پاک فوج
پاک فوج،(انگریزی: Pakistan Army) عسکریہ پاکستان کی سب سے بڑی شاخ ہے۔ اِس کا سب سے بڑا مقصد مُلک کی ارضی سرحدوں کا دِفاع کرنا ہے۔
|
پاکستان فوج کا قیام 1947 میں پاکستان کی آزادی پر عمل میں آیا۔ یہ ایک رضاکارپیشہ ور جنگجوقوت ہے۔ انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز (انگریزی: (International Institute for Strategic Studies-IISS)) کے مطابق اپریل 2013 میں پاک فوج کی فعال افرادی قوت 7،25،000 تھی۔ اس کے علاوہ ریزرو یا غیر فعال 5،50،000 افراد(جو 45 سال کی عمر تک خدمات سر انجام دیتے ہیں)کو ملاکر افرادی قوت کا تخمینہ 12،75،000افراد تک پہنچ جاتا ہے۔ اگرچہ آئین پاکستان میں جبری فوجی بھرتی کی گنجائش موجود ہے، لیکن اسے کبھی استعمال نہیں کیا گیا۔ پاک فوج بشمولِ پاک بحریہ اور پاک فضائیہ کے دُنیا کی ساتویں بڑی فوج ہے۔
پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 243کے تحت، پاکستان کے صدر افواج پاکستان بشمول پاکستانی بری فوج، کے سویلین کمانڈر ان چیف یا سپاہ سالار اعظم کا منصب رکھتے ہیں۔ آئین کے مطابق صدرپاکستان، وزیر اعظم پاکستان کے مشورہ و تائید سے چیف آف آرمی سٹاف پاکستان آرمی یا سپہ سالارپاکستان بری فوج کے عہدے کے لیے ایک چار ستارے والے جرنیل کا انتخاب کرتے ہیں۔ فی الوقت پاک فوج کی قیادت جنرل قمر جاوید باجوہ چیف آف آرمی سٹاف کر رہے ہیں، جبکہ جنرل زبیر محمود حیات چئیرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی کی زمہ داری سنبھالے ہوئے ہیں۔
تاریخ
1947ء میں آزادی کے بعد سے پاک فوج بھارت سے 4 جنگوں اورمتعدد سرحدی جھڑپوں میں دفاع وطن کا فریضہ انجام دے چکی ہے۔ عرب اسرائیل جنگ، عراق کویت جنگ اور خلیج کی جنگ میں حلیف عرب ممالک کی فوجی امداد کے لیے بھی نمایاں خدمات انجام دیں۔
حالیہ بڑی کارروائیوں میں آپریشن بلیک تھنڈر سٹارم، آپریشن راہ راست اور آپریشن راہ نجات شامل ہیں۔
لڑائیوں کے علاوہ پاک فوج، اقوامِ متحدہ کی امن کوششوں میں بھی حصّہ لیتی رہی ہے۔ افریقی، جنوبی ایشیائی اور عرب ممالک کی افواج میں ا فواج پاکستان کا عملہ بطورِ مشیر شامل ہوتا ہے۔
پاکستانی افواج کے ایک دستے نے اقوام متحدہ امن مشن کا حصہ ہوتے ہوئے 1993ء میں موغادیشو، صومالیہ میں آپریشن گوتھک سرپنٹ کے دوران میں پھنسے ہوئے امریکی فوجیوں کی جانیں بچانے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔
پاکستان فوج 3 جون 1947ء کو برطانوی ہندوستانی فوج یا برٹش انڈین آرمی کی تقسیم کے نتیجے میں معرض وجود میں آئی۔ تب جلد ہی آزاد ہو جانے والی مملکت پاکستان کو6 بکتر بند، 8 توپخانے کی اور 8 پیادہ رجمنٹیں ملیں، جبکہ تقابل میں بھارت کو 12 بکتر بند، 40 توپخانے کی اور21 پیادہ فوجی رجمنٹیں ملیں۔
