ٹھٹہ

ٹھٹہ (سندھی: ٺٽو) پاکستان کے صوبہ سندھ میں کینجھر جھیل (جو پاکستان میں تازہ پانی کی سب سے بڑی جھیل ہے) کے نزدیک واقع تقریباً 22،000 بائیس ہزار نفوس پر مشتمل ایک تاریخی مقام ہے۔ ٹھٹہ کے بیش تر تاریخی مقامات و نوادرات کو یونیسکو کے عالمی ثقافتی ادارے نے عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا ہے۔[1] یہ قصبہ کراچی کے مشرق میں تقریباً 98 کلومیٹر یا 60 میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ کراچی کے قرب میں ہونے کی وجہ سے، اس تاریخی و خوبصورت جگہ پر سیاحت کے دلدادہ لوگوں کی بڑی تعداد آسانی کے ساتھ یہاں پہنچ جاتی ہے، خصوصاً ہفتہ وار تعطیلات کے ایام میں یہاں لوگوں کی بڑی تعداد سیروسیاحت اور تاریخی مقامات، مزارات، مساجد وغیرہ کی زیارت کے لیے آتی ہے۔ اس کے اطراف میں بنجر اور چٹانی کوہستانی علاقہ اور دلدلی زمین بھی ہے۔ گنا یہاں کی سب سے زیادہ کاشت کی جانے والی فصل ہے جبکہ اونٹوں کی افزائش و پیدائش بھی آمدن کا نہایت عام ذریعہ ہے۔ اس کے اطراف و اکناف کی کھدائی میں قدیم تاریخی نوادرات ملے ہیں جو زمانہ قبل مسیح سے تعلق رکھتے ہیں۔[2] ٹھٹہ کو سندھ کی تاریخ میں کئی اعتبار سے اہمیت حاصل ہے خدا آباد، حیدرآباد اور کراچی کی طرح یہ بھی ماضی میں سندھ کا دار السلطنت رہا ہے۔ ایک زمانے میں یہاں سینکڑوں درسگاہیں تھیں۔ اورنگزیب عالمگیر کے عہد میں سندھ کا دورہ کرنے والے ایک انگریز سیاح نے اعتراف کیا ہے کہ اس نے ٹھٹہ میں 400 کے لگ بھگ ایسے مدارس دیکھے جہاں دینی و دنیاوی علوم کی تعلیم دی جاتی تھی۔

ٹھٹہ
شہر
ٺٽو
اوپر سے نیچے دائیں سے بائیں: مکلی قبرستان کا منظر، قبرستان میں عیسیٰ خان حسین کا مقبرہ، شاہجہاں مسجد کے بیرونی اور اندرونی مناظر
عرفیت: The City of Silence
ٹھٹہ
ٹھٹہ
ٹھٹہ کا محل وقوع
متناسقات: 24°44′46″N 67°55′28″E
ملک پاکستان
صوبہ سندھ
ضلع ٹھٹہ
آبادی
  کل 220,000
منطقۂ وقت پاکستان کا معیاری وقت (UTC+5)
شاہراہیں این-5

تاریخ

اس شہر کو سومروں، سمہ، ارغون، ترخان اور مغلوں نے اپنا پایۂ تخت بنایا۔ چودہویں صدی عیسوی میں یہ شہر نہایت اہمیت کا حامل رہا ہے۔ اُس وقت یہ نہ صرف اسلامی فنون کا مرکز بلکہ سندھ کا دار الخلافہ بھی تھا، جو 95 سال تک رہا۔ دہلی کے سلطان محمدتغلق کا انتقال بھی اسی شہر میں ہوا۔ چودھویں صدی سے لے کر 1739ء تک یہاں سمہ، ارغون، ترخان اور مغل حکمرانوں کی حکومت قائم رہی۔ تاہم 1739ء کی جنگ کرنال میں ایران کے بادشاہ نادر شاہ نے اس پر قبضہ کر لیا اور اس کے بعد سے اس شہر کو بالکل نظر انداز کر دیاگیا۔ ٹھٹہ اسلامی فنِ تعمیر کی تاریخی وراثت سے مالامال ہے، جو سولہویں اورسترہویں صدی میں بنائے گئے۔ ٹھٹہ کی تاریخ قریباً دوہزار سال سے زائد پرانی ہے۔ سولہویں صدی میں اس عظیم شہر کی عظمت کی علامتیں اب بھی کہیں کہیں نظر آتی ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سکندر اعظم یہاں اپنی فوج کے ساتھ طویل مسافت کے دوران تازہ دم ہونے کے لیے یہاں اقامت پزیر ہوا تھا جس کے آثار ایک جزیرہ میں اب بھی موجود ہیں۔[2] ٹھٹہ کی باقیات میں یہاں مقبرے، مزارات، مساجد وغیرہ شامل ہیں۔

