سلسلہ کوہ ہمالیہ

سلسلہ کوہ ہمالیہ (ہندی/سنسکرت: हिमालय، 'ہِمالَے' بمعنی برف کا گھر) ایک پہاڑی سلسلہ ہے جو برصغیر پاک و ہند کو سطح مرتفع تبت سے جدا کرتا ہے۔ بعض اوقات سلسلہ ہمالیہ میں سطح مرتفع پامیر سے شروع ہونے والے دیگر سلسوں جیسے کہ قراقرم اور ہندوکش کو بھی شامل کر لیا جاتا ہے۔

سلسلہ کوہ ہمالیہ
 

انتظامی تقسیم
ملک نیپال
میانمار
عوامی جمہوریہ چین
پاکستان
بھارت
افغانستان   [1]
جغرافیائی خصوصیات
متناسقات 27.988055555556°N 86.925277777778°E / 27.988055555556; 86.925277777778  
رقبہ 600000 مربع کلومیٹر  
بلندی 8848 میٹر  
جیو رمز {{#اگرخطا:1252558  |}}
[[file:|16x16px|link=|alt=]] 
نحوی غلطی
[مکمل اسکرین پر]

ہمالیہ اپنے ذیلی سلسلوں کے ساتھ دنیا کا سب سے اونچا پہاڑی سلسہ ہے جس میں دنیا کی بلند ترین چوٹیاں بشمول ماؤنٹ ایورسٹ اور کے ٹو موجود ہیں۔ 8,000 میٹر سے بلند دنیا کی تمام چوٹیاں اسی پہاڑی سلسلے میں واقع ہیں۔ اس سلسلے کی بلندی کو سمجھنے کے لیے یہ جان لینا کافی ہے کہ اس میں 7,200 میٹر سے بلند 100 سے زیادہ چوٹیاں ہیں جبکہ اس سے باہر دنیا کی بلد ترین چوٹی کوہ اینڈیز میں واقع اکونکاگوا ہے جس کی بلندی صرف 6,962 میٹر ہے۔[2]

دنیا کے بہت سے بڑے دریا جیسے سندھ، گنگا، برہم پتر، یانگزی، میکانگ، جیحوں، سیر دریا اور دریائے زرد ہمالیہ کی برف بوش بلندیوں سے نکلتے ہیں۔ ان دریاؤں کی وادیوں میں واقع ممالک افغانستان، بنگلہ دیش، بھوٹان، بھارت، پاکستان، چین، نیپال، برما، کمبوڈیا، تاجکستان، ازبکستان، ترکمانستان، قازقستان، کرغیزستان، تھائی لینڈ، لاؤس، ویتنام اور ملائیشیا میں دنیا کی تقریباً آدھی آبادی، یعنی 3 ارب لوگ، بستے ہیں۔

ہمالیہ کا جنوبی ایشیا کی تہذیب پر بھی گہرا اثر ہے؛ اس کی اکثر چوٹیاں ہندو مت، بدھ مت اور سکھ مت میں مقدس مانی جاتی ہیں۔ ہمالیہ کا بنیادی پہاڑی سلسلہ مغرب میں دریائے سندھ کی وادی سے لیکر مشرق میں دریائے برہمپترا کی وادی تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ برصغیر کے شمال میں 2,400 کلومیٹر لمبی ایک مہراب یا کمان کی سی شکل بناتا ہے جو مغربی کشمیر کے حصے میں 400 کلومیٹر اور مشرقی اروناچل پردیش کے خطے میں 150 کلومیٹر چوڑی ہے۔ یہ سلسلہ تہ در تہ پہاڑوں پر مشتمل ہے جن کی اونچائی جنوب سے شمال کی طرف بڑھتی جاتی ہے۔ تبت سے قریب واقع انتہائی شمالی سلسلے کو، جس کی اونچائی سب سے زیادہ ہے، عظیم ہمالیہ یا اندرونی ہمالیہ کہا جاتا ہے۔

