُگلِی بندرگاہ کو پرتگالیوں کے قبضے سے چھڑوانے کے لیے بھیجی گئی۔ قاسم خان جوینی کی اِس مہم پر پرتگالی جنگ پر آمادہ ہو گئے اور میدانِ کارزار میں 10,000 پرتگالی قتل ہوئے۔ 25 ستمبر 1632ء کو ہُگلی پر مغل سلطنت کا پر تسلط قائم ہو گیا۔[23]

1633ء سے 1635ء تک کے واقعات

1633ء میں شاہ جہاں پہلی بار علیل ہوا مگر تین دِن کی علالت کے بعد صحت یاب ہو گیا۔ ماہِ جنوری 1634ء میں آگرہ سے کشمیر کی سیر کو روانگی ہوئی۔ راستے میں دارا شکوہ بیمار ہو گیا اور خاندانی طبیب حکیم شیخ علیم الدین انصاری المشہور بہ وزیر خان کو علاج کے لیے طلب کر لیا گیا۔ لاہور میں مختصر قیام کے بعد شاہ جہاں نے دوبارہ سفر کشمیر جاری رکھا اور 5 جون 1634ء کو وہ کشمیر پہنچا۔ ماہِ ستمبر 1634ء کے پہلے ہفتے میں وہ کشمیر کو خیرباد کہہ کر لاہور کے لیے روانہ ہوا اور 16 نومبر 1634ء کو لاہور پہنچ گیا۔ لاہور میں قیام 2 مہینے رہا اور یہاں سے دار السلطنت آگرہ کے لیے روانہ ہوا۔ دہلی میں چند دِن قیام کرکے 12 مارچ 1635ء کو آگرہ پہنچا۔[24]

دکن کا سفر اور 1636ء تک کے واقعات

شاہ جہاں جب سفر کشمیر اور لاہور میں مقیم تھا تو شہنشاہ کی عدم موجودگی کا فائدہ اُٹھا کر جھجھار سنگھ کو جاہ طلبی کا اِرادہ ہوا۔ دکن کی غیر اطمینانی صورت حال اور جھجھار سنگھ کی دوبارہ بغاوت سے مجبور ہوکر شاہ جہاں کو ماہِ ستمبر 1635ء کے اواخر میں آگرہ چھوڑنا پڑا۔ باری دوآب پہنچ کر شاہ جہاں نے راستہ تبدیل کر لیا اور بندیل کھنڈ پہنچ گیا اور جنوری 1636ء کے ابتدائی دِنوں میں اُس نے دریائے نربدا پار کیا اور سیدھا دولت آباد کی طرف کوچ کیا۔ چھ مہینوں کی شدید مشقت کے بعد صوبہ احمد نگر میں اَمن و اَمان قائم کرنے اور بیجاپور اور گولکنڈہ کی قطب شاہی سلطنت سے خاطرخواہ صلح کرنے میں کامیاب ہوا۔ جولائی 1636ء کے اوائل میں شاہ جہاں دکن سے روانہ ہوا اور اجین اور مانڈو سے ہوتے ہوئے 25 نومبر 1636ء کو اجمیر پہنچا اور ایک ہفتے کے قیام کے بعد وہ 5 جنوری 1637ء کو آگرہ پہنچا۔[25]

1637ء کے واقعات

مارچ 1637ء میں شاہ جہاں بیمار ہوا اور 29 دِن کی علالت کے بعد صحت یابی ہوئی۔ اپریل 1637ء میں شاہزادہ اورنگزیب کی شادی منعقد کی گئی۔ یہ شادی 8 مئی 1637ء کو سر انجام پائی۔[26]