اہم مقامات

مائی مکلی قبرستان، ٹھٹہ

ٹھٹہ کے نوادرات میں جامع مسجد (جسے شاہجہانی مسجد اوربادشاہی مسجد بھی کہا جاتا ہے) جو مغل بادشاہ شاہجہان نے 49-1647ء کے درمیان تعمیر کرائی تھی۔ اس مسجد میں 93 گنبدہیں اور اس مسجد کو اس انداز میں تعمیر کیا گیا ہے کہ اس میں امام کی آواز بغیر کسی مواصلاتی آلہ کے پوری مسجد میں گونجتی ہے۔ مقبروں میں یہاں سب سے بڑا اور قابلِ دید مقبرہ عیسیٰ خان ترخان کا ہے جو 1644ء میں انتقال کر گیا تھا۔ عیسیٰ خان ترخان نے یہ مقبرہ اپنی زندگی میں ہی تعمیر کروا لیا تھا۔ مقبرے کی تعمیر مکمل ہوتے ہیں، عیسٰی خان نے مقبرے کو بنانے والے ہنرمند کے ہاتھ کٹوا دیے تھے تاکہ کوئی دوسرا بادشاہ اس طرح کا مقبرہ نہ بنوا سکے۔[2] عیسیٰ خان کے مقبرے کے علاوہ یہاں مرزا جانی بیگ، مرزا تغرل بیگ اور دیوان شرفاء خان کے مقبرے بھی نہایت مشہور ہیں۔

مائی مکلی قبرستان میں موجود مقبرے، ٹھٹہ

اس کے علاوہ دنیا کا سب سے بڑا اور قدیم قبرستان مکلی بھی ٹھٹہ کے قریب واقع ہے۔ یہ قبرستان جس میں لاکھوں قبو رہیں تقریباً آٹھ کلومیٹر کے رقبے پر محیط ہے۔ یہاں کئی بادشاہ، ملکہ، علما، فلسفی اور جرنیل ابدی نیند سو رہے ہیں۔ یہاں کی قبروں کی خاص بات اُن کے دیدہ زیب خدوخال اور نقش و نگار ہیں جو نہ صرف اہلِ قبر کے زمانے کی نشان دہی کرتے ہیں بلکہ اُس وقت کی تہذیب، ثقافت اور ہنرمندی کا بھی منہ بولتا ثبوت ہیں۔ یہاں موجود قبریں تاریخی اعتبار سے دو ادوار میں تقسیم کی جاتی ہیں۔ پہلا سما بادشاہوں کا دور جو (1520ء - 1352ء) تک رہا اور دوسرا ترخان بادشاہوں کا دور جو (1592ء - 1556ء) تک رہا۔ ان عمارتوں کے ڈھانچے نہایت مضبوط، طرزِ تعمیر نہایت عمدہ اور تعمیری مواد بہت ہی اعلیٰ معیار کا ہے۔ ان قبروں پر کی گئی نقاشی اور کشیدہ کاری کا کام اپنی مثال آپ ہے۔ یہ قبرستان تاریخ کا وہ ورثہ ہے جو قوموں کے مٹنے کے بعد بھی اُن کی عظمت و ہنر کا پتہ دیتا ہے۔ اس کو دیکھنے کے لیے ہر سال ہزاروں لوگ اس قبرستان میں آتے ہیں۔

حوالہ جات

This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.