لیونہارڈ اویلر

لیونہارڈ پال اویلر (Leonhard Paul Euler) (پیدائش: 15 اپریل 1707ء وفات: 18 ستمبر 1783ء) سویٹزر لینڈ سے تعلق رکھنے والا نامور ریاضی دان اور طبیعیات دان تھا جس کی عمر کا بیشتر حصہ جرمنی اور روس میں گزرا۔ اس نے ریاضی کی بہت سی شاخوں میں کام کیا اور بہت اہم دریافتیں کیں۔ حسابان، نظریۂ گروہ، نظریۂ عدد، اطلاقی ریاضیات، تالیفیات، ہندسہ، فلکیات، طبیعیات اور ریاضی کی بہت سی شاخوں میں قابل قدر کام کیا۔ نیز اس نے دالہ کا تصور بھی متعارف کرایا [30]۔ لیونہارڈ اویلر ریاضی کے ہر دور میں موجود عظیم ریاضی دانوں کی فہرست میں ہمیشہ نمایاں مقام پر فائز رہا۔ اس کی تمام معیاری تصانیف کو اگر یکجا کیا جائے تو بآسانی 60 سے 80 جلدیں شائع کی جاسکتی ہیں۔[31]۔

لیونہارڈ اویلر
(جرمن میں: Leonhard Euler)[1] 
 

معلومات شخصیت
پیدائش 15 اپریل 1707 [2][3][4][5][6][7][1] 
بازیل [8][9][10][1] 
وفات 18 ستمبر 1783 (76 سال)[3][4][5][6][7][11][12] 
سینٹ پیٹرز برگ [13][9][1] 
وجۂ وفات دماغی جریان خون  
طرز وفات طبعی موت  
رہائش مملکت پروشیا، سلطنت روس
سویٹزرلینڈ
شہریت Old Swiss Confederacy [1]
سلطنت روس
مملکت پرشیا  
مذہب کالوینی[14][15]
رکن سائنس کی پروشیائی اکیڈمی [16]، رائل سویڈش اکیڈمی آف سائنسز ، سائنس کی روسی اکادمی ، روس کی اکادمی برائے سائنس [17]، فرانسیسی اکادمی برائے سائنس ، امریکی اکادمی برائے سائنس و فنون [18]، رائل سوسائٹی [17] 
عارضہ اندھا پن (1771–)[19] 
عملی زندگی
مقام_تدریس شاہی روسی اکادمی برائے علوم
برلن اکادمی
مادر علمی جامعہ بازیل (1720–)[20] 
تعلیمی اسناد پی ایچ ڈی [21] 
ڈاکٹری مشیر جون برنولی
استاذ جون برنولی  
ڈاکٹری طلبہ نکولس فس
جوہان فریڈرک ھینرٹ
Joseph Louis Lagrange
سٹیپن رمووسکی
تلمیذ خاص آنڈرز جوہان لیکسل ، Stepan Rumovsky ، Nicolas Fuss  
پیشہ ریاضی دان [22][1]، طبیعیات دان [23][1]، استاد جامعہ [1]، مصنف [24][1]، موسیقی کا نظریہ ساز [1]، ماہر فلکیات [1][25][26][27] 
پیشہ ورانہ زبان لاطینی زبان [28]، جرمن [29]، فرانسیسی [28]، روسی  
شعبۂ عمل ریاضیات و طبیعیات
ملازمت روس کی اکادمی برائے سائنس ، سائنس کی پروشیائی اکیڈمی ، ریاستی جامعہ سینٹ پٹیرزبرک  
کارہائے نمایاں Euler's identity ، عائلری کلیہ ، Gamma function ، اویلر دائم ، نو نقاطی دائرہ ، اویلر خط ، عائلرین مخطط  
مؤثر Pierre de Fermat  
اعزازات
فیلو آف امریکن اکیڈمی آف آرٹ اینڈ سائنسز (1782)[18] 
دستخط
لیونہارڈ اویلر

زندگی

اصطلاح term

حسابان
نظریۂ گروہ
نظریۂ عدد
اطلاقی ریاضی
تالیفیات
ہندسہ
فلکیات
طبیعیات
فعلیات
دالہ
ہندسیات
نقشہ نگاری
یونانی اساطیر
دائم
مثلثیاتی دالہ
تخیلی عدد
ریاضیاتی تحلیل
قوتی سلسلہ
اسی دالہ
مختلط عدد
ماروائی دالہ
عاملیہ
گاما دالہ
تکامل
حد
حسابان تغیرات
نظریۂ عدد
تحلیلی نظریۂ عدد
اولی اعداد
توزیع
اولیٰ عدد قضیہ
متقابل
انفرج
نظریۂ گراف
راس
کنارہ
وضعیت
تفرقی مساوات
طریقہ فاضلہ
میکانیات
اجرام فلکی
بصریات

calculus
group theory
number theory
applied mathematics
combinatorics
geometry
astronomy
physics
physiology
function
engineering
cartography
greek mythology
constant
trigonometry functions
imaginary number
mathematical analysis
power series
exponential function
complex number
transcendental function
factorial
gamma function
integral
limit
calculus of variations
number theory
analytic number theory
prime numbers
distribution
prime number theorem
reciprocal
diverge
graph theory
vertices
edge
topology
differential equation
method of fluxion
mechanics
celestial
optics

