استاد علی اکبر خان

استاد علی اکبر خان 1922ء میں بنگال میں کومیلا شہر کے قصبے شبھ پور میں پیدا ہوئے۔ موسیقی کی تعلیم اپنے والد استاد علاٴالدین خان سے حاصل کی۔ اُس وقت روی شنکر بھی اُن کے والد کے شاگرد تھے۔

استاد علی اکبر خان
(بنگالی میں: আলী আকবর খান) 
 

معلومات شخصیت
پیدائش 14 اپریل 1922 [1][2] 
کومیلا  
وفات 18 جون 2009 (87 سال)[3][1][2] 
سان فرانسسکو  
وجۂ وفات گردے فیل  
طرز وفات طبعی موت  
شہریت برطانوی ہند
پاکستان
بنگلہ دیش  
بہن/بھائی
فنی زندگی
آلات موسیقی سرود ، صوت  
پیشہ نغمہ ساز ، گلو کار ، موسیقار ، فلم اسکور کمپوزر  
مادری زبان بنگلہ  
پیشہ ورانہ زبان بنگلہ  
اعزازات
میک آرتھر فیلو شپ   (1991)
 پدم وبھوشن   (1989)
 پدم بھوشن   (1967) 
IMDB پر صفحہ 

تربیت

موسیقی میں ان کر تربیت ‘سنیہ میہار گھرانے ’ میں ہوئی۔ وہ بائیس برس کی عمر میں ریاست جودھپور میں شاہی موسیقاربنے اوربھارت چھوڑ کر 1967ء میں امریکی ریاست کیلی فورنیا میں آکر آباد ہوئے جہاں برکلے میں اُنھوں نے ایک بلند پائے کا علی اکبر کالج آف میوزک قائم کیا، جس میں اُن کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔

سرود

سرود کے علاوہ استاد علی اکبر خان ستار، طبلہ اور ڈرم بجاتے تھے اور ‘سُر بہار’ پیش کرنے میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے تھے۔ اُنھوں نے بھارت کے علاوہ دنیا بھر میں اپنے فن کا لوہا منوایا۔ اُنھوں نے سرود کی تعلیم اپنے والد سے اور طبلے کی تربیت اپنے چچا فقیر آفتاب الدین سے حاصل کی۔

مہارت

استاد علی اکبر خان نے تیرہ برس کی عمر میں پہلی بار الہ آباد میں موسیقی کی محفل میں اپنے جوہر دکھائے۔ انیسویں صدی عیسوی کے دوسری دہائی کے اواخر میں اُنھوں نے لکھنؤ میں ایچ ایم وِی کی ریکارڈنگ کی، دوسرے ہی سال جودھپور کے مہاراجا کے شاہی موسیقار بن گئے اور وہیں موسیقی کے میدان میں خدمات کے اعتراف میں اُنہیں ‘ استاد’ کا لقب دیا گیا۔

اعزازات

1989ء میں اُن کو بھارت کا دوسرا بڑا شہری تمغا، پدما وِبھوشن عطا کیا گیا، جب کہ 1997ء میں امریکا میں روایتی فنون کی اہم ترین قومی‘ ہیریٹیج فیلوشپ’ دی گئی۔ 1991ء میں مک آرتھے جینس گرانٹ ملی اور پانچ مرتبہ گرامی ایوارڈز کے لیے نامزد کیے گئے۔

فنی کمال

اُن کے شاگرد بتاتے ہیں کہ یہ اُنہی کا طرہٴ امتیاز تھا کہ سرود کے محض چند تار چھیڑ کر بھی دل موہ لینے والی موسیقی تخلیق کرلیتے تھے۔ اُن کو آلاپ اور جود کی راگنی میں کمال درجے دسترس تھی اور گت اور جھالا میں سحر انگیز موسیقی چھیڑنے کا طلسم آتا تھا۔

اُنھوں نے روی شنکر، نِکھل بنرجی، ولایت خان، سبرامنیم اور متعدد مغربی موسیقاروں کے ساتھ جُگل بندی کا مظاہرہ کیا۔ اِس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ استادعلی اکبر خان نے مغرب میں مشرقی موسیقی کی داغ بیل ڈالی۔ 18 جون 2009 کو امریکا کے شہر سان فرانسسکو میں ان کا انتقال ہوا۔

حوالہ جات

  1. آئی ایم ڈی بی - آئی ڈی: https://tools.wmflabs.org/wikidata-externalid-url/?p=345&url_prefix=https://www.imdb.com/&id=nm0451164 — اخذ شدہ بتاریخ: 16 اکتوبر 2015
  2. http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb13890627h — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  3. http://www.washingtonpost.com/wp-dyn/content/article/2009/06/19/AR2009061902628.html
This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.