غزالی
ابو حامد غزالی اسلام کے مشہور مفکر اور متکلم تھے۔ نام محمد اور ابو حامد کنیت تھی جبکہ لقب زین الدین تھا۔ ان کی ولادت 450ھ میں طوس میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم طوس و نیشا پور میں ہوئی۔
حجۃ الاسلام امام محمد بن محمد بن محمد الغزالی | |
---|---|
(عربی میں: أبو حامد محمد بن محمد الغزالي) | |
![]() حجۃ الاسلام امام غزالی حجۃ الاسلام امام غزالی | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 1058 [1] طوس |
وفات | 14 جمادی الثانی 505ھ / 19 دسمبر 1111ء (عمر: 55 سال قمری، 53 سال شمسی) طوس |
مدفن | مشہد |
رہائش | نیشاپور بغداد دمشق یروشلم |
شہریت | ![]() سلجوقی سلطنت |
نسل | ایرانی |
مذہب | اسلام |
فرقہ | سنی اشعری |
فقہی مسلک | شافعی |
عملی زندگی | |
استاذ | امام الحرمین جوینی |
تلمیذ خاص | ابو بکر ابن العربی |
پیشہ | فلسفی ، متکلم ، آپ بیتی نگار ، الٰہیات دان |
پیشہ ورانہ زبان | فارسی ، عربی [2] |
شعبۂ عمل | اسلامی فلسفہ |
کارہائے نمایاں | کیمیائے سعادت ، تہافت الفلاسفہ ، احيا علوم الدين |
مؤثر | ابن ادریس شافعی، جوینی، ابو طالب مکی، جنید بغدادی، حارث محاسبی، بایزید بسطامی |
![]() | |
نیشا پور سے وزیر سلاجقہ نظام الملک طوسی کے دربار میں پہنچے اور 484ھ میں مدرسہ بغداد میں مدرس کی حیثیت سے مامور ہوئے۔ جب نظام الملک اور ملک شاہ کو باطنی فدائیوں نے قتل کر دیا تو انہوں نے باطنیہ، اسماعیلیہ اور امامیہ مذاہب کے خلاف متعدد کتابیں لکھیں۔ اس وقت وہ زیادہ تر فلسفہ کے مطالعہ میں مصروف رہے جس کی وجہ سے عقائد مذہبی سے بالکل منحرف ہو چکے تھے۔ ان کا یہ دور کئی سال تک قائم رہا۔ لیکن آخر کار جب علوم ظاہری سے ان کی تشفی نہ ہوئی تو تصوف کی طرف مائل ہوئے اور پھر خدا ،رسول، حشر و نشر تمام باتوں کے قائل ہو گئے۔
488ھ میں بغداد چھوڑ کر تلاش حق میں نکل پڑے اور مختلف ممالک کا دورہ کیے۔ یہاں تک کہ ان میں ایک کیفیت سکونی پیدا ہو گئی اور اشعری نے جس فلسفہ مذہب کی ابتدا کی تھی۔ انہوں نے اسے انجام تک پہنچا دیا۔ ان کی کتاب’’ المنقذ من الضلال‘‘ ان کے تجربات کی آئینہ دار ہے۔ اسی زمانہ میں سیاسی انقلابات نے ان کے ذہن کو بہت متاثر کیا اور یہ دو سال تک شام میں گوشہ نشین رہے۔ پھر حج کرنے چلے گئے۔ اور آخر عمر طوس میں گوشہ نشینی میں گزاری۔
ان کی دیگر مشہور تصانیف احیاء العلوم، تحافتہ الفلاسفہ، کیمیائے سعادت اور مکاشفتہ القلوب ہیں۔ ان کا انتقال 505ھ کو طوس میں ہوا۔
ذہبی لکھتے ہیں کہ: ”غزالی، بہت بڑے شیخ، بحرِ بے کنار امام، حجۃ الاسلام، اپنے زمانے کے یگانہ روزگار جن کا لقب زین الدین، کنیت ابو حامد اور نسب محمد بن محمد بن محمد بن احمد طوسی شافعی غزالی ہے، آپ کی متعدد تصانیف ہیں، آپ انتہائی زیرک فہم کے مالک تھے، ابتدائی طور پر اپنے علاقے میں ہی فقہی علوم حاصل کیے، اس کے بعد اپنے طالب علم ساتھیوں کے ساتھ نیشاپور منتقل ہو گئے، وہاں انہوں نے امام الحرمین کی شاگردی اختیار کی، اور فقہ میں تھوڑی سی مدت کے دوران ہی اپنی مہارت کا لوہا منوایا، پھر علم کلام، علم جدل میں بھی مہارت حاصل کی، یہاں تک کہ مناظرین کی آنکھوں کا مرکز بن گئے۔“[3]
آپ کی تصانیف
امام غزالی نے سلطان سنجر کو لکھے خط میں یہ بتایا تھا کہ آپ کی تصانیف تقریباً دو سو ہیں ۔[4] لیکن یہ بھی تصور کیا جاتا ہے کہ آپ کی تصانیف کی تعداد 400 سے زیادہ ہے۔ لیکن مغربی سکالرز نے تحقیقات کرکے طے کیا ہے کہ ذیل کی فہرست آپ کی تصانیف ہیں۔ ان میں عربی اور فارسی زبانوں میں لکھی گی تصانیف ہیں۔
آخر کار ایک مصری سکالر نے بھی ایک فہرست بنائی جن میں 457 کتابوں کا ذکر ہے، جس میں 1 تا 72 مکمل طور پر امام غزالی کی تصنیفات ہیں۔ اور 73 تا 95 تک کے تصانیف پر شک ہے کہ یہ تصانیف امام غزالی کی ہیں ۔
صوفی طریقہ
- میزان العمل
- احیاء علوم الدین
- بدعت الہدایت
- کیمیائے سعادت
- منہاج العابدین
فلسفہ
- مقاصد فلسفہ
- تہافتہ الفلسفہ، اس کا رد ابن رشد نے تہافت التہافت کے نام سے کیا۔
شریعت
- فتاوی ال غزالی
- الواسط فی المذہب
- کتاب تہذیب الاصول
- المستسفی فی علم الاصول
- اسس ال قیاس
حوالہ جات
- http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb11904478v — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
- http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb11904478v — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
- سیر اعلام النبلاء 9 /323
- کیمیائے سعادت ( مترجم الیاس عادل)