لیونہارڈ اویلر

ابتدائی زندگی

سویٹزر لینڈ کا پرانا 10 فرانک کا نوٹ

اویلر 15 اپریل 1707ء کو سویٹزر لینڈ کے شہر بازیل میں پال اویلر کے گھر پیدا ہوا۔ اس کی ماں مارگریٹ بروکر ایک پادری کی بیٹی تھی۔ اویلر کی دو چھوٹی بہنیں آنا ماریہ اور ماریہ میڈگلن بھی تھیں۔ اویلر کی پیدائش کے فوراً بعد یہ خاندان ریہین منتقل ہو گیا۔ اویلر نے اپنے بچپن کا کافی حصہ یہاں گزارا۔ پال اویلر کے برنولی خاندان سے کافی دوستانہ تعلقات تھے اور وہ جون برنولی جو اُس وقت یورپ کا چوٹی کا ریاضی دان تھا دوست تھا، بعد میں اسی نے نوجوان اویلر پر گہرا اثر ڈالا۔ اویلر نے اپنی رسمی تعلیم بازیل سے شروع کی اور 13 سال کی عمر میں جامعہ بازیل میں داخلہ لے لیا۔ 1723ء میں اویلر نے فلسفہ میں ماسٹر کیا جہاں اس نے رینے دیکارت اور نیوٹن کے فلسفے کے تقابلی جائزے پر تحقیقی مقالہ لکھا۔ اس وقت جون برنولی اسے ہفتہ کی شام کو پڑھایا کرتا تھا۔ اس نے جلد ہی محسوس کر لیا کہ نوجوان اویلر ریاضی میں خاصا ذہین واقع ہوا ہے۔[32]۔ چونکہ اس کا باپ اسے پادری بنانا چاہتا تھا اس لیے اویلر اس وقت اپنے باپ کی خواہش پر الٰہیات، یونانی اور عبرانی پڑھ رہا تھا۔ لیکن جون برنولی نے اس کے باپ کو قائل کر لیا کہ اویلر کی منزل ایک عظیم ریاضی دان بننا ہے۔ 1726ء میں اس نے آواز کے انتشار پر ایک مقالہ لکھا ۔۔[33] اس وقت وہ جامعہ بازیل میں کوئی مقام حاصل کرنا چاہ رہا تھا لیکن اس میں اسے ناکامی ہوئی۔ 1727ء میں وہ پیرس اکادمی کے زیر اہتمام ایک سالانہ مقابلہ میں شریک ہوا جس میں اویلر نے دوسرا انعام حاصل کیا۔ بعد ازاں اویلر نے یہ مقابلہ اپنی زندگی میں 12 دفعہ جیتا [34]

سینٹ پیٹرز برگ

لیونہارڈ اویلر 250 ویں سالگرہ پر 1957ء میں روس سے شائع کی گئی ڈاک ٹکٹ

اس وقت جون برنولی کے دو بیٹے ڈینیال برنولی اور نکولس برنولی دوم سینٹ پیٹرز برگ میں ایمپیریل رشیین اکادمی آف سائنس میں کام کر رہے تھے۔ 10 جولائی 1726ء کو نکولس برنولی کا روس میں صرف ایک سال گزارنے کے بعدانتقال ہو گیا۔ جب ڈینیال برنولی نے اپنے بھائی کی جگہ سنبھالی تو اس نے اپنے دیرینہ دوست لیونہارڈ اویلر کو فعلیات کے منصب کی پیشکش کی جسے اویلر نے بصد شوق قبول کر لیا۔ مگر اسے وہاں پہنچنے میں کچھ تاخیر ہو گئی جبکہ اس دوران جامعہ بازیل میں طبیعیات کے استاد کی حثیت سے تقرری کی درخواست دی جسے رد کر دیا گیا۔[35]۔ اویلر 17 مارچ 1727ء کو سینٹ پیٹرز برگ چلا گیا جہاں اس کی ترقی طب کے شعبہ سے ریاضی کے شعبہ میں ہو گئی۔ اس نے روسی زبان بھی سیکھ لی اور وہیں مقیم ہو گیا۔

اس اکادمی کا مقصد روس میں معیارِ تعلیم بلند کرنا اور روس و یورپ کے درمیان موجود سائنسی خلیج کو کم کرنا تھا۔ اس لیے یہ جگہ اولیر جیسے بیرونی علما ومفکرین کے لیے انتہائی پرکشش جگہ تھی۔ اکادمی کے پاس انتہائی وسیع مالی ذرائع تھے اسی کے ساتھ ایک وسیع وعریض کتب خانہ بھی موجود تھا۔ نیز طلبہ کی آمد بھی بہت کم تھی اس لیے اساتذہ پر تعلیم کا بوجھ بھی کافی کم ہوتا تھا، لہذا وہ اپنا زیادہ وقت تحقیق میں صرف کرتے تھے [36] اور اکادمی بھی ان کی حوصلہ افزائی کرتی تھی اور ان کو تحقیقات کے لیے کافی وقت دیا جاتا تھا۔ 1731ء میں اویلر طبیعیات کا استاد بن گیا اور دو سال بعد جب ڈینیال روس سے واپس بازیل چلا گیا تو اویلر کو شعبہ ریاضی کا سربراہ بنا دیا گیا[37]۔ 7 جنوری 1734ء کو اس نے کیتھرینا سے شادی کی۔ ان کے تیرہ بچے ہوئے مگر صرف پانچ ہی زندہ رہ سکے [38]۔

