قبائلی علاقہ جات

قبائلی علاقہ جات یا وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات، پاکستان کے قبائلی علاقہ جات چاروں صوبوں سے علاحدہ حیثیت رکھتے تھے اور یہ وفاق کے زیر انتظام تھے ، مئی 2018ء میں ہونے والی ایک آئینی ترمیم کے ذریعے ان علاقوں کی قبائلی حیثیت ختم کر کے ان کو صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم کر دیا گیا۔[1]

قبائلی علاقہ جات 27 ہزار 220 مربع کلومیٹر کے علاقے پر پھیلے ہوئے تھے۔

پاکستان کا نقشہ، قبائلی علاقہ جات سرخ رنگ میں نمایاں ہیں

مغرب میں قبائلی علاقہ جات کی سرحد افغانستان سے ملتی ہیں جہاں ڈیورنڈ لائن انہیں افغانستان سے جدا کرتی ہے۔ قبائلی علاقہ جات کے مشرق میں پنجاب اور صوبہ سرحد اور جنوب میں صوبہ بلوچستان ہے۔

2000ء کے مطابق قبائلی علاقہ جات کی کل آبادی 33 لاکھ 41 ہزار 70 ہے جو پاکستان کی کل آبادی کا تقریبا 2 فیصد بنتا ہے۔

قبائلی علاقوں میں لوگوں مختلف پشتون قبائل میں تقسیم ہے۔ علاقائی دار الحکومت پاراچنار ہے . ان علاقوں کو مختلف اجنسیوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔

خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والی قبائلی علاقہ جات کی ایجنسیاں

وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات

یہ کل 7 ایجنسیوں/اضلاع پر مشتمل ہے:

ان کے علاوہ پشاور، ٹانک، بنوں، کوہاٹ اور ڈیرہ اسماعیل خان سے ملحقہ 6 سرحدی علاقے بھی موجود ہیں۔

قبائلی علاقہ جات کے اہم شہروں میں پارہ چنار، میران شاہمیرعلی، باجوڑ، وانا اور درہ بازار شامل ہیں۔

تعلیم

آج جبکہ پاکستان کے حکمران اپنی دولت بڑهانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے ہیں تو دوسری جانب انہوں نے ان غریب لوگوں کو تعلیمی سہولیات سے بهی دور رکها ہے۔ نہ ہی ان کے لیے اسکول ہیں اور نہ ہی کالج بنائے گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان لوگوں کی نسبت پاکستان کے دیگر علاقوں کے لوگ خصوصاً پختونخوا اور پنجاب تعلیم میں قبائل سے بہت آگے نکل گئے ہیں لیکن قبائل جو پاکستانی قوم کا باقاعدہ حصہ ہیں وہ اس سہولت سے محروم ہیں۔

فائل:Literacy Rate Tribal Areas 2007 FATA excl FRs.jpg

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.