لتا منگیشکر
لتا منگیشکر بھارت اردو اور دوسری کئی اور زبانوں کی بے مثال گلوکارہ ہیں۔ 1929ء میں پیدا ہونے والی لتا کی آواز سے ان کی عمر کا ذرا بھی اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ مندروں میں بجتی گھنٹیوں سا سحر لیے لتا کی آواز نے کئی نسلوں کو اپنی آواز سے متاثر کیا ہے۔
لتا منگیشکر | |
---|---|
(مراٹھی میں: लता मंगेशकर) | |
![]() لتا منگیشکر، 2008 لتا منگیشکر، 2008 | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | ہری دیا منگیشکر 28 ستمبر 1929ء اندور |
شہریت | ![]() ![]() |
شوہر | کوئی نہیں |
والدین | دِینا ناتھ منگیشکر شوانتی منگیشکر |
والد | دیناناتھ منگیشکر |
بہن/بھائی | |
عملی زندگی | |
پیشہ | پس پردہ گلوکار |
پیشہ ورانہ زبان | ہندی [1] |
دور فعالیت | 1942–تاحال |
اعزازات | |
بھارت رتن 2001ء پدم وبھوشن 1999ء دادا صاحب پھالکے ایوارڈ 1989ء مہاراشٹر بھوشن ایوارڈ 1997ء این ٹی آر نیشنل ایوارڈ 1999ء فلم فیئر لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ | |
IMDB پر صفحات | |
آج بھی دل تک اتر جانے والی ان کی آواز کی کھنک وہی ہے جو انیس سو سینتالیس میں ان کی پہلی ہندی فلم آپ کی سیوا میں تھی۔ لتا نے انیس سو بیالیس میں اپنے والد دینا ناتھ منگیشکر کے انتقال کے بعد باقاعدہ گلوکاری شروع کردی تھی۔ دینا ناتھ کی بیٹیوں میں نہ صرف لتا نے سروں کی دنیا میں مقبولیت حاصل کی بلکہ ان کی بہن آشا بھوسلے نے بھی گلوکاری میں اہم مقام حاصل کیا اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ دونوں بہنوں کی آوازوں نے بھارتی فلم انڈسٹری پرقبضہ کر لیا۔ لتا کا کہنا ہے کہ ان کی فنی زندگی بھرپور رہی ہے۔
بچپن
لتا منگیشکر28 ستمبر 1929ء کو اندور بھارت میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد دِینا ناتھ منگیشکر بھی گلوکار اور اداکار تھے۔ چنانچہ وہ شروع سے ہی گلوکاری کی طرف مائل تھیں۔ موسیقار غلام حیدر نے ان کی حوصلہ افزائ کی اس کے بعد وہ کامیابی کی بلندیوں کی طرف روانہ ہوگئیں اور ابھی تک نہیں رکیں۔
گلوکاری
لتا منگیشکر پچاس ہزار سے زائد گانے گا چکی ہیں وہ 1974ء سے 1991ء تک گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں ریکارڈ ہولڈر کے طور پر شامل رہیں۔ بک کے مطابق وہ دنیا میں سب سے زیادہ گانے ریکارڈ کرانے والی گلوکارہ ہیں۔
دیکھیے : لتا منگیشکر کے نغموں کی فہرست
انعامات
لتا کو بے شمار ایوارڈز ملے۔ خود ان کا کہنا ہے کہ ان کا سب سے بڑا ایوارڈ لوگوں کا پیار ہے لیکن ان کے پاس بھارت کا سب سے بڑا سویلین اعزاز بھارت رتنا بھی ہے۔ وہ بھارت کی دوسری گلوکارہ ہیں جنہیں یہ ایوارڈ دیا گیا ہے۔ 1974ء میں گینیز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں انکا نام دنیا میں سب سے زیادہ گانے گانے والی گلوکارہ کے طور پر آیا۔
محمد رفیع کے ساتھ اختلاف
انہوں نے ایک اخباری جریدے کو انٹرویو میں ایک بار پھر ماضی کے مشہور گلوکار محمد رفیع کے ساتھ اپنے اختلاف کا ذکر چھیڑا ہے۔
اس ذکر پر محمد رفیع کے بیٹے شاہد رفیع نے جوابی حملہ کرتے ہوئے لتا کو ’مقبولیت کا بھوکا‘ کہہ ڈالا ہے۔ اسی بارے میں
وہ تو یہاں تک کہہ گئے کہ ’اب چونکہ لتا جی کے پاس کوئی کام نہیں اور دھیرے دھیرے لوگ انہیں بھول رہے ہیں اس لیے وہ ایسا کر رہی ہیں۔‘
دراصل میگزین سے ہوئی اس بات چیت میں لتا منگیشکر نے بتایا تھا کہ کس طرح ان کے اور محمد رفیع کے درمیان اس زمانے میں گلوکاروں کو ملنے والی رائلٹی کے بارے میں تلخ کلامی ہو گئی تھی اور لتا نے یہ کہہ دیا تھا کہ وہ محمد رفیع کے ساتھ نہیں گائیں گی۔
