علی بن عمر دارقطنی

شیخ الاسلام امام ابو الحسن دارقطنی امام حافظ مجوِّد سنن دارقطنی کے مصنف اور بہت بڑے محدث تھے۔

علی بن عمر دارقطنی
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 918  
بغداد  
وفات سنہ 995 (7677 سال)[1] 
بغداد  
شہریت دولت عباسیہ  
عملی زندگی
استاذ ابو القاسم بغوی  
تلمیذ خاص الحاکم نیشاپوری  
پیشہ محدث  
پیشہ ورانہ زبان عربی  
کارہائے نمایاں سنن دار قطنی  
باب اسلام

نام ونسب

علی، کنیت ابو الحسن۔لقب:شیخ الاسلام،امام الحدیث،حافظ الحدیث۔ سلسلۂ نسب یہ ہے: علی بن عمر احمد بن مہدی بن مسعود بن نعمان بن دینار بن عبد اللہ بغدادی دارقطنی۔ آپ کا مولد و مسکن بغداد معلیٰ کا محلہ "دار قطن" ہے جس کی طرف نسب کرتے ہوئے دار قطنی کہلائے۔

تاریخِ ولادت

امام دارقطنی کی ولادت 306ھ،بمطابق 918ء میں ہوئی۔

تحصیلِ علم

امام دراقطنی نے دنیائے اسلام کے عظیم علمی شہر بغداد معلیٰ میں نشو و نما پائی جو عباسیوں کا پایۂ تخت اور علم و علما کاعظیم مرکز تھا جہاں کے ذروں سے علم و فن کی کرنیں پھوٹتی تھیں۔ آپ کا گھر بھی علم کی تجلیوں سےمعمور تھا والد عمر بن احمد کا شمار محدثین میں ہوتا تھا۔جن کی آغوش میں امام دار قطنی نے پرورش پائی اور صغر سنی ہی سے طلب علم کا شوق پروان چڑھنے لگا۔ جب آپ کی عمر نو سال کی تھی درس حدیث میں شرکت شروع کردی۔

اساتذہ

بچپن سے ہی بڑے بڑے ائمہ کرام سے تعلیم حاصل کی جن میں ابی القاسم البغوی، یحیی بن محمد بن صاعد، ابی بکر بن ابی داود، ابی بکر النیسابوری، الحسین بن اسماعیل المحاملی، ابی العباس ابن عقدہ، اسماعیل الصفار ابن ساعد، حضرمی، ابن درید، ابن فیروز، علی بن عبد اللہ بن بشر محمد بن قاسم محاربی، ابو علی محمد بن سلیمان مالکی، ابو عمر قاضی ابو جعفر احمد بن بہلول، ابن زیاد نیشاپوری بدر بن ہشم قاضی، احمد بن قاسم فرائضی، حافظ ابو طالب۔ [2] ان کی تعریف میں بہت سے ائمہ کرام نے لکھا جن میں، الحافظ ابو عبد اللہ الحاکم، الحافظ عبد الغنی، تمام الرازی، ابو نعیم الاصبہانی، ابو بکر البرقانی، ابو عبد الرحمن السلمی، ابو حامد الاسفرایینی، قاضی ابو الطیب الطبری، حمزہ السہمی اور دیگر شامل ہیں۔

علمی سفر

جوانی میں شام اور مصر گئے اور ابن حیویہ النیسابوری اور ابی الطاہر الذہلی اور دیگر سے درس لیا، وہ علل حدیث اور رجالِ حدیث کے عارف تھے، قراتیں اور ان کے انداز کے متقدمین میں سے تھے، فقہ، اختلاف اور مغازی اور ایام الناس پر بھی دسترس رکھتے تھے۔

حافظ عبد الغنی الازدی فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پر سب سے بہتر دسترس رکھنے والے تین 3 ہیں: اپنے وقت میں ابن المدینی، اپنے وقت میں موسی بن ہارون اور اپنے وقت میں دارقطنی۔

تالیفات

وہ کثیر التصنیف تھے، ان کی تصانیف 80 سے زائد ہیں، جن میں العلل والسنن ان کی مایہ ناز کتاب ہے، کچھ دیگر تصانیف یہ ہیں:

  • سنن دارقطنی
  • الافراد والغرائب
  • المؤتلف والمختلف فی اسماء الرجال
  • الضعفاء والمتروکون
  • الالزامات علی صحیحی البخاری ومسلم

وفات

آپ 385ھ بمطابق 995ء کو انتقال کر گئے اور بغداد کے قبرستان باب الدیر میں معروف الکرخی کی قبر کے نزدیک دفن ہوئے۔[3]

حوالہ جات

  1. بنام: ʻAlī ibn ʻUmar Dāraquṭnī — ایس ای ایل آئی بی آر: https://libris.kb.se/auth/32755 — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  2. تذکرۃ، الحفاظ، ج3، ص186
  3. سنن دارقطنی(فتوحات جہانگیری)جلد اول شبیر برادرزاردو بازار لاہور
This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.