1638ء سے 1643ء تک کے واقعات

ماہِ فروری 1638ء میں صفوی حاکم قندھار علی مردان خان نے قندھار مغل افسروں کے سپرد کر دیا۔ قندھار جہانگیر کے زمانہ حکومت میں مغل سلطنت کے ہاتھوں سے نکل کر صفوی سلطنت کا حصہ بن گیا تھا۔ علی مردان خان کی سپردگیٔ قندھار کے بعد آئندہ کے 15 سال تک شاہ جہاں کی توجہ شمال مغربی سرحد پر مرکوز رہی۔ شہنشاہ نے پہلی بار کابل کا سفر اگست 1638ء میں شروع کیا اور اِس سفر کے دو مقصد پیش نظر تھے: اول یہ کہ قندھار پر ایرانیوں کے مجوزہ حملوں کی روک تھام کی جاسکے اور دؤم یہ کہ ما وراء النہر کی صورت حال سے آگہی رکھی جاسکے۔ 18 مئی 1639ء کو شہنشاہ کابل پہنچا اور تخمیناً چار مہینوں کے قیام کے بعد وہ ستمبر 1639ء کو واپس لاہور آگیا۔ لاہور سے کشمیر چلا گیا اور اب کشمیر میں قیام دو سال رہا۔ کشمیر میں اقامت کے دوران ہی ابوالحسن آصف خان، وزیر اعظم کا انتقال لاہور میں ہوا۔ جولائی 1641ء میں شہزادہ مراد بخش کی شادی منعقد ہوئی۔ اوائل جنوری 1643ء میں شاہ جہاں دوبارہ آگرہ واپس آگیا۔[27]

1643ء سے 1647ء تک کے واقعات

آگرہ واپسی کے چند روز بعد شاہ جہاں اجمیر گیا اور وہاں سے لاہور پہنچا۔ لاہور میں قیام دو سال تک رہا۔ قیامِ لاہور کے دوران مارچ 1644ء میں شاہزادی جہاں آراء بیگم کے لباس میں آگ لگ گئی جس سے شاہزادی بری طرح جل گئی۔ اِس کے علاج میں شاہ جہاں نے کوئی کسر نہ چھوڑ رکھی۔ شفاء کلی حاصل ہونے کے بعد ایک شاندار تقریب منعقد کی گئی اور اِس تقریب میں 25 نومبر 1644ء کو شہزادہ اورنگزیب جس سے شاہ جہاں ناراض تھا، نے جشن کے اختتام پر اپنی بہن کی سفارش پر اورنگزیب دوبارہ اپنے عہدے پر بحال کر دیا گیا۔ اوائل 1645ء میں شاہ جہاں آگرہ سے روانہ ہوا اور تین سال مغربی صوبہ جات میں گزارے۔ 1645ء کے موسم گرما میں وہ کشمیر کی سیر کو گیا اور بلخ اور بدخشاں کی مہمات کی نگرانی میں دوبارہ کابل جانا ہوا۔ نتیجۃً یہ ثابت ہوا کہ ہندوکش کے پہاڑوں کے پار قبضہ رکھنا ناممکن ہے۔ اِس لیے شہنشاہ نے اپنی افواج واپس بلوا لیں۔ جون 1647ء کے آخری ہفتے میں وہ کابل سے روانہ ہوکر لاہور سے ہوتے ہوئے دہلی کے راستے سے آگرہ پہنچ گیا۔[28]

لال قلعہ میں رہائش اختیار کرنا

1638ء میں شاہ جہاں کی خواہش پر پرانی دہلی کو شاہ جہان آباد کا نام دے کر بطور نئے دار السلطنت کی بنیاد رکھی گئی۔ 12 مئی 1639ء کو لال قلعہ کی بنیاد رکھی گئی تھی اور اب جب شاہ جہاں آگرہ واپس ہو رہا تھا تو دہلی میں مختصر قیام کے دوران دہلی کے افسروں کو حکم جاری کرتا گیا کہ دہلی کی عمارات کی تعمیر کا کام تیزی سے مکمل کر لیا جائے۔ دو مہینوں کے اندر ہی افسروں نے دہلی محل کو اقامت و رہائش کے قابل بنا دیا اور شہنشاہ نے دہلی کے لیے 27 مارچ 1648ء کو آگرہ سے روانگی اختیار کیا۔ 8 اپریل 1648ء کو شہنشاہ کے تلا دان کی قمری تاریخ تھی اور اِسی کے پیش نظر نئے محل کی رسم افتتاح بھی ادا کی گئی۔ شاہ جہاں کے دہلی میں لال قلعہ میں رہائش اختیار کرنے سے لال قلعہ آئندہ تین صدیوں تک مغلیہ سلطنت کی سرکاری رہائش گاہ بنا رہا۔[29]

