محمد امجد علی اعظمی

صدر الشريعہ مفتى محمد امجد على اعظمى (نومبر 1882ء تا 6 ستمبر، 1948ء) ایک مسلم اسلامی قانون دان، مصنف اور سابق مفتی اعظم ہند تھے آپ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری فاضلِ بریلوی کے ایک خاص شاگرد اور تصوف میں ان کے خلیفہ تھے۔ چونکہ اعلیٰ حضرت انگریز کی کچہری کو عدالت کے طور پر تسلیم نہیں کرتے تھے لہٰذا آپ نے مفتی امجد علی اعظمی کو صدر الشريعہ کا لقب دیا اور انہیں پورے ہندوستان کے لیے قاضی مقرر فرمایا۔ مفتی امجد علی بھارت محلہ کریم الدین پور، قصبہ گھوسی، ضلع اعظم گڑھ، اتر پردیش، بھارت میں، 1882ء (1300ھ) کو پیدا ہوئے۔ آپ کی ایک اہم ترین تصنیف جو عوام و خواص میں مقبول ہے "بہار شریعت" ہے۔

صدر الشریعہ ،مفتی  
محمد امجد علی اعظمی
معلومات شخصیت
پیدائش اکتوبر 1882  
گھوسی  
وفات 6 ستمبر 1948 (6566 سال) 
ممبئی  
مدفن گھوسی  
شہریت بھارت
برطانوی ہند  
عملی زندگی
تخصص تعلیم فقہ  
استاذ احمد رضا خان  
تلمیذ خاص عبد العزیز مراد آبادی  
پیشہ منصف ، مصنف ، معلم  
کارہائے نمایاں بہار شریعت  
باب اسلام

نام و نسب

آپ کا پورا نام محمد امجد علی ہے۔ والد ماجد کا نام مولانا حکیم جمال الدین، دادا کانام مولانا خدا بخش اور پردادا کا نام مولانا خیر الدین تھا۔ ان کے والد ماجد اور جد امجد فن طب اور علم و فضل میں باکمال تھے۔

تعلیم

آپ نے ابتدائی کتابیں جدامجد سے پڑھیں اس کے بعد اپنے چچرے بھائی مولانا محمد صدیق صاحب سے علوم فنون کی ابتدائی کتابیں پڑھ کر انہیں کے مشورہ سے مولانا ہدایت اللہ خاں رام پوری سے مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے مدرسہ حنفیہ جون پور میں داخل ہوئے۔ علوم و فنون کی تکمیل کے بعد مولانا وصی احمد محدث سورتی سے مدرسۃ الحدیث پیلی بھیت میں حاضر ہوئے اور حدیث کا درس لیا اور 1330ھ/1902ء میں سند حاصل کی۔ 1323ھ میں حکیم عبد الولی چھوائی ٹولہ لکھنؤ سے علم طب حاصل کیا۔ 1324ھ سے 1327ھ تک مولانا وصی احمد سورتی کے مدرسہ میں درس دیا اس کے بعد ایک سال تک پٹنہ میں طب کا کام کیا بعد میں اپنے استاد مولانا وصی احمد سورتی کے کہنے پر طب کا کام چھوڑ کر امام اہل سنت اعلیٰ حضرت مولانااحمد رضا خان بریلوی کے مدرسہ مظہر اسلام بریلی میں درس و تدریس کا کام انجام دینے لگے۔ مولانا احمد رضا خان بریلوی کی صحبت میں رہ کر ان کے علم میں وسعت پیدا ہوئی اور اس وقت کے فقیہوں میں ان کا شمار ہونے لگا۔

قوت حافظہ

مولانا امجد علی بڑے ذہین تھے ذاتی اور خداداد خوبیوں کا یہ عالم تھا کہ خود فرماتے ہیں: ”کسی کتاب کا یاد کرنے کی نیت سے تین دفعہ دیکھ لینا کافی ہوتا تھا۔“ حافظہ کی یہ قوت خدا کسی کسی کو بخشتا ہے ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ اس میں شک نہیں کہ زمانہ طالب علمی ہی سے وہ اپنی علمی صلاحیتوں کی داد حاصل کرتے آئے اور آخر عمر تک خراج تحسین حاصل کیا۔

