سیاچن گلیشیر

سیاچن بلتی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں جنگلی گلاب اس گلیشیر پر یہ پودا زیادہ اگتا ہے اس لیے بلتی لوگ اسے سیاچن کہتے ہیں۔ یہ بلتستان کے ضلع گانچھے میں واقع ہے جہاں سلتورو نام کے گاؤں سے اس کو راستہ جاتا ہے ،چونکہ متنازع خطہ ہے اس لیے کبھی کبھی اس کا شمار ضلع گانچھے میں نہیں بھی کیا جاتا

سیاچن گلیشیر
Satellite imagery of the Siachen Glacier
قسم پہاڑی گلیشیر
مقام سلسلہ کوہ قراقرم، Controlled by India, (disputed by Pakistan)
متناسقات 35.421226°N 77.109540°E / 35.421226; 77.109540
لمبائی 76 کلومیٹر (249,000 فٹ) using the longest route as is done when determining river lengths or 70 کلومیٹر (230,000 فٹ) if measuring from Indira Col[1]

سیاچن تنازع

سیاچن حقیقتا پاکستان کا حصہ ہے اور دنیا کے تمام نقشوں میں اسے پاکستانی علاقے میں دکھایا گیا ہے لیکن 1984 میں انڈیا کی فوج نے اس پر قبضہ کیا تھا جس کا مقصد پاکستان اور چین کے درمیان رابطے کو کاٹنا تھا۔
سیاچن پر بھارت نے 1984ء میں قبضہ کیا تھا۔ اس وقت سے لے کر آج تک یہ مسئلہ بھارت اور پاکستان کے درمیان تنازع کا باعث بنا ہوا ہے۔ اس بلند ترین جگہ سے بھارت کا قبضہ ختم کرانے کے سلسلے میں بھارت اور پاکستان کی قیادتوں کے درمیان میں کئی مرتبہ بات چیت ہو چکی ہے جس میں ٹریک ٹو ڈپلومیسی بھی شامل ہے، لیکن ہنوز اس تنازع کا کوئی حل نہیں نکل سکا ہے۔

سیاچن گلیشیئر پر گرمیوں میں بھی درجہ حرارت منفی دس کے قریب رہتا ہے۔ جبکہ سردیو ں میں منفی پچاس ڈگری تک جاپہنچاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں یہاں سال بھر کسی قسم کی زندگی کے پنپنے کا کوئی امکان نہیں رہتا۔ جو فوجی وہاں تعینات ہوتے ہیں ان کے لیے اس درجہ حرارت پر کھانا پینا ہی نہیں سانس لینا تک ایک انتہائی دشوار کام ہے۔ سردی کی شدت کی بنا پر فوجیوں کی اموات اور ان کے اعضاء کا ناکارہ ہو جانا ایک معمول کی بات ہے۔

اس بلند ترین جنگی محاذ پر پاکستان کے سپوت بے مثال جرات کا مظاہرہ کر کے جہاں بھارت کی جارحیت کو روکے ہوئے ہیں، وہیں وہ بے رحم موسم کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کر رہے ہیں۔ اب تک پاکستان کے سینکڑوں سپاہیوں نے اس محاذ پر بھارتی قبضے کو روکنے اور سخت ترین سردی، برفانی تودوں اور ہواؤں کا مقابلہ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا ہے۔

سیاچن کے محاذ پر صرف پاکستان کا ہی نقصان نہیں ہو رہا بلکہ بھارتی فوجی بھی مارے جا رہے ہیں۔ ہر سال جنگی محاذ پر بھارت 10 ارب روپے خرچ کر رہا ہے جبکہ پاکستان پر بھی اس کی وجہ سے مالی دباؤ بڑھ رہا ہے۔ اس طرح دونوں ممالک اس جگہ بے مصرف جنگ پر اپنے مالی و جانی وسائل صرف کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ اس جنگی ساز و سامان اور اس کے استعمال سے ماحول پر مہلک اثرات پڑ رہے ہیں۔ ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ دونوں طرف سے فوجی کارروائیوں کی وجہ سے اس جگہ آبی حیات کو بہت زیادہ نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس کے علاوہ نشیب میں واقع درختوں کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔ گلیشیئر بڑی تیزی کے ساتھ پگھل رہا ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں سیلاب تواتر کے ساتھ آ رہے ہیں۔ بھارت کے بعض علاقے بھی زیادہ تیزی سے برف پگھلنے کی صورت میں سیلاب کی زد میں آ چکے ہیں۔

حوالہ جات

  1. Dinesh Kumar (13 اپریل 2014)۔ "30 Years of the World's Coldest War"۔ چندی گڑھ: دی ٹریبیون۔ مورخہ 25 دسمبر 2018 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 اپریل 2014۔

بیرونی روابط

سانچہ:لداخ

مزید دیکھیے

This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.