1638ء سے 1652ء تک کے واقعات

قندھار فروری 1638ء میں مغلیہ سلطنت کا حصہ بنا تھا لیکن صفوی سلطنت کی جانب سے خطرات کم نہ ہوئے تھے۔ اِنہی خطرات نے شاہ جہاں کو مغربی سرحد پر آنے پر مجبور کر دیا۔ شاہ عباس دؤم نے قندھار پر حملہ کر دیا اور قبضہ بھی کر لیا۔ مغل افواج کا مطالبہ تھا کہ قندھار واپس لیا جائے۔ اِس مطالبے کے پیش نظر شاہ جہاں نومبر 1648ء کے اوائل میں ہی دہلی چھوڑ کر مغربی سرحد پر پہنچا۔ 18 مہینوں تک دار السلطنت سے باہر گزارے اور اضطراری طور پر قندھار کی واپسی کے لیے کوشش کی مگر یہ کوشش بیکار ثابت ہوئی۔ بالآخر شاہ جہاں نے اپنا خیمہ جنگ کابل میں منتقل کر لیا اور 4 جنوری 1650ء کو واپس آگرہ آگیا۔ قندھار کی تسخیر نامکمل رہ جانے کے باعث شاہ جہاں نے نئے دار السلطنت دہلی کی خوشی میں ضیافتوں کا اہتمام شروع کیا گیا۔ تخت طاؤس آگرہ سے منگوایا گیا۔ طویل ترین اِن تقاریب و ضیافتوں کا اختتام 10 مارچ 1650ء کو ہوا۔ تقریباً ایک سال کے بعد ماہِ فروری 1651ء کو شاہ جہاں آخری بار کشمیر کی سیر کو روانہ ہوا۔ آئندہ موسم گرما وہیں بسر کی۔ ستمبر 1651ء کے وسط میں لاہور آیا اور دوبارہ قندھار کی مہم کے سلسلے میں افواج کی رہنمائی کی۔16 فروری 1652ء کو لاہور چھوڑا، 21 اپریل 1652ء کو کابل پہنچا اور وہاں سے واپس دار السلطنت 2 دسمبر 1652ء کو پہنچ گیا۔[30]

1653ء سے 1657ء تک کے واقعات

1652ء سے 1654ء تک شاہ جہاں شاہجہان آباد کے لال قلعہ میں قیام پزیر رہا۔ اِس مدت میں وہ صرف دو بار مختصر وقفے کے لیے باہر گیا۔ ایک بار آگرہ اور ایک بار اجمیر۔ نومبر یا دسمبر 1653ء میں موتی مسجد دیکھنے گیا۔ جنوری 1654ء میں ایک مراٹھی بہروپیے نے شہنشاہ پر قاتلانہ حملہ کیا لیکن کوتوال محل کے حملہ سے وہ قتل ہوا۔[31]