لتا منگیشکر نے اس جھگڑے کے بعد تین سال تک محمد رفیع کے ساتھ کوئی گیت نہیں گایا۔
لتا منگیشکر نے یہ بھی کہا کہ موسیقار جے كشن کے کہنے پر محمد رفیع نے انہیں ایک خط لکھ کر اس بات کی معافی مانگی جس کے بعد ہی انہوں نے محمد رفیع کے ساتھ گانا گانا شروع کیا لیکن ان کے دل سے کڑواہٹ کبھی ختم نہیں ہوئی۔
ممبئی میں بی بی سی ہندی سے بات کرتے ہوئے محمد رفیع کے بیٹے شاہد رفیع نے اس بات کو سرے سے ہی غلط قرار دے دیا کہ ان کے والد محمد رفیع نے کبھی بھی لتا منگیشکر کے نام کوئی معافی نامہ لکھا تھا۔
"لتا جی کا یہ کہنا کہ رفیع صاحب کے معافی مانگنے کے بعد بھی ان کے دل میں رفیع صاحب کے لیے کڑواہٹ تھی بتاتا ہے کہ وہ کس طرح کی فنکارہ ہیں۔ ایک سچا فنکار کبھی اپنے دل میں ایسی کوئی بات نہیں رکھتا۔ فنکار کا کام ہے اپنا کام کرنا نا کہ کسی سے نفرت کرنا۔ لتا جی نئی نسل کے لیے ایک غلط مثال قائم کر رہی ہیں۔"
شاہد رفیع
شاہد کہتے ہیں، ’ کیا لتا جی کے پاس ثبوت کے طور پر وہ خط ہے جس میں میرے والد نے ان سے معافی مانگی تھی۔ اگر وہ ایسا کوئی بھی خط دکھا دیں تو میں خود لتا جی سے تحریری معافی مانگوں گا۔ میں جانتا ہوں کہ میرے والد نے کبھی بھی ایسا کوئی خط انہیں لکھا ہی نہیں تھا۔‘
شاہد تو یہاں تک کہہ گئے، ’لتا جی کا یہ کہنا کہ رفیع صاحب کے معافی مانگنے کے بعد بھی ان کے دل میں رفیع صاحب کے لیے کڑواہٹ تھی بتاتا ہے کہ وہ کس طرح کی فنکارہ ہیں۔ ایک سچا فنکار کبھی اپنے دل میں ایسی کوئی بات نہیں رکھتا۔ فنکار کا کام ہے اپنا کام کرنا نہ کہ کسی سے نفرت کرنا۔ لتا جی نئی نسل کے لیے ایک غلط مثال قائم کر رہی ہیں۔‘
شاہد یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کا پورا خاندان لتا منگیشکر کی اس بات سے حیران ہے۔ ان کا کہنا تھا ’ہمیں بڑا تعجب ہوا کہ لتا منگیشکر نے ایسا کس طرح کہا۔ انہیں ایسی باتیں کرنا زیب نہیں دیتا۔ پچاس سال کے بعد اس بات کو دوبارہ اٹھانے کا کیا مطلب ہے۔ ہمیں اس سے دکھ ہوا ہے۔‘
شاہد کے بقول ’یہ لتا منگیشکر کا محمد رفیع سے حسد ہی ہے جو ان سے یہ سب کروا رہا ہے۔‘
محمد رفیع نے کبھی بھی لتا منگیشکر کے نام کوئی معافی نامہ نہیں لکھا: شاہد رفیع
وہ کہتے ہیں،’مجھے لگتا ہے کہ لتا جی کو اس بات کی جلن ہے کہ رفیع صاحب کے چاہنے والے ان کے چاہنے والوں سے زیادہ کس طرح ہیں جب کہ رفیع صاحب کو گزرے زمانہ ہو گیا ہے۔‘
اپنے والد کی تعریف کرتے ہوئے شاہد نے کہا،’میرے والد ایک ورسٹائل گلوکار تھے جو ہر طرح کا گانا گا سکتے تھے لیکن کیا لتا منگیشکر ہر طرح کا گانا گا سکتی ہیں؟ لتا جی اور میرے والد کا تو کوئی مقابلہ ہو ہی نہیں سکتا۔‘
شاہد رفیع کا کہنا ہے کہ ’یا تو لتا منگیشکر اس بات کو ثابت کر دیں کہ محمد رفیع نے ان سے خط لکھ کر معافی مانگی تھی یا پھر خود اس بات کے لیے سب سے معافی مانگ لیں۔‘
یاد رہے کہ شاہد رفیع نامی شخص کو اس کے گھر میں بھی کوئی نہیں پہچانتا اور وہ لتا جیسی مہان گاہئیک کی توہین کر کے تھوڑی سے مشہوری چاہتے ہیں۔
بیرونی روابط
ملیالم کے مشہور گلوکار ایسوداسنے خیال ظاہر کیا تھا کہ لتا منگیشکر کو اب گلوکاری کرنے سے باز آجانا چاہیے۔[2]
حوالہ جات
- http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb139215454 — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
- /http://www.jocalling.com/2011/11/yesudas-fifty-years-on