ضلع پونچھ

پونچھ
ضلع
Poonch

نقشہ آزاد کشمیر میں پونچھ ہرے نگ میں دیکھا جاسکتا ہے۔
ملک پاکستان کے زیر انتظام آزاد جموں و کشمیر
رقبہ
  کل 575 کلو میٹر2 (222 مربع میل)
منطقۂ وقت پ۔م۔و (UTC+5)
تحصیلوں کی تعداد 4

پونچھ کی مختصر تاریخ

پونچھ کا علاقہ وادی کشمیر کے مغرب میں 1627مربع میل پر مشتمل ہے اور وادی کشمیر کی مانند یہ بھی بلند و بالا برف پوش پہاڑوں اور گھنے جنگلوں کا خوبصورت خطہ ہے۔1923ء کی مردم شماری کے مطابق پونچھ کی آبادی تقریباً چار لاکھ نفوس پر مشتمل تھی ،جس میں مسلمان 96فیصد ہندو 3فیصد اور دیگر مذاہب کے پیروکار ایک فیصد تھے۔ عہدِ قدیم سے پونچھ کی تاریخ صوبہ پنجاب کی تاریخ سے وابستہ رہی ہے جہاں ایک طرف پنجاب کی سیاست یہاں اثر انداز ہوتی رہی وہاں دوسری جانب ریاست جموں و کشمیر کی تاریخ بھی پونچھ کو متاثر کرتی رہی۔ تاریخ ِہند کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ بنسی خاندان کارکوٹ گوت کے حکمران یہاں 617ء تا 872ء حکومت کرتے رہے۔ چونکہ ان راجگان کے حالات میں کہیں کہیں پونچھ کاذکر ملتا ہے اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ پونچھ برصغیر ہند میں کوئی غیر معروف خطہ ارضی نہ تھا۔ ازاں بعد لوہارا سلطنت کے ذکر میں یہ واضح ہے کہ موجودہ پونچھ شہر سے مشرق کی جانب موجودہ منڈی کے مقام پر اس سلطنت کا دار الحکومت تھا اور راجگان ِکشمیر، لوہاراسلطنت کے حریف اور مدمقابل تھے۔ منڈی کے قریب لوہر کوٹ کا قلعہ اتنا مضبوط تھا کہ اسے سلطان محمود غزنوی جیسا بہادر سپہ سالار بھی سرنہ کرسکا۔ ریاست جموں کشمیر کی تاریخ میں مسلم سلاطین کا عہد 1325ء سے شروع ہوتا ہے جب صدرالدین عرف رنچن شاہ جو آبائی طور پر بُدھ مت کا پیرو کار تھا، ایک مبلغ اسلام سید عبد الرحمن المعروف بلبل شاہ ؒکے دستِ مبارک پر مشرف بہ اسلام ہوا۔ اور اس طرح ریاست جموں و کشمیر کا پہلا مسلمان حکمران بنا۔1327ء میں اس کی وفات کے بعد حکومت پھر غیر مسلموں کے ہاتھوں میں چلی گئی اور راجا سہد یو اور اس کے بھائی راجا دیو1344ء تک کشمیر پر حکومت کرتے رہے۔ مسلم سلاطین کی باقاعدہ حکومت کا قیام 1344ء کو عمل میں آیا۔ اس کو مستحکم اور مضبوط بنانے میں نمایاں کردار سلطان شہاب الدین نے اداکیا۔ اسی عہد میں ایران سے سید علی ہمدانی المعروف شاہ ہمدان ؒکشمیر میں وارد ہوئے، جن کے فیض سے ہزاروں لوگ مشرف بہ اسلام ہو گئے اور کشمیر کی وادی نعرئہ توحید سے گونج اُٹھی۔ سلطان قطب الدین (1378ء تا1394ء)کے عہدِ حکومت میں شاہ ہمدانؒ دوبارہ کشمیر آئے، اس بار اُن کے ہمراہ سات سو مبلغ بھی تھے،جنہوں نے اس خطہ میں صنعت وحر فت علم و ادب اور دینِ مبین کی تبلیغ کا کام شروع کیا۔ ان بزرگانِ دین کی مساعی ء جمیلہ سے پونچھ کا سارا علاقہ اسلام کی روشنی سے جگمگا اُٹھا اور یوں پونچھ مسلمانوں کا ایک بہت بڑا مرکز بن گیا۔1566ء میں کشمیر میں چک خاندان کے عہد حکومت میں مذہبی فرقہ پرستی کے باعث انتشار و خلفشار پیدا ہوا اور مغل شہنشاہ اکبرِ اعظم جو ایک عرصہ سے کشمیر پر نظریں جمائے بیٹھا تھا،حملہ آور ہوا اور کشمیر کا سارا علاقہ1586ء میں سلطنت ِمغلیہ کا حصہ بن گیا۔ جہاں تک پونچھ کا تعلق ہے، شہنشاہ جہانگیر کے عہدِ حکومت میں سراج الدین کو پونچھ کا راجا مقرر کیا گیا۔ اس کے بعد اس کا بیٹا راجا فتح محمد خان 1646ء سے 1700ء تک پونچھ پر حکمران رہا،اس طرح پونچھ سکھوں کے عہد حکومت تک مغلوں اور افغانوں کے زیرِ نگر رہا۔ سکھ کشمیر پر 1819ء سے 1839ء تک حکمران رہے۔ یہ پورا دور افراتفری اور طوائف الملوکی کا دور تھا۔ مرکزیت ختم ہو گئی تھی اور مختلف قبائل نے اپنے اپنے مقامی سرداروں کی سرکردگی میں چھوٹی چھوٹی حکوتیں قائم کر لی تھیں۔ تاریخ میں اس دور کو ’’آپ راجی‘‘کا نام دیاگیاہے۔ اس عہدِ ستم میں استحصال کی کارروائیاں اپنے عروج پر تھیں اور علاقہ کے سردار کوٹوں اورڈپلیوں میں رہتے تھے اور وہیں سے احکام جاری کرتے تھے۔ یہ سردار اپنے اپنے علاقہ کی رعایا سے لگان وصول کرتے تھے اور اپنا حصہ وضع کرکے باقی لگان اپنے سے بڑے سردار کو پیش کر دیتے تھے۔ اس ظالمانہ سرداری نظام میں عوام بُری طرح پِس رہے تھے۔ مزارعوں اور دستکاروں کا معاشرہ میں کوئی مقام نہ تھا۔ وہ سردار کے سامنے چارپائی پر نہیں بیٹھ سکتے تھے اگر کوئی ایسا کرنے کی جرات کربیٹھتا تو اسے کڑی سزادی جاتی۔ یہ لوگ اپنے پاس اچھی گائے، بھینس بھی نہیں رکھ سکتے تھے اور اُن میں سے کوئی بھاگ کر کسی دوسرے سردار کے ہاں پناہ بھی نہیں لے سکتا تھا۔ اکثریتی قبیلہ کے ہاتھوں اگر کسی اقلیتی فرقہ کے آدمی کا قتل ہو جاتا تو اس سے کوئی باز پرس نہ کی جاتی اور اگر یہی جُرم کسی اقلیتی فرقہ کے فرد سے سرزد ہوجاتا تو اُسے سزائے موت دی جاتی۔ توہین انسانیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایاجاسکتا ہے کہ جب دربار منعقد ہوتا تو اقلیتی فرقہ کے لوگ حاضر ہوکر سردار کو نہایت مؤدبانہ جُھک جُھک کر سلام کرتے اور اگر سلام کے جواب میں سردار اپنی جوتی کی نوک اُوپر اُٹھاتا تو سمجھا جاتا کہ وہ خوش ہے اور اگر سردار ایسا نہ کرتا تو سلام کرنے والا خوفزدہ ہوجاتابلکہ اُس کو جان کے لالے پڑجاتے۔ بعض سردار اقلیتی فرقہ کی لڑکیوں کو جبراً اغوا کرلیتے تھے۔ الغرض اُس دور میں ایک دوسرے کا مال چھیننا کسی بے گناہ کو قتل کرنا اور اپنے سے کمزور پر ظلم کرنا روزمرہ کا معمول تھا۔ 1822ء میں مہاراجا رنجیت سنگھ نے جموں کے ڈوگرہ گلا ب سنگھ کو اُس کی وفاداریوں کے صلہ میں جموں کا علاقہ دے دیا جس نے اقتدار سنبھالتے ہی یہ اندازہ کر لیا کہ جب تک تمام پہاڑی علاقے فتح نہیں ہوجاتے ڈوگرہ اقتدار کا مستحکم ہونا محال ہے‘ چنانچہ اس نے سب سے پہلے سلطان خان والئی بھمبر کو گرفتار کیا۔ اس کے بعد راجوری کے راجگان راجا عزیز خان اور اغرخان کے اقتدار کا خاتمہ کیا اور ان مفتوحہ علاقوں پر دیوان دلباغ رائے کو حاکم مقرر کیا۔ مہاراجا رنجیت سنگھ نے بھمبر (چبھال) کے علاقے دھیان سنگھ کو اور پونچھ اور حسیروٹہ کا علاقہ دھیان سنگھ کے بیٹے ہیراسنگھ کو بطور جاگیر کے عطا کر دیے تھے یوں اُس نے پونچھ کے قبائل کی آزادی سلب کر لی۔ پونچھ کے آزاد قبائل میں سُدھن قبیلہ زیادہ غیور تھا اور اپنی اس غلامی کو شدت سے محسوس کرنے لگا تھا۔ اُس دور میں شمس خان سُدھن قبیلہ کا ایک ممتاز اور موثر سردار تھا۔ راجا دھیان سنگھ نے سردار شمس خان کی صلاحیتوں سے متاثر ہوکر اُسے گھوڑا اور چار سپاہی دے کر اپنی ذاتی ملازمت میں لے لیا تھا۔ وہ اپنی قابلیت کی بناپر جلد ہی دھیان سنگھ کا منظورِنظر بن گیا۔ راجا گلاب سنگھ کو اپنے بھائی راجا دھیان سنگھ کی یہ ادا پسند نہ تھی اور اُس کی یہ کوشش تھی کہ دھیان سنگھ سردار شمس خان پر بھروسا کرنا ترک کر دے لیکن اس تنبیہ کے باوجود دھیان سنگھ سردار شمس خان پر اعتماد کرتا رہا بلکہ اس نے حاکم پونچھ دلباغ رائے کو اہم معاملات میں سردار شمس خان سے مشورہ لینے کا حکم دے رکھا تھا۔ 1832ء میں جب سکھوں کو پشاور اور اس کے گرد و نواح میں شکست ہوئی تو اس کاپونچھ کے پہاڑی قبائل پر بھی اثر پڑا اور ان میں بھی آزادی کا ایک تازہ ولولہ پیدا ہوا اور ڈوگروں کے خلاف نفرت و حقارت نے ایک عملی بغاوت کی شکل اختیار کر لی۔ ڈوگروں نے پونچھ کے مختلف اہم مقامات پر قلعے بنارکھے تھے اور اُن میں فوجی اور نیم فوجی دستے متعین تھے۔ ان میں سے ایک اہم قلعہ منگ کے مقام پرتھا جس میں تین سوکے قریب ڈوگرے مقیم تھے۔ سُدھنوں نے سردار جموں خان اور سردار مہتا خان کی سرکردگی میں اس قلعہ پر حملہ کرکے اس کو فتح کر لیا۔ وہاں زیادہ تر ڈوگرے فوجی مارے گئے۔ صرف چند جان بچا کر چھپتے چھپاتے جموں پہنچے اور جموں دربار کو پونچھ کے حالات سے آگاہ کیا۔ دریں اثنا کنجہیری، پرل، راولاکوٹ، دھمنی، جنڈالی، پلنگی، باغ اور کئی دوسرے مقامات پر بھی ڈوگرہ فوجیوں پر حملے ہوئے اور انہیں مار بھگایا گیا۔ جب یہ اطلاعات جموں سے ہوتی ہوئی خالصہ دربار لاہور پہنچیں تو گلاب سنگھ نے مہاراجا رنجیت سنگھ کو پونچھ کے باغیوں کی سرکوبی کے لیے آمادہ کیا اور ناظم کشمیر کو پونچھ پر چڑھائی کاحکم دیا۔ انہی ایام میں سردار شمس خان، راجا دھیان سنگھ کی اجازت سے چند دنوں کے لیے گھر آیاہوا تھا۔گلاب سنگھ نے پشاور سے دھیان سنگھ کو خط لکھا کہ شمس خان غدار ہے اور وہی پونچھ کی شورش اور بغاوت کا ذمہ دار ہے، لہذا شمس خان کو اس کی تحویل میں دے دیا جائے۔ سردار شمس خان کو جب ان حالات کا علم ہوا تو اُس نے سُدھن سرداروں سبز علی خان اور ملی خان (ساکن منگ تحصیل سدھنوتی) کے ساتھ مشورہ کرکے بغاوت کا اعلان کر دیااور بہت سے قلعے ڈوگروں سے چھین لیے اور پونچھ خاص کے قلعے کا بھی محاصرہ کر لیا جہاں ڈوگرہ فوج خاصی تعداد میں مقیم تھی۔ اُس قلعہ کو سر کرنے کی تدابیر ہو رہی تھیں کہ سکھ اور ڈوگرہ فوج کی ایک بہت بڑی کمک دریائے جہلم کو منگلا کے مقام سے عبور کرکے تیزی سے پونچھ کی جانب پیش قدمی کرنے لگی جب یہ اطلاع موصول ہوئی تو سردارشمس خان کے جتھے پونچھ سے ہٹ کر اپنے اپنے علاقوں کی حفاظت کے لیے منتشر ہو گئے۔ مہاراجا گلاب سنگھ کا بیٹا میاں اودہم سنگھ سکھوں اور ڈوگروں کے ایک بہت بڑے لشکر معہ دو جرنیلوں زور آور سنگھ اور میاں لعب سنگھ، سرزمین پونچھ میں داخل ہوا اور قتل و غارت و لوٹ مار کا بازار گرم کرتا،سدھن مجاہدین کو پیچھے دھکیلتا ہوا، پونچھ شہر کے قریب پلنگی تک پہنچ گیا۔ مجاہدین نے سکھوں اور ڈوگروں کی مشترکہ فوج کے ہر مورچے پر زبردست مزاحمت کی اور باوجود ہتھیاروں اور دیگر جنگی ساز وسامان کی کمی کے بڑی جوانمردی سے مقابلہ کرتے رہے۔ وہ ہر مورچے پر اپنی شجاعت و غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش کرتے رہے۔ مگر شکست قبول نہ کی برعکس اس کے اودہم سنگھ کی فوج کے اس سنگلاخ پہاڑی علاقے میں جگہ جگہ مقابلوں اور سخت مزاحمت سے حوصلے پست ہوتے چلے گئے۔ اور بالآخر اُس کو اپنے جرنیلوں اور بچی کھچی فوج کو مکمل تباہی سے بچانے کے لیے پسپا ہونا پڑا اور اس طرح سکھوں اور ڈوگروں کی طاقت کا غرور خاک میں مل گیا۔ اُس وقت گلاب سنگھ سرحد کے علاقے سوات میں پٹھانوں کے خلاف فوج کشی میں مصروف تھاجب اودہم سنگھ کی شکست کی خبر ڈوگرہ دربار جموں اور خالصہ دربار لاہور میں پہنچی تو رنجیت سنگھ نے گلاب سنگھ کو حکم دیا کہ وہ سوات و ہزارہ کی مہمات ملتوی کر دے اور فوراً پونچھ پر چڑھائی کرکے وہاں شورش کی سرکوبی کرے۔ اس طرح اپنے بیٹے اودہم سنگھ کی شکست کا بدلہ لینے کے لیے گلاب سنگھ اپنے ٹڈی دل لشکر کے ساتھ پونچھ کی طرف روانہ ہوا۔ گلاب سنگھ ہیرا نے کہوٹہ (ضلع راولپنڈی) کے نزدیک ایک مقام پر پڑائو ڈالا اور پونچھ پر فوری براہ راست حملہ کرنے کی بجائے اس نے پہلے گرد و نواح کے قبائل میں نااتفاقی پیدا کرنے اور ان کو اپنی طرف مائل کرنے کے لیے سازشوں اور رشوتوں کا جال پھیلایا اور ساتھ ہی پونچھ کے علاقے میں اپنے جاسوس بھیج کر اطلاعات حاصل کیں بلکہ بعض لوگوں کو خرید بھی لیا ،جن کے ذریعے علاقے بھر میں خوف و ہراس پیدا کرنے کے لیے افواہیں پھیلائیں۔ ان نفسیاتی جنگی حربوں کا یہ اثر ہوا کہ بعض سردار، سردار شمس خان کا ساتھ چھوڑ کر گلاب سنگھ کے ساتھ مل گئے اور بعض نے تصادم کی صورت میں غیر جانبدار رہنے کا وعدہ کیا۔ کہوٹہ پہنچنے پر گلاب سنگھ کے ساتھ آٹھ ہزار سپاہی تھے۔ اس نے بارہ ہزار مزید فوج تیار کی اور اپنا یہ لشکر لے کر کہوٹہ سے براستہ آئن اور لچھمن پتن (موجودہ آزادہ پتن) منگ کی طرف بڑھا۔ اورمنگ کے علاقہ میں آزادی کے پروانوں کو تہ تیغ کرتا ہوا پلندری تک آن پہنچا جہاں اس نے سولہ دن قیام کیا۔ یہ ایام علاقے کے غریب اور نہتے عوام کے لیے قیامت خیز تھے۔گلاب سنگھ نے عبرت ناک خوف و ہراس پھیلانے کے لیے قتل عام کا کھلا اعلان کر دیا اور حکم دیا کہ جو سپاہی کسی باغی کا سرکاٹ کر لائے گا اُس کو پانچ روپے فی سرانعام دیاجائے گا۔ چنانچہ بے شمار معصوم اور بے گناہ لوگ جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے ،قتل کر دیے گئے۔ لوگ اپنی جانیں بچانے کے لیے اپنے کنبوں کے ساتھ پہاڑوں اور غاروں میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے اور کچھ ہجرت کر گئے۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ علاقے میں کوئی ذی روح نہیں بچے گا۔ گلاب سنگھ کے حکم سے ڈوگرہ سپاہیوں نے عورتوں اور بچوں کو جانوروں کی مانند ہانک کر پلندری کے مقام پر ایک باڑے میں جمع کیا ان بے گناہ اور مظلوم عورتوں کی تعداد تقریباً پانچ ہزار کے قریب تھی اور باڑے کے ارد گرد خاردار جھاڑیاں جمع کر دی گئی تھیں ڈوگرہ سپاہی ان عورتوں کے ساتھ بھی انتہائی ظلم برتتے۔ انہیں بھوکا پیاسا رکھتے اور کبھی کبھار ان کے آگے مکئی کے بُھٹے ڈال دیتے تھے تاکہ وہ زندہ رہیں۔ دن میں صرف ایک مرتبہ پانی پلانے کے لیے انہیں نزدیکی نالے پر لے جاتے تھے۔ ان سختیوں کے باعث ڈیڑھ ہزار عورتیں پلندری ہی میں لقمہ اجل ہوگئیں اور باقی ماندہ کوجموں لے جایاگیا ،جن میں تقریباً سات سونے راستے ہی میں دم توڑ دیا۔گلاب سنگھ نے ان سولہ دنوں میں تقریباً چھ ہزار افراد کو پہاڑوں سے تلاش کرکے ان کے سرکاٹ کر سرِ عام لٹکا دیے۔ پلندری میں جس جگہ ظلم و ستم کا یہ بازار گرم رکھا گیا اور ہزاروں بے گناہ افراد کو تہ تیغ کیا گیا اسے اب بھی سو لتیراں کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اب عین اسی جگہ ایک ڈگری کالج قائم ہے جو خان صاحب خان محمد خان کے اسم گرامی سے موسوم ہے۔ سردار سبز علی خان اور ملی خان کو ان کے گائوں منگ میں نمائش کے طور پر درختوں کے ساتھ لٹکایا گیااور اُن کے جسموں سے کھالیں کھینچ کر اُن میں بھُوسا بھر کر مجسمے بنائے گئے تاکہ لوگوں کو ایسی عبرت دلائی جائے کہ ان کی آئندہ نسلیں بھی بغاوت کا نہ سوچ سکیں۔گلاب سنگھ نے سازش کے ذریعے سردار شمس خان اور اُس کے بھتیجے راجولی خان کو شہید کرایا اور ان کے سرکاٹ کر لوہے کے پنجرے میں بند کرکے پونچھ کے ایک پہاڑی درے ادھ ڈھک کے مقام پر لٹکادئے، جہاں وہ کئی سالوں تک پڑے رہے۔ سردار شمس خان کی شہادت کے بعد گلاب سنگھ نے پورے پونچھ پر آسانی سے تسلط جمالیا اور پھر وہ واپس جموں چلاگیا۔ لاہور خالصہ دربار میں دھیان سنگھ کے قتل کے بعد وزارتِ عظمیٰ ہیرا سنگھ کو دی گئی۔گلاب سنگھ کا بھائی سوچیت سنگھ اس بات سے ناخوش ہوا کیونکہ وہ وزارتِ عظمیٰ اپنا حق سمجھتا تھا۔ دونوں کی چپقلش نے جب نازک صورت اختیار کر لی تو ہیراسنگھ نے سوچیت سنگھ کو اس کے محافظ دستے سمیت قتل کر دیا۔ بعد میں جب ہیراسنگھ جہلاپنڈت کے ساتھ جموں جا رہاتھا تو راستے میں مخالفوں نے اُسے بھی قتل کر دیا۔ اس واقعہ کے بعد دھیان سنگھ کے دوسرے بیٹے موتی سنگھ و جواہر سنگھ، راجا گلاب سنگھ کے پاس رہے، جب یہ دونوں بالغ ہوئے تو مہاراجا نے کچھ شرائط کے ساتھ پونچھ کا علاقہ اُنہیں واپس دے کر اپنے ماتحت رکھنے کا فیصلہ کیا۔ ان دو بھائیوں نے نہ صرف یہ فیصلہ ماننے سے انکارکیابلکہ پونچھ کی اُس آمدنی کا بھی مطالبہ کیا جو ان کی نابالغی کے زمانے میں راجا گلاب سنگھ کے خزانے میں جمع ہوئی تھی، لیکن گلاب سنگھ کا مؤقف تھا کہ اس نے ’’معاہدہ امرتسر‘‘ کی رُو سے کشمیر کی قیمت پچہترلاکھ روپے(نانک شاہی ) انگریزوں کو اداکی ہے۔ اس لیے وہ انہیں بطور راجا پونچھ اپنے ماتحت رکھنا چاتا ہے۔ اس پر دونوں بھائیوں نے لاہور ریذیڈنٹ کے پاس مقدمہ دائر کر دیا۔ ریذیڈنٹ نے گلاب سنگھ کے موقف کی تائید کی اور تسلیم کیا کہ جواہر سنگھ اور موتی سنگھ، مہاراجا گلاب سنگھ کے جاگیردار کی حیثیت سے پونچھ پر قابض رہ سکتے ہیں، چنانچہ ایک معاہدہ کی رُو سے پونچھ کی جاگیر دونوں بھائیوں کو واپس کر دی گئی اور اُنہیں پابند کر دیاگیا کہ وہ مہاراجا جموں وکشمیر کی مشاورت کے بغیر کوئی کام نہ کریں اور اُس کے باجگزار بن کر رہیں۔ موتی سنگھ نے 1852ء میں باقاعدہ پونچھ کا انتظام سنبھالا اور 1947ء کی جنگ آزادی تک یہی خاندان پونچھ پر حکمران رہا۔ موتی سنگھ جانتا تھا کہ پونچھ کے قبائل خاص کر سُدھن بے حد سرکش اور جنگ جُو ہیں جب تک ان کو معاشی اور اقتصادی بدحالی میں مُبتلا نہ رکھا گیا تو اُن پر قابو پانا مشکل ہوگا۔ لہذا ملحقہ علاقوں سے وہ بہت سے ہندو تاجر ریاست میں لایا اور اُن کی اس قدر پُشت پناہی کی کہ اُنہوں نے جونکوں کی طرح مسلمانوں کا خُون چوسنا شروع کر دیا اور مسلمان اُن سُود خور بنیوں کے رحم و کرم پر ہو گئے۔ یہی نہیں بلکہ اُس نے پونچھ انتظامیہ میں بھی مسلمانوں کو شامل نہ کیا اور ان علاقوں کے لوگوں کو نمبرداریوں اور جاگیرداریوں کے چکر میں اُلجھائے رکھا، تاکہ یہ سرکشی نہ کرسکیں۔ اُس نے پونچھ کی سر زمین پر کوئیاسکول قائم نہ کیا جہاں لوگوں کے بچے تعلیم حاصل کر سکتے۔ چنانچہ مسلمان دینی و دنیوی تعلیم سے بے بہرہ رہے۔ الغرض ڈوگرہ راج نے ہر وہ حربہ استعمال کیا جس سے مسلمانوں کا تشخص اور خود اعتمادی ختم ہو اور وہ صرف اور صرف ڈوگرہ شاہی کے رحم و کرم پر زندہ رہ سکیں۔ اس ناپاک مقصد کے حصول کے لیے ڈوگروں نے رعایاپر بے شمار نئے ٹیکس لگائے اور ان کو مالیہ میں مدغم کر دیا گیا۔ یہ ٹیکس مندرجہ ذیل تھے۔

  • سری ٹھاکر جی ٹیکس بحساب چار فی صد بررقم مالیہ
  • وسہرا کے تہوار پر چار فی صد بررقم مالیہ
  • دیوالی ٹیکس چار فی صد بررقم مالیہ
  • زرٹیکس بہ حساب چار فی صد بررقم مالیہ(راجا صاحب کے جواہرات)

علاوہ ازیں نذرِ سرکار اور نذرِ وزیر ٹیکس بھی شامل مالیہ کیے گئے۔ ایک ٹیکس رسوم جنگلات کے نام سے بھی نافذ تھا۔ ہندوئوں کو مال مویشی رکھنے پر کوئی ٹیکس نہیں دینا پڑتا تھا،جبکہ مسلمانوں کو ہر قسم کے مال مویشی پر ٹیکس دیناپڑتاتھاجو ترنی کہلاتا تھا۔ صنعت و حرفت پر ٹیکس بھی وصول کیاجاتاتھاجس کو متحرفہ کہاجاتاتھا ،پن چکیوں پر بھی ٹیکس عائد تھا۔ مسلمان لڑکیوں کی شادی پر بھی ٹیکس وصول کیا جاتا تھا اور طلاق پر بھی۔ پونچھ میں ڈوگرہ فوج اور دیگر اہل کاروں کو مالیہ کی وصولی پر ششماہی حساب سے تنخواہیں ادا کی جاتی تھیں۔ اس لیے مالیہ نہایت سختی سے وصول کیاجاتا اور جو زمیندار بوجہ تنگ دستی مالیہ ادانہ کرسکتے انہیں طرح طرح کی سزائیں اور اذیتیں دی جاتی تھیں۔ ان کے لواحقین کو گرفتار کر لیاجاتا تھا اور ان کی رہائی اس وقت تک نہ ہوتی جب تک مالیہ ادانہ ہوجاتا۔ ان سختیوں کی وجہ سے اکثر زمیندار اپنی زمینیں چھوڑ کر بھاگ جاتے تھے۔ ڈوگرہ شاہی کے اس طویل دور میں صرف راجا بلدیو سنگھ ایک ایسا حکمران تھا جس نے 1899ء میں حکومتِ ہند سے انگریز افسروں کو مستعار لے کر ان کا تقرر بطور مہتمم بندوبست کیا اور علاقہ کی دوبارہ پیمائش کرائی۔ ان انگریز افسروں نے رعایا کے تمام مصائب و آلام، تکالیف اور چیخ و پکار سے متاثر ہوکر راجا بلدیو سنگھ کی رضامندی سے پونچھ کی برطانوی ہند سے وابستگی کرادی اور اُسے ریاست پونچھ کا نام دیاگیا۔ مزید برآں نگرانی کے لیے ایک انگریز ریڈیڈنٹ مقرر ہوا۔ پونچھ کے آخری مہتمم بندوبست کیپٹن آر۔ ای۔ ہملٹن نے رعایا کی دل جوئی کے لیے محکمہ جات کو الگ الگ دفتری صورت دی اور آبادی کے تناسب سے ان محکمہ جات کی انتظامیِ تشکیل کی، لیکن بدقسمتی نے مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا ،کیونکہ بعض جنونی حد تک متعصب ہندو جو سوامی دیانند کے پیروکار تھے،نہیں چاہتے تھے کہ ہندو راجائوں اور مہاراجوں کی ریاستوں میں کوئی مسلمان کسی اہم عہدے پرفائز ہو یا راجا کسی ایسے شخص کو وزیر یا اہلکار بنائے جو چاروں ویدوں کا عالم نہ ہو۔ وہ یہ ہرگز گوارا کرنے کے لیے تیار نہ تھے کہ ریاست پونچھ میں برطانوی ہند کی ریذیڈنسی کی بدولت مسلمانوں کی اندرونی اور بیرونی طاقت میں اضافہ ہو۔ چنانچہ اُنہوں نے راجا سکھدیوسنگھ کو جو ابھی کمسِن تھا، ریذیڈنسی سے علاحدہ ہونے پر آمادہ کر لیا اور پونچھ دوبارہ دربار جموں وکشمیر کی سرپرستی میں آ گیا۔ اس کے بعد مسلمانوں پر مظالم کی انتہا کر دی گئی اور چھوٹے بڑے مسلمان افسروں کی ملازمتیں نہ صرف ختم کر دی گئیں بلکہ اُن پر عرصہ حیات بھی تنگ کر دیاگیا یہاں پر یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ محکمہ صحت میں صرف ایک مسلمان کمپونڈر رہنے دیا گیا اور اس کو بھی دُور دراز علاقے میں مامُور کیا گیا۔ محکمہ جنگلات میں کوئی مسلمان ملازم نہ تھا۔ فارسٹر، رینجر اور گارڈکُھلے عام نذرانہ وصول کرتے ور نہ مصنوعی نقصان جنگل کی مِسل تیارکی جاتی اور پورے گائوں کو جرمانہ کیاجاتاتھا۔ ڈوگرہ شاہی کے اس دور میں عدالتی نظام بھی عوام کو انصاف بہم پہنچانے کی بجائے ناانصافی اور ظلم و استحصال کا ایک مزید ذریعہ بن گیا۔ عدالتوں کے چپڑاسی، اہلمداور محرر کھلے عام رشوت لیتے تھے۔ سرسری شہادت پیش کرنے میں کئی کئی ماہ لگ جاتے تھے۔ ملزم عام طور پر علاقہ غیر میں فرار ہوجاتے تھے۔ دیوانی مقدمات میں جج صاحبان قانون کی کوئی پروا نہ کرتے اور ساہوکاروں کی طرف داری کرتے ہوئے غریب زمینداروں کے خلاف ڈگریاں صادر کرتے۔ ماتحت عدالتوں کی اپیل بغیر ہیڈ کلرک اور ریڈرکو رشوت دیے جج کی عدالت میں دائر نہیں ہوسکتی تھی،اس کے بعد بھی لوگوں کو سال ہا سال خوار ہونا پڑتا تھا۔ سزا یافتہ اپیل کنند گان میں بعض تو پوری سزا بھگت کر رہا ہوتے اور بعض جیل ہی میں مرجاتے مگر ان کی اپیلوں کی سماعت مکمل نہ ہوتی۔ چیف جج کے فیصلہ کے خلاف اپیل وزیر پونچھ کے ہاں دائر ہوتی تھی لیکن وہاں تو مظلوم عوام کی اپیل کی سماعت کا موقع ہی نہیں آتا تھا۔ محکمہ مال میں رشوت انتہائی عروج پر تھی۔ محکمہ کا ہر ملازم رشوت خور تھا اور زمینداروں کا بُری طرح استحصال کرتا تھا۔ رہن و بیع کے حصولِ اجازت کے لیے ابتدائی درخواست پر کورٹ فیس کے علاوہ دفتر کے چپڑاسی کو رشوت دینے کے بعد ہی مسل پیش کی جاسکتی تھی۔ پھر درخواست پٹواری کے پاس جاتی وہ بھی رشوت لیے بغیر متعلقہ کاغذات تیار نہ کرتا۔ پھر تحصیلدار کا محرر رشوت لیتا اور مسِل تحصیلدار کو آخری رپورٹ کے لیے پیش کرتا جو نذرانہ وصول کرکے مسل چیف ریونیو آفیسر کے دفتر بھیجتا ،جہاں ریڈر اور چیف ریونیو آفیسر بھی جیب گرم کیے بغیر رپورٹ وزارتِ عالیہ میں نہ بھیجتے۔ وزارتِ عالیہ میں بھی محرر ڈاک اور وزیر کا ریڈر معقول رشوت وصول کرنے کے بعد ہی مسل راجا صاحب کے دفتر بھیجتے۔ وہاں سے منظوری پر مسل محکمہ مال میں واپس آتی جہاں محرر پھر نذ رانہ لے کر سر ٹیفکیٹ دیتا۔ گویا راجا کی منظوری حاصل کرنے میں اُس سستے زمانے میں بھی غریب زمیندار کو کم از کم ایک سو روپے بطور رشوت خرچ کرنے پڑتے تھے۔ وقت کا نقصان اور سب کی خوشامدیں الگ کرنا پڑتی تھیں۔ حصولِ نو توڑ میں بالکل اسی طرح کم ازکم سوروپیہ خرچ آتا تھا۔ تحصیلدار علاقہ زمین کے ایک انتقال کرنے کے دس سے پچاس روپے تک لیتاتھا۔ علاوہ ازیں پٹواری اور گرد اور نے ہر فصل پر الگ نذرانے مقرر کررکھے تھے جو باقاعدگی سے وصول کیے جاتے تھے۔ ڈوگرہ مظالم کے اُس دور میں محکمہ شکار بھی کسی سے پیچھے نہ تھا۔ یہ محکمہ زمینداروں کے مال مویشیوں کی چراگاہوں کو بند کرکے ان میں سؤر اور جنگلی جانور پالتاتھا۔ بعض گائوں میں جہاں جھاڑی تک نہ تھی محض لوگوں کو تنگ کرنے کے لیے شکار گاہیں بنائی گئیں تھیں۔ اگر شکار گاہوں میں کسی زمیندار کی بکری بھی گُزرجاتی تو بکری کی قیمت کے مساوی جرمانہ وصول کیاجاتاتھا۔ انسانوں کا ان شکار گاہوں میں داخلہ ممنوع تھا۔ اگر جنگل میں کسی انسان کا ریچھ سے مقابلہ ہو جاتا اور ریچھ مارا جاتا تو آدمی کو سزادی جاتی لیکن اگر ریچھ انسان کو مار ڈالتا تو کوئی مضائقہ نہ تھا۔ ڈوگروں نے مذہبی امور اور محتاجوں کی پرورش کے بہانے ’’دھرم ارتھ‘‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیاہوا تھا جو تمام فنڈز دھرم شالائوں کی تعمیر پر خرچ کرتا تھا اور مسلمانوں کی فلاح و بہبود پر کوئی پیسہ خرچ نہ کرتا تھا۔ مسلمانوں کے لیے گائے کو ذبح کرنا ایک سنگین جُرم تھابلکہ مسلمان تو بھیڑ بکری کاگوشت بھی آزادی سے استعمال نہیں کرسکتے تھے۔ ظلم و استحصال کا ایک اور ادارہ محکمہ کسٹم بھی تھا جس کے اہل کاروں نے علاقے میں اودہم مچارکھا تھا۔ کسٹم چوکی پر معززین کی چوروں کی مانند تلاشی لی جاتی تھی اگر اُن ملازموں کو نذرانہ نہ دیاجاتا تو پھر کسٹم کئی گُنا زیادہ وصول کیا جاتا۔ پونچھ اور جموں و کشمیر کی سرحدات پراندرونِ ریاست بھی کئی کسٹم چوکیاں تھیں جہاں درآمد برآمد پر کسٹم وصول کیاجاتاتھا۔ یہ امراہلِ پونچھ کے لیے بالخصوص تکلیف دہ تھا، انہیں ریاست جموں و کشمیر میں بار بار مختلف مقامات پر کسٹم ٹیکس کی صورت میں بھاری رقوم ادا کرنا پڑتی تھیں جس سے اشیاء صرف پر کئی گُنا اخراجات بڑھ جاتے۔ باوجود ان ٹیکسوں کے ڈوگرہ حکومت رعایا پر کوئی پیسہ خرچ نہ کرتی تھی اور نہ ہی مسلمانوں کے لیے ملازمتیں یادیگر ذرائع روزگار تھے۔96فیصد کی مسلمان اکثریت کے لیے سات فیصد سے بھی کم ملازمتیں مہیا تھیں۔ لوگ ہندوستان او ر خاص کر فوج میں ملازمت سے اپنی گزراوقات کرتے تھے۔ سڑکیں ناپید تھیں اور دریائوں ندی نالوں پر پل یاکشتیاں بھی نہ تھیں۔ پہاڑی سنگلاخ راستوں پر لوگوں کو بوجھ پُشت پر یاسر پر اُٹھا کر سفر کرنا پڑتا تھا۔ پونچھ کے عوام پر قحط سالی اور مفلوک الحالی کے بادل ہر وقت چھائے رہتے تھے۔ لوگوں کے علاج معالجے کے لیے کوئی ہسپتال نہ تھا اور اُن کی تعلیم کے لیے کوئیاسکول بھی نہ تھا جبکہ ڈوگرے قومی دولت کو اپنے محلوں اور تفریح گاہوں میں ضائع کرتے تھے یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ غریب عوام سے وصول کی جانے والی آمدن کا چالیس فیصد حصہ صرف شاہی خاندان کے ذاتی خرچ اخراجات کے لیے مخصوص تھا۔ پونچھ کی مسلمان رعایا ان بے بہا ٹیکسوں کے بوجھ تلے کچلی جا رہی تھی اور ڈوگرے اُن سے بار برداری کا کام بھی بغیر اُجرت دیے کرواتے تھے جو ’’بیگار‘‘ کے نام سے مشہور تھا۔ جب بھی راجا، رانی یادربار کے کسی حاکم یا اہلکار نے کہیں جانا ہوتا تو جن علاقوں سے اُن کا گزر ہوتا وہاں کے تمام مسلمان افراد کو ذیلداروں اور نمبرداروں کے ذریعے پابند کر لیتے اور تمام سامان جن میں ڈوگرہ مستورات کے ’ ڈولے ‘بھی شامل ہوتے تھے ،منزلِ مقصود تک پہنچانا ہوتا تھا اور تعجب خیز بات یہ تھی۔ کہ ’’بیگار‘‘ کے دوران میں ان مظلوم لوگوں کو اپنے کھانے پینے کا بندوبست بھی خود کرنا پڑتا تھا۔ یہی حال راجا ،مہاراجا اُن کے وزیروں، دیگر افسروں اور اُن کے معزز مہمانوں کی شکار گاہوں میں شکار کھیلتے وقت پیش آتا تھا۔ علاقے کی تمام نفری شکار گاہوں میں درندے کو شکاری تک ہانک کر لے جاتی جو ’’چاہڑ‘‘ کے نام سے مشہور تھی۔ بھوکے پیاسے یہ بدقسمت لوگ کئی کئی دن چاہڑ کے سلسلے میں جکڑے جاتے اور ان میں سے کئی خوفناک درندوں شیروں، ریچھوں اور جنگلی سورئوں سے زخمی ہوجاتے یامارے بھی جاتے۔ قابل تعجب بات یہ تھی کہ غریب عوام سے باقاعد ہ قلی ٹیکس جو مالیہ میں شامل تھا بھی وصول کیا جاتا لیکن یہ رقم ڈوگرہ شاہی اہلکار خود ہضم کر جاتے تھے اورغریب عوام سے راستوں کی تعمیر کاکام بھی بغیر اُجرت کے لیاجاتا تھا۔ مسلمانوں پر سب سے بڑا عذاب سود خور ہندو بنیوں کا تھا۔ وہ پہلے کسی ضرورت مند مسلمان کو معمولی سی رقم کی اشیائے خوردنی اُدھار دیتے تھے اور اس پر ایک معقول شرح سے سود مقرر کر لیتے تھے۔ اصل رقم جُوں کی توں برقرار رہتی تھی اور یہ ماہوار صرف سود ہی وصول کرتے تھے۔ اگر کسی ماہ مقروض مسلمان قرض ادانہ کر سکتا تو جرمانہ کے طور پر رقم دُگنی کردی جاتی اس طرح جب مقروض مسلمان مجبور ہو جاتا تو یہ فوراً سرکار کی پُشت پناہی سے اس کی زمین کی ڈگری کراکر اس پر قبضہ کر لیتے اور وہی زمین اسی شخص کو حصہ پر دے دیتے اور وہ غلہ پیدا کرتا جس کا تیسرا حصہ اُسے کاشتکاری کے عوض ملتاتھا۔ اس طرح مالک مقروض ہوکر سود خوروں کا مزارع بن جاتاتھا۔ غلہ کاحساب یہ تھا کہ اگر کسی مسلمان کو دو من مکئی یاگندم قرض دی جاتی تو بنئیے دوسرے سال فصل پر چار من وصول کرتے تھے اگر کسی وجہ سے مسلمان یہ ادانہ کر سکتا تو اس سے اگلے سال یہ آٹھ من ہوجاتی تھی اور اس طرح یہ حساب بڑھتا ہی جاتاتھا۔ دراصل اس طریقے سے ڈوگرہ سرکار مسلمانوں کو ان کی زمینوں سے محروم کرنا چاہتی تھی اور بہت حد تک مسلمانوں کو ان کی کار آمد زمینوں سے بے دخل بھی کر چکی تھی۔ یہ تھا پونچھ کا وہ تاریخی ،سیاسی، سماجی اور معاشی پس منظر جس میں اہل پونچھ اپنی زندگیوں کو جبرو تشدد اور انتہائی نکبت و افلاس کی فضا میں گزارنے پر مجبور تھے اور اﷲ جل شانہ‘ سے دست بُدعا تھے کہ اُن کی نجات کا کوئی راستہ نکلے۔ اﷲ نے ان کی دُعائیں قبول فرمائیں اور ان کے درمیان میں ایک ایسامردِ حق و مجاہد پیداکیا جس نے ایک طویل جدوجہد کے بعد بالآخر1947ء کے مبارک سال میں انہیں آزادی کی نعمت سے ہم کنار کیا۔

پونچھ پاکستان کے زیر انتظام آزاد جموں و کشمیر کے دس اضلاع میں سے ایک ہے۔ پونچھ کی چار تحصیلیں ہیں۔ راولاکوٹ،ہجیرہ، عباسپور، تھوراڑ

راولاکرٹ
عباس پور
پونچھ
لائن آف کنٹرول

حوالہ جات

    This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.