درس و تدریس

امجد علی اعظمی نے ایک لمبے عرصے تک مدرسہ منظر اسلام بریلی میں درس و تدریس کے فرائض انجام دیے اور 1924ء میں صدر المدرسین کی حیثیت سے دار العلوم معینیہ عثمانیہ اجمیر (راجستھان) چلے گئے۔ 1932ء میں پھر بریلی واپس آئے اور کچھ دنوں کے بعد نواب حاجی غلام محمد خاں شروانی رئیس ریاست دادوں، علی گڑھ کی دعوت پر مدرس اول کی حیثیت سے دار العلوم حافظیہ سعیدیہ میں ان کا تقرر ہوا جہاں سات سال تک بحسن و خوبی درس و تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے اس کے بعد ایک سال مظہر العلوم کچی باغ، بنارس میں بھی رہے۔ پھر آخر کار 1945ء تک منظر اسلام بریلی میں درس دیا اور پوری زندگی درس و تدریس کی نظر ہوئی۔ فروری 1926ء میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے نصاب کی تشکیل کے سلسلہ میں جن اہم مدرسین سے رابطہ قائم کیا گیا ان میں مولانا صاحب کا بھی نام تھا۔

درس و تدریس

انہوں نے ابتدا ہی سے درس کا اہم فریضہ اپنے لیے چنا اور اسی پیشہ کو اپنی نجات سمجھا۔ ایک لمبے عرصے تک مدرسہ منظر اسلام بریلی میں درس و تدریس کے فرائض انجام دیے اور 1924ء میں صدر المدرسین کی حیثیت سے دار العلوم معینیہ عثمانیہ اجمیر (راجستھان) چلے گئے۔ 1932ء میں پھر بریلی واپس آئے اور کچھ دنوں کے بعد نواب حاجی غلام محمد خاں شروانی رئیس ریاست دادوں، علی گڑھ کی دعوت پر مدرس اول کی حیثیت سے دار العلوم حافظیہ سعیدیہ میں ان کا تقرر ہوا جہاں سات سال تک بحسن و خوبی درس و تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے اس کے بعد ایک سال مظہر العلوم کچی باغ، بنارس میں بھی رہے۔ پھر آخر کار 1945ء تک منظر اسلام بریلی میں درس دیا اور پوری زندگی درس و تدریس کی نظر ہوئی۔ مولانا حبیب الرحمن خاں شروانی نے جو ایک زمانہ میں حیدرآباد دکن میں صدر امور مذہبی رہ چکے تھے 1356ھ کے سالانہ جلسہ امتحان کے موقع پر اپنی تقریر میں مولانا امجد علی صاحب کی مہارتِ درس اور تبحر علمی کا اعتراف کیا اور کہا کہ ”مولانا امجد علی صاحب پورے ملک میں ان چار پانچ مدرسین میں ایک ہیں جنہیں میں منتخب جانتا ہوں۔“

غرض کہ مولانا امجد علی صاحب مختلف درس گاہوں کے تجربہ کار عالم تھے۔ جدید ضرورتوں سے آگاہ ہونے کے ساتھ ساتھ نصاب تعلیم کابھی انہیں بخوبی تجربہ تھا اسی لیے فروری 1926ء میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے نصاب کی تشکیل کے سلسلہ میں جن اہم مدرسین سے رابطہ قائم کیا گیا ان میں مولانا صاحب کا بھی نام تھا۔ ان کا شمار ان کے دور کے اعلیٰ پایہ کے اساتذہ میں ہوتا تھا۔ درس کے لیے جن خوبیوں کو اہم مانا جاتا ہے وہ مولانا کا شعائر زندگی بن گئی تھیں۔ حدیث و تفسیر کے علاوہ مختلف علوم و فنون کا درس بھی اس طرح دیتے کہ طلبہ بخوبی سمجھ جاتے۔

خطابت

مولانا امجد علی صاحب جہاں ایک باکمال مدرس اور خطیب تھے وہیں اعلیٰ مرتبہ مصنف بھی تھے۔ ان کی زبان سادہ، سہل اردو زبان تھی۔ انہوں نے اسلام کی خوب اشاعت کی اور اجمیر کے زمانہ قیام میں نومسلم راجپوتوں میں تبلیغ کا کام بھی بخوبی انجام دیا۔ مولانا امجد علی صاحب کی تقریر خالص علمی مضامین اور قرآن و حدیث کی تفسیر و تفصیل پر مشتمل ہوا کرتی تھی۔ فقہی جزئیات نوک زبان پر رہتی تھی