گلیشئر اور دریا

ہمالیہ میں کم و بیش 15,000 گلیشیٔر ہیں جن میں تقریباً 12,000 مکعب کلومیٹر پانی ذخیرہ ہے۔ پاکستان اور بھارت کی سرحد پر واقع 70 کلومیٹر لمبا سیاچن گلیشیر دنیا میں قطبین سے باہر دوسرا طویل ترین گلیشیر ہے۔ قطبین کے باہر طویل ترین گیشیر بھی ہمالیہ سے زیادہ دور نہیں، یہ تاجکستان کا فریڈشینکو گلیشیر ہے جس کی لمبائی 77 کلومیٹر ہے۔ ہمالیہ کے کچھ دوسرے مشہور گلیشیر گنگوتری اور یمنوتری گیشیر (اتراکھنڈ)، نوبرا، بیافو اور بالتورو گلیشیر (قراقرم)، زیمو اور کھُمبو گلیشیر (ماؤنٹ ایورسٹ) ہیں

گرم علاقوں کے قریب واقع ہونے کے باوجود ہمالیہ کے بلند تر علاقے سارا سال برف سے ڈھکے رہتے ہیں۔ ان برف پوش چوٹیوں سے بہت سے دریا نکلتے ہیں جو موسمی دریاؤں کے برعکس سارا سال چلتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر دریا برصغیر پاک و ہند کے دو دریائی نظاموں میں سے کسی ایک میں شامل ہوجاتے ہیں:

  • مغربی دریا سندھ طاس کا حصہ ہیں جن میں دریائے سندھ سب سے بڑا ہے۔ دریائے سندھ تبت میں دریائے سینگے اور دریائے گار کے ملاپ سے وجود میں آتا ہے اور بھارت اور پاکستان سے گزرتا ہوا بحیرہ عرب میں گرتا ہے۔ اس کے معاونین میں جہلم، چناب، راوی، بیاس اور ستلج کے علاوہ دوسرے بہت سے چھوٹے دریا بھی شامل ہیں
  • ہمالیہ کے دیگر دریاؤں کی اکثریت گنگا برہماپترا طاس میں شامل ہے۔ اس طاس کے سب سے بڑے دریا گنگا اور برہم پترا ہیں۔ برہماپترا مغربی تبت میں دریائے یارلنگ تسانگپو کی حیثیت سے شروع ہوتا ہے اور مشرق کی طرف سفر کرتا ہوا تبت اور پھر آسام کی وادیوں سے گزرتا ہے۔ گنگا اور برہماپترا کا ملاپ بنگلہ دیش میں ہوتا ہے جس کے بعد یہ دریا دنیا کا سب سے بڑا ڈیلٹا[3] بناتا ہوا خلیج بنگال میں گرتا ہے۔

ہمالیہ سے نکلنے والے مشرقی ترین دریا میانمار کے دریائے آئیروادی سے ملتے ہیں۔ یہ دریا جنوب کی جانب بہتے ہیں اور مشرقی تبت اور میانمار سے ہوتے ہوئے بحیرہ انڈمان میں گرتے ہیں۔

دریائے سالوین، میکانگ، یانگزی اور ہوانگ ہی (دریائے زرد) بھی سطح مرتفع تبت سے نکلتے ہیں تاہم تبت کے یہ حصے ارضیاتی طور پر کوہ ہمالیہ کا حصہ نہیں اور اس لیے ان دریاؤں کو ہمالیہ کے دریاؤں میں شمار نہیں کیا جاتا۔ تاہم کچھ ارضیات دان ان تمام دریاؤں کو مجموعی طور پر "حلقہ ہمالیہ دریا" کہتے ہیں[4]

حالیہ سالوں میں سائنسدانوں نے گلیشیروں کے پگھلنے میں خاطر خواہ تیزی دیکھی ہے۔[5] اگرچہ گلیشیروں کے پگھلنے کے اثرات بہت سالوں تک پوری طرح واضع نہیں ہوں گے، اس سے شمالی بھارت اور پاکستان میں کروڑوں لوگوں کی زندگیاں متاثر ہونے کا خدشہ ہے جو خشک موسم میں اپنے دریاؤں میں ان گیشیروں سے آنے والے پانی پر انحصار کرتے ہیں۔[6]