1657ء سے 1658ء کے سیاسی حالات اور شاہزادوں کی جنگ تخت نشینی

مغلیہ سلطنت کے صوبوں میں امن و اَمان کی صورت حال تھی اور رعایا اطمینان سے زندگی بسر کر رہی تھی کہ اچانک شاہ جہاں کی علالت نے ملک کی سیاسی صورت حال کو بدل کر رکھ دِیا۔ 16 ستمبر 1657ء کو شاہ جہاں حبس البول کے عارضہ میں مبتلاء ہوا۔ اِسی سبب پاؤں میں وَرم نے مرض کو بڑھا دِیا۔ علاج معالجہ جاری رہا مگر مرض جوں کا توں رہا۔ اطباء کے علاج سے 9 دن بعد شاہ جہاں نے بستر علالت سے دربار میں قصر شاہی کے جھروکہ سے درشن کروایا۔[32] شاہ جہاں کے ایام علالت کے دوران سیاسی حلقوں میں شہنشاہ کی تخت وسلطنت سے غیر موجودگی ایک سوالیہ نشان بن گئی۔ شاہزادوں میں سیاسی مخالفت عروج پکڑگئی۔تقاضائے عقل تھا کہ دور علاقوں میں اَمن و اَمان برقرار رکھنے کے لیے ہر خبر درست پہنچتی لیکن دارا شکوہ نے ڈاک کی ترسیل منقطع کردی اور دوسرے شاہزادوں کے وکیلوں کو قید کروا دِیا۔ دارا شکوہ کی اِس حرکت سے ملک کا نظم و نسق تباہ ہو گیا اور فتنہ و فساد برپا ہوا۔ مفسدپردازوں نے غیر مصدقہ خبریں شاہزادوں کو بھیجنا شروع کر دیں اور اِنہی ایام میں شاہ جہاں نے امرا کو جمع کرکے دارا شکوہ کی ولی عہدی کا حلف لیا۔ دارا شکوہ کو اپنے بھائیوں سے بہترین سلوک کرنے کی ہدایت کی۔ اِسی ناگفتہ بہ حالات کے زمانے میں یہ خبرآئی کہ شہزادہ مراد بخش نے دیوان میر علی نقی کو بلا وجہ اور بے خطا قتل کر دیا اور گجرات میں اپنے نام کا سکہ مضروب کروا کر رائج کر دیا اور اپنے نام کا خطبہ جاری کر دیا۔ بنگال میں شاہ شجاع نے مقامی زمینداروں کی حمایت و مدد سے بادشاہی خزانے پر قبضہ کر لیا اور قابض بن بیٹھا اور جنگ پر مستعد ہوچکا ۔ شاہ جہاں نے اولاً شاہ شجاع کے معاملہ پر توجہ اور سلیمان شکوہ کی سربراہی میں دس ہزار پیادہ فوج مع بندوقچیاں دے کر شاہ شجاع کی سرکوبی کے لیے روانہ کر دیا۔ راجا جے سنگھ کو سلیمان شکوہ کا اتالیق مقرر کیا اور بے شمار خزانہ، جنگی ہاتھی اور نامی گرامی منصب دار ساتھ بھیجے۔ اِن ایام میں شاہ شجاع بنارس میں خیمہ زن تھا۔ راجا جے سنگھ نے ایسا انتظام کیا کہ کہ شاہی لشکر نے شاہ شجاع کو حکمت عملی کے ذریعے آلیا۔ سلیمان شکوہ غالب آگیا اور شاہ شجاع کے سپاہی بھاگ نکلے۔ سپاہیوں کی بھگدڑ سے شاہ شجاع خود میدان میں آیا تو فضا بدل چکی تھی۔ جان بچا کر کشتی میں سوار ہوکر پٹنہ کی طرف بھاگ نکلا۔ شاہ شجاع کی لشکرگاہ کو سلیمان شکوہ کے سپاہیوں نے لوٹ لیا اور شاہ شجاع پلٹتے ہوئے راج محل سے مونگیر کی دشوار گھاٹیوں میں پناہ گزیں ہوا۔ بعد ازاں معافی و خواستگاری کا طالب ہوا۔ شاہ جہاں نے شفقت پدری کے باعث اُس کی تقصیر معاف کی اور دوبارہ بنگال کی نظامت پر مقرر کر دیا۔ اِس واقعے کے بعد جب شاہ جہاں نے سیر کا ارادہ کیا تو دارا شکوہ نے کچھ ایسے کام کیے کہ جن سے رعایا پریشان ہوئی اور ملک میں فساد دوبارہ جنم لینے لگا۔ دارا شکوہ نے شاہ جہاں کے دِل میں یہ بات بٹھا دِی کہ شہزادہ مراد بخش سرکش ہوچکا ہے اور اُسے صوبہ احمد آباد یعنی گجرات کی صوبیداری سے معزول کرکے علاقہ برار کی جاگیر پر بھیج دیا جائے۔ نیزیہ شہزادہ اورنگزیب شہزادہ شاہ شجاع کی شکست کا بدلہ لینے کے لیے کمربستہ ہوچکا ہے اور اب شہزادہ مراد بخش کو کمک و رسد پہنچاتا ہے اور علاوہ اِس کے حضرت (یعنی شاہ جہاں) کی مزاج پرسی کا بہانہ کرکے اپنی ذاتی فوج کو لے کر دار السلطنت (دہلی) میں پہنچ کر فتنہ و فساد برپا کرنا چاہتا ہے، اُس نے قطب الملک سے پیشکش کی کہ جو رقم وصول کی ہوئی ہے، وہ اُسے شہنشاہ کی اجازت کے بغیر فوج بھرتی کرنے میں صرف کررہا ہے۔ اِس لیے بہتر ہے کہ بیجاپور کی تسخیر کے لیے جو شاہی لشکر اُس کے تابع ہے، اُسے اور اُس لشکر میں تعینات امرا کو واپس بلوا لیا جائے اور اِس بات کی پیشکش کی کہ رقم دار السلطنت بھیجنے کا تقاضا بھرپور کیا جائے تاکہ اُس کی جاہ و حشمت میں فرق دیکھتے ہوئے امرا عالمگیر سے بدظن ہوجائیں۔ اگرچہ شاہ جہاں کو دارا شکوہ کی یہ باتیں پسند نہ آئیں اور وہ اِن باتوں کو خلاف ہوشمندی سمجھتا تھا۔ لیکن دارا شکوہ نے والد کو اِس قدر اپنے ہاتھوں میں لے لیا تھا کہ وہ فرمان بھیجنے پر آمادہ ہو گیا۔ اُن دِنوں میں عالمگیر بیجاپور کی مہم میں اُس شہر کا محاصرہ کیے ہوا تھا کہ شاہی قاصد فرمان لیے دہلی سے بیجاپور آپہنچے۔ شاہی امرا کا دِل بدظن ہو گیا اور بہت سے امرا بغیر اجازت کے آگرہ واپس چلے گئے۔[33]