برلن

لیونہارڈ اویلر کی 200 وہں سالگرہ پر 1983ء میں جرمنی سے شائع شدہ ڈاک ٹکٹ

روس کے بحران کی وجہ سے اویلر 19 جون 1741ء کو فریڈرک دوم کی پیشکش پر برلن آ گیا اور برلن اکادمی میں شمولیت اختیار کر لی۔ وہ وہاں 25 سال رہا، اس دوران اس نے 380 سے زیادہ مقالات تحریر کیے۔ برلن میں ہی اس کی لکھی ہوئی دو تصانیف بہت مشہور ہوئیں جن میں ایک تعارف تحلیلِ لامتناہی اور دوسری اساسِ حسابانِ تفرقی ہے جو بالترتیب 1748ء [39] اور 1755ء [40] میں شائع ہوئے۔
اسی دوران فرِیڈرک دوم نے اسے اپنی بھتیجی کو پڑھانے کا کہا۔ اویلر نے اسے تقریبا 200 خطوط لکھے جو بعد میں خطوط اویلر بر مختلف موضوعاتِ فلسفہ فطرت بنام جرمن شہزادی کے نام سے کتابی شکل میں شائع ہو کر بہت مشہور ہوئے[41]۔ اویلر نے ان خطوط میں طبیعیات، ریاضی اور مذہب کے مختلف گوشوں پر کلام کیا ہے۔ اس سے اویلر کی شخصیت پر کافی روشنی پڑتی ہے۔ درحقیقت اویلر کا یہ کام اس کی ریاضی کی تصانیف سے زیادہ مقبول ہوا اور یورپ و امریکہ میں بھی شائع کیا گیا۔ اس کی شہرت کی ایک وجہ اویلر کا سائنسی اصطلاحات اور مواد کو عام آدمی کے لیے لکھنے کی صلاحیت ہے جو عموما محققین میں کم ہی ہوتی ہے۔

برلن اکادمی کی شہرت و وقار میں اویلر کا قابل ذکر اور نمایاں حصہ شامل تھا لیکن اس کے باوجود اسے برلن چھوڑ کر جانا پڑا۔ اس کی وجہ اس کے فریڈرک دوم اور اویلر میں تنازع تھا۔ فرانسیسی فلسفی اور مصنف والٹیئر ان دنوں فریڈرک کا خاص آدمی تھا۔ اویلر کے خیالات بہت حد تک والٹیئر سے مختلف ہوا کرتے تھے۔ اویلر کو بلاغت کی کوئی تربیت نہیں تھی مزید وہ ان معاملات پر رائے زنی کرنے سے گریز کرتا تھا جن کا اس سے کوئی واسطہ نہیں تھا اس لیے وہ اکثر والٹیئر کا نشانہ بنتا تھا۔ نیز فریڈرک کو اویلر کی ہندسیات کی صلاحیتوں پر بھی مایوسی تھی۔

نگاہ کی کمزوری

اویلر کی نگاہ اس کی پوری ریاضی کی پیشہ ورانہ زندگی کے دوران خراب سے خراب تر ہی ہوتی رہی۔ 1735ء میں اسے ایک جان لیوا بخار ہوا اس کے تین سال بعد اس کی داہنی آنکھ کی بینائی ختم ہو گئی۔ اویلر سینٹ پیٹرز برگ میں کی گئی نقشہ نگاری کو اس کا باعث سمجھتا تھا۔ اس کی بینائی جرمنی میں مزید خراب ہوتی گئی اور نوبت یہاں تک آگئی کہ فریڈرک اس کو سیکلوپ کہنے لگ گیا جو یونانی اساطیر میں ایک آنکھ والے کردار ہیں۔ بعد میں اس کی دوسری آنکھ بھی خراب ہونے لگی اور اس میں موتیا بند ہو گیا۔ اس کے کچھ ہی ہفتوں بعد وہ 1776ء میں تقریباً نابینا ہو گیا۔ مگر اس کے باوجود اس کے کام میں کوئی کمی نہ آئی اور وہ اسی طرح اعلی معیار کی تحقیق کرتا رہا۔ اس نے اپنی بینائی کی کمزوری کی تلافی اپنے دماغی حساب کتاب کی صلاحیت اور حیرت انگیز یاداشت سے کیا۔ وہ انیڈ اور ورجل نہ صرف زبانی سنا دیتا تھا، بلکہ یہ بھی بتا دیتا تھا کی کس صفحہ کی پہلی اور آخری سطر میں کیا لکھا ہوا ہے۔ اس کے کام کرنے کی صلاحیت ریاضی کے کچھ حصوں میں بڑھ گئی۔ 1775ء میں وہ اوسط ایک ہفتے میں ایک تحقیقی مقالہ لکھ لیتا تھا۔

