منطق

مَنطِق ایک قدیم سائنسی علم ہے جس میں کسی بھی لفظ کی تعریف اور استدلال (يا استنتاج) کے طریقہ کار اور اصولوں پر بحث کی جاتی ہے۔[1] اس کا بانی ارسطو کو قرار دیا جاتا ہے۔

موجد

علم منطق کو سب سے پہلے ارسطو نے سکندر اعظم کے حکم سے وضع کیا۔

علمِ منطق کی تعریف

منطق کے لُغوی معنی گفتگو کرنا ہے جبکہ اصطلاح میں اس کی تعریف یہ ہے:
ایسے قوانین کا جاننا جن کا لحاظ اور رعايت ذہن کوغور و فکر میں غلطی سے بچا لے۔

موضوع

وہ معلومات تصوریہ اور معلومات تصدیقیہ جو مجہول تصوری اور مجہول تصدیقی تک پہنچا دیں۔ منطق کا موضوع معلومات تصوریہ اور معلو مات تصدیقیہ ہیں، معلومات تصدیقیہ کو حجت کہتے ہیں۔

اس لیے علم منطق کے دو اہم باب ہیں:

  • باب تصورات جس میں مفردات کے بارے میں بحث ہوتی ہے۔
  • تصدیقات جس میں جملوں یا قضایا کے بارے میں بحث ہوتی ہے۔

تصورات

تصورات کے اہم موضوعات دلالت، الفاظ کی تقسیمات، مفہوم کلی، نسب اربعہ اور تعریف ہیں تعریف کو قولِ شارح اور معرِّف بھی کہتے ہیں۔ تعریف یعنی معلوم تصوری سے مجہولِ تصوری کو حاصل کرنا۔ جیسے حیوانِ ناطق سے انسان کا علم حاصل ہوتا ہے۔ لہذا حیوانِ ناطق معرِّف اور انسان معرَّف ہے ۔

مزید وضاحت: تعریف یعنی کسی شے کا معرف وہ مفہوم ہوتا ہے جو اس شے پر محمول ہو،تاکہ اس شے کے تصور کا فائدہ دے۔ مثلاً حیوانِ ناطق ،انسان کے لیے۔

تصدیقات

اس باب میں قضیہ (جملہ) کی تعریف، اقسام اور استدلال یا استنتاج کی تعریف اور اس کے مختلف طریقوں کے بارے میں بحث کی جاتی ہے۔ اس باب کو باب حجت بھی کہاجاتا ہے۔ حجت یا احتجاج عربی زبان میں استدلال کو کہتے ہیں۔ استدلال کے تین طریقے ہیں:

  1. قیاس
  2. استقراء
  3. تمثیل

غرض وغایت

کسی چیز میں غور و فکر کرتے وقت ذہن کو غلطی سے بچانا۔[2]

حوالہ جات

  1. المنطق، مولف: علامہ مظفر، ج2، ص15
  2. نصاب المنطق، مصنف:مجلس المدینۃ العلمیۃ
This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.