جنگ چالدران
عثمانی ترکوں اور صفوی ایرانیوں کے درمیان 23 اگست 1514ء کو ہونے والی ایک جنگ جس میں عثمانیوں نے فیصلہ کن فتح حاصل کی جس کے نتیجے میں اناطولیہ کا مشرقی حصہ بھی عثمانی سلطنت کا حصہ بن گیا۔
جنگ چالدران | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
بسلسلہ the Ottoman–Persian Wars | |||||||
![]() جنگ چالدران | |||||||
| |||||||
محارب | |||||||
![]() |
![]() | ||||||
کمانڈر اور رہنما | |||||||
![]() ![]() |
![]() ![]() ![]() ![]() ![]() ![]() ![]() | ||||||
طاقت | |||||||
60,000[2] یا 100,000[3] یا 212,000,[4] توپ خانہ اور بندوقیں[5] |
12,000[4] یا 40,000[5] یا 55,000[6] یا 80,000[3] | ||||||
ہلاکتیں اور نقصانات | |||||||
بھاری نقصان[7] یا 2,000 سے کم[8] |
بھاری نقصان[7] یا اندازا 5,000 [9] |
جنگ میں عثمانی افواج کی تعداد 2 لاکھ تھی جبکہ ایرانیوں کی تعداد 50 سے 80 ہزار تھی۔ اس جنگ کے نتیجے میں اناطولیہ میں علویوں کی بغاوت بھی ختم ہو گئی۔
اس جنگ کی وجہ یہ تھی کہ اس زمانے میں ایران میں شاہ اسماعیل صفوی کی حکومت تھی اور مصر و شام پر مملوک حکمران تھے۔ مصر اور ایران کی ان حکومتوں نے عثمانی ترکوں کے خلاف معاہدہ کر لیا تھا اور بعض باغی عثمانی شہزادوں کو پناہ بھی دے رکھی تھی۔ اس کے علاوہ ان میں اور عثمانی ترکوں میں کبھی کبھی سرحدی لڑائیاں بھی ہوتی رہتی تھیں۔ ان اسباب کی بنا پر عثمانی سلطان سلیم اول نے ان دونوں حکومتوں کو ختم کرنے کا ارادہ کر لیا۔ شاید وہ یہ سمجھتا تھا کہ جب تک عثمانی سلطنت کے پڑوس میں ایران اور مصر کی طاقتور حکومتیں مخالف رہیں گی مسلمان یورپ کی طرف پیشقدمی نہیں کرسکیں گے۔
اس سلسلے میں سلیم نے پہلے اسماعیل صفوی کو چالدران کے میدان جنگ میں شکست دے کر اس کے دار الحکومت تبریز پر قبضہ کر لیا۔ سلیم چاہتا تھا کہ پورا ایران فتح کرکے صفوی حکومت کو ختم کر دے لیکن اس کی فوجوں نے آگے بڑھنے سے انکار کر دیا اور سلیم کو واپس ہونا پڑا۔
مزید دیکھیے
حوالہ جات
- David Eggenberger, An Encyclopedia of Battles, (Dover Publications, 1985), 85.
- Keegan & Wheatcroft, Who's Who in Military History, Routledge, 1996. p. 268 "In 1515 Selim marched east with some 60,000 men; a proportion of these were skilled Janissaries, certainly the best infantry in Asia, and the sipahis, equally well-trained and disciplined cavalry. […] The Azerbaijanian army, under Shah Ismail, was almost entirely composed of Turcoman tribal levies, a courageous but ill-disciplined cavalry army. Slightly inferior in numbers to the Turks, their charges broke against the Janissaries, who had taken up fixed positions behind rudimentary field works."
- Encyclopedia of the Ottoman Empire, ed. Gábor Ágoston,Bruce Alan Masters, page 286, 2009
- Ghulam Sarwar, History of Shah Isma'il Safawi, AMS, New York, 1975, p. 79
- Roger M. Savory, Iran under the Safavids, Cambridge, 1980, p. 41
- Keegan & Wheatcroft, Who's Who in Military History, Routledge, 1996. p. 268
- Kenneth Chase, Firearms: A Global History to 1700, 120.
- Serefname II
- Serefname II s. 158