روس واپسی

اس دوران روس کے حالات کافی بہتر ہو گئے تھے، اس لیے اویلر 1776ء میں سینٹ پیٹرز برگ اکادمی کی دعوت قبول کرتے ہوئے وہاں چلا گیا اور بقیہ زندگی وہیں گزاری۔ اس کے دوسرے قیام کا آغاز کچھ اچھا نہیں ہوا۔ 1771ء کی آگ میں نہ صرف اس کا گھر جل گیا بلکہ خود بھی مرتے مرتے بچا۔ 1773ء میں اس کی بیوی 40 سال کی رفاقت کے بعد انتقال کر گئی۔ اپنی بیوی کی وفات کے تین سال بعد اس نے اپنی بیوی کی سوتیلی بہن سے شادی کر لی۔[42] جو اس کے انتقال تک بقیدحیات رہی۔ 18 ستمبر 1783ء کو اپنے خاندان کے ساتھ کھانا کھانے کے بعد وہ اپنے ساتھی اینڈرز جون لیکسل کے ساتھ نو دریافت شدہ سیارہ یورینس اور اس کے مدار پر بات کرتے ہوئے دماغی حربان خون میں مبتلا ہوا اور چند گھنٹے بعد اس کا انتقال ہو گیا[43]

ریاضی اور طبیعیات میں اویلر کا کام

اویلر نے اپنے دور کی ریاضی کی ہر شاخ پر کام کیا ہے، بلکہ اس نے ریاضی کی کچھ نئی شاخیں دریافت بھی کی ہیں۔ اس کا نام ریاضی کی تاریخ میں بہت تمایاں ہے۔ اس کی تمام تصانیف اگر یکجا کی جائے تو 60 سے 80 جلدوں پر مشتمل ہونگی۔ اویلر کا نام ریاضی کے بہت سے موضوعات کے ساتھ وابستہ ہے۔ اویلر وہ واحد ریاضی دان ہے جس کے نام سے دو اعداد منسوب ہیں۔ ایک ہے اویلر عدد e جس کی قدر 2.71828 ہے اور جو حسابان میں استعمال ہوتا ہے اور دوسرا اویلر دائم جس کی قدر تقریباً 0.57721 ہے۔ تاہم ابھی تک یہ نہیں معلوم ہوا کہ اویلر دائم ناطق عدد ہے یا غیر ناطق ۔[44]

ریاضی کی علامتیں

اویلر نے اپنی مقبول درسی کُتب کے ذریعہ ریاضی کی بہت ساری علامتیں متعارف اور مقبول کرائیں۔ ان میں سے سب سے اہم دالہ کا تصور ہے۔ وہ پہلا ریاضی دان تھا جس نے فنکشن کے لیے کی علامت استعمال کی۔ اس نے مثلثیاتی دالہ کی جدید علامت متعارف کرائی۔ اس کے علاوہ اس نے قدرتی لاگرتھم کی اساس کے لیے e (عائلر عدد)، یونانی حرف Σ جمع کرنے لے لیے اور تخیلی عدد کے لیے استعمال کیا [45]۔ اس نے کے استعمال کو بھی مقبول بنایا اگرچہ وہ اس کے نام سے منسوب نہیں ہے [46]۔

ریاضیاتی تحلیل

18 ویں صدی میں ریاضی میں حسابان میں تحقیق کا کام زوروں پر تھا اور برنولی خاندان اس کی ابتدائی ترقی کا کافی حد تک ذمہ دار تھا۔ ان کی ہی وجہ سے اویلر نے اس میں کافی دلچسپی لی اور یہ اس کے کام کا ایک بڑا حصہ بن گیا۔ اگرچہ اویلر کا کچھ کام دور حاضر کی جدید ریاضی کے سخت اصولوں پر پورا نہیں اترتا، پھر بھی اس کے خیالات نے ریاضی کو کافی وسعت بخشی۔ اویلر کا نام تحلیل میں کسی تعارف کا محتاج نہیں، اس نے اکثر تحلیل کو قوتی سلسلہ کے لیے استعمال کیا اور فنکشن کو لامتناہی حصوں کے حاصل جمع کی صورت میں دکھایا۔ مثال کے طور پر:

قوتی سلسلہ کے جرات مندانہ استعمال کی وجہ سے 1735ء میں وہ مشہور زمانہ مسئلہ بازیل حل کرنے میں کامیاب ہو گیا جو اس وقت کے ریاضی دانوں کے لیے سر درد بنا ہوا تھا[47] ۔ 1741ء میں اس نے اپنے کام کی مزید وضاحت شائع کی۔ اس نے مسئلہ بازیل حل کرتے ہوئے ثابت کیا کہ

