سکھ

سکھ مذہب (سکھ مت) کے پیروکار کو سکھ کہتے ہیں۔ سکھ پنجابی زبان کا لفظ ہے اور سنسکرت سے آیا ہے اور اسکا مطلب ہے سیکھنے والا۔ سکھ ساری دنیا میں پھیلے ہوۓ ہیں۔ لیکن ان کی زیادہ تعداد بھارت میں ہے۔

سکھ
Sikh
نشان صاحب سکھوں کا پرچم
کل آبادی
27 ملین
گنجان آبادی والے علاقے
 بھارت 19,215,730[1]
 مملکت متحدہ 760,000[2]
 ریاستہائے متحدہ 500,000[3]
 کینیڈا 468,000[4]
 ملائیشیا 100,000
100,000[5]
 آسٹریلیا 72,000[6]
 اطالیہ 70,000[7]
 تھائی لینڈ 70,000[8]
 پاکستان 50,000[9]
 فلپائن 30,000[10]
 کویت 20,000[11]
 انڈونیشیا 15,000[12]
 فرانس 15,000[13]
 نیدرلینڈز 12,000[14]
 سنگاپور 9,733[15]
 نیوزی لینڈ 9,507[16]
 ہانگ کانگ 8,000[17]
 نیپال 5,890[18]
 جرمنی 5,000[19]
 فجی 4,674[20]
 ناروے 3,000[21]
 افغانستان 3,000[22]
 آسٹریا 2,794[23]
 جمہوریہ آئرلینڈ 1,200[24]
 ترکی 2[25]
زبانیں
پنجابی (گرمکھی)
سکھ تارکین وطن انگریزی, سندھی,[26] ہندی, اردو, سواحلی, مالے, تھائی اور دیگر زبانیں بھی استعمال کرتے ہیں۔
مذہب
سکھمت

2004 کے اعداد و شمار.

سکھ ہونے کی شرائط

ایک خدا کو ماننا۔

  • 10 گرووں کو ماننا جو گرو نانک سے گورو گوبند سنگھ تک ہیں۔
  • گرو گرنتھ صاحب، سکھوں کی مقدس کتاب کو ماننا۔
  • 10 گرووں کی تعلیمات کو ماننا۔
  • ایک ایماندارانہ زندگی گزارنا، ظلم سے باز رہنا اور نیک لوگوں کی عزت کرنا۔

دنیا بھر میں سکھوں کی تعداد 2 کروڑ 30 لاکھ ہے اور اس کا 60٪ بھارتی صوبہ پنجاب ميں رہتے ہیں۔ بھارت کے سابقہ وزیراعظم منموہن سنگھ بھی ایک سکھ ہیں۔

تاریخ

سکھ مذہب کا آغاز پندرھویں صدی میں بابا گرُو نانک نے کیا۔اُن کےبعداُن کے پیش رو، نو(9) گُرووں نے سکھ عقائد کو آنے والی کئی صدیوں تک فروغ دینے کا کام کیا۔پانچویں گُرو، گُرو ارجن کے دور میں سکھ ازم بہت زیادہ مستحکم ہوا۔ گرُو ارجن نے امرتسر کو دنیا بھر کے سکھوں کے لیے دار الحکومت قرار دیا اور سکھوں کی پہلی مستند مذہبی کتاب ’ادی گرنتھ‘ مرتب کی۔ تاہم گُرو ارجن کے دور میں ریاست کی جانب سے سکھ ازم کو ایک خطرہ سمجھا گیا اور1606میں گُرو ارجن کو پھانسی دے دی گئی۔سکھوں کے خلاف ہونے والے ریاستی مظالم سے تنگ آکر چھٹے گُرو ہرگوبند نے سکھوں کو عسکری تربیت دینا شروع کی تا کہ وہ اپنے خلاف ہونے والے ظلم کا مقابلہ کر سکیں۔ اس دوران سکھوں نے اپنے عقیدے کے تحفظ کے لیے کئی لڑائیاں لڑیں۔ مغلیہ دور حکومت آنے تک سکھوں نے حکمرانوں کے ساتھ نسبتاً پُر امن دور گزارا۔ مغل بادشاہ اورنگزیب کے دور میں حکومت اور سکھوں کے درمیان چپقلش شروع ہوئی جس نے لڑائی کی شکل اختیار کر لی۔ 1675میں اورنگزیب نے نویں گُروتیغ بہادر کو گرفتار کرکے تختۂ دار پر لٹکا دیا۔ 1699میں دسویں گُرو گوبند سنگھ نے مردوخواتین پر مشتمل عسکری گروپ ’خالصہ‘ تشکیل دیا، جس کا مقصد اپنے عقیدے کا تحفظ کرنا تھا۔ گوبند سنگھ نے سکھوں کی ابتدائی رسم (کندھے دی پھول) قائم کی اور سکھوں کو انوکھی وضع قطع دینے کے لیے پانچ ’ک‘ دیے۔ گوبند سکھوں کے آخری گُرو تھے، اب سکھ اُن کی تعلیمات پر عمل پیرا ہیں۔ سکھوں کے پہلے عسکری لیڈر بندا سنگھ بہادر تھے، جنہوں نے 1716میں اپنی گرفتاری اور پھانسی تک مغلوں کے خلاف زبردست مہم چلائی۔ سترھویں صدی کے وسط میں سکھ ایک بار پھر منظم ہوئے اور اگلے پچاس سالوں میں انہوں نے خطے کے زیادہ سے زیادہ حصے پر اپنا تسلط قائم کیا۔ 1799میں رنجیت سنگھ نے لاہور پر قبضہ کیا اور1801میں پنجاب کو ایک خود مختار ریاست قرار دے کر خود کو مہاراجہ کا لقب دیا۔ اُس نے ایک ایسی ریاست میں کام یابی سے حکومت کی جہاں سکھ اقلیت میں تھے۔ 1839میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کی موت کے بعد اقتدار کے لیے ہونے والی جنگ نے ریاست کو دو لخت کر دیا۔ 1845میں سلطنتِ برطانیہ نے اندرون خانہ ہونے والی لڑائیوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سکھ فوج کو شکست سے دوچار کیا اور ان کے زیادہ تر علاقے پر قبضہ کر لیا۔ چار سال بعد سکھوں نے دوبارہ برطانوی فوج پر حملہ کیا، تاہم اس میں بھی انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، لیکن اس لڑائی کے بعد انگریزوں اور سکھوں کے درمیان تعلقات خوش گوار ہوگئے اور سکھوں کی بڑی تعداد نے بعد میں برطانوی فوج میں خدمات سرانجام دیں۔ تاہم یہ دوستی زیادہ عرصے نہیں چل سکی اور اس کا اختتام 1919میں امرتسر کے جلیانوالہ باغ میں ہونے والے قتل عام پر ہوا، جس میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے ساتھ بہت بڑی تعداد میں سکھ بھی مارے گئے۔ اس واقعے میں تقریباً چار سو افراد ہلاک اور ایک ہزار سے زائد زخمی ہوگئے تھے[27]۔