معزولی

اورنگ زیب نے جنگِ تخت نشینی کے دوران باقاعدہ اعلان جاری کیا تھا کہ اُس کی لڑائی صرف دارا شکوہ سے ہے اور باپ سے اُسے کوئی پرخاش نہیں۔ لیکن اورنگ زیب کی تخت نشینی سے لے کر 1666ء تک شاہجہاں قلعہ آگرہ میں قیام پزیر رہا۔

معمولات  روزمرہ

ملا محمد صالح کمبوہ نے شاہ جہاں نامہ میں شاہ جہاں کے سالِ تخت نشینی کے بعد اُس کے روزمرہ کے معمولات اور روزانہ کے اوقات پر مفصل بیان لکھا ہے کہ:

شاہ جہاں طلوع آفتاب سے دو گھنٹے قبل بیدار ہوتا، خود وضو کرکے خلوت گاہ سے متصل مسجد میں فجر کی نمازِ سنت اور پھر نماز فرض اداء کرتا۔ اِس کے بعد دعائیں اور وظائف اداء کرتا اور اِس تسبیح خوانی سے فراغت کے بعد حرم سرا میں آجاتا تھا۔ طلوع آفتاب کے وقت دریائے جمنا کے رُخ مشرقی دریچے میں، جھروکے میں بیٹھ کر عوام کو درشن دیتا تھا۔ اُس وقت ہر شخص کورنش بجا لاتا اور ہر مظلوم کو بلا روک ٹوک کے شہنشاہ سے عرض کرنے کی اجازت ہوتی تھی۔ جھروکے سے اُٹھ کر دربارِ خاص و عام میں آجاتا اور اِس ایوان کے دروازوں پر ہیبت ناک داروغے پہرے پر موجود ہوتے تھے جو بغیر کسی اجازت کے کسی فرد کو اندر نہیں جانے دیتے تھے۔ اِس ایوان میں وزراء مختلف ملکی و مالی مہمات انجام دینے والے اشخاص جمع ہوتے تھے اور معاملاتِ حکومت شہنشاہ کے گوش گزار کرتے تھے۔ فوج کے امرا یہاں اپنے ماتحتوں کو ترقی دِلانے کے لیے پیش کیا کرتے تھے۔ اِن اُمور کی انجام دہی کے بعد صوبیداروں کی درخواستیں دیکھنا ہوتی تھیں اور اِن درخواستوں پر مہر ثبت کرنا ہوتی تھی۔ اِس ایوان میں پانچ گھڑی قیام کے بعد اُٹھ کر نشیمن (غسل خانے) چلا جاتا جہاں مقربوں یا امرا کے سوا کسی کو آنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ یہاں دیوانِ مالِ خالصہ محالات کے آمد و خرچ کی تفصیل اور جاگیرداروں کی تنخواہ کا حساب شہنشاہ کو پیش کیا جاتا تھا۔ اِن اُمور کی انجام دہی کے بعد جواہرات دیکھنے، گانا سننے یا تعمیرات کے متعلق احکامات جاری کرنے میں وقت بسر ہوتا تھا۔ اِس کے بعد شاہ جہاں شاہ برج میں چلا جاتا جہاں نشست محض چار یا پانچ گھڑی ہوتی تھی۔ شاہ برج میں شاہزادے یا وزیر اعظم ہی ملاقات کرسکتا تھا۔ دوپہر بارہ بجے محل سرا میں آتا اور کھانا تناول کرنے کے بعد قیلولہ اور قیلولہ کے بعد نمازِ ظہر کی ادائیگی ہوتی تھی۔ ظہر کے بعد ملکہ ممتاز محل کے ذریعے سے بیوہ اور بے سہارا خواتین کی امداد کرنا ہوتی تھی کہ اُنہیں نقد و جنس یا اراضی عطا کی جائے۔ نمازِ عصر کے بعد نشیمن جانا ہوتا تھا اور نمازِ مغرب سے چار گھڑی بعد تک اُمور دین و دنیا میں وقت صرف ہوتا تھا۔ اِسی نشست میں کبھی کبھار شہنشاہ ہندی موسیقاروں سے راگ بھی سن لیا کرتا تھا۔ اِس نشست کے بعد نمازِ عشا کی ادائیگی اور اُس کے بعد محل سرائے شاہی میں چلے جانا معمول تھا۔ شب کے وقت پردے کے پیچھے سے اشخاص خواب گاہ میں شخصیات کی سوانح عمریاں، واقعات تاریخ اور زمانہ ٔ ماضی کے واقعات بیان کیا کرتے تھے۔ لباس ہمیشہ معطر رہتا تھا اور نشست بخور یا روح افزا عطریات سے معطر رہتی تھی۔[34]