اویلر نے اَسّی دالہ اور لاگرتھم کا استعمال اپنی تصانیف میں متعارف کرایا۔ نیز اس نے لاگرتھم کو قوتی سلسلہ میں لکھنے کا طریقہ بھی دریافت کیا۔ اسی طرح اس نے کامیابی سے منفی اعداد اور مختلط عدد کا بھی لاگرتھم معلوم کیا جس کی وجہ سے لاگرتھم بہت زیادہ کارآمد ہو گئے اور ان کا اطلاق بہت سی چگہوں پر ہونے لگا[48]۔ اس نے مختلط عدد کا بھی اسّی فنکشن معلوم کیا اور اس کا مثلثیاتی فنکشن کے ساتھ رشتہ بھی دریافت کیا۔ اویلر قاعدہ سے کسی بھی حقیقی عدد φ کے لیے مختلط اَسّی نکالنے کا قاعدہ بتایا:

لیونہارڈ اویلر کے قاعدے کی ہندسہی شکل

اس قاعدہ کی خاص شکل کو (جب ہو) اویلر شناخت کہتے ہیں:

یہ ریاضی کی سب سے خوبصورت مساوات کہی جاتی ہے۔ اس ایک مساوات میں ریاضی کے پانچ مشہور دائم: 0، 1، ، اور e ایک ساتھ موجود ہیں۔ مزید ریاضی کے تین بنیادی عمل، جمع، ضرب اور قوت بھی اس ایک چھوٹی سی مساوات میں موجود ہیں۔ مشہور جرمن ریاضی دان کارل فریدریش گاؤس کا کہنا ہے کہ اگر کسی طالب علم کو یہ مساوات بتاتے ہی فورا سمجھ نہیں آئی تو وہ کبھی اچھا ریاضی دان نہیں بن سکتا۔

فرانسیسی ریاضی دان ابراہم ڈی موافر کا ڈی موافر کا قاعدہ اویلر کی اکائی کا ہی نتیجہ ہے۔

یہ قاعدہ اس لیے بہت اہم ہے کہ یہ مختلط عدد اور مثلثیاتی فنکشن کے درمیان تعلق کو ظاہر کرتا ہے۔

اس کے علاوہ اس نے ماروائی دالہ کا نظریہ اور عاملیہ کی جامع صورت گاما دالہ دریافت کی (جو حقیقی اعداد اور منفی اعداد کا 'عاملیہ' بتاتی ہے )۔ اس نے تکامل کی مختلط عدد میں بھی حد نکالنے کا طریقہ دریافت کیا جس نے آگے جاکر مختلط تحلیل کی بنیاد رکھی۔ اس نے جوزف لوئی لاگرانج کے ساتھ مل کر حسابانِ تغیرات کی بھی بنیادرکھی۔

نظریۂ عدد

اویلر کی نظریۂ عدد میں دلچسپی اس کے سینٹ پیٹرز برگ کے دوست کرسٹین گولڈباغ کی وجہ سے ہوئی۔ اس میں اس کا ابتدائی کام پیری ڈی فرما کی تصنیف پر ہے۔ اویلر نے اس کے کچھ کاموں میں اضافہ کیا اور کچھ تخمینوں کو غلط ثابت کیا۔ اویلر تحلیلی طریقوں سے نظریۂ عدد کے مسائل حل کرنے کے استعمال کا بانی تھا۔ اس طرح اس نے دو مختلف ریاضی کی شاخوں کو یکجا کرنے کا بنیادی کام کیا تھا اور ایک نئی شاخ تحلیلی نظریۂ عدد کی بنیاد رکھی تھی۔ اس نے ان طریقون سے اولی اعداد کی تقسیم اور توزیع کا مطالعہ کیا۔ اس کے کام کی وجہ سے اولیٰ عدد قضیہ کی بنیاد پڑی [49]۔

اس نے ثابت کیا کی اولیٰ اعداد کے متقابل کا مجموعہ انفرج ہوتا ہے۔ اس طرح اس نے برنھارڈ ریمان کے زیٹا دالہ اور اولیٰ اعداد کے درمیان تعلق کو دریافت کیا۔ اس نے ثابت کیا کہ مرسن اولیٰ عدد ہے اور 1867ء تک یہ سب سے بڑا دریافت شدہ اولیٰ عدد تھا ۔[50]

نظریۂ گراف

اویلر نظریۂ گراف کا بانی ہے۔ 1736ء میں اس نے کونگسبرگ کے سات پُلوں کا مسئلہ حل کر کے اس کی بنیاد رکھی [51]۔ اس مسئلہ کے مطابق کونگسبرگ میں دو جزیروں کو ملانے والے سات پُل تھے اور سوال یہ تھا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ ہم ہر پل سے صرف ایک بار گزرتے ہوئے اسی جگہ واپس آجائیں جہاں سے ہم نے شروع کیا تھا۔ اویلر نے ثابت کیا کہ یہ ناممکن ہے۔ یہ نظریۂ گراف کا پہلا قضیہ تھا۔