صدرُ الشَّریعہ کا خطاب

امجد علی اعظمی کو اللہ تعالی نے جملہ علوم و فنون میں مہارت تامہ عطا فرمائی تھی ان ہی خصوصیات کی بنا پر مولانا احمد رضا خاں نے ان کو ”صدر الشریعہ“ کا لقب دیا۔[1]

اصلاح احوال

مولانا امجد علی صاحب کی تقریر خالص علمی مضامین اور قرآن و حدیث کی تفسیر و تفصیل پر مشتمل ہوا کرتی تھی۔ فقہی جزئیات نوک زبان پر رہتی تھی ان ہی خصوصیات کی بنا پر مولانا احمد رضا خاں نے ان کو ”صدر الشریعہ“ کا لقب دیا۔

اجمیر کے قرب و جوار میں راجا پرتھوی راج کی اولاد تھی جو اگرچہ مسلمان ہوچکی تھی لیکن ان میں فرائض و واجبات سے غفلت اور مشرکانہ رسوم بہت زیادہ پائی جاتی تھیں۔ مولانا امجد علی صاحب کے ایماء پر ان کے شاگردوں نے ان میں تبلیغ کا پروگرام بنایا تبلیغی جلسوں کا خوشگوار اثر ہوا اور ان لوگوں میں مشرکانہ رسوم سے اجتناب اور دینی اقدار اپنانے کا جذبہ پیدا ہو گیا اس کے علاوہ اردگرد کے بڑے شہروں اور قصبات مثلاً نصیر آباد، لاڈنوں، جے پور، جودھپور، پالی مارواڑ اور چتوڑ وغیرہ میں بھی خود مولانا اور ان کے تلامذہ نے تبلیغی سرگرمیاں برابر جاری رکھیں۔ مولانا کی تقریر ایسی جامع اور مو ¿ثر ہوتی تھی کہ علماءاور مشائخ جھومتے اور داد تحسین دیتے تھے۔

تصنیف و تالیف

امجد علی صاحب ایک صاحب قلم ادیب تھے حالانکہ دوسری مصروفیات کے مقابلے میں تصنیف و تالیف کا کام بہت نہیں ہوا لیکن جو کچھ بھی کام کیا وہ ان کی علمی صلاحیت اور اردو دانی پر بیّن ثبوت ہے۔ تلاش و تحقیق کے بعد ان کی جو تصانیف دستیاب ہوئیں ان کی تعداد 25 تک پہنچتی ہے۔ جو مندرجہ ذیل ہیں:

  • بہار شریعت (17 حصے)
  • فتاویٰ امجدیہ 4 جلدیں
  • حاشیہ طحاوی شریف
  • التحقیق الکامل فی حکم قنوت النوازل
  • قامع الواہیات من جامع الجزئیات، کانپور مسجد کے واقعہ سے متعلق عبد الباری فرنگی محلی کے طرز عمل پر نقد
  • اتمام حجت تامہ، گاندھی نواز سیاسی قائدین پر تنقید
  • اردو کا قاعدہ (بچوں کے لیے، بے جان اشیا کی تصویروں والا قاعدہ)[2]

حاشیہ شرح معانی الآثار: امجد علی اعظمی نے امام ابو جعفر طحاوی (م321ھ) کی معرکہ آرا تصنیف ”شرح معانی الآثار“ پر حاشیہ لکھنا شروع کیا تھا۔ کثرتِ کار کے سبب یہ کام صرف پہلی جلد تک چل سکا مگر جتنا ہوا اس کی تفصیل یہ ہے کہ جلد اول کا نصف حاشیہ باریک قلم سے 450 صفحات پر مشتمل ہے اور ہر صفحہ میں 35،36 سطریں ہیں قادری منزل میں دائرة المعارف الامجدیہ گھوسی کے دفتر میں اس حاشیہ کا قلمی نسخہ موجود ہے انہوں نے دادوں ضلع علی گڑھ میں قیام کے دوران یہ حاشیہ عربی زبان میں لکھنا شروع کیا اور سات ماہ کی مختصر مدت میں نصف اول پر مبسوط حاشیہ لکھ دیا۔[2]