اواخر ایام

آخری ایام کے معمولات

ملا صالح کمبوہ نے شہنشاہ شاہ جہاں کے اُن اواخر ایام کا تذکرہ "عمل صالح میں کیا ہے جو شاہ جہاں نے سنہ 1658ء سے 1666ء تک آگرہ کے قلعہ میں نظر بندی کی مدت میں گزارے۔ " شاہ جہاں قلعہ آگرہ میں نظر بند تھے، اِس کے باوجود اُن کے فیض و کرم کا دروازہ کھلا رہا۔ ضرورت مند ہمیشہ اُن تک پہنچ کر اُن کے جود و اِحسان سے فیض یاب ہوئے۔ سید محمد قنوجی سال 32 جلوس کے آغاز سے ہی ہمیشہ شاہ جہاں کی مجلسِ خاصہ میں حاضر رہتا، قرآن کریم کے نکتے اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم بیان کرکے حاضرین کو مستفید کیا کرتا۔ اِس مدت میں شاہ جہاں صبر و قناعت کے ساتھ قلعہ آگرہ میں گوشہ نشیں تھے۔ دِن رات کا زیادہ حصہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور فرض و سنت نمازیں ادا کرنے، کلام اللہ کی تلاوت و کتابت میں بسر ہوتا۔ بزرگوں کے اقوال اور رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سنا کرتے تھے، فیض و بخشش اور سخاوت کا دروازہ کھلا رہتا تھا۔ [35]

طرز تعمیرات میں نمایاں خدمات

مسکوکات

1629ء میں شاہجہاں نے نئے سکے بنوائے۔ یہ سکے چاندی، سونا، کانسہ اور تانبے کے بنائے گئے تھے۔


اولاد

اقتباس

  • "فرانسس برنیئر 1658ء میں ہندوستان آیا اور 1670ء تک یہاں رہا۔ یہ شاہ جہاں کا آخری زمانہ تھا۔

فرانس کا رہنے والا برنیئر طبی ماہر تھا۔ یہ مختلف امرا اور شاہی خاندان تک رسائی حاصل کرنے میں کام یاب ہو گیا اور یوں اسے مغل دربار، شاہی خاندان، مغل شہزادوں اور شہزادیوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع بھی ملا۔ برنیئر نے شاہ جہاں کو اپنی نظروں کے سامنے بے اختیار ہوتے اور اورنگ زیب کے ہاتھوں قید ہوتے دیکھا۔