اویلر نے محدب کثر سطحی کے راس، کنارہ اور چہرہ کے درمیان تعلق کے لیے ایک قاعدہ بھی دریافت کیا۔ اس قاعدے کے مطابق ۔[52] بعد میں اس کے کام کو دیگر ریاضی دانوں نے بھی مزید ترقی دی اور اس سے ریاضی کی ایک نئی شاخ وضعیت وجود میں آگئی۔

اطلاقی ریاضیات

اویلر کو اصل زندگی کے مسائل تجزیاتی طور پر حل کرنے میں بہت کامیابی حاصل ہوئی۔ اس نے برنولی عدد، فورئیہ سلسلہ (اپنی ابتدائی شکل میں)، اویلر عدد، اویلر دائم اور e کو بہت سے مسائل حل کرنے کے لیے استعمال کیا۔ اس نے لائبنیز کی تفرقی مساوات آئزک نیوٹن کے طریقہ فاضلہ کی مدد سے حل کیا۔ اس کے علاوہ اس نے بہت سے ایسے طریقے دریافت کیے جس کی مدد سے حسابان کو طبیعیات کے مسائل حل کرنے میں بہت آسانی ہو گئی۔ اس نے تفرقی مساوات کے استعمال میں بہت سہولت پیدا کی خاص طور پر اویلر دائم (جسے گاما دائم بھی کہتے ہیں) کو متعارف کرا کر۔

اویلر کی ایک غیر معمولی دلچسپی موسیقی میں ریاضی کا استعمال تھا۔ اس نے 1739ء میں نظریہ موسیقی پر ریاضی استعمال کرتے ہوئے ایک کتاب لکھی مگر اس کتاب کو بہت زیادہ پزیرائی نہیں مل سکی، کیونکہ اس کتاب میں ریاضی دانوں کے لیے بہت زیادہ موسیقی تھی اور موسیقاروں کے لیے بہت زیادہ ریاضی تھی [53]۔

طبیعیات اور فلکیات

اویلر نے اویلر برنولی بیم مساوات دریافت کرنے میں بہت اہم کام کیا اور اب یہ مساوات ہندسیات کی ایک نہایت اہم اور بنیادی مساوات سمجھی جاتی ہے۔ اویلر نے تجزیاتی طریقہ سے میکانیات کے مسائل حل کیے بلکہ اسے اجرام فلکی کے مسائل حل کرنے کے لیے بھی استعمال کیا۔ اس نے نہایت درستی کے ساتھ دم دار ستارے اور دیگر اجرام فلکی کے مدار معلوم کیے۔ اس نے بصریات میں بھی گہری دلچسپی لی اور اس میں بھی بہت کام کیا۔ 1740ء میں اس نے روشنی کی موجی ماہیت کے متعلق ایک مقالہ لکھا۔

منتخب کتابیات

اویلر کی کتابیات نہایت وسیع ہے۔ اس کی مشہور کتابیں مندرجہ ذیل ہیں۔

  • الجبرا کے عناصر عناصر الجبرا، ابتدائی الجبرا کی کتاب جس میں الجبرا کا جامع تعارف موجود ہے۔
  • لامتناہی تحلیل کا تعارف، ریاضیاتی تحلیل پر 1748ء پر لکھی گئی کتاب۔
  • دو حسابان پر کتابیں۔
  • جرمن شہزادی کو لکھے گئے خطوط۔ آن لائن (فرانسیسی زبان میں)
  • لاطینی زبان میں لکھی گئی کتاب جو منحنی خط، کم از کم قدر اور زیادہ سے زیادہ قدر پر ہے ۔[54]