1947ء میں غیر منظم لڑاکا جتھے، اسکاؤٹس اورقبائلی لشکر، کشمیر کی مسلم اکثریتی ریاست پر بھارت کے بزور قوت قبضہ کے اندیشہ سے کشمیر میں داخل ہو گئے۔ مہاراجا کشمیر نے اکثریت کی خواہش کے خلاف بھارت سے الحاق کر دیا۔ بھارت نے اپنی فوجیں کشمیر میں اتار دیں۔ یہ اقدام بعد میں پاک بھارت جنگ 1947ء کا آغاز ثابت ہوا۔ بعد میں باقاعدہ فوجی یونٹیں بھی جنگ میں شامل ہونے لگیں، لیکن اس وقت کے پاکستانی بری افواج کے برطانوی کمانڈر انچیف جنرل سر فرینک میسروی کی قائد اعظم محمد علی جناح کے کشمیر میں فوج کی تعیناتی کے احکامات کی حکم عدولی کے باعث روک دی گئیں۔ بعد ازاں اقوام متحدہ کے زیر نگرانی جنگ بندی کے بعد پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر کا شمال مغربی حصہ پاکستان کے، جبکہ بقیہ حصہ بھارت کے زیر انتظام آ گیا۔
اس کے بعد، 1950ءکی دہائی میں، پاکستانی افوج کودو باہمی دفاعی معاہدوں کے نتیجے میں امریکا اور برطانیہ کی طرف سے بھاری اقتصادی اور فوجی امداد موصول ہوئی۔ یہ معاہدے معاہدہ بغداد یا بغداد پیکٹ، جو سینٹرل ٹریٹی آرگنائزیشن یا سینٹو کے قیام کی وجہ بنا، اورساوتھ ایسٹ ایشین ٹریٹی آرگنائیزیشن یا سیٹو 1954ء میں ہوئے۔ اس امداد کے نتیجے میں افواج پاکستان کو اپنی دفاعی صلاحیتوں کو بڑھانے کا موقع ملا۔
1947ء میں پاکستان کو صرف تین انفینٹری ڈویژن ملے، جن میں نمبر 7،8اور 9 ڈویژن شامل تھے۔10 واں، 12 واں اور 14 واں ڈویژن 1948ء میں کھڑا کیا گیا۔ 1954ء سے پہلے کسی وقت 9 وان ڈویژن توڑ کر 6 وان ڈویژن کھڑا کیا گیا، لیکن 1954ء ہی کے بعد کسی وقت اس کو بھی ختم کر دیا گیا، جس کی وجہ امریکی امداد کا صرف ایک بکتر بند یا آرمرڈ ڈ ویژن اور 6 انفینٹری ڈویژن کے لیے مخصوص ہونا تھا۔
پہلی بار پاکستانی فوج کی اقتدار میں شراکت جنرل ایوب خان کی 1958ء میں ایک پر امن بغاوت کے ذریعے دیکھنے میں آئی۔ انہوں نے کنونشن مسلم لیگ بنائی، جس میں مستقبل کے وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو بھی شامل تھے۔
60 کی دہائی میں بھارت کے ساتھ تعلقات کشیدہ رہے اور اپریل 1965ء میں رن آف کچھ کے مقام پر ایک مختصر جنگی جھڑپ بھی لڑی گئی۔ 6 ستمبر 1965ء کی رات، بھارت نے پاکستان پر اعلان جنگ کے بغیر حملہ کر دیا۔ پاکستان نے حملہ نہ صرف روک کر پسپا کر دیا، بلکہ 1200 کلومیٹر بھارتی علاقہ بھی فتح کر لیا۔ پاکستانی فضائیہ اور توپخانے کی لڑائی کے دوران میں امداد نے پاکستانی دفاع میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اقوام متحدہ کے زیر نگرانی جنگ بندی عمل میں آئی اور معاہدہ تاشقند کا اعلان ہوا۔ بھارتی مفتوحہ علاقہ واپس کر دیا گیا۔
لائبریری آف کانگریس کے ملکی مطالعہ جات ،جو امریکی وفاقی تحقیقی ڈویژن نے کیے، کے مطابق جنگ غیر نتیجہ خیز ثابت ہوئی۔ اگرچہ پاکستان اور بھارت کے جنگی تقابل کے بعد، نسبتاْ کہیں زیادہ کمزور پاکستانی افواج کا بھارتی جارحیت کو محض روک لینا ہی مندرجہ بالا دعوے کی تردید کے لیے کافی ہے۔