اس نے اورنگ زیب عالم گیر کی اپنے تینوں بھائیوں دارا شکوہ، سلطان شجاع اور مراد بخش سے جنگیں بھی دیکھیں اور بادشاہ کے ہاتھوں بھائیوں اور ان کے خاندانوں کو قتل ہوتے بھی دیکھا۔ اس نے دارا شکوہ کوگرفتار ہو کر آگرہ آتے اور بھائی کے سامنے پیش ہوتے بھی دیکھا۔ اسے اورنگ زیب عالمگیر کے ساتھ لاہور، بھمبر اور کشمیر کی سیاحت کا موقع بھی ملا۔ فرانسس برنیئر نے اپنے وطن واپس جاکر ہندوستان کا سفر نامہ تحریر کیا۔ یہ سفر نامہ 1671ء میں پیرس سے شایع ہوا۔ فرانسس برنیئر نے ہندوستان کے بارے میں لکھاکہ ہندوستان میں مڈل کلاس طبقہ سرے سے موجود نہیں، ملک میں امرا ہیں یا پھر انتہائی غریب لوگ، امرا محلوں میں رہتے ہیں، ان کے گھروں میں باغ بھی ہیں، فوارے بھی، سواریاں بھی اور درجن درجن نوکر چاکر بھی۔ جب کہ غریب جھونپڑیوں میں رہتے ہیں اور ان کے پاس ایک وقت کا کھانا تک نہیں ہوتا۔ ہندوستان میں خوشامد کا دور دورہ ہے، بادشاہ سلامت، وزرا، گورنرز اور سرکاری اہل کار دو دو گھنٹے خوشامد کراتے ہیں، دربار میں روزانہ سلام کا سلسلہ چلتا ہے اور گھنٹوں جاری رہتا ہے۔

لوگوں کو خوشامد کی اس قدر عادت پڑ چکی ہے کہ یہ میرے پاس علاج کے لیے آتے ہیں تو مجھے سقراط دوراں، بقراط اور آج کا بو علی سینا قرار دیتے ہیں۔ اس کے بعد نبض کے لیے اپنا ہاتھ آگے بڑھاتے ہیں۔ بازار بے ترتیب اور گندے ہیں۔ شہروں میں حلوائیوں کی دکانوں کی بہتات ہے، مگر آپ کو دکانوں پر گندگی، مکھیاں، مچھر، بلیاں اور کتے دکھائی دیتے ہیں۔

ہندوستان کی مٹی زرخیز ہے لیکن زراعت کے طریقے قدیم اور فرسودہ ہیں چناں چہ کسان پوری پیداوار حاصل نہیں کر پاتے، ہندوستان کی زیادہ تر زمینیں بنجر پڑی ہیں، لوگ نہروں اور نالیوں کی مرمت نہیں کرتے، چھوٹے کسان یہ سمجھتے ہیں اس سے جاگیرداروں کو فائدہ ہو گا اور جاگیردار سوچتے ہیں بھل صفائی پر پیسے ہمارے لگیں گے، مگر فائدہ چھوٹے کسان اٹھائیں گے۔ لہٰذا یوں پانی ضایع ہو جاتا ہے۔

فرانسیس برنیئر نے ہندوستان کے لوگوں کے بارے میں لکھا، یہ کاری گر ہیں لیکن کاری گری کو صنعت کا درجہ نہیں دے پاتے، لہٰذا فن کار ہونے کے باوجود بھوکے مرتے ہیں۔ یہ فن کاری کو کارخانے کی شکل دے لیں تو خوش حال ہو جائیں اور دوسرے لوگوں کی مالی ضروریات بھی پوری ہو جائیں، ہندوستان کے لوگ روپے کو کاروبار میں نہیں لگاتے، یہ رقم چھپا کر رکھتے ہیں، عوام زیورات کے خبط میں مبتلا ہیں، لوگ بھوکے مر جائیں گے لیکن اپنی عورتوں کو زیورات ضرور پہنائیں گے۔

یہ لوگ گھر بہت فضول بناتے ہیں۔ ان کے گھر گرمیوں میں گرمی اور حبس سے دوزخ بن جاتے ہیں اور سردیوں میں سردی سے برف کے غار، بادشاہ اور امرا سیر کے لیے نکلتے ہیں تو چھ چھ ہزار مزدور ان کا سامان اٹھاتے ہیں۔ ہندوستان کی اشرافیہ طوائفوں کی بہت دلدادہ ہے، ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں طوائفوں کے کوٹھے ہیں اور امرا اپنی دولت کا بڑا حصہ ان پر نچھاور کر دیتے ہیں۔ وزرا صبح اور شام دو مرتبہ بادشاہ کے سامنے حاضر ہوتے ہیں، بادشاہ کے حضور حاضری نہ دینے والے وزرا عہدے سے فارغ کر دیے جاتے ہیں۔"[38][39]