مزید دیکھیے

حوالہ جات

  1. HDS ID: http://www.hls-dhs-dss.ch/textes/d/D018751.php
  2. http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb12157666x — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  3. http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb12157666x — اخذ شدہ بتاریخ: 22 اگست 2017 — خالق: John O'Connor اور Edmund Robertson
  4. Léonard (Leonhard) Euler
  5. ایس این اے سی آرک آئی ڈی: https://snaccooperative.org/ark:/99166/w66d66q0 — بنام: Leonhard Euler — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  6. NE.se ID: https://www.ne.se/uppslagsverk/encyklopedi/lång/leonhard-euler — بنام: Leonhard Euler — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017 — عنوان : Nationalencyklopedin
  7. فائنڈ اے گریو میموریل شناخت کنندہ: https://www.findagrave.com/cgi-bin/fg.cgi?page=gr&GRid=15567379 — بنام: Leonhard Euler — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  8. اجازت نامہ: CC0
  9. مدیر: الیکزینڈر پروکورو — عنوان : Большая советская энциклопедия — اشاعت سوم — باب: Эйлер Леонард — ناشر: Great Russian Entsiklopedia, JSC
  10. http://www.jstor.org/stable/2298449
  11. فائنڈ اے گریو میموریل شناخت کنندہ: https://www.findagrave.com/cgi-bin/fg.cgi?page=gr&GRid=15567379 — بنام: Leonhard Euler — عنوان : اوپن ڈیٹا پلیٹ فارم — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  12. http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb12157666x
  13. اجازت نامہ: CC0
  14. Dan Graves۔ Scientists of Faith۔ Grand Rapids، MI: Kregel Resources۔ صفحات 85–86۔
  15. E. T. Bell۔ Men of Mathematics، Vol. 1۔ London: Penguin۔ صفحہ 155۔
  16. مصنف: Andrew Bell — عنوان : Encyclopædia Britannica — جلد: 22 — ناشر: Encyclopædia Britannica Inc.
  17. خالق: John O'Connor اور Edmund Robertson
  18. https://www.amacad.org/sites/default/files/academy/multimedia/pdfs/publications/bookofmembers/ChapterE.pdf
  19. عنوان : Prime Mystery: The Life and Mathematic of Sophie Germain — ISBN 978-1-4969-6502-8
  20. HDS ID: http://www.hls-dhs-dss.ch/textes/d/D18751.php
  21. https://www.genealogy.math.ndsu.nodak.edu/id.php?id=38586 — اخذ شدہ بتاریخ: 17 فروری 2019
  22. http://www.nndb.com/cemetery/803/000208179/
  23. http://www.worldatlas.com/webimage/countrys/europe/switzerland/chfamous.htm
  24. http://blogcritics.org/culture/article/a-nasty-mathematical-myth/
  25. arXiv ID: http://arxiv.org/abs/1406.7397
  26. https://www.famousscientists.org/leonhard-euler/
  27. دائرۃ المعارف بریطانیکا آن لائن آئی ڈی: https://www.britannica.com/biography/Leonhard-Euler
  28. http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb12157666x — اخذ شدہ بتاریخ: 17 فروری 2019 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  29. http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb12157666x — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  30. William Dunham۔ Euler: The Master of Us All۔ The Mathematical Association of America۔ صفحہ 17۔
  31. Finkel، B.F. (1897). "Biography- Leonard Euler". The American Mathematical Monthly 4 (12): 297–302. doi:10.2307/2968971.
  32. Ioan James۔ Remarkable Mathematicians: From Euler to von Neumann۔ Cambridge۔ صفحہ آئی ایس بی این 0-521-52094-0۔
  33. Euler's Dissertation De Sono : E002. Translated & Annotated by Ian Bruce. (PDF) . 17centurymaths.com. Retrieved on 2011-09-14.
  34. Calinger، Ronald (1996). "Leonhard Euler: The First St. Petersburg Years (1727–1741)". Historia Mathematica 23 (2): 156. doi:10.1006/hmat.1996.0015.
  35. Calinger، Ronald (1996). "Leonhard Euler: The First St. Petersburg Years (1727–1741)". Historia Mathematica 23 (2): 125. doi:10.1006/hmat.1996.0015.
  36. Calinger، Ronald (1996). "Leonhard Euler: The First St. Petersburg Years (1727–1741)". Historia Mathematica 23 (2): 124. doi:10.1006/hmat.1996.0015.
  37. Calinger، Ronald (1996). "Leonhard Euler: The First St. Petersburg Years (1727–1741)". Historia Mathematica 23 (2): 128–129. doi:10.1006/hmat.1996.0015.
  38. Nicolas Fuss۔ "Eulogy of Euler by Fuss"۔ مورخہ 26 دسمبر 2018 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 اگست 2006۔
  39. "E212 – Institutiones calculi differentialis cum eius usu in analysi finitorum ac doctrina serierum"۔ Dartmouth۔
  40. William Dunham۔ Euler: The Master of Us All۔ The Mathematical Association of America۔ xxiv–xxv۔
  41. Euler۔ letters of euler on different subjects in natural philosophy addressed to a german princess۔ harper۔ مورخہ 26 دسمبر 2018 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔
  42. I.R. Gekker؛ A.A. Euler۔ "Leonhard Euler's family and descendants"۔ بہ N.N. Bogoliubov؛ G.K. Mikhaĭlov؛ A.P. Yushkevich۔ Euler and modern science۔ Mathematical Association of America۔ آئی ایس بی این 0-88385-564-X۔، p. 405.
  43. A. Ya. Yakovlev۔ Leonhard Euler۔ M.: Prosvesheniye۔
  44. John Derbyshire۔ پرائم آبسیشن: Bernhard Riemann and the Greatest Unsolved Problem in Mathematics۔ Washington، D.C.: Joseph Henry Press۔ صفحہ 422۔
  45. Carl B. Boyer۔ A History of Mathematics۔ جان وائلی اینڈ سنز۔ صفحات 439–445۔ آئی ایس بی این 0-471-54397-7۔ Unknown parameter |coauthors= ignored (|author= suggested) (معاونت)
  46. Stephen Wolfram۔ "Mathematical Notation: Past and Future"۔ اخذ شدہ بتاریخ August 2006۔ |archive-url= is malformed: timestamp (معاونت); Check date values in: |accessdate= (معاونت)
  47. Gerhard Wanner۔ Analysis by its history (اشاعت 1st۔)۔ Springer۔ صفحہ 62۔ Unknown parameter |month= ignored (معاونت); Unknown parameter |coauthors= ignored (|author= suggested) (معاونت)
  48. Carl B. Boyer۔ A History of Mathematics۔ جان وائلی اینڈ سنز۔ صفحات 439–445۔ آئی ایس بی این 0-471-54397-7۔ Unknown parameter |coauthors= ignored (|author= suggested) (معاونت)
  49. William Dunham۔ "3،4"۔ Euler: The Master of Us All۔ The Mathematical Association of America۔
  50. Caldwell، Chris. The largest known prime by year
  51. Alexanderson، Gerald (July 2006). "Euler and Königsberg's bridges: a historical view". Bulletin of the American Mathematical Society 43 (4): 567. doi:10.1090/S0273-0979-06-01130-X.
  52. Peter R. Cromwell۔ Polyhedra۔ Cambridge: Cambridge University Press۔ صفحات 189–190۔
  53. Calinger، Ronald (1996). "Leonhard Euler: The First St. Petersburg Years (1727–1741)". Historia Mathematica 23 (2): 144–145. doi:10.1006/hmat.1996.0015.
  54. E65 — Methodus... entry at Euler Archives. Math.dartmouth.edu. Retrieved on 2011-09-14.