فتاویٰ امجدیہ: چار ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے یہ مصنف کے ان فتاویٰ کا مجموعہ ہے جسے انہوں نے 7 ربیع الاول 1340 ھ سے لے کر 8 شوال 1367 ھ تک صادر کیے ہیں پہلی جلد کتاب الطہارت سے شروع ہوکر کتاب الحج پر ختم ہوتی ہے جو 403 صفحات پر مشتمل ہے دوسری جلد ”کتاب النکاح“ سے شروع ہوکر ”حدود و تعزیر کا بیان“ پر ختم ہوتی ہے یہ 341 صفحات پر مشتمل ہے۔[2]

امجد علی صاحب سے مختلف زبانوں میں لوگوں نے سوال کیے اور فتوے پوچھے انہوں نے سفر میں، حضر میں، وطن میں اور باہر ہر جگہ بے شمار فتوے لکھے اور بیان کیے ان میں سے بعض اہم حصے دست برد زمانہ سے محفوظ نہ رہے لیکن آخر میں انہوں نے ایک یا دوجلدیں خاص کر اپنے فتاوی کے لیے سفید کاغذ کی تیار کرائیں اور اس میں اپنے فتاوے اندراج کرائے اور ان فتاوے کی اکثر و بیشتر نقلیں مولانا سردار احمد (محدث پاکستان) کے ہاتھوں کی گئی ہیں۔ مولانا عبد المنان کلیمی فاضل اشرفیہ مبارکپور نے ان کو فقہی ترتیب کے ساتھ مرتب کیا اور مولانا مفتی شریف الحق صاحب نے ان فتووں پر اپنے مفید حواشی کا اضافہ کیا۔ مولانا امجد علی کے یہ فتاوے دلائل و ترجیحات و عبارات فقہیہ پر مشتمل ہیں۔ ان فتاوے کی زبان نہایت سادہ ہے اور کم الفاظ میں زیادہ کہنے کی کوشش کی گئی ہے جس کو بہت سراہا گیا اور پسندیدگی کی نظر سے دیکھا۔

بہار شریعت:

اس کتاب میں انہوں نے فقہ حنفی کے مطابق فقہی ترتیب سے آسان انداز میں مسائل بیان کیے ہیں۔ مصنف فقہ اسلامی اور مسائل شرعیہ کو مکمل طور پر بیس جلدوں میں سمیٹنا چاہتے تھے مگر عمر نے ساتھ نہ دیا اور سترہ حصے لکھنے کے بعد دنیائے دار فانی سے 2 ذی قعدہ، 6ستمبر 1367ھ/1948ء دوشنبہ کو 12 بج کر 6 منٹ پر انتقال کر گئے اور وصیت کر گئے کہ اگر میری اولاد یا تلامذہ یا علمائے اہل سنت میں سے کوئی صاحب اس کا قلیل حصہ جو باقی رہ گیا ہے اس کو پورا کر دیں۔ چنانچہ ان کے شاگرد اور دیگر علماءبہار شریعت کے باقی تین حصے 18،19،20 ضبط تحریر میں لاچکے ہیں جو چھپ کر منظر عام پر آچکی ہیں۔ مصنف کی وصیت کے مطابق یہ خیال رکھا گیا ہے اور اس میں یہ اہتمام کیا گیا ہے کہ مسائل کے مآخذ کتب کے صفحات کے نمبر اور جلد نمبر بھی لکھ دیے ہیں تاکہ اہل علم کو مآخذ تلاش کرنے میں آسانی ہو اکثر کتب فقہ کے حوالہ جات نقل کردیے ہیں جن پر آج کل فتوی کا مدار ہے حضرت مصنف کے طرز تحریر کو حتی الامکان برقرار رکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ فقہی موشگافیوں اور فقہا کے قیل و قال کو چھوڑ کر صرف مفتی بہ یعنی جس پر فتوی ہے اقوال کو سادہ اور عام فہم زبان میں لکھا گیا ہے۔[2][3][4]


  1. Sadrush Shari'ah Mufti Muhammad Amjad Ali al-Aa'zami Alaihir raHmah [URDU]
  2. حافظ محمد عطا الرحمان قادری۔ سیرت صدر الشریعہ۔ لاہور: مکتبہ اعلی حضرت۔ صفحہ 109 تا 139۔ |pages= اور |page= ایک سے زائد مرتبہ درج ہے (معاونت)
  3. تذکرہ علمائے اہل سنت، محمود احمد قادری، مطبوعہ کان پور 1391ھ، ص53
  4. صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ - IslamiEducation

5۔مقدمہ بہار شریعت مطبوعہ المکتبۃ المدینہ سنی دعوت اسلامی

This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.