مزید دیکھیے


    حوالہ جات

    1. Brockhaus Enzyklopädie online ID: https://brockhaus.de/ecs/enzy/article/shah-jahan — بنام: Shah Jahan — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
    2. https://pantheon.world/profile/person/Shah_Jahan — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
    3. Shahjahan, Emperor of India — اخذ شدہ بتاریخ: 23 اکتوبر 2018
    4. اجازت نامہ: CC0
    5. بنارسی: صفحہ 53۔
    6. بنارسی:  صفحہ 294/295۔
    7. ملا صالح کمبوہ: عمل صالح (شاہجہاں نامہ)، ص 17۔
    8. بنارسی: صفحہ 54۔
    9. بنارسی: صفحہ 54/55۔
    10. بنارسی:  صفحہ 55/56۔
    11. بنارسی:  صفحہ 57/58۔
    12. بنارسی:  صفحہ 61/62۔
    13. Banks Findley, Ellison (11 Feb 1993). Nur Jahan: Empress of Mughal India. Oxford, UK: Nur Jahan : Empress of Mughal India,  p. 39
    14. بنارسی:  صفحہ 59۔
    15. بنارسی:  صفحہ 64۔
    16. دائرہ معارف اسلامیہ: جلد 11، صفحہ 617۔
    17. Taylor, G.P.(1907). Some Dates Relating to the Mughal Emperors of India in Journal and Proceedings of the Asiatic Society of Bengal, New Series, Vol.3, Calcutta: The Asiatic Society of Bengal, p.59
    18. Taylor, G.P.(1907). Some Dates Relating to the Mughal Emperors of India in Journal and Proceedings of the Asiatic Society of Bengal, New Series, Vol.3, Calcutta: The Asiatic Society of Bengal, p.59
    19. بنارسی: صفحہ  368 تا    371۔
    20. Vidya Dhar Mahajan (1971) [First published in 1961]۔ Mughal Rule in India (اشاعت 10th۔)۔ Delhi: S. Chand۔ صفحات 148–149۔ او سی ایل سی 182638309۔
    21. Sen 2013، صفحات۔ 170–171
    22. دائرہ معارف اسلامیہ: جلد 11، صفحہ 617/618۔
    23. William J. Duiker؛ Jackson J. Spielvogel۔ World History: From 1500۔ Cengage Learning۔ صفحات 431, 475۔ آئی ایس بی این 978-0-495-05054-4۔
    24. بنارسی: صفحہ 372/373۔
    25. بنارسی: صفحہ 373۔
    26. بنارسی: صفحہ 374۔
    27. بنارسی: صفحہ 374۔
    28. بنارسی: صفحہ 375/376۔
    29. بنارسی: صفحہ 376۔
    30. بنارسی: صفحہ 376/377۔
    31. بنارسی: صفحہ 377۔
    32. ملا محمد صالح کمبوہ: عمل صالح، صفحہ 530۔
    33. ملا محمد صالح کمبوہ: عمل صالح، صفحہ 534 تا 537۔
    34. ملا محمد صالح کمبوہ: عمل صالح، صفحہ 94 تا 97۔
    35. ملا صالح کمبوہ : عمل صالح، ص 550/551 ۔
    36. Moosvi, Shireen (2008). People, Taxation, and Trade in Mughal India. Oxford: Oxford University Press. p. 115
    37. Abū al-Faz̤l ibn Mubārak۔ Ain i Akbari (انگریزی زبان میں)۔ Qausain۔ صفحہ 551۔
    38. ایکسپریس نیوز، ہفتہ 5 مئی 2018، عدنان ہاشمی
    39. ریختہ- برنیئر کا سفرنامہ ہند
    شاہ جہاں
    پیدائش: 5 جنوری 1592ء وفات: 22 جنوری 1666ء
    شاہی القاب
    ماقبل 
    نورالدین جہانگیر
    مغل شہنشاہ
    19 جنوری 1628ء31 جولائی 1658ء
    مابعد 
    اورنگزیب عالمگیر
    This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.