مزید پڑھیے

  • Lexikon der Naturwissenschaftler، (2000)، Heidelberg: Spektrum Akademischer Verlag.
  • Bogolyubov، Mikhailov، and Yushkevich، (2007)، Euler and Modern Science، Mathematical Association of America. ISBN 0-88385-564-X. Translated by Robert Burns.
  • Bradley، Robert E.، D'Antonio، Lawrence A.، and C. Edward Sandifer (2007)، Euler at 300: An Appreciation، Mathematical Association of America. ISBN 0-88385-565-8
  • Demidov، S.S.، (2005)، "Treatise on the differential calculus" in آئیور گراٹان گنز، ed.، Landmark Writings in Western Mathematics. Elsevier: 191–98.
  • ویلیم ڈنہام (1999) Euler: The Master of Us All، Washington: Mathematical Association of America. ISBN 0-88385-328-0
  • Dunham، William (2007)، The Genius of Euler: Reflections on his Life and Work، Mathematical Association of America. ISBN 0-88385-558-5
  • Fraser، Craig G.، (2005)، "Leonhard Euler's 1744 book on the calculus of variations" in آئیور گراٹان گنز، ed.، Landmark Writings in Western Mathematics. Elsevier: 168–80.
  • Gladyshev، Georgi، P. (2007)، "Leonhard Euler’s methods and ideas live on in the thermodynamic hierarchical theory of biological evolution،" International Journal of Applied Mathematics & Statistics (IJAMAS) 11 (N07)، Special Issue on Leonhard Paul Euler’s: Mathematical Topics and Applications (M. T. A.).
  • Gautschi، Walter (2008). "Leonhard Euler: his life، the man، and his works". SIAM Review 50 (1): 3–33. doi:10.1137/070702710. Bibcode: 2008SIAMR..50....3G. http://www.cs.purdue.edu/homes/wxg/EulerLect.pdf.
  • Heimpell، Hermann، Theodor Heuss، Benno Reifenberg (editors). 1956. Die großen Deutschen، volume 2، Berlin: Ullstein Verlag.
  • Krus، D.J. (2001). "Is the normal distribution due to Gauss? Euler، his family of gamma functions، and their place in the history of statistics". Quality and Quantity: International Journal of Methodology 35: 445–46. http://www.visualstatistics.net/Statistics/Euler/Euler.htm.
  • Nahin، Paul (2006)، Dr. Euler's Fabulous Formula، New Jersey: Princeton، ISBN 978-0-691-11822-2
  • du Pasquier، Louis-Gustave، (2008) Leonhard Euler And His Friends، CreateSpace، ISBN 1-4348-3327-5. Translated by John S.D. Glaus.
  • Reich، Karin، (2005)، " 'Introduction' to analysis" in آئیور گراٹان گنز، ed.، Landmark Writings in Western Mathematics. Elsevier: 181–90.
  • Richeson، David S. (2008)، Euler's Gem: The Polyhedron Formula and the Birth of Topology. Princeton University Press.
  • Sandifer، Edward C. (2007)، The Early Mathematics of Leonhard Euler، Mathematical Association of America. ISBN 0-88385-559-3
  • Sandifer، Edward C. (2007)، How Euler Did It، Mathematical Association of America. ISBN 0-88385-563-1
  • Simmons، J. (1996) The giant book of scientists: The 100 greatest minds of all time، Sydney: The Book Company.
  • Singh، Simon. (1997). Fermat's last theorem، Fourth Estate: New York، ISBN 1-85702-669-1
  • Thiele، Rüdiger. (2005). The mathematics and science of Leonhard Euler، in Mathematics and the Historian's Craft: The Kenneth O. May Lectures، G. Van Brummelen and M. Kinyon (eds.)، CMS Books in Mathematics، Springer Verlag. ISBN 0-387-25284-3.
  • "A Tribute to Leohnard Euler 1707–1783". میتھمیٹکس میگزین 56 (5). November 1983.

بیرونی روابط

This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.