پانچ ککے

حوالہ جات

  1. "Census of بھارت"۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 اپریل 2008۔
  2. David Robertson (30 جنوری 2009)۔ "UK Labour force survey replies by religion July to September 2008"۔ The Times۔ London۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 جون 2010۔
  3. "Sikhs express shock after shootings at Wisconsin temple"۔ BBC۔ 6 اگست 2012۔ اخذ شدہ بتاریخ 6 اگست 2012۔
  4. "2011 National Household Survey"۔ Statistics کینیڈا۔ 8 مئی 2013۔ مورخہ 25 دسمبر 2018 کو =12 May 2013 اصل Check |url= value (معاونت) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 مئی 2013۔
  5. "Overseas بھارتn: Connecting بھارت with its Diaspora"۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 اپریل 2008۔
  6. "Reflecting a Nation: Stories from the 2011 Census"۔ آسٹریلیاn Bureau of Statistics۔ 21 جون 2012۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 مئی 2013۔
  7. "2004 Sikh Population of اطالیہ"۔ مورخہ 25 دسمبر 2018 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 اپریل 2008۔
  8. "2006 Sikh Population"۔ مورخہ 25 دسمبر 2018 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ September 2012۔ Check date values in: |accessdate= (معاونت)
  9. Yudhvir Rana۔ "Pak NGO to resolve issues of Sikh community"۔ The Times Of بھارت۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 جنوری 2011۔
  10. "2011 Gurdwara فلپائن: Sikh Population of the فلپائن"۔ مورخہ 25 دسمبر 2018 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 جون 2011۔
  11. "Sikh Population of کویت"۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 اپریل 2008۔
  12. "2008 UNHCR report of religions and religious affiliations: Sikh Population of انڈونیشیا"۔ مورخہ 25 دسمبر 2018 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 3 مارچ 2009۔
  13. Christine Moliner۔ "Estimate of French Sikh population 'Workshop on بھارتn Migration' at Laboratoire d'Anthropologie Urbaine/CNRS"۔ Ph.d۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 اپریل 2008۔
  14. "Sikh Population of The نیدرلینڈز"۔ مورخہ 25 دسمبر 2018 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 اپریل 2008۔
  15. "Sikh Population of سنگاپور"۔ مورخہ 25 دسمبر 2018 کو اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 اپریل 2008۔
  16. "نیوزی لینڈ Sikh Population via NZ 2006 census"۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 اپریل 2008۔
  17. "2008 UNHCR report: Sikh Population of ہانگ کانگ/چین"۔ مورخہ 25 دسمبر 2018 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 3 مارچ 2008۔
  18. "Sikh Population of نیپال"۔ مورخہ 25 دسمبر 2018 کو اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 اپریل 2008۔
  19. "Sikh Population of جرمنی for statistical sampling"۔ مورخہ 25 دسمبر 2018 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 اپریل 2008۔
  20. "UN figures for فجی 1986"۔ مورخہ 25 دسمبر 2018 کو اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 اپریل 2008۔
  21. "Sikhism in ناروے"۔
  22. "Sikhs struggle for recognition in the Islamic republic – Radio فرانس Internationale"۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 نومبر 2009۔
  23. "Sikh Population of آسٹریا"۔ مورخہ 25 دسمبر 2018 کو اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 اپریل 2008۔
  24. Tom Coghlan؛ Laura Pitel؛ Sadie Gray (30 اگست 2007)۔ "Sikh Population of جمہوریہ آئرلینڈ from The Times"۔ London۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 اپریل 2008۔
  25. "2013 ترکی Census – Sikh Population" (PDF)|format= requires |url= (معاونت)۔ |url= غیر موجود یا خالی ہے (معاونت); |access-date= requires |url= (معاونت)
  26. Jeevan Saathi۔ "Sindhi Sikh Matrimony"۔ Sindhi Sikh Online Matrimonial Service۔ Jeevansathi۔ مورخہ 25 دسمبر 2018 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 مئی 2011۔
  27. بھارت کے سر پر منڈلاتا خطرہ۔۔۔۔۔’’خالصتان‘‘
This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.