جھیلیں

ان پہاڑوں میں سینکڑوں جھیلیں موجود ہیں۔ زیادہ تر جھیلیں 5000 میٹر سے کم بلندی پر واقع ہیں اور بلندی کم ہونے کے ساتھ ساتھ جھیلوں کی جسامت بھی کم ہوتی جاتی ہے۔ اس سلسلے کی سب سے بڑی جھیل پنگونگ تسو ہے جو بھارت اور چین کی سرحد پر واقع ہے۔ یہ 4600 میٹر کی بلندی پر ہے، چوڑائی 8 کلومیٹر اور لمبائی لمبائی لگ بھگ 134 کلومیٹر ہے۔

موسمی اثرات

کوہ ہمالیہ کے برصغیر پاک و ہند اور سطح مرتفع تبت کے موسم پر انتہائی اہم اثرات ہیں۔ یہ پہاڑ آرکٹک اور سائبیریا سے آنے والی انتہائی سرد اور خشک ہوا کو برصغیر میں داخل نہیں ہونے دیتے جس کے باعث برصغیر کا موسم نسبتاً گرم ہے۔ یہ مون سون کی ہواؤں کو بھی مزید شمال کی جانب جانے سے روکتے ہیں جس کے باعث ترائی کے علاقے میں خوب بارش ہوتی ہے۔ اس بارش کے باعث ہوا سے تمام نمی خارج ہوجاتی ہے اور جو ہوائیں ہمالیہ کو پار کرکے تبت تک پہنچتی ہیں، وہ وہاں بارش نہیں برساتیں۔ اسی وجہ سے سائنس دان سلسلہ کوہ ہمالیہ کو صحرائے ٹکلامکان اور صحرائے گوبی کی تشکیل کا باعث بھی سمجھتے ہیں۔

ہمالیہ میں، جسے کہ اکثر اوقات دنیا کی چھت بھی کہا جاتا ہے ہے، قطبین کے علاوہ سب سے زیادہ گلیشئر پائے جاتے ہیں۔ ایشیا کے دس سب سے بڑے دریا اس سلسلے یا اس سے ملحقہ علاقوں سے نکلتے ہیں اور لگ بھگ ایک ارب لوگوں کی زندگی کا دارومدار ان دریاؤں پر ہے۔