1968ء اور 1969ء میں فیلڈ مارشل ایوب خان کے خلاف عوامی تحریک کے بعد انہوں نے صدر پاکستان اور چیف آف آرمی اسٹاف کے عہدے سے استعفٰی دے دیا، اورجنرل یحییٰ خان نے اقتدار 1968ء میں سنبھال لیا۔
1966ء سے 1969ء کے درمیان میں 18،16 اور 23 ڈویژن کھڑے کیے گئے۔ 9 ویں ڈویژن کا دوبارہ قیام بھی اسی عرصے میں عمل میں آیا۔
جنرل یحییٰ خان کے دور حکومت میں، مشرقی پاکستان میں مغربی پاکستان کے ہاتھوں روا رکھی گئی مبینہ سیاسی،معاشرتی اورمعاشی زیادتیوں کے خلاف مقبول عوامی تحریک شروع ہوئی، جو بتدریج خلاف قانون بغاوت میں بدل گئی۔ ان باغیوں کے خلاف 25 مارچ 1971ء کو فوجی کارروائی کی گئی، جسے آپریشن سرچ لائٹ کا نام دیا گیا۔ منصوبے کے مطابق بڑے شہروں کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد تمام فوجی اور سیاسی بغاوت پر قابو پایا جانا تھا۔ مئی 1971ء کو آخری بڑے مزاحمتی شہر پر قابو پانے کے بعد آپریشن مکمل ہو گیا۔
آپریشن کے بعد بظاہر امن قائم ہو گیا، لیکن سیاسی مسائل حل نہ ہو سکے۔ آپریشن میں مبینہ جانی نقصانات بھی بے چینی میں اضافے کا باعث بنے۔
بے امنی دوبارہ شروع ہوئی اور اس دفعہ بھارتی تربیت یافتہ مکتی باہنی گوریلوں نے لڑائی کی شدت میں اضافہ جاری رکھا، تاآنکہ بھارتی افواج نے نومبر 1971ء میں مشرقی پاکستان میں دخل اندازی شروع کر دی۔ محدود پاکستانی افواج نے نا مساعد حالات میں عوامی تائید کے بغیر اس جارحیت کا مقابلہ جاری رکھا۔ مغربی پاکستان میں پاکستانی افواج کا جوابی حملہ بھی کیا گیا۔ لیکن بالآخر 16 دسمبر 1971ءکو ڈھاکہ میں محصور پاکستانی افواج کو لیفٹینینٹ جنرل امیر عبد اللہ خان نیازی کی قیادت میں ہتھیار ڈالنے پڑے۔
18 دسمبر 1971ء کو بھٹو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس، جہاں وہ مشرقی پاکستان پر بھارتی جارحیت کے خلاف حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے، سے بذریعہ خصوصی پی آئی اے کی پرواز واپس بلائے گئے اور 20 دسمبر 1971ء کو انہوں نے بطور صدر پاکستان اور پہلے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے اقتدار سنبھال لیا۔
1970ء کی دہائی کے وسط میں سول حکومت کے ایما پر بلوچستان میں غیر ملکی اشارے پر بے امنی پیدا کرنے والے عناصر کے خلاف فوجی کارروائی بھی کی گئی۔
1977ء میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل محمد ضیاءالحق نے عوامی احتجاج اور مظاہروں کے بعد ذولفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ ذو الفقار علی بھٹو کو ایک سیاست دان قصوری کے قتل کا جرم ثابت ہونے پر عدالت نے پھانسی کی سزا دی۔ جنرل ضیاء الحق موعودہ 90 دن میں انتخابات کروانے میں ناکام رہے اور 1988ء میں ایک طیارے کے حادثے میں جاں بحق ہونے تک بطور فوجی حکمران حکومت جاری رکھی۔
1980ء میں پاکستان نے امریکا، سعودی عرب اور دیگر اتحادی ممالک کے ساتھ افغان مجاہدین کو جارح روسی افواج کے خلاف ہتھیاروں، گولہ بارود اور جاسوسی امداد جاری رکھی-
پہلی خلیجی جنگ کے دوران پاکستان نے ممکنہ عراقی جارحیت کے خلاف سعودی عرب کے دفاع کے لیے افواج فراہم کیں۔
1999ء - تاحال
= اسٹیبلشمنٹ یا انصرام یا استقرار، عام طور پر پاکستانی تجزیہ نگاروں میں استعمال ہونی والی اصطلاح ہے جو پاکستان میں فوجی حاکمیت کو ظاہر کرتی ہے۔ پس پردہ ریاستی انتظام کے متعلق یہ افراد، جو مکمل طور پر فوج سے تعلق نہیں رکھتے وہ پاکستان کی سیاست، دفاع اور جوہری پروگرام کے پالیسی فیصلوں کے ذمہ دار سمجھے جاتے ہیں۔ یہ نہ صرف پاکستان کے جوہری منصوبوں بلکہ دفاعی بجٹ اور پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کو بھی اپنے مروجہ نظریہ کے مطابق استعمال کرنے کے لیے مشہور ہیں۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی جامع تعریف سٹیفن پی کوہن نے اپنی کتاب “آئیڈیا آف پاکستان“ میں کی ہے، کوہن کے مطابق پاکستان کی یہ انصرامی قوت دراصل درمیانی راستے کے نظریہ پر قائم ہے اور اس کو غیر روایتی سیاسی نظام کے تحت چلایا جاتا ہے جس کا حصہ فوج، سول سروس، عدلیہ کے کلیدی اراکین اور دوسرے کلیدی اور اہمیت کے حامل سیاسی و غیر سیاسی افراد ہیں۔ کوہن کے مطابق اس غیر تسلیم شدہ آئینی نظام کا حصہ بننے کے لیے چند مفروضات کا ماننا ضروری ہے جیسے،
بھارت کے ہر قدم اور ہر چال کا منہ توڑ جواب دینا انتہائی لازم ہے۔ پاکستان کے جوہری منصوبے ہی دراصل پاکستان کی بقا اور وسیع تر حفاظت کی ضمانت ہیں۔ جنگ آزادی کشمیر جو تقسیم ہند کے بعد شروع ہوئی، کبھی بھی ختم نہیں ہونی چاہیے۔ وسیع پیمانے پر ہونے والی عمرانی اصلاحات، جیسے کہ زمینوں کی مفت تقسیم وغیرہ انتہائی ناپسندیدہ عمل ہیں۔ غیر تعلیم یافتہ اور مڈل کلاس طبقہ کو ہمیشہ پامال اور کچل کر رکھنا ہی حکمت ہے۔ اسلام پسند نظریہ ہونا انتہائی موزوں بات ہے لیکن اسلام کا مکمل طور پر نفاظ ممکن نہ رہے۔ اور یہ کہ امریکا کے ساتھ تعلقات استوار رہنے چاہیے لیکن کبھی بھی امریکا کو پاکستان پر مکمل طور پر گرفت حاصل نہ ہونے پائے۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے ان کلیدی نکات میں یہ بھی اکثر شامل کیا جاتا ہے کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو ہر حال میں ریاست کے انتظام، سیاست وغیرہ پر گرفت مضبوط رکھنی چاہیے۔ اس کے علاوہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی انتخابات اور انتظام پر اثر انداز ہونے کی پالیسی بھی شامل ہے، جس کے تحت پاکستان میں وقت کے ساتھ ساتھ کئی سیاسی جماعتیں اور اتحاد بنائے اور توڑے بھی جاتے رہے ہیں۔ پاکستان کے سیکولر اور لبرل خیالات کے حامل گروہ ان تمام اتحادوں اور سیاسی جماعتوں کی تشکیل میں پیش پیش رہتے ہیں، اس کی ایک مثال متحدہ مجلس عمل ہے جو پاکستان کی مذہبی سیاسی جماعتوں کا اتحاد تھا جس کی تشکیل اس وقت حکومت کے کرتا دھرتا فوجی حکمران تھے۔ اس سے پہلے جنرل ضیاء الحق نے بھی اسی طرح سے انصرامی سیاست کے تحت منطقی اتحاد اور پالیسیاں تشکیل دیں۔ جنرل ضیاء الحق نے اس کا استعمال سیاست اور فوجی حکمت عملی میں کیا۔ افغانستان پر سوویت افواج کے حملے کے بعد، جنرل ضیاء کی نظر میں افغانستان کا شمار پاکستان کی فوجی اور سیاسی پالیسیوں کا منبع بن گیا۔ ان کے مطابق پاکستان کی بقاء اور استحکام دراصل اس امر میں ہے کہ پاکستان افغانستان پر مکمل طور پر اثر انداز رہے۔
نصب العین
پاک فوج کا نصب العین ہے: ‘‘ایمان، تقویٰ اور ِجہاد فی سبیل اللہ۔
چیف آف آرمی سٹاف کی فہرست
- جنرل سر فرینک مسروی (15 اگست 1947ء – 10 فروری 1948ء)
- جنرل سر ڈوگلس ڈیوڈ گریسی (11 فروری 1948ء – 16 جنوری 1951ء)
- فیلڈ مارشل ایوب خان (16 جنوری 1951ء – 26 اکتوبر 1958ء)
- جنرل موسیٰ خان (27 اکتوبر 1958 – 17 جون 1966ء)
- جنرل یحیٰی خان (18 جون 1966ء – 20 دسمبر 1971ء)
- لفٹننٹ جنرل گل حسن (20 دسمبر 1971ء – 3 مارچ 1972ء)
- جنرل ٹکّا خان (3 مارچ 1972ء – 1 مارچ 1976ء)
- جنرل محمد ضیاء الحق (1 اپریل 1976ء – 17 اگست 1988ء)
- جنرل مرزا اسلم بیگ (17 اگست 1988ء – 16 اگست 1991ء)
- جنرل آصف نواز (16 اگست 1991ء – 8 جنوری 1993ء)
- جنرل عبدالوحید کاکڑ (8 جنوری 1993ء – 1 دسمبر 1996ء)
- جنرل جہانگیر کرامت (1 دسمبر 1996ء – 6 اکتوبر 1998ء)
- جنرل پرویز مشرف (7 اکتوبر 1998ء – 28 نومبر 2007ء)
- جنرل اشفاق پرویز کیانی (29 نومبر 2007ء – 29 نومبر 2013ء)
- جنرل راحیل شریف (29 نومبر 2013ء – 28 نومبر 2016
- جنرل قمر جاوید باجوہ (29 نومبر 2016ء موجودہ)
تنظیم
پاکستان آرمی مختلف شعبوں پر مشتمل ہے، جنہیں لڑاکا بازو، امدادی بازو یا امدادی خدمتی شعبوں میں بانٹا جاتا ہے۔ لڑاکا آرمز میں انفینٹری یا پیادہ فوج ،آرمر یا رسالہ/ بکتر بند فوج، آرٹلری یا توپخانہ اور ائیر ڈیفینس یا فضائی دفاعی فوج شمار کی جاتی ہیں۔
لڑاکوں کی امداد کرنے والی آرمز میں سگنلز کور یا مواصلاتی اور انجینئرز کور یا مہندسی فوج شامل ہے۔ لڑاکوں کی امداد کرنے والی سروسز میں کور آف الیکڑیکل اینڈ مکینیکل انجینئر ز، پاکستان آرمی میڈیکل کور، پاکستان آرمی ڈینٹل کور، سپلائی کور یا رسد و رسائل اور آرڈینینس کور یا سازو سامان والی فوج شامل ہے۔ پی ایم اے لانگ کورس کیڈٹ بطور سیکنڈلیفٹیننٹ الیکڑیکل اور مکینیکل انجینئر ،پاکستان آرمی میڈیکل کور اور پاکستان آرمی ڈینٹل کور کے علاوہ مندرجہ بالا کسی بھی فوجی شعبے میں شامل ہو سکتاہے۔
الیکڑیکل اور مکینیکل انجینئر ز، انجینئرز اور سگنلز کور میں پی ایم اے ٹیکنیکل گریجویٹ کورس کیڈٹس کوبعد تربیت براہ راست کیپٹن کے عہدے پر تعینات کیا جاتا ہے،جبکہ پی ایم اے آرمی میڈیکل کورس ( اے ایم سی ) کیڈٹس بطور کپتان پاکستان آرمی میڈیکل یا ڈینٹل کور میں کمیشن کیے جاتے ہیں۔