سعید احمد پالن پوری

مفتی سعید احمد پالن پوری کی ولادت 1362ھ مطابق 1942ء میں ہوئی۔ وہ موضع کالیٹرہ ضلع بناس کانٹھا (شمالی گجرات) کے رہنے والے ہیں۔ والدین نے ان کا نام ‘‘احمد‘‘ رکھا تھا، لیکن جب انہوں نے مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور میں داخلہ لیا تو اپنے نام کے شروع میں ‘‘سعید ‘‘ کا اضافہ کر دیا، اس طرح ان کا پورا نام ‘‘سعید احمد‘‘ ہو گیا، اس وقت دیوبند میں اپنے ذاتی مکان میں اقامت پزیر ہیں۔

ابتدائی تعلیم اپنے وطن گجرات ہی میں ہوئی، والد کے ہاتھوں ان کی بسم اللہ ہوئی اور ناظرہ و دینیات وغیرہ کی تعلیم وطن کے مکتب میں حاصل کی، پھر دار العلوم چھاپی چلے گئے اور وہاں فارسی کی ابتدائی کتابیں پڑھیں۔ دار العلوم چھاپی میں ان کا قیام چھ ماہ رہا، پھر نذیر احمد پالن پوری کے مدرسہ میں داخل ہوئے اور وہاں عربی درجہ کی شرح جامی تک تعلیم حاصل کی، وہاں محمد اکبر پالن پوری اور ہاشم بخاری ان کے خاص استاد تھے۔

1377ھ میں مظاہر علوم سہارنپور میں داخلہ لیا، نحو، منطق و فلسفہ کی بیشتر کتابیں وہیں پڑھیں، بعد ازاں 1380ھ مطابق 1960ء میں دار العلوم دیوبند میں داخلہ لیا اور حدیث و تفسیر اور فقہ کے علاوہ دیگر کئی فنون کی کتابیں پڑھیں۔ 1382ھ مطابق 1962ء میں دورہ حدیث شریف سے فارغ ہوئے اور سالانہ امتحان میں امتیازی نمبرات حاصل کیے، پھر اگلے تعلیمی سال (یکم ذیقعدہ 1382ھ) میں شعبہ افتاء میں داخلہ ہوا اور فتاویٰ نویسی کی تربیت حاصل کی۔

تدریس

تکمیل افتاء کے بعد 1384ھ میں دار العلوم اشرفیہ راندیر (سورت) میں علیا کے مدرس مقرر ہوئے، یہاں تقریباً دس سال تدریسی خدمات انجام دیں۔ پھر دار العلوم دیوبند کی مجلس شوریٰ کے معزز رکن محمد منظور نعمانی کی تجویز پر 1393ھ میں دار العلوم دیوبند کے مسند درس و تدریس کے لیے ان کا انتخاب عمل میں آیا اور تا ہنوز دار العلوم میں خدمت انجام دے رہے ہیں۔ دار العلوم میں مختلف فنون کی کتابیں پڑھانے کے ساتھ برسوں سے ترمذی شریف جلد اول اور طحاوی شریف کے اسباق ان سے متعلق ہیں۔ ان کے اسباق بے حد مقبول، مرتب اور معلومات سے بھر پور ہوتے ہیں، طلبہ میں عموما ان کی تقریر نوٹ کر لینے کا رجحان پایا جاتا ہے۔ ان کی تقریر میں اتنا ٹہراؤ اور اتنی شفافیت ہوتی ہے کہ لفظ بلفظ اسے نوٹ کر لینے میں کسی طرح کی دشواری پیش نہیں آتی، دار العلوم کے شیخ الحدیث اور صدر المدرسین نصیر احمد خان کی علالت کے بعد (1429ھ مطابق 2008ء) سے بخاری شریف جلد اول کا درس بھی ان سے متعلق کر دیا گیا۔ اب وی اس وقت دار العلوم کے شیخ الحدیث اور صدر المدرسین ہیں، اوقات کی پابندی اور کاموں میں انہماک ان کے اہم قابل تقلید اوصاف ہیں۔

ان کا مزاج شروع ہی سے فقہی رہا ہے اور فقہ وفتاویٰ میں امامت کا درجہ رکھنے والے دار العلوم دیوبند جیسے ادارہ سے تکمیل افتاء کے بعد ان کے فقہی ذوق میں اور بھی چار چاند لگ گئے، ترمذی شریف کے درس کے دوران میں بڑی خوبی اور اعتماد کے ساتھ فقہی باریکیوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں، فقہی سمیناروں میں ان کی رائے کو بڑی اہمیت دی جاتی اور ان کے مقالات کو بڑی قدر کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ اشرف علی تھانوی کے مجموعہ فتاویٰ امداد الفتاویٰ پر حاشیہ بھی لکھا ہے، نیز ان کی فقہی مہارت اور رائے قائم کرنے میں حد درجہ حزم و احتیاط ہی کی وجہ سے دار الافتاء دار العلوم کے خصوصی بنچ میں ان کا نام نمایاں طور پر شامل ہے۔ انہوں نے درس وتدریس کے ساتھ تصنیف و تالیف میں بھی گرانقدر خدمات انجام دی ہیں، ان کی بہت سی کتابیں دار العلوم سیمت مختلف دینی مدارس میں شامل نصاب ہیں۔

تصنیفات

  • مبادیات فقہ
  • آپ فتویٰ کیسے دیں
  • حرمت مصاہرت
  • داڑھی اور انبیا کی سنت
  • تحشیہ امدادالفتاوی
  • کیا مقتدی پر فاتحہ واجب ہے؟
  • تسہیل ادلہ کاملہ
  • مشاہیر محدثین وفقہا کرام اور تذکرہ روایان کتب
  • تفسیر ہدایت القرآن
  • رحمۃ اللہ الواسعہ
  • آسان نحو (دو حصے )
  • آسان صرف (دو حصے)
  • آسان منطق
  • مبادی الفلسفہ (عربی)
  • معین الفلسفہ
  • العون الکبیر ( حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی کتاب ‘‘ الفوز الکبیر ‘‘کی مفصل (عربی شرح)
  • فیض المنعم ( شرح مقدمہ صحیح مسلم)
  • مفتاح التہذیب ( شرح تہذیب المنطق)
  • تحفۃ الدرر ( شرح نخبۃ الفکر)
  • حیات امام داؤد
  • حیات امام طحاوی
  • اسلام تغیر پزیر دنیا میں
  • تہذیب کی اردو شرح

حوالہ جات

    This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.