ہمالیہ کی قابل ذکر چوٹیاں

نامدیگر نام اور معنیبلندی (میٹر)بلندی (فٹ)فتح اولنوٹ
ایورسٹساگرماتھا (نیپالی), "دنیا کا سر",[7]
چومولانگما(تبتی), "برف کی دیوی ماں"[7]
8,84829,035.441953دنیا کا بلند ترین پہاڑ، نیپال اور تبت-چین کی سرحد پر واقع
کے ٹوشاہگوری، ماؤنٹ گُڈوِن آسٹن8,61128,2511954دنیا کا دوسرا بلند ترین پہاڑ۔ گلگت و بلتستان-پاکستان اور زنجیانگ-چین کی سرحد پر واقع
کنگچنجنگاکنگچن ژونگا، "عظیم برف کے پانچ خزانے"8,58628,1691955دنیا کا تیسرا بلند ترین پہاڑ۔ نیپال اور سکم-بھارت کی سرحد پر واقع
لہوٹسے"جنوبی چوٹی"8,51627,9401956دنیا کا چوتھا بلند ترین پہاڑ۔ تبت-چین اور نیپال کی سرحد پر ماؤنٹ ایورسٹ کے سائے میں واقع ہے
مکلو"عظیم کالا"8,46227,7651955دنیا کا پانچواں بلند ترین پہاڑ۔ تبت-چین اور نیپال کی سرحد پر واقع ہے
چو اویوقووو وویاگ، "فیروزی دیوی"8,20126,9051954دنیا کا چھٹا بلند ترین پہاڑ۔ تبت-چین اور نیپال کی سرحد پر واقع ہے
دہولاگری"سفید پہاڑ"8,16726,7641960دنیا کا ساتواں بلند ترین پہاڑ۔ نیپال میں واقع ہے
مناسلوکُتانگ، "روح کا پہاڑ"8,15626,7581956دنیا کا آٹھواں بلند ترین پہاڑ۔ گورکھا ہمال، نیپال میں واقع ہے
نانگا پربتدیامیر، "ننگا پہاڑ"8,12626,6601953دنیا کا نواں بلند ترین پہاڑ۔ پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں واقع ہے
اناپورنا"کٹائی یا پیداوار کی دیوی"8,09126,5451950دنیا کا دسواں بلند ترین پہاڑ جو نیپال میں واقع ہے
گاشربرم 1"خوبصورت پہاڑ"8,08026,5091958دنیا کا گیارہواں بلند ترین پہاڑ جو پاکستان کے سلسلہ کوہ قراقرم میں واقع ہے
براڈ پیکفائیچان کنگڑی8,04726,4011957دنیا کا بارہواں بلند ترین پہاڑ جو پاکستان کے سلسلہ کوہ قراقرم میں واقع ہے
گاشربرم 2-8,03526,3621956دنیا کا تیرہواں بلند ترین پہاڑ جو پاکستان کے سلسلہ کوہ قراقرم میں واقع ہے
شیشاپنگمازیزیابنگما، "گھاس کے میدانوں کے اوپر تاج"8,01326,2891964دنیا کا چودھواں بلند ترین پہاڑ جو تبت-چین میں واقع ہے
گیاچُنگ کانگنامعلوم7,95226,0891964دنیا کا چھٹا بلند ترین پہاڑ۔ تبت-چین اور نیپال کی سرحد پر واقع ہے اور دنیا کا سب او اونچا پہاڑ ہے جو 8,000 میٹر سے کم بلند ہے
گاشربرم 4-7,92526,0011958دنیا کا سترہواں بلند ترین پہاڑ جو پاکستان کے سلسلہ کوہ قراقرم میں واقع ہے
ماشربرمنامعلوم7,82125,6601960دنیا کا بائیسواں بلند ترین پہاڑ جو پاکستان کے سلسلہ کوہ قراقرم میں واقع ہے
نندا دیوی"فرحت بخش دیوی"7,81725,6451936دنیا کا تئیسواں بلند ترین پہاڑ جو اتراکھنڈ-بھارت میں واقع ہے۔ یہ مکمل طور پر بھارت میں واقع بلند ترین چوٹی ہے۔
راکاپوشی"چمکتی دیوار"7,78825,5511958ایک جسیم پہاڑ جو اپنے گردونواح سے بہت بلند ہے۔ پاکستان کے سلسہ کوہ قراقرم میں واقع ہے۔
گنگکھر پوئنسمگنکر پُنزم، "تین پہاڑی بہنیں"7,57024,836سر نہیں ہوئیدنیا کی بلند ترین چوٹی جو اب تک سر نہیں ہوئی۔ بھوٹان میں واقع یہ چوٹی کوہ پیمائی کے لیے ممنوع ہے۔
اما دبلم"ماں اور اس کا ہار"6,84822,4671961کچھ لوگوں کے نزدیک دنیا کے حسین ترین پہاڑوں میں سے ایک۔ کھُمبو، نیپال میں واقع ہے

ایوانِ عکس

حوالہ جات

  1.  "صفحہ سلسلہ کوہ ہمالیہ في GeoNames ID"۔ GeoNames ID۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 نومبر 2019۔
  2. Himalayan Mountain System۔ مورخہ 25 دسمبر 2018 کو "South+Tibet+Valley"&output=html&sig=cplbaHyY4CGV0ogUvw0NT8o0EfM اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2007-08-07۔
  3. "Sunderbans the world's largest delta"۔ gits4u.com۔ مورخہ 25 دسمبر 2018 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔
  4. Gaillardet، J; Métivier, Lemarchand, Dupré, Allégre, Li, Zhao (2003). "Geochemistry of the Suspended Sediments of Circum-Himalayan Rivers and Weathering Budgets over the Last 50 Myrs" (PDF). Geophysical Research Abstracts 5 (13617). http://www.cosis.net/abstracts/EAE03/13617/EAE03-J-13617.pdf۔ اخذ کردہ بتاریخ 2006-11-04.
  5. "Vanishing Himalayan Glaciers Threaten a Billion"۔ Planet Ark۔ جون 5, 2007۔ اخذ شدہ بتاریخ 2009-04-17۔
  6. "Glaciers melting at alarming speed"۔ People's Daily Online۔ جولا‎ئی 24, 2007۔ مورخہ 25 دسمبر 2018 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2009-04-17۔
  7. "Edelweiss trekking, mountaineering, rafting, safari cultural and pilgrimage tours in Nepal"۔ مورخہ 25 دسمبر 2018 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2009-04-23۔
This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.