دارا شکوہ

مغل شہنشاہ شاہجہان اور ملکہ ممتاز محل کا بڑا بیٹا۔ مضافات اجمیر میں پیدا ہوا۔ 1633ء میں ولی عہد بنایا گیا۔ 1654ء میں الہ آباد کا صوبیدار مقرر ہوا۔ بعد ازاں پنجاب، گجرات، ملتان اور بہار کے صوبے بھی اس کی عملداری میں دے دیے گئے۔ 1649ء میں قندھار پر ایرانیوں نے قبضہ کر لیا۔ سلطنت دہلی کی دو فوجی مہمیں انھیں وہاں سے نکالنے میں ناکام رہیں تو 1653ء میں دارا کو، خود اس کے ایما پر قندھار بھیجاگیا۔ اس جنگ میں اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا اور بحیثیت کمانڈر اس کی ساکھ مجروح ہوئی۔

زیر نظر مضمون مغل شہزادہ دارا شکوہ کے بارے میں ہے۔ یکساں دوسرے کے لیے دارا (ضد ابہام) دیکھیے۔
ولی عہد سلطنت مغلیہ
دارا شکوہ
دارا شکوہ

ولی عہد سلطنت مغلیہ
معلومات شخصیت
پیدائش 20 مارچ 1615 [1] 
اجمیر  
وفات 30 اگست 1659 (44 سال)[1] 
دہلی  
مدفن مقبرہ ہمایوں  
طرز وفات قتل  
مذہب سنی اسلام
زوجہ نادرہ بانو بیگم  
اولاد سپہر شکوہ ، جہاں زیب بانو بیگم ، سلیمان شکوہ ، ممتاز شکوہ  
والد شہاب الدین شاہ جہاں اول  
والدہ ممتاز محل  
بہن/بھائی
روشن آرا بیگم (شاہزادی) ، جہاں آرا بیگم ، گوہر آراء بیگم ، مراد بخش ، شاہ شجاع ، اورنگزیب عالمگیر  
خاندان تیموری خاندان
نسل
دیگر معلومات
استاذ سرمد  
پیشہ خطاط ، مصنف  

1657ء کے اواخر میں شاہجہان بیمار پڑا تو تاج و تخت کے حصول کے لیے اورنگزیب اور دارا کے مابین جنگ چھڑ گئی جس میں اولاً دارا کو کامیابی ہوئی لیکن 29 مئی 1658ء کو اورنگزیب نے ساموگڑھ ’’نزد آگرہ‘‘ میں اس کی فوجوں کو شکست فاش دی۔ 23 مارچ 1659ء کو جنگ میں اس کی رہی سہی طاقت بھی ختم ہو گئی اور وہ ایران میں پناہ لینے کے لیے قندھار روانہ ہوا۔ لیکن راہ میں ڈھاڈر کے افغان سردار ملک جیون نے اسے اور اس کے تین بیٹوں کو پکڑ کر دہلی بھیج دیا۔ جہاں 30 اگست 1659ء میں اورنگزیب کے حکم سے الحاد و زندقہ کے جرم میں، اس کی گردن مار دی گئی۔

طبعاً کریم النفس۔ صلح جو، فارسی، عربی اور سنسکرت کا عالم اور تصوف کا شیدائی تھا۔ ویدانت کا گہرا مطالعہ کیا تھا۔ حضرت میاں میر، ملا شاہ بدخشی، سرمد اور بابا لال داس بیراگی سے خاص عقیدت تھی۔ سفینۃ الاولیا۔ سکینۃ الاولیاء، رسالہ حق نما، مکالمۂ بابا لال و شکوہ، مجمع البحرین، حسنات العارفین، سر اکبر(اپنشدوں کا ترجمہ)۔ جیسی کتابیں بھی تصنیف کیں۔

دارا شکوہ اور صوفیائے خام

دارا شکوہ نے شاہ محمد دلربا کے نام اپنے ایک خط میں واضح طور پر تسلیم کیا ہے کہ وہ سرمد، بابا پیارے، شاہ محمد دلربا، میاں باری، محسن فانی کشمیری، شاہ فتح علی قلندر، شیخ سلیمان مصری قلندر جیسے آزاد مشرب صوفیا کی صحبت کی بدولت اسلام مجازی اس کے دل سے برخاست ہو چکا ہے اور کفر حقیقی رونما ہو رہا ہے اور وہ انہیں کی صحبت کی برکت سے کفر حقیقی کی صحیح قدر سمجھ سکا ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ اب وہ صحیح معنوں میں زنار پوش، بت پرست بلکہ خود پرست و دیر نشین بنا ہے۔[2]

داراشکوہ

دارا شکوہ اور سکھ

صلح کل کے علمبردار ہونے کی وجہ سے دارا شکوہ کے سکھوں کے گروؤں سے بہت اچھے اور خوشگوار تعلقات تھے۔ جب دارا شکوہ اورنگزیب عالمگیر سے شکست کھا کر لاہور کی طرف بھاگا تو وہ گرو ہر رائے سنگھ (1630ء - 1661ء) کے پاس بھی گیا۔ ایک سکھ محقق خوشونت سنگھ کے بقول دارا شکوہ اور اورنگزیب عالمگیر کی جنگ تخت نشینی میں سکھوں کی ہمدردیاں متعصب اورنگزیب عالمگیر کی بجائے وسیع المشرب دارا شکوہ کے ساتھ تھیں۔[3] ایک اور سکھ محقق فوجا سنگھ نے تسلیم کیا ہے کہ دارا شکوہ اور گرو ہر رائے سنگھ کے مذہبی ہم آہنگی کے فلسفہ کے تحت اچھے تعلقات کے باعث جنگ تخت نشینی میں اورنگزیب عالمگیر سے شکست کھانے کے بعد جب وہ بھاگ رہا تھا تو اورنگزیب عالمگیر کی متعاقب فوج کو گرو ہر رائے نے دریائے ستلج پر روکنے کی کوشش کی تاکہ دارا شکوہ کو ایران بھاگنے کا موقع مل جائے۔[4]

حوالہ جات

  1. ایس این اے سی آرک آئی ڈی: https://snaccooperative.org/ark:/99166/w64184j8 — بنام: Dara Shikoh — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  2. رقعات عالمگیر، مرتبہ نجیب اشرف ندوی ص22
  3. History of the Sikhs, Khushwant Singh, Oxford University Press, Delhi, 1977 Vol. I, p. 68
  4. The Martyrdom of Guru Tegh Bahadur ( The Punjab Past and Present, April, 1